Sahi-Bukhari:
Tricks
(Chapter: (Tricks) in marriage)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6970.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بیوہ کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کا امر نہ معلوم کر لیا جائے حتی کہ اس سے اجازت لے لی جائے۔“ لوگوں نے پوچھا: اس کی اجازت کا کیا طریقہ ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اس کا خاموش رہنا ہی اس کی اجازت ہے۔“ اس حدیث کے باوجود کچھ لوگ کہتے ہیں: اگر کسی نے دو جھوٹے گواہوں نے ذریعے سے یہ حیلہ کیا کہ کسی بیوہ سے اس کی اجازت سے نکاح کر لیا اور قاضی نے بھی اس کے حق میں فیصلہ کر دیا، حالانکہ مرد کو بخوبی علم ہے کہ اس نے عورت سے نکاح نہیں کیا، اس کے باوجود یہ نکاح جائز ہے اور اس مرد کے لیے اس عورت کے ساتھ رہنے میں کوئی حرج نہیں۔
تشریح:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ایک دوسرے انداز سے حیلہ سازوں کی قلعی کھولتے ہیں۔ پہلی حدیث میں ایک معصوم کنواری کے متعلق ایک بدنام زمانہ حیلے کا ذکر کیا تھا اور اب ایک شوہر دیدہ عورت کے ساتھ مکروفریب کی چال کو بیان کیا ہے کہ اگر کوئی شخص دو جھوٹے گواہ عدالت میں پیش کر دے کہ میں نے فلاں عورت سے اس کے حکم کے مطابق نکاح کیا ہے اور عدالت بھی گواہی سن کر اس مرد کے حق میں فیصلہ دے دے تو وہ شوہر دیدہ عورت اس کی بیوی ہوگئی۔ اس کے ساتھ جماع کرنا اس کے لیے حلال ہوگا اور آخرت میں اس کے لیے کوئی باز پرس نہیں ہوگی کیونکہ ایسے حالات میں عدالت کا فیصلہ ظاہری اور باطنی اعتبار سے نافذ ہو جاتا ہے، حالانکہ ایسا مکار انسان، جھوٹے گواہ اور اس کے جواز کا فیصلہ دینے والا جج اللہ تعالیٰ کے ہاں سخت ترین سزا کے حقدار ہوں گے۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ اگرچہ پہلے نکاح نہیں تھا لیکن قاضی کا فیصلہ کرنا گویا نکاح کرنا ہے، یعنی قاضی کو ولایت نکاح حاصل ہے اور اس نے اپنا اختیار استعمال کر کے فیصلہ دیا ہے جو ہر اعتبار سے نافذ ہوگا۔ 2۔ ان کے ہاں معاملات کی دو قسمیں ہیں: ایک املاک مرسلہ اور دوسرے عقود وغیرہ۔ دوسری قسم میں قاضی کا فیصلہ ظاہری اور باطنی طور پرنافذ ہو جائے گا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جب میں کسی کی چرب زبانی کی بنا پر ا سکے حق میں فیصلہ دے دوں تو گویا میں اسے جہنم کا ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قطعی فرمان دونوں قسم کے معاملات کے لیے ہے، لہذا عدالتی فیصلہ جھگڑا نمٹانے کے لیے ظاہری طور پر نافذ ہو سکتا ہے لیکن باطنی طور پر اسے نافذ کرنا سینہ زوری ہے۔ دراصل اس قسم کے فیصلے ہی اسلام کی بدنامی کا باعث ہیں اور جگ ہنسائی کا سامان فراہم کرتے ہین کاش کہ حیلہ گر حضرات ہوش کے ناخن لیں اور باطل کا دفاع کرنے کے بجائے حق بات کو اختیار کریں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6720
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6970
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6970
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6970
تمہید کتاب
(حِيّلُ, حِيلَّةُ)کی جمع ہے۔پوشیدہ تدبیر اختیار کرکے اپنا مقصود حاصل کرنے کو حیلہ کہا جاتا ہے۔حیلہ سازی کی اسلام میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔افسوس کہ ہمارے ایک مذہبی طبقے نے کتاب الحیل کے نام سے ایسی تدابیر کے انبار لگادیےہیں جن میں احکام الٰہی سے فرار کے چور دروازوں کی نشاندہی کی ہی گئی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کے لوگوں کی تردید کے لیے کتاب الحیل کا عنوان قائم کیا ہے۔البتہ اگر کوئی شخص کتاب و سنت کے اصولوں اوراقوال صحابہ کو سامنے رکھ کر کسی پیش آمدہ حادثے سے نکلنے کی کوئی صورت پیدا کرتا ہے تو اس کی گنجائش موجود ہے جیسا کہ سیدنا ایوب علیہ السلام طویل عرصہ بیمار رہے اس دوران میں ان کے تمام اہل خانہ انھیں چھوڑگئے۔صرف ایک بیوی نے ان کا ساتھ دیا۔اس نے ایک دن کوئی ایسی بات کہہ دی جس سے اللہ تعالیٰ کی نا شکری ظاہر ہوتی تھی۔سیدناایوب علیہ السلام کو بیوی کی اس بات پر غصہ آگیا اور کہنے لگے۔اگر میں تندرست ہوگیا تو تجھے اس ناشکری کی سزا کے طور پر سولکڑیاں ماروں گا۔یہ حضرت ایوب علیہ السلام کی غیرت ایمان کا تقاضا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس کی طاقت کے مطابق ہی سزا دیتا ہے۔چنانچہ حضرت ایوب علیہ السلام جب تند رست ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے خود ہی انھیں ایک تدبیر بتائی کہ ایک جھاڑو لوجس کے سو تنکے ہوں اس سے ایک معمولی سی ضرب بیوی کو لگادو۔اس طرح آپ کی قسم بھی پوری ہو جائے گی اور وفادار بیوی پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی کا تقاضا بھی پورا ہوگیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"اپنے ہاتھ میں تنکوں کا ایک مٹھا (جھاڑو)لو اور(اس کو)اس سے مارواور قسم نہ توڑو۔"(ص:38۔44)اسی طرح حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں ایک پاہج (لنگڑا،لولا)کمزور سا آدمی رہتا تھا۔ وہ ہماری ایک لونڈی سے جرم زنا میں ملوث ہو گیا۔ ہم نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا :"اسے حد لگاؤ۔"لوگوں نے عرض کی: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ تو انتہائی لاغر اور کمزور ہے۔اگر ہم نے اسے(سوکوڑے)حد لگائی تو وہ مر جائےگا۔آپ نے فرمایا:"کھجور کی ایک ٹہنی لو جس میں سو شاخیں ہوں پھر اسے ایک ہی مرتبہ اس آدمی پردے مارو۔"(سنن ابن ماجہ الحدود حدیث:2574)چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا یہ حیلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے اختیار کیا کہ وہ سو کوڑے کھانے کی طاقت نہ رکھتا تھا اور اس صورت میں اس کا مرجانا یقینی تھا یوں آپ نے حدود الٰہی کا تقاضا بھی پوراکردیا اور اس کی جان بخشی بھی ہو گئی اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اپنی ذات سے یا کسی دوسرے سے ظالم کا دفع کرنا مقصود ہو تو اس وقت شرعاً حیلہ کرنا جائز ہے لیکن ایسے حیلے جن کے اختیار کرنے سے کوئی شرعی ضابطہ مجروح ہونا ہو یا انھیں عمل میں لانے سے کوئی شرعی مقصد فوت ہو رہا ہو تو ایسے حیلے قطعاً ناجائز اور حرام ہیں جیسا کہ زکاۃ کو ساقط کرنے کےلیے یہ حیلہ کرنا جسے فتاوی عالمگیری میں اختیار کیا گیا ہے کہ سال پورا ہونے سے پہلے پورا مال یا اس کا کچھ حصہ کسی دوسرےکو ہبہ کرنے اپنی ملکیت سے نکال دیا جائے پھر سال گزرنے سے پہلے ہی اس سےو ہی مال اپنے حق میں ہبہ کرا لیا جائے۔اس طرح زکاۃ ادا کرنے سے بال بال بچ جاتا ہے۔(فتاوی عالمگیری کتاب الحیل باب فی مسائل الزکاۃ3/391)قرآن کریم نے بھی اس قسم کے ناجائز حیلے کا ایک مقام پر ذکر کیا ہے چنانچہ اس میں ایک مخصوص بستی کا ذکر ہے جو سمندر کے کنارے آباد تھی انھیں یہ حکم تھا کہ ہفتے کے دن کاروبار نہیں کریں گے۔بلکہ یہ دن آرام کرنے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے لیے مخصوص تھا لیکن وہ بستی والے جن کا پیشہ ماہی گیری یعنی مچھلیاں پکڑنا تھا۔اتفاق ایسا ہوا کہ چھ دن تو مچھلیاں پانی میں چھپی رہتیں اور ہفتے کے دن پانی کی سطح پر سینہ تان کر تیرتی پھر تیں اب ان ماہی گیروں نے ایک حیلہ سازی کی کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی محفوظ رہے وہ اس طرح کہ انھوں نے ساحل سمندر کے ساتھ کھائیاں کھود لیں جب ان میں پانی آتا تو ساتھ مچھلیاں بھی آجاتیں پھر دوسرے دن یہ ان مچھلیوں کو پکڑ لیتے جو کھائیوں میں میں آجاتی تھیں۔اللہ تعالیٰ نے اس ناجائزحیلہ سازی کی پاداش میں انھیں ذلیل و خوار بندر بنادیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"تم اپنے ان لوگوں کو بھی خوب جانتے ہو ۔جنھوں نے ہفتے کے(دن کے) بارے میں زیادتی کی تھی تو ہم نے انھیں کہا ذلیل بندر بن جاؤ (البقرہ:2/65)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کی حیلہ سازی پر گرفت کی ہے اور لوگوں کو ایسا سبق پڑھانے والوں کی مکاری سے پردہ اٹھایا ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام محمد بن حسن کوفی کا ایک قول نقل کیا ہے۔ اہل ایمان کایہ کردار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ احکام الٰہی سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے ایسا حیلہ کرے جو حق کو نابود کرنے کے لیے ہو۔(فتح الباری:12/411) الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت اکتیس(31) احادیث بیان کی ہیں جن میں ایک (1)معلق اور باقی تیسی(30)احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔گویاانھوں نے اس قسم کے حیلوں کے ناجائز ہونے پر اکتیس(31)دلائل پیش کیے ہیں جو نماز ، زکاۃ نکاح ، بیوع ، ہبہ اور شفعہ وغیرہ کے متعلق ہیں اور اس کا آغاز ہی ترک حیلہ کے عنوان سے کیا ہے۔ ہم ان کی وضاحت فوائد میں کریں گے۔بہر حال بنیادی طور پر اس طرح کے حیلے ناجائز اور حرام ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر گامزن رکھے اور اس قسم کے حیلوں سے محفوظ رکھے جو شریعت سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے عمل میں لائے جاتے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بیوہ کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کا امر نہ معلوم کر لیا جائے حتی کہ اس سے اجازت لے لی جائے۔“ لوگوں نے پوچھا: اس کی اجازت کا کیا طریقہ ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اس کا خاموش رہنا ہی اس کی اجازت ہے۔“ اس حدیث کے باوجود کچھ لوگ کہتے ہیں: اگر کسی نے دو جھوٹے گواہوں نے ذریعے سے یہ حیلہ کیا کہ کسی بیوہ سے اس کی اجازت سے نکاح کر لیا اور قاضی نے بھی اس کے حق میں فیصلہ کر دیا، حالانکہ مرد کو بخوبی علم ہے کہ اس نے عورت سے نکاح نہیں کیا، اس کے باوجود یہ نکاح جائز ہے اور اس مرد کے لیے اس عورت کے ساتھ رہنے میں کوئی حرج نہیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ایک دوسرے انداز سے حیلہ سازوں کی قلعی کھولتے ہیں۔ پہلی حدیث میں ایک معصوم کنواری کے متعلق ایک بدنام زمانہ حیلے کا ذکر کیا تھا اور اب ایک شوہر دیدہ عورت کے ساتھ مکروفریب کی چال کو بیان کیا ہے کہ اگر کوئی شخص دو جھوٹے گواہ عدالت میں پیش کر دے کہ میں نے فلاں عورت سے اس کے حکم کے مطابق نکاح کیا ہے اور عدالت بھی گواہی سن کر اس مرد کے حق میں فیصلہ دے دے تو وہ شوہر دیدہ عورت اس کی بیوی ہوگئی۔ اس کے ساتھ جماع کرنا اس کے لیے حلال ہوگا اور آخرت میں اس کے لیے کوئی باز پرس نہیں ہوگی کیونکہ ایسے حالات میں عدالت کا فیصلہ ظاہری اور باطنی اعتبار سے نافذ ہو جاتا ہے، حالانکہ ایسا مکار انسان، جھوٹے گواہ اور اس کے جواز کا فیصلہ دینے والا جج اللہ تعالیٰ کے ہاں سخت ترین سزا کے حقدار ہوں گے۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ اگرچہ پہلے نکاح نہیں تھا لیکن قاضی کا فیصلہ کرنا گویا نکاح کرنا ہے، یعنی قاضی کو ولایت نکاح حاصل ہے اور اس نے اپنا اختیار استعمال کر کے فیصلہ دیا ہے جو ہر اعتبار سے نافذ ہوگا۔ 2۔ ان کے ہاں معاملات کی دو قسمیں ہیں: ایک املاک مرسلہ اور دوسرے عقود وغیرہ۔ دوسری قسم میں قاضی کا فیصلہ ظاہری اور باطنی طور پرنافذ ہو جائے گا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جب میں کسی کی چرب زبانی کی بنا پر ا سکے حق میں فیصلہ دے دوں تو گویا میں اسے جہنم کا ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قطعی فرمان دونوں قسم کے معاملات کے لیے ہے، لہذا عدالتی فیصلہ جھگڑا نمٹانے کے لیے ظاہری طور پر نافذ ہو سکتا ہے لیکن باطنی طور پر اسے نافذ کرنا سینہ زوری ہے۔ دراصل اس قسم کے فیصلے ہی اسلام کی بدنامی کا باعث ہیں اور جگ ہنسائی کا سامان فراہم کرتے ہین کاش کہ حیلہ گر حضرات ہوش کے ناخن لیں اور باطل کا دفاع کرنے کے بجائے حق بات کو اختیار کریں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے ابوسلمہ نے، اور ان سے حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی بیوہ سے اس وقت تک شادی نہ کی جائے جب تک اس کا حکم نہ معلوم کر لیا جائے اور کسی کنواری سے اس وقت تک نکاح نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لے لی جائے۔ صحابہ نے پوچھا اس کی اجازت کا کیا طریقہ ہے؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ یہ کہ وہ خاموش ہو جائے۔ پھر بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہا اگر کسی شخص نے دو جھوٹے گواہوں کے ذریعہ حیلہ کیا اور یہ جھوٹ گھڑا کہ کسی بیوہ عورت سے اس نے اس کی اجازت سے نکاح کیا ہے اور قاضی نے بھی اس مرد سے اس کے نکاح کا فیصلہ کر دیا جبکہ اس مرد کو خوب خبر ہے کہ اس نے اس عورت سے نکاح نہیں کیا ہے تو یہ نکاح جائز ہے اور اس کے لیے اس عورت کے ساتھ رہنا جائز ہو جائے گا۔
حدیث حاشیہ:
ایسے جھوٹ اور حیلہ پر اس کے جواز کا فیصلہ دینے والے قاضی صاحب عنداللہ سخت ترین سزا کے حق دار ہوں گے۔ اللہ ایسے حیلہ سے ہمیں بچائے۔ آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Haraira (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said, "A lady slave should not be given in marriage until she is consulted, and a virgin should not be given in marriage until her permission is granted." The people said, "How will she express her permission?" The Prophet (ﷺ) said, "By keeping silent (when asked her consent)." Some people said, "If a man, by playing a trick, presents two false witnesses before the judge to testify that he has married a matron with her consent and the judge confirms his marriage, and the husband is sure that he has never married her (before), then such a marriage will be considered as a legal one and he may live with her as husband."