باب : عورت کا اپنے شوہر یا سوکنوں کے ساتھ حیلہ کرنے کی ممانعت
)
Sahi-Bukhari:
Tricks
(Chapter: The trick by a woman with her husband)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور جو اس باب میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ پر نازل کیا اس کا بیان آیت کریمہ یاایہا النبی لم تحرم مااحل اﷲ لک تبتغی مرضات ازواجک------مراد ہے یعنی اے نبی جو چیز آپ کے لیے حلال ہے آپ اسے اپنے اوپر کیوں حرام کیے آپ اپنی بیویوں کی رضامندی ڈھونڈتے ہیں۔ یہ آیت واقعہ ذیل ہی کے متعلق نازل ہوئی۔ تفصیل حدیث باب میں آرہی ہے۔
6972.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ میٹھی چیز اور شہد کو بہت پسند کرتے تھے۔ آپ ﷺ جب عصر کی نماز پڑھ لیتے تو اپنی بیویوں کے پاس تشریف لے جاتے اور ان کے قریب ہوتے۔ ایک مرتبہ آپ سیدہ حفصہ ؓ کے گھر گئے، اور ان کے ہاں اس سے زیادہ قیام فرمایا جتنی دیر قیام کا معمول تھا۔ میں نے اس کے متعلق پوچھا تو مجھے بتایا گیا کہ اس کی قوم سے ایک عورت نے انہیں پوچھا تو مجھے بتایا گیا کہ اس کی قوم سے ایک عورت نے انہیں ایک کپی شہد بطور ہدیہ بھیجا ہے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو اس کا شربت پلایا تھا۔ میں نے (اپنے دل میں) کہا: اللہ کی قسم! اب میں آپ کے متعلق ضرور کوئی حیلہ کروں گی، چنانچہ میں نے اس کا ذکر سیدہ سودہ ؓ سے کیا اور انہیں کہا: جب تمہارے پاس آپ ﷺ تشریف لائیں تو آپ کے قریب بھی آئیں گے۔ اس وقت تم نے یہ کہنا ہوگا: اللہ کے رسول! (کیا) شاید آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ آپ فرمائیں گے: نہیں۔ تم کہنا: پھر یہ بو کیسی ہے؟ رسول اللہ ﷺ کو یہ بات بہت ناگوار تھی کہ آپ کے جسم کے کسی حصے سے بو آئے، چنانچہ آپ ﷺ اس کا یہ جواب دیں گے کہ کسی حفصہ نے مجھے شہد پلایا تھا، اس پر ان سے کہنا کہ شاید شہد کی مکھیوں سے عرفط کا رس چوسا ہوگا۔ میں بھی (رسول اللہ ﷺ سے) یہی بات کہوں گی اور صفیہ! تم نے بھی یہی کہنا ہوگا۔ چنانچہ آپ ﷺ جب سیدہ سودہ ؓ کے ہاں تشریف لے گئے تو ان کا بیان ہے: اس ذات کی قسم جس نے سوا کوئی معبود برحق نہیں! تمہارے خوف کی وجہ سے قریب تھا کہ میں اس وقت آپ ﷺ سے یہ بات جلدی میں کہہ دوں جبکہ آپ ابھی دروازے ہی پر تھے۔ آخر جب رسول اللہ ﷺ قریب آئے تو میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“ میں نے کہا: پھر یہ بو کیسی ہے؟ آپ نے فرمایا: ”مجھے تو حفصہ نے شہد پلایا ہے۔“ میں نے کہا: اس شہد کی مکھیوں نے عرفط کا رس چوسا ہوگا۔ جب آپ ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میں نے بھی ایسے ہی کیا اور سیدہ صفیہ ؓ کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے کہا:اللہ کے رسول! کیا میں آپ کو شہد کا شربت نہ پلاؤں؟ آپ نے فرمایا: ”مجھے اس کی حاجت نہیں ہے“ اس پر سیدہ سودہ ؓ نے کہا: سبحان اللہ! ہم نے آپ کو شہد سے محروم کر دیا ہے۔ میں نے ان سے کہا: خاموش رہو۔
تشریح:
1۔ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں شہد کا شربت پیا تھا اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ مل کر یہ پرو گرام بنایا تھا۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4912) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے بھی اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ جن دو بیویوں نے آپس میں مشورہ کیا تھا وہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں۔ اگر اُم المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر شہد پیا ہوتا جیسا کہ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے تو وہ مظاہرہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ کیسے شریک ہو سکتیں تھیں؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو الگ الگ واقعے ہیں۔ (فتح الباري:430/12) 2۔اس حدیث میں وضاحت نہیں ہے کہ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا نازل ہوا تھا۔ چنانچہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے واقعے میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس وقت سورہ تحریم نازل فرمائی۔ (صحیح البخاري، الطلاق، حدیث:5267) ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حیلہ سازی قطعاً جائز نہیں خواہ یہ کام ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین ہی کیوں نہ کریں بلا شبہ آپ امہات المومنین ہیں مگر عورت میں فطری کمزوریاں ہوتی ہیں نیز ان میں غیرت کا عنصر کچھ زیادہ ہی پایا جاتا ہے جب انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انھوں نے اس کی تلافی کر دی۔ یہی ان کی مغفرت کے لیے کافی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ حیلہ سازی کوئی اچھی چیز نہیں انسان کو اس سے ہر حال میں بچنا چاہیے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6722
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6972
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6972
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6972
تمہید کتاب
(حِيّلُ, حِيلَّةُ)کی جمع ہے۔پوشیدہ تدبیر اختیار کرکے اپنا مقصود حاصل کرنے کو حیلہ کہا جاتا ہے۔حیلہ سازی کی اسلام میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔افسوس کہ ہمارے ایک مذہبی طبقے نے کتاب الحیل کے نام سے ایسی تدابیر کے انبار لگادیےہیں جن میں احکام الٰہی سے فرار کے چور دروازوں کی نشاندہی کی ہی گئی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کے لوگوں کی تردید کے لیے کتاب الحیل کا عنوان قائم کیا ہے۔البتہ اگر کوئی شخص کتاب و سنت کے اصولوں اوراقوال صحابہ کو سامنے رکھ کر کسی پیش آمدہ حادثے سے نکلنے کی کوئی صورت پیدا کرتا ہے تو اس کی گنجائش موجود ہے جیسا کہ سیدنا ایوب علیہ السلام طویل عرصہ بیمار رہے اس دوران میں ان کے تمام اہل خانہ انھیں چھوڑگئے۔صرف ایک بیوی نے ان کا ساتھ دیا۔اس نے ایک دن کوئی ایسی بات کہہ دی جس سے اللہ تعالیٰ کی نا شکری ظاہر ہوتی تھی۔سیدناایوب علیہ السلام کو بیوی کی اس بات پر غصہ آگیا اور کہنے لگے۔اگر میں تندرست ہوگیا تو تجھے اس ناشکری کی سزا کے طور پر سولکڑیاں ماروں گا۔یہ حضرت ایوب علیہ السلام کی غیرت ایمان کا تقاضا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس کی طاقت کے مطابق ہی سزا دیتا ہے۔چنانچہ حضرت ایوب علیہ السلام جب تند رست ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے خود ہی انھیں ایک تدبیر بتائی کہ ایک جھاڑو لوجس کے سو تنکے ہوں اس سے ایک معمولی سی ضرب بیوی کو لگادو۔اس طرح آپ کی قسم بھی پوری ہو جائے گی اور وفادار بیوی پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی کا تقاضا بھی پورا ہوگیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"اپنے ہاتھ میں تنکوں کا ایک مٹھا (جھاڑو)لو اور(اس کو)اس سے مارواور قسم نہ توڑو۔"(ص:38۔44)اسی طرح حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں ایک پاہج (لنگڑا،لولا)کمزور سا آدمی رہتا تھا۔ وہ ہماری ایک لونڈی سے جرم زنا میں ملوث ہو گیا۔ ہم نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا :"اسے حد لگاؤ۔"لوگوں نے عرض کی: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ تو انتہائی لاغر اور کمزور ہے۔اگر ہم نے اسے(سوکوڑے)حد لگائی تو وہ مر جائےگا۔آپ نے فرمایا:"کھجور کی ایک ٹہنی لو جس میں سو شاخیں ہوں پھر اسے ایک ہی مرتبہ اس آدمی پردے مارو۔"(سنن ابن ماجہ الحدود حدیث:2574)چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا یہ حیلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے اختیار کیا کہ وہ سو کوڑے کھانے کی طاقت نہ رکھتا تھا اور اس صورت میں اس کا مرجانا یقینی تھا یوں آپ نے حدود الٰہی کا تقاضا بھی پوراکردیا اور اس کی جان بخشی بھی ہو گئی اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اپنی ذات سے یا کسی دوسرے سے ظالم کا دفع کرنا مقصود ہو تو اس وقت شرعاً حیلہ کرنا جائز ہے لیکن ایسے حیلے جن کے اختیار کرنے سے کوئی شرعی ضابطہ مجروح ہونا ہو یا انھیں عمل میں لانے سے کوئی شرعی مقصد فوت ہو رہا ہو تو ایسے حیلے قطعاً ناجائز اور حرام ہیں جیسا کہ زکاۃ کو ساقط کرنے کےلیے یہ حیلہ کرنا جسے فتاوی عالمگیری میں اختیار کیا گیا ہے کہ سال پورا ہونے سے پہلے پورا مال یا اس کا کچھ حصہ کسی دوسرےکو ہبہ کرنے اپنی ملکیت سے نکال دیا جائے پھر سال گزرنے سے پہلے ہی اس سےو ہی مال اپنے حق میں ہبہ کرا لیا جائے۔اس طرح زکاۃ ادا کرنے سے بال بال بچ جاتا ہے۔(فتاوی عالمگیری کتاب الحیل باب فی مسائل الزکاۃ3/391)قرآن کریم نے بھی اس قسم کے ناجائز حیلے کا ایک مقام پر ذکر کیا ہے چنانچہ اس میں ایک مخصوص بستی کا ذکر ہے جو سمندر کے کنارے آباد تھی انھیں یہ حکم تھا کہ ہفتے کے دن کاروبار نہیں کریں گے۔بلکہ یہ دن آرام کرنے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے لیے مخصوص تھا لیکن وہ بستی والے جن کا پیشہ ماہی گیری یعنی مچھلیاں پکڑنا تھا۔اتفاق ایسا ہوا کہ چھ دن تو مچھلیاں پانی میں چھپی رہتیں اور ہفتے کے دن پانی کی سطح پر سینہ تان کر تیرتی پھر تیں اب ان ماہی گیروں نے ایک حیلہ سازی کی کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی محفوظ رہے وہ اس طرح کہ انھوں نے ساحل سمندر کے ساتھ کھائیاں کھود لیں جب ان میں پانی آتا تو ساتھ مچھلیاں بھی آجاتیں پھر دوسرے دن یہ ان مچھلیوں کو پکڑ لیتے جو کھائیوں میں میں آجاتی تھیں۔اللہ تعالیٰ نے اس ناجائزحیلہ سازی کی پاداش میں انھیں ذلیل و خوار بندر بنادیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"تم اپنے ان لوگوں کو بھی خوب جانتے ہو ۔جنھوں نے ہفتے کے(دن کے) بارے میں زیادتی کی تھی تو ہم نے انھیں کہا ذلیل بندر بن جاؤ (البقرہ:2/65)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کی حیلہ سازی پر گرفت کی ہے اور لوگوں کو ایسا سبق پڑھانے والوں کی مکاری سے پردہ اٹھایا ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام محمد بن حسن کوفی کا ایک قول نقل کیا ہے۔ اہل ایمان کایہ کردار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ احکام الٰہی سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے ایسا حیلہ کرے جو حق کو نابود کرنے کے لیے ہو۔(فتح الباری:12/411) الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت اکتیس(31) احادیث بیان کی ہیں جن میں ایک (1)معلق اور باقی تیسی(30)احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔گویاانھوں نے اس قسم کے حیلوں کے ناجائز ہونے پر اکتیس(31)دلائل پیش کیے ہیں جو نماز ، زکاۃ نکاح ، بیوع ، ہبہ اور شفعہ وغیرہ کے متعلق ہیں اور اس کا آغاز ہی ترک حیلہ کے عنوان سے کیا ہے۔ ہم ان کی وضاحت فوائد میں کریں گے۔بہر حال بنیادی طور پر اس طرح کے حیلے ناجائز اور حرام ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر گامزن رکھے اور اس قسم کے حیلوں سے محفوظ رکھے جو شریعت سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے عمل میں لائے جاتے ہیں۔
اور جو اس باب میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ پر نازل کیا اس کا بیان آیت کریمہ یاایہا النبی لم تحرم مااحل اﷲ لک تبتغی مرضات ازواجک------مراد ہے یعنی اے نبی جو چیز آپ کے لیے حلال ہے آپ اسے اپنے اوپر کیوں حرام کیے آپ اپنی بیویوں کی رضامندی ڈھونڈتے ہیں۔ یہ آیت واقعہ ذیل ہی کے متعلق نازل ہوئی۔ تفصیل حدیث باب میں آرہی ہے۔
حدیث ترجمہ:
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ میٹھی چیز اور شہد کو بہت پسند کرتے تھے۔ آپ ﷺ جب عصر کی نماز پڑھ لیتے تو اپنی بیویوں کے پاس تشریف لے جاتے اور ان کے قریب ہوتے۔ ایک مرتبہ آپ سیدہ حفصہ ؓ کے گھر گئے، اور ان کے ہاں اس سے زیادہ قیام فرمایا جتنی دیر قیام کا معمول تھا۔ میں نے اس کے متعلق پوچھا تو مجھے بتایا گیا کہ اس کی قوم سے ایک عورت نے انہیں پوچھا تو مجھے بتایا گیا کہ اس کی قوم سے ایک عورت نے انہیں ایک کپی شہد بطور ہدیہ بھیجا ہے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو اس کا شربت پلایا تھا۔ میں نے (اپنے دل میں) کہا: اللہ کی قسم! اب میں آپ کے متعلق ضرور کوئی حیلہ کروں گی، چنانچہ میں نے اس کا ذکر سیدہ سودہ ؓ سے کیا اور انہیں کہا: جب تمہارے پاس آپ ﷺ تشریف لائیں تو آپ کے قریب بھی آئیں گے۔ اس وقت تم نے یہ کہنا ہوگا: اللہ کے رسول! (کیا) شاید آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ آپ فرمائیں گے: نہیں۔ تم کہنا: پھر یہ بو کیسی ہے؟ رسول اللہ ﷺ کو یہ بات بہت ناگوار تھی کہ آپ کے جسم کے کسی حصے سے بو آئے، چنانچہ آپ ﷺ اس کا یہ جواب دیں گے کہ کسی حفصہ نے مجھے شہد پلایا تھا، اس پر ان سے کہنا کہ شاید شہد کی مکھیوں سے عرفط کا رس چوسا ہوگا۔ میں بھی (رسول اللہ ﷺ سے) یہی بات کہوں گی اور صفیہ! تم نے بھی یہی کہنا ہوگا۔ چنانچہ آپ ﷺ جب سیدہ سودہ ؓ کے ہاں تشریف لے گئے تو ان کا بیان ہے: اس ذات کی قسم جس نے سوا کوئی معبود برحق نہیں! تمہارے خوف کی وجہ سے قریب تھا کہ میں اس وقت آپ ﷺ سے یہ بات جلدی میں کہہ دوں جبکہ آپ ابھی دروازے ہی پر تھے۔ آخر جب رسول اللہ ﷺ قریب آئے تو میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“ میں نے کہا: پھر یہ بو کیسی ہے؟ آپ نے فرمایا: ”مجھے تو حفصہ نے شہد پلایا ہے۔“ میں نے کہا: اس شہد کی مکھیوں نے عرفط کا رس چوسا ہوگا۔ جب آپ ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میں نے بھی ایسے ہی کیا اور سیدہ صفیہ ؓ کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے کہا:اللہ کے رسول! کیا میں آپ کو شہد کا شربت نہ پلاؤں؟ آپ نے فرمایا: ”مجھے اس کی حاجت نہیں ہے“ اس پر سیدہ سودہ ؓ نے کہا: سبحان اللہ! ہم نے آپ کو شہد سے محروم کر دیا ہے۔ میں نے ان سے کہا: خاموش رہو۔
حدیث حاشیہ:
1۔ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں شہد کا شربت پیا تھا اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ مل کر یہ پرو گرام بنایا تھا۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4912) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے بھی اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ جن دو بیویوں نے آپس میں مشورہ کیا تھا وہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں۔ اگر اُم المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر شہد پیا ہوتا جیسا کہ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے تو وہ مظاہرہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ کیسے شریک ہو سکتیں تھیں؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو الگ الگ واقعے ہیں۔ (فتح الباري:430/12) 2۔اس حدیث میں وضاحت نہیں ہے کہ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا نازل ہوا تھا۔ چنانچہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے واقعے میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس وقت سورہ تحریم نازل فرمائی۔ (صحیح البخاري، الطلاق، حدیث:5267) ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حیلہ سازی قطعاً جائز نہیں خواہ یہ کام ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین ہی کیوں نہ کریں بلا شبہ آپ امہات المومنین ہیں مگر عورت میں فطری کمزوریاں ہوتی ہیں نیز ان میں غیرت کا عنصر کچھ زیادہ ہی پایا جاتا ہے جب انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انھوں نے اس کی تلافی کر دی۔ یہی ان کی مغفرت کے لیے کافی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ حیلہ سازی کوئی اچھی چیز نہیں انسان کو اس سے ہر حال میں بچنا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبیدبن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ حلوا اور شہد پسند کرتے تھے اور عصر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد اپنی ازواج سے (ان میں سے کسی کے حجرہ میں جانے کے لیے) اجازت لیتے تھے اور ان کے پاس جاتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ حفصہ ؓ کے گھر گئے اور ان کے یہاں اس سے زیادہ دیر تک ٹھہرے رہے جتنی دیر تک ٹھہرنے کا آپ کا معمول تھا۔ میں نے اس کے متعلق آنحضرت ﷺ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ ان کی قوم کی ایک خاتون نے شہد کی ایک کپی انہیں ہدیہ کی تھی اور انہوں نے آنحضرت ﷺ کو اس کا شربت پلایا تھا۔ میں نے اس پر کہا کہ اب میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ ایک حیلہ کروں گی چنانچہ میں نے اس کا ذکر سودہ ؓ سے کیا اور کہا جب آنحضرت آپ کے یہاں آئیں تو آپ کے قریب بھی آئیں گے اس وقت تم آپ سے کہنا یا رسول اللہ! شاید آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ اس پر جواب دیں گے کہ نہیں۔ تم کہنا کہ پھر یہ بو کس چیز کی ہے؟ آنحضرت ﷺ کو یہ بات بہت ناگوار تھی کہ آپ کے جسم کے کسی حصہ سے بو آئے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ اس کا جواب یہ دیں گے کہ حفصہ نے مجھے شہد کا شربت پلایا تھا۔ اس پر کہنا کہ شہد کی مکھیوں نے غرفط کا رس چوسا ہوگا اور میں بھی آنحضرت سے یہی بات کہوں گی اور صفیہ تم بھی آنحضرت سے یہ کہنا چنانچہ جب آنحضرت ﷺ سودہ کے یہاں تشریف لے گئے تو ان کا بیان ہے کہ اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ تمہارے خوف سے قریب تھا کہ میں اس وقت آنحضرت ﷺ سے یہ بات جلدی میں کہہ دیتی جبکہ آپ دروازے ہی پر تھے۔ آخر جب آنحضرت ﷺ قریب آئے تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے کہا پرھ بو کیسی ہے؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ حفصہ نے مجھے شہد کا شربت پلایا ہے میں نے کہا اس شہد کی مکھیوں نے غرفط کا رس چوسا ہوگا اور صفیہ ؓ کے پاس جب آپ تشریف لے گئے تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! وہ شہد میں میں پھر آپ کو پلاؤں۔ آنحضرت نے فرمایا کہ اس کی ضرورت نہیں۔ بیان کیا ہے کہ اس پر سودہ ؓ بولیں۔ سبحان اللہ یہ ہم نے کیا کیا گویا شہد آپ پر حرام کر دیا۔ میں نے کہا چپ رہو۔
حدیث حاشیہ:
کہیں آنحضرت سن نہ لیں یا ہماری یہ بات ظاہر نہ ہو جائے۔ مگر اللہ پاک نے قرآن مجید میں اس ساری بات چیت کا پردہ چاک کر دیا جس کا مطلب یہ ہے کہ حیلہ سازی کرنا بہرحال جائز نہیں ہے کاش کتاب الحیل کے مصنفین اس حقیقت پر غور کر سکتے؟ ازواح النبی بلاشبہ امہات المؤمنین ہیں مگر عورت ذات تھیں جن میں کمزوریوں کا ہونا فطری بات ہے۔ غلطی کا ان کو احساس ہوا، یہی ان کی مغفرت کی دلیل ہے۔ اللہ ان سب پر ہماری طرف سے سلام اور اپنی رحمت نازل فرمائے۔ آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) used to like sweets and also used to like honey, and whenever he finished the 'Asr prayer, he used to visit his wives and stay with them. Once he visited Hafsah (RA) and remained with her longer than the period he used to stay, so I enquired about it. It was said to me, "A woman from her tribe gave her a leather skin containing honey as a present, and she gave some of it to Allah's Apostle (ﷺ) to drink." I said, "By Allah, we will play a trick on him." So I mentioned the story to Sauda (the wife of the Prophet) and said to her, "When he enters upon you, he will come near to you whereupon you should say to him, 'O Allah's Apostle (ﷺ) ! Have you eaten Maghafir?' He will say, 'No.' Then you say to him, 'What is this bad smell? ' And it would be very hard on Allah's Apostle (ﷺ) that a bad smell should be found on his body. He will say, 'Hafsah (RA) has given me a drink of honey.' Then you should say to him, 'Its bees must have sucked from the Al-'Urfut (a foul smelling flower).' I too, will tell him the same. And you, O Saifya, say the same." So when the Prophet (ﷺ) entered upon Sauda (the following happened). Sauda said, "By Him except Whom none has the right to be worshipped, I was about to say to him what you had told me to say while he was still at the gate because of fear from you. But when Allah 's Apostle (ﷺ) came near to me, I said to him, 'O Allah's Apostle (ﷺ) ! Have you eaten Maghafir?' He replied, 'No.' I said, 'What about this smell?' He said, 'Hafsah (RA) has given me a drink of honey.' I said, 'Its bees must have sucked Al-'Urfut.' " When he entered upon me, I told him the same as that, and when he entered upon Safiya, she too told him the same. So when he visited Hafsah (RA) again, she said to him, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Shall I give you a drink of it (honey)?" He said, "I have no desire for it." Sauda said, Subhan Allah! We have deprived him of it (honey)." I said to her, "Be quiet!"