Sahi-Bukhari:
Tricks
(Chapter: Playing tricks to run from the disease of plague)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6974.
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے طاعون کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ”یہ ایک عذاب ہے جس کے زریعے سے بعض امتوں کو عذاب دیا گیا تھا۔ اس کے بعد کچھ حصہ باقی رہ گیا تھا جو کبھی آتا ہے اور کبھی چلا جاتا ہے۔ جو کوئی کسی سرزمین میں اس کے پھیلنے کے متعلق سنے تو وہاں نہ جائے،لیکن اگر کوئی کسی مقام پر ہو اور وہاں یہ وبا پھوٹ پڑے تو وہاں سے بھاگنےکی کوشش نہ کرے۔“
تشریح:
1۔اللہ تعالیٰ کی تقدیر تو واقع ہو کر رہتی ہے پھر وبائی امراض سے احتیاطی تدابیر کے کیا معنی کہ وہاں سے مت نکلو جہاں وبا پھیلی ہو اور وہاں مت جاؤ جہاں وبا پھیلی ہو؟ اس کا بہترین جواب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیا تھا جب ان سے حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی: امیر المومنین ! کیا آپ اللہ کی تقدیرسے فرار ہونا چاہتے ہیں؟ انھوں نے فرمایا: ہم اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہی کی طرف فرار ہوتے ہیں اگر تم ایسی وادی میں پڑاؤ کرو جہاں سر سبز اور خشک علاقہ ہو اگر سر سبز علاقے میں اپنے اونٹ چراؤ تو یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے اور خشک علاقے میں اونٹ چریں تو بھی اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے۔ (صحیح البخاري، الطب، حدیث: 5729) 2۔بہر حال انسان کو حیلہ سازی سے کام نہیں لینا چاہیے کہ وہاں سے بھاگے تو طاعون سے بچنے کے لیے لیکن بہانہ یہ کرے کہ میں اپنے دوستوں سے ملنے جا رہا ہوں واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6724
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6974
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6974
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6974
تمہید کتاب
(حِيّلُ, حِيلَّةُ)کی جمع ہے۔پوشیدہ تدبیر اختیار کرکے اپنا مقصود حاصل کرنے کو حیلہ کہا جاتا ہے۔حیلہ سازی کی اسلام میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔افسوس کہ ہمارے ایک مذہبی طبقے نے کتاب الحیل کے نام سے ایسی تدابیر کے انبار لگادیےہیں جن میں احکام الٰہی سے فرار کے چور دروازوں کی نشاندہی کی ہی گئی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کے لوگوں کی تردید کے لیے کتاب الحیل کا عنوان قائم کیا ہے۔البتہ اگر کوئی شخص کتاب و سنت کے اصولوں اوراقوال صحابہ کو سامنے رکھ کر کسی پیش آمدہ حادثے سے نکلنے کی کوئی صورت پیدا کرتا ہے تو اس کی گنجائش موجود ہے جیسا کہ سیدنا ایوب علیہ السلام طویل عرصہ بیمار رہے اس دوران میں ان کے تمام اہل خانہ انھیں چھوڑگئے۔صرف ایک بیوی نے ان کا ساتھ دیا۔اس نے ایک دن کوئی ایسی بات کہہ دی جس سے اللہ تعالیٰ کی نا شکری ظاہر ہوتی تھی۔سیدناایوب علیہ السلام کو بیوی کی اس بات پر غصہ آگیا اور کہنے لگے۔اگر میں تندرست ہوگیا تو تجھے اس ناشکری کی سزا کے طور پر سولکڑیاں ماروں گا۔یہ حضرت ایوب علیہ السلام کی غیرت ایمان کا تقاضا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس کی طاقت کے مطابق ہی سزا دیتا ہے۔چنانچہ حضرت ایوب علیہ السلام جب تند رست ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے خود ہی انھیں ایک تدبیر بتائی کہ ایک جھاڑو لوجس کے سو تنکے ہوں اس سے ایک معمولی سی ضرب بیوی کو لگادو۔اس طرح آپ کی قسم بھی پوری ہو جائے گی اور وفادار بیوی پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی کا تقاضا بھی پورا ہوگیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"اپنے ہاتھ میں تنکوں کا ایک مٹھا (جھاڑو)لو اور(اس کو)اس سے مارواور قسم نہ توڑو۔"(ص:38۔44)اسی طرح حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں ایک پاہج (لنگڑا،لولا)کمزور سا آدمی رہتا تھا۔ وہ ہماری ایک لونڈی سے جرم زنا میں ملوث ہو گیا۔ ہم نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا :"اسے حد لگاؤ۔"لوگوں نے عرض کی: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ تو انتہائی لاغر اور کمزور ہے۔اگر ہم نے اسے(سوکوڑے)حد لگائی تو وہ مر جائےگا۔آپ نے فرمایا:"کھجور کی ایک ٹہنی لو جس میں سو شاخیں ہوں پھر اسے ایک ہی مرتبہ اس آدمی پردے مارو۔"(سنن ابن ماجہ الحدود حدیث:2574)چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا یہ حیلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے اختیار کیا کہ وہ سو کوڑے کھانے کی طاقت نہ رکھتا تھا اور اس صورت میں اس کا مرجانا یقینی تھا یوں آپ نے حدود الٰہی کا تقاضا بھی پوراکردیا اور اس کی جان بخشی بھی ہو گئی اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اپنی ذات سے یا کسی دوسرے سے ظالم کا دفع کرنا مقصود ہو تو اس وقت شرعاً حیلہ کرنا جائز ہے لیکن ایسے حیلے جن کے اختیار کرنے سے کوئی شرعی ضابطہ مجروح ہونا ہو یا انھیں عمل میں لانے سے کوئی شرعی مقصد فوت ہو رہا ہو تو ایسے حیلے قطعاً ناجائز اور حرام ہیں جیسا کہ زکاۃ کو ساقط کرنے کےلیے یہ حیلہ کرنا جسے فتاوی عالمگیری میں اختیار کیا گیا ہے کہ سال پورا ہونے سے پہلے پورا مال یا اس کا کچھ حصہ کسی دوسرےکو ہبہ کرنے اپنی ملکیت سے نکال دیا جائے پھر سال گزرنے سے پہلے ہی اس سےو ہی مال اپنے حق میں ہبہ کرا لیا جائے۔اس طرح زکاۃ ادا کرنے سے بال بال بچ جاتا ہے۔(فتاوی عالمگیری کتاب الحیل باب فی مسائل الزکاۃ3/391)قرآن کریم نے بھی اس قسم کے ناجائز حیلے کا ایک مقام پر ذکر کیا ہے چنانچہ اس میں ایک مخصوص بستی کا ذکر ہے جو سمندر کے کنارے آباد تھی انھیں یہ حکم تھا کہ ہفتے کے دن کاروبار نہیں کریں گے۔بلکہ یہ دن آرام کرنے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے لیے مخصوص تھا لیکن وہ بستی والے جن کا پیشہ ماہی گیری یعنی مچھلیاں پکڑنا تھا۔اتفاق ایسا ہوا کہ چھ دن تو مچھلیاں پانی میں چھپی رہتیں اور ہفتے کے دن پانی کی سطح پر سینہ تان کر تیرتی پھر تیں اب ان ماہی گیروں نے ایک حیلہ سازی کی کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی محفوظ رہے وہ اس طرح کہ انھوں نے ساحل سمندر کے ساتھ کھائیاں کھود لیں جب ان میں پانی آتا تو ساتھ مچھلیاں بھی آجاتیں پھر دوسرے دن یہ ان مچھلیوں کو پکڑ لیتے جو کھائیوں میں میں آجاتی تھیں۔اللہ تعالیٰ نے اس ناجائزحیلہ سازی کی پاداش میں انھیں ذلیل و خوار بندر بنادیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"تم اپنے ان لوگوں کو بھی خوب جانتے ہو ۔جنھوں نے ہفتے کے(دن کے) بارے میں زیادتی کی تھی تو ہم نے انھیں کہا ذلیل بندر بن جاؤ (البقرہ:2/65)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کی حیلہ سازی پر گرفت کی ہے اور لوگوں کو ایسا سبق پڑھانے والوں کی مکاری سے پردہ اٹھایا ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام محمد بن حسن کوفی کا ایک قول نقل کیا ہے۔ اہل ایمان کایہ کردار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ احکام الٰہی سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے ایسا حیلہ کرے جو حق کو نابود کرنے کے لیے ہو۔(فتح الباری:12/411) الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت اکتیس(31) احادیث بیان کی ہیں جن میں ایک (1)معلق اور باقی تیسی(30)احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔گویاانھوں نے اس قسم کے حیلوں کے ناجائز ہونے پر اکتیس(31)دلائل پیش کیے ہیں جو نماز ، زکاۃ نکاح ، بیوع ، ہبہ اور شفعہ وغیرہ کے متعلق ہیں اور اس کا آغاز ہی ترک حیلہ کے عنوان سے کیا ہے۔ ہم ان کی وضاحت فوائد میں کریں گے۔بہر حال بنیادی طور پر اس طرح کے حیلے ناجائز اور حرام ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر گامزن رکھے اور اس قسم کے حیلوں سے محفوظ رکھے جو شریعت سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے عمل میں لائے جاتے ہیں۔
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے طاعون کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ”یہ ایک عذاب ہے جس کے زریعے سے بعض امتوں کو عذاب دیا گیا تھا۔ اس کے بعد کچھ حصہ باقی رہ گیا تھا جو کبھی آتا ہے اور کبھی چلا جاتا ہے۔ جو کوئی کسی سرزمین میں اس کے پھیلنے کے متعلق سنے تو وہاں نہ جائے،لیکن اگر کوئی کسی مقام پر ہو اور وہاں یہ وبا پھوٹ پڑے تو وہاں سے بھاگنےکی کوشش نہ کرے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔اللہ تعالیٰ کی تقدیر تو واقع ہو کر رہتی ہے پھر وبائی امراض سے احتیاطی تدابیر کے کیا معنی کہ وہاں سے مت نکلو جہاں وبا پھیلی ہو اور وہاں مت جاؤ جہاں وبا پھیلی ہو؟ اس کا بہترین جواب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیا تھا جب ان سے حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی: امیر المومنین ! کیا آپ اللہ کی تقدیرسے فرار ہونا چاہتے ہیں؟ انھوں نے فرمایا: ہم اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہی کی طرف فرار ہوتے ہیں اگر تم ایسی وادی میں پڑاؤ کرو جہاں سر سبز اور خشک علاقہ ہو اگر سر سبز علاقے میں اپنے اونٹ چراؤ تو یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے اور خشک علاقے میں اونٹ چریں تو بھی اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے۔ (صحیح البخاري، الطب، حدیث: 5729) 2۔بہر حال انسان کو حیلہ سازی سے کام نہیں لینا چاہیے کہ وہاں سے بھاگے تو طاعون سے بچنے کے لیے لیکن بہانہ یہ کرے کہ میں اپنے دوستوں سے ملنے جا رہا ہوں واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعیب نے بیان کیا ‘ ان سے زہری نے ‘ ان سے عامر ابن سعد بن ابی وقاص نے کہ انہوں نے حضرت اسامہ بن زید ؓ سے سنا ‘ وہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے حدیث نقل کررہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے طاعون کا ذکر کیا اور فرمایا کہ یہ ایک عذاب ہے جس کے ذریعہ بعض امتوں کو عذاب دیا گیا تھا اس کے بعد ا سکا کچھ حصہ باقی رہ گیا ہے اور وہ کبھی چلا جاتا ہے اور کبھی واپس آتاجا ہے ۔ پس جو شخص کسی سرزمین پر اس کے پھیلنے کے متعلق سنے تو وہاں نہ جائے لیکن اگر کوئی کسی جگہ ہو اور وہاں یہ وبا پھوٹ پڑے تو وہاں سے بھاگے بھی نہیں ۔
حدیث حاشیہ:
اس کا اصل سبب کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ یونانی لوگ جدوار خطائی سے‘ ڈاکٹر لوگ ورم پر برف کا ٹکڑا رکھ کر اور بدوی لوگ داغ دے کر اس کا علا ج کرتے ہیں مگر موت سے شاذونادر ہی بچتے ہیں۔ اس لیے مقام طاعون سے بھاگنا گویا موت سے بھاگنا ہے جو اپنے وقت پر ضرور آ کر رہے گی۔ مولانا وحید الزماں مرحوم فرماتے ہیں کہ گھر یا محلہ بدلنا بستی چھوڑ کر پہاڑ پر چلے جانا تا کہ صاف آب وہوا مل سکے فرار میں داخل نہیں ہے‘ واللہ أعلم بالصواب۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Amir bin Sa'd bin Abi Waqqas (RA) : That he heard Usama bin Zaid speaking to Sa'd, saying, "Allah's Apostle (ﷺ) mentioned the plague and said, 'It is a means of punishment with which some nations were punished and some of it has remained, and it appears now and then. So whoever hears that there is an outbreak of plague in some land, he should not go to that land, and if the plague breaks out in the land where one is already present, one should not run away from that land, escaping from the plague."