باب : ہبہ پھیرلینے یا شفعہ کا حق ساقط کرنے کے لیے حیلہ کرنا مکروہ ہے
)
Sahi-Bukhari:
Tricks
(Chapter: (Tricks in) gift-giving and pre-emption)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور بعض لوگوں نے کہا کہ اگر کسی شخص نے دوسرے کو ہزار درہم یا اس سے زیادہ ہبہ کئے اور یہ درہم موہوب کے پاس برسوں رہ چکے پھر واہب نے حیلہ کر کے ان کو لے لیا۔ ہبہ میں رجوع کر لیا ۔ ان میں سے کسی پر زکوٰۃ لازم نہ ہوگی اور ان لوگو ں نے آنحضرت ﷺکی حدیث کا خلاف کیا جو حبہ میں وارد ہے اور باوجود سال گزر نے کے اس میں زکوٰۃ ساقط ہے ۔
6975.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اپنے ہبہ کو واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو اپنی قے کو خود چاٹ جاتا ہے۔ ہمارے لیے اس طرح کی بری مثال مناسب نہیں۔‘‘
تشریح:
1۔کسی کو ہدیہ دے کر واپس لینا جائز نہیں چنانچہ ایک روایت میں ہے۔"ہدیہ واپس لینے والا اس طرح ہے جیسے خود قے کر کے اسے چاٹ جائے۔" (صحیح البخاري، الھبة حدیث:2621) اپنی قے کو چاٹنا حرام ہے لہٰذا ہبہ واپس لینا بھی حرام ہے۔ اس کی وضاحت ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کسی آدمی کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنا دیا ہوا عطیہ واپس لے ہاں والد جو اپنے بچے کو عطیہ دیتا ہے وہ اس سے واپس لے سکتا ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، البیوع، حدیث 3539) 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی پیش کردہ حدیث میں کتے کی حالت بیان کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے لیے اس طرح کی بری مثال مناسب نہیں ہے لیکن حیلہ سازوں کی چابکدستی ملاحظہ فرمائیں ان کے نزدیک کسی کو ہدیہ دے کر واپس لینے میں کوئی حرج نہیں خواہ وہ ہدیہ قبول کرنے والے کے ہاں سال بھر پڑا رہے۔ اس سلسلے میں ایک حدیث پیش کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آدمی اپنے ہبے کا زیادہ حق دار ہے جب تک اس کا بدلہ نہ دیا جائے۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الهبات حدیث: 2387) یہ حدیث قابل حجت نہیں کیونکہ اس میں ابراہیم بن اسماعیل بن مجمع ضعیف ہے نیز اس میں عمروبن دینار راوی ہے جس کا سماع حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ثابت نہیں۔ اگر صحیح بھی ہو تو اس سے مراد وہ ہبہ ہے جو معاوضہ لینے کی غرض سے دیا گیا ہو مطلق ہبہ کے متعلق واپس لینے کا موقف اس حدیث سے ثابت نہیں ہو تا۔ 3۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح فرمایا ہے کہ ان حیلہ سازوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی مخالفت کی ہے جو دین اسلام میں انتہائی خطرناک حرکت ہے۔ حیلہ سازوں نے دوسری نا زیبا حرکت یہ کی ہے کہ حیلے کے ذریعے سے زکاۃ بھی ساقط کر دی۔ حالانکہ جس شخص کو ہبہ کیا گیا تھا وہ اس نے قبول کرنے کے بعد سال بھر ملکیت میں رکھا اس دوران میں اس پر زکاۃ فرض ہو چکی تھی پھر ہبہ کرنے والے کے رجوع کی وجہ سے اس کی ملکیت روز اول سے ظاہر ہو گئی، لہٰذا اس پر بھی زکاۃ فرض ہونی چاہیے تھی لیکن حیلہ سازوں نے دونوں ہی سے زکاۃ ساقط کر دی اور زکاۃ فریضۃ اسلام ہے جس کا ساقط کرنا کسی صورت میں جائز نہیں پھر ان حضرات نے جواز حیلہ اور نفاذ حیلہ کی بحث چھیڑی کہ اگر کسی نے یہ حماقت کر لی ہے تو اسے بہر حال نافذ ہونا چاہیے لیکن ہمارا موقف ہے کہ جو امر جائز نہیں اس کا نفاذ کیونکر ہو سکتا ہے۔ 4۔بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے دونوں اعتراض اپنی جگہ پر ناقابل تردید ہیں ایک تو حدیث کی مخالفت کرنا اور دوسرا فریضہ اسلام زکاۃ کو حیلے سے ساقط کرنا۔ اللہ تعالیٰ انھیں ہدایت دے۔ آمین۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6725
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6975
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6975
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6975
تمہید کتاب
(حِيّلُ, حِيلَّةُ)کی جمع ہے۔پوشیدہ تدبیر اختیار کرکے اپنا مقصود حاصل کرنے کو حیلہ کہا جاتا ہے۔حیلہ سازی کی اسلام میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔افسوس کہ ہمارے ایک مذہبی طبقے نے کتاب الحیل کے نام سے ایسی تدابیر کے انبار لگادیےہیں جن میں احکام الٰہی سے فرار کے چور دروازوں کی نشاندہی کی ہی گئی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کے لوگوں کی تردید کے لیے کتاب الحیل کا عنوان قائم کیا ہے۔البتہ اگر کوئی شخص کتاب و سنت کے اصولوں اوراقوال صحابہ کو سامنے رکھ کر کسی پیش آمدہ حادثے سے نکلنے کی کوئی صورت پیدا کرتا ہے تو اس کی گنجائش موجود ہے جیسا کہ سیدنا ایوب علیہ السلام طویل عرصہ بیمار رہے اس دوران میں ان کے تمام اہل خانہ انھیں چھوڑگئے۔صرف ایک بیوی نے ان کا ساتھ دیا۔اس نے ایک دن کوئی ایسی بات کہہ دی جس سے اللہ تعالیٰ کی نا شکری ظاہر ہوتی تھی۔سیدناایوب علیہ السلام کو بیوی کی اس بات پر غصہ آگیا اور کہنے لگے۔اگر میں تندرست ہوگیا تو تجھے اس ناشکری کی سزا کے طور پر سولکڑیاں ماروں گا۔یہ حضرت ایوب علیہ السلام کی غیرت ایمان کا تقاضا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس کی طاقت کے مطابق ہی سزا دیتا ہے۔چنانچہ حضرت ایوب علیہ السلام جب تند رست ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے خود ہی انھیں ایک تدبیر بتائی کہ ایک جھاڑو لوجس کے سو تنکے ہوں اس سے ایک معمولی سی ضرب بیوی کو لگادو۔اس طرح آپ کی قسم بھی پوری ہو جائے گی اور وفادار بیوی پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی کا تقاضا بھی پورا ہوگیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"اپنے ہاتھ میں تنکوں کا ایک مٹھا (جھاڑو)لو اور(اس کو)اس سے مارواور قسم نہ توڑو۔"(ص:38۔44)اسی طرح حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں ایک پاہج (لنگڑا،لولا)کمزور سا آدمی رہتا تھا۔ وہ ہماری ایک لونڈی سے جرم زنا میں ملوث ہو گیا۔ ہم نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا :"اسے حد لگاؤ۔"لوگوں نے عرض کی: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ تو انتہائی لاغر اور کمزور ہے۔اگر ہم نے اسے(سوکوڑے)حد لگائی تو وہ مر جائےگا۔آپ نے فرمایا:"کھجور کی ایک ٹہنی لو جس میں سو شاخیں ہوں پھر اسے ایک ہی مرتبہ اس آدمی پردے مارو۔"(سنن ابن ماجہ الحدود حدیث:2574)چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا یہ حیلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے اختیار کیا کہ وہ سو کوڑے کھانے کی طاقت نہ رکھتا تھا اور اس صورت میں اس کا مرجانا یقینی تھا یوں آپ نے حدود الٰہی کا تقاضا بھی پوراکردیا اور اس کی جان بخشی بھی ہو گئی اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اپنی ذات سے یا کسی دوسرے سے ظالم کا دفع کرنا مقصود ہو تو اس وقت شرعاً حیلہ کرنا جائز ہے لیکن ایسے حیلے جن کے اختیار کرنے سے کوئی شرعی ضابطہ مجروح ہونا ہو یا انھیں عمل میں لانے سے کوئی شرعی مقصد فوت ہو رہا ہو تو ایسے حیلے قطعاً ناجائز اور حرام ہیں جیسا کہ زکاۃ کو ساقط کرنے کےلیے یہ حیلہ کرنا جسے فتاوی عالمگیری میں اختیار کیا گیا ہے کہ سال پورا ہونے سے پہلے پورا مال یا اس کا کچھ حصہ کسی دوسرےکو ہبہ کرنے اپنی ملکیت سے نکال دیا جائے پھر سال گزرنے سے پہلے ہی اس سےو ہی مال اپنے حق میں ہبہ کرا لیا جائے۔اس طرح زکاۃ ادا کرنے سے بال بال بچ جاتا ہے۔(فتاوی عالمگیری کتاب الحیل باب فی مسائل الزکاۃ3/391)قرآن کریم نے بھی اس قسم کے ناجائز حیلے کا ایک مقام پر ذکر کیا ہے چنانچہ اس میں ایک مخصوص بستی کا ذکر ہے جو سمندر کے کنارے آباد تھی انھیں یہ حکم تھا کہ ہفتے کے دن کاروبار نہیں کریں گے۔بلکہ یہ دن آرام کرنے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے لیے مخصوص تھا لیکن وہ بستی والے جن کا پیشہ ماہی گیری یعنی مچھلیاں پکڑنا تھا۔اتفاق ایسا ہوا کہ چھ دن تو مچھلیاں پانی میں چھپی رہتیں اور ہفتے کے دن پانی کی سطح پر سینہ تان کر تیرتی پھر تیں اب ان ماہی گیروں نے ایک حیلہ سازی کی کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی محفوظ رہے وہ اس طرح کہ انھوں نے ساحل سمندر کے ساتھ کھائیاں کھود لیں جب ان میں پانی آتا تو ساتھ مچھلیاں بھی آجاتیں پھر دوسرے دن یہ ان مچھلیوں کو پکڑ لیتے جو کھائیوں میں میں آجاتی تھیں۔اللہ تعالیٰ نے اس ناجائزحیلہ سازی کی پاداش میں انھیں ذلیل و خوار بندر بنادیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"تم اپنے ان لوگوں کو بھی خوب جانتے ہو ۔جنھوں نے ہفتے کے(دن کے) بارے میں زیادتی کی تھی تو ہم نے انھیں کہا ذلیل بندر بن جاؤ (البقرہ:2/65)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کی حیلہ سازی پر گرفت کی ہے اور لوگوں کو ایسا سبق پڑھانے والوں کی مکاری سے پردہ اٹھایا ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام محمد بن حسن کوفی کا ایک قول نقل کیا ہے۔ اہل ایمان کایہ کردار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ احکام الٰہی سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے ایسا حیلہ کرے جو حق کو نابود کرنے کے لیے ہو۔(فتح الباری:12/411) الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت اکتیس(31) احادیث بیان کی ہیں جن میں ایک (1)معلق اور باقی تیسی(30)احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔گویاانھوں نے اس قسم کے حیلوں کے ناجائز ہونے پر اکتیس(31)دلائل پیش کیے ہیں جو نماز ، زکاۃ نکاح ، بیوع ، ہبہ اور شفعہ وغیرہ کے متعلق ہیں اور اس کا آغاز ہی ترک حیلہ کے عنوان سے کیا ہے۔ ہم ان کی وضاحت فوائد میں کریں گے۔بہر حال بنیادی طور پر اس طرح کے حیلے ناجائز اور حرام ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر گامزن رکھے اور اس قسم کے حیلوں سے محفوظ رکھے جو شریعت سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے عمل میں لائے جاتے ہیں۔
اور بعض لوگوں نے کہا کہ اگر کسی شخص نے دوسرے کو ہزار درہم یا اس سے زیادہ ہبہ کئے اور یہ درہم موہوب کے پاس برسوں رہ چکے پھر واہب نے حیلہ کر کے ان کو لے لیا۔ ہبہ میں رجوع کر لیا ۔ ان میں سے کسی پر زکوٰۃ لازم نہ ہوگی اور ان لوگو ں نے آنحضرت ﷺکی حدیث کا خلاف کیا جو حبہ میں وارد ہے اور باوجود سال گزر نے کے اس میں زکوٰۃ ساقط ہے ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اپنے ہبہ کو واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو اپنی قے کو خود چاٹ جاتا ہے۔ ہمارے لیے اس طرح کی بری مثال مناسب نہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔کسی کو ہدیہ دے کر واپس لینا جائز نہیں چنانچہ ایک روایت میں ہے۔"ہدیہ واپس لینے والا اس طرح ہے جیسے خود قے کر کے اسے چاٹ جائے۔" (صحیح البخاري، الھبة حدیث:2621) اپنی قے کو چاٹنا حرام ہے لہٰذا ہبہ واپس لینا بھی حرام ہے۔ اس کی وضاحت ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کسی آدمی کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنا دیا ہوا عطیہ واپس لے ہاں والد جو اپنے بچے کو عطیہ دیتا ہے وہ اس سے واپس لے سکتا ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، البیوع، حدیث 3539) 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی پیش کردہ حدیث میں کتے کی حالت بیان کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے لیے اس طرح کی بری مثال مناسب نہیں ہے لیکن حیلہ سازوں کی چابکدستی ملاحظہ فرمائیں ان کے نزدیک کسی کو ہدیہ دے کر واپس لینے میں کوئی حرج نہیں خواہ وہ ہدیہ قبول کرنے والے کے ہاں سال بھر پڑا رہے۔ اس سلسلے میں ایک حدیث پیش کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آدمی اپنے ہبے کا زیادہ حق دار ہے جب تک اس کا بدلہ نہ دیا جائے۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الهبات حدیث: 2387) یہ حدیث قابل حجت نہیں کیونکہ اس میں ابراہیم بن اسماعیل بن مجمع ضعیف ہے نیز اس میں عمروبن دینار راوی ہے جس کا سماع حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ثابت نہیں۔ اگر صحیح بھی ہو تو اس سے مراد وہ ہبہ ہے جو معاوضہ لینے کی غرض سے دیا گیا ہو مطلق ہبہ کے متعلق واپس لینے کا موقف اس حدیث سے ثابت نہیں ہو تا۔ 3۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح فرمایا ہے کہ ان حیلہ سازوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی مخالفت کی ہے جو دین اسلام میں انتہائی خطرناک حرکت ہے۔ حیلہ سازوں نے دوسری نا زیبا حرکت یہ کی ہے کہ حیلے کے ذریعے سے زکاۃ بھی ساقط کر دی۔ حالانکہ جس شخص کو ہبہ کیا گیا تھا وہ اس نے قبول کرنے کے بعد سال بھر ملکیت میں رکھا اس دوران میں اس پر زکاۃ فرض ہو چکی تھی پھر ہبہ کرنے والے کے رجوع کی وجہ سے اس کی ملکیت روز اول سے ظاہر ہو گئی، لہٰذا اس پر بھی زکاۃ فرض ہونی چاہیے تھی لیکن حیلہ سازوں نے دونوں ہی سے زکاۃ ساقط کر دی اور زکاۃ فریضۃ اسلام ہے جس کا ساقط کرنا کسی صورت میں جائز نہیں پھر ان حضرات نے جواز حیلہ اور نفاذ حیلہ کی بحث چھیڑی کہ اگر کسی نے یہ حماقت کر لی ہے تو اسے بہر حال نافذ ہونا چاہیے لیکن ہمارا موقف ہے کہ جو امر جائز نہیں اس کا نفاذ کیونکر ہو سکتا ہے۔ 4۔بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے دونوں اعتراض اپنی جگہ پر ناقابل تردید ہیں ایک تو حدیث کی مخالفت کرنا اور دوسرا فریضہ اسلام زکاۃ کو حیلے سے ساقط کرنا۔ اللہ تعالیٰ انھیں ہدایت دے۔ آمین۔
ترجمۃ الباب:
بعض لوگوں نے کہا: اگر کسی نے ایک ہزار یا اس سے زیادہ درہم کسی دوسرے کو ہبہ کیے حتی کہ وہ اس کے پاس کئی سال رہے، پھر ان میں اس طرح حیلہ کیا کہ ہبہ کرنے والے نے وہ درہم اس سے واپس لے لیے تو ان دونوں میں سے کسی پر بھی زکاۃ واجب نہیں۔ ان حضرات نے ہبہ کے معاملے میں رسول اللہﷺکی کھلی مخالفت کی ہے، مزید برآں انہوں نے زکاۃ بھی ساقط کردی ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا‘ کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا‘ ان سے ایوب سختیانی نے‘ ان سے عکرمہ نے اور ان سے حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اپنے ہبہ کو واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو اپنی قے کو خود چاٹ جاتا ہے‘ ہمارے لیے بری مثال مناسب نہیں۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے یہ نکلا کہ موہوب لہ کا قبضہ ہو جانے کے بعد پھر ہبہ میں رجوع کرنا حرام ہے اور ناجائز ہے اور جب رجوع ناجائز ہوا تو موہوب لہ پر ایک سال گزرنے کے بعد زکوٰۃ واجب ہوگی۔ اہل حدیث کا یہی قول ہے اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک جب رجوع جائز ہوا گو مکروہ ان کے نزدیک بھی ہے تو نہ واہب پر زکوٰۃ ہوگی نہ موہوب لہ پر اور یہ حیلہ کر کے دونوں زکوٰۃ سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "The one who takes back his gift is like a dog swallowing its own vomit, and we (believers) should not act according to this bad example."