باب : اور رسول اللہ ﷺ پر وحی کی ابتدا سچے خواب کے ذریعہ ہوئی
)
Sahi-Bukhari:
Interpretation of Dreams
(Chapter: Commencement of the Divine Revelation to Allah’s Messenger (saws) was in the form of good dreams)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6982.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ پر وحی کا آغاز بحالت نیند سچے خواب کے ذریعے سے ہوا۔ آپ ﷺ جو خواب بھی دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح سامنے آ جاتا۔ آپ غار حراء میں تشریف لاتے اور اس میں تنہا چند راتیں عبادت کرتے۔ ان چند راتوں کا توشہ بھی ساتھ لاتے۔ پھر جب حضرت خدیجہ ؓ کے پاس واپس تشریف لے جاتے تو وہ اتنا ہی توشہ آپ کے ہمراہ کر دیتیں حتی کہ اچانک آپ کے پاس حق آ گیا جبکہ آپ غار حرا میں تھے، چنانچہ اس میں فرشتہ آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا: نبی ﷺ نے اس فرمایا: میں پڑھا ہوا ہوں۔ آخر اس نے مجھے پکڑ لیا اور زور سے دبایا جس کی وجہ سے مجھے بہت تکلیف ہوئی۔ پھر اس نے مجھے چھوڑ کر کہا: پڑھیے! میں نے کہا: میں پڑھا ہوا نہیں ہوں تو اس نے مجھے تیسری مرتبہ پکڑا اور خوب دبایا یہاں تک کہ میں نے بے حد تکلیف محسوس کی۔ آخر چھوڑ کر اس نے مجھ سے کہا: اپنے رب کے نام سے پڑھیے جس نے پیدا کیا حتیٰ کہ ما لم یعلم تک پہنچا۔ آپ ﷺ ان آیات کی گردن اور کندھے کے درمیان کا گوشت حرکت کر رہا تھا حتیٰ کہ سیدہ خدیجہ ؓ کے ہاں تشریف لے گئے اور فرمایا: مجھے چادر اوڑھا دو۔ مجھے چادر اوڑھا دو، انہوں نے آپ کو چادر میں لپیٹ دیا، پھر جب آپ کا خوف ہراس دور ہوا تو آپ نے فرمایا: ”خدیجہ! میرا حال ہو گیا ہے؟“ پھر آپ نے اپنی سر گزشت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے۔“ حضرت خدیجہ ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا، آپ شادر ہیں، اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا کیونکہ آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں، سچی بات کرتے ہیں، ناداروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں آنے والی مصیبتوں میں مدد کرتے ہیں، اس کے بعد سیدہ خدیجہ ؓ آپ کو ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزی بن قصی کے پاس لائیں جو ان کو چچا زاد تھے اور زمانہ جاہلیت میں عیسائی ہو گئے تھے اور وہ عربی لکھ لیتے تھے اور اللہ کی توفیق سے وہ عربی میں انجیل کا ترجمہ لکھا کرتے تھے، نیز وہ اس وقت بہت بوڑھے ہو چکے تھے حتی کہ ان کی بینائی بھی جاتی رہی تھی۔ ان سے سیدہ خدیجہ ؓ نے کہا: برادرم! اپنے بھتیجے کی بات غور سے سنیں۔ ورقہ نے پوچھا: بھتیجے! تم کیا دیکھتے ہو؟ نبی ﷺ نے جو دیکھا تھا اسے ذکر کر دیا۔ ورقہ نے سن کر کہا: یہ تو وہی ناموس ہے جو حضرت موسیٰ ؑ پر نازل ہوا تھا۔ کاش! میں ایام نبوت میں نوجوان ہوتا اور زندہ رہتا جب تمہاری قوم یہاں سے نکال دے گی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا یہ مجھے یہاں سے نکال دیں گے؟ ورقہ نے کہا: ہاں، جب بھی آپ جیسا کوئی پیغام لے کر آیا تو اس کے ساتھ دشمنی کی گئی۔ اور اگر میں نے تمہارے وہ دن پا لیے تو میں تمہاری بھر پور مدد کروں گا۔ لیکن کچھ ہی دنوں بعد ورقہ کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد وحی کا سلسلہ بھی منقطع ہو گیا۔ (راوی کہتا ہے کہ) ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ نبی ﷺ کو اس وجہ سے اس قدر غم تھا کہ آپ نے کئی مرتبہ پہاڑ کی بلند چوٹی سے خود کو گرا دینا چاہا لیکن جب بھی آپ کسی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھتے تاکہ اس پر سے خود کو گرا دیں تو حضرت جبرئیل ؑ نمودار ہو کر فرماتے: یامحمد! یقیناً آپ اللہ کے رسول ہیں، اس سے آپ ﷺ کو سکون ملتا اور واپس آ جاتے، لیکن جب سلسلہ وحی زیادہ دنوں تک رکا رہا تو ایک مرتبہ آپ نے دوبارہ ایسا ارادہ کیا۔ جب آپ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھے تو حضرت جبرئیل ؑ سامنے آئے اور انہوں نے آپ ﷺ سے اسی طرح کی بات پھر کہی۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: فَالِقُ الاصبَاحِ سے مراد ہے: دن کے وقت سورج کی روشنی اور رات کے وقت چاند کی روشنی۔
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ پر وحی کا آغاز بحالت نیند سچے خواب کے ذریعے سے ہوا۔ آپ ﷺ جو خواب بھی دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح سامنے آ جاتا۔ آپ غار حراء میں تشریف لاتے اور اس میں تنہا چند راتیں عبادت کرتے۔ ان چند راتوں کا توشہ بھی ساتھ لاتے۔ پھر جب حضرت خدیجہ ؓ کے پاس واپس تشریف لے جاتے تو وہ اتنا ہی توشہ آپ کے ہمراہ کر دیتیں حتی کہ اچانک آپ کے پاس حق آ گیا جبکہ آپ غار حرا میں تھے، چنانچہ اس میں فرشتہ آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا: نبی ﷺ نے اس فرمایا: میں پڑھا ہوا ہوں۔ آخر اس نے مجھے پکڑ لیا اور زور سے دبایا جس کی وجہ سے مجھے بہت تکلیف ہوئی۔ پھر اس نے مجھے چھوڑ کر کہا: پڑھیے! میں نے کہا: میں پڑھا ہوا نہیں ہوں تو اس نے مجھے تیسری مرتبہ پکڑا اور خوب دبایا یہاں تک کہ میں نے بے حد تکلیف محسوس کی۔ آخر چھوڑ کر اس نے مجھ سے کہا: اپنے رب کے نام سے پڑھیے جس نے پیدا کیا حتیٰ کہ ما لم یعلم تک پہنچا۔ آپ ﷺ ان آیات کی گردن اور کندھے کے درمیان کا گوشت حرکت کر رہا تھا حتیٰ کہ سیدہ خدیجہ ؓ کے ہاں تشریف لے گئے اور فرمایا: مجھے چادر اوڑھا دو۔ مجھے چادر اوڑھا دو، انہوں نے آپ کو چادر میں لپیٹ دیا، پھر جب آپ کا خوف ہراس دور ہوا تو آپ نے فرمایا: ”خدیجہ! میرا حال ہو گیا ہے؟“ پھر آپ نے اپنی سر گزشت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے۔“ حضرت خدیجہ ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا، آپ شادر ہیں، اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا کیونکہ آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں، سچی بات کرتے ہیں، ناداروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں آنے والی مصیبتوں میں مدد کرتے ہیں، اس کے بعد سیدہ خدیجہ ؓ آپ کو ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزی بن قصی کے پاس لائیں جو ان کو چچا زاد تھے اور زمانہ جاہلیت میں عیسائی ہو گئے تھے اور وہ عربی لکھ لیتے تھے اور اللہ کی توفیق سے وہ عربی میں انجیل کا ترجمہ لکھا کرتے تھے، نیز وہ اس وقت بہت بوڑھے ہو چکے تھے حتی کہ ان کی بینائی بھی جاتی رہی تھی۔ ان سے سیدہ خدیجہ ؓ نے کہا: برادرم! اپنے بھتیجے کی بات غور سے سنیں۔ ورقہ نے پوچھا: بھتیجے! تم کیا دیکھتے ہو؟ نبی ﷺ نے جو دیکھا تھا اسے ذکر کر دیا۔ ورقہ نے سن کر کہا: یہ تو وہی ناموس ہے جو حضرت موسیٰ ؑ پر نازل ہوا تھا۔ کاش! میں ایام نبوت میں نوجوان ہوتا اور زندہ رہتا جب تمہاری قوم یہاں سے نکال دے گی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا یہ مجھے یہاں سے نکال دیں گے؟ ورقہ نے کہا: ہاں، جب بھی آپ جیسا کوئی پیغام لے کر آیا تو اس کے ساتھ دشمنی کی گئی۔ اور اگر میں نے تمہارے وہ دن پا لیے تو میں تمہاری بھر پور مدد کروں گا۔ لیکن کچھ ہی دنوں بعد ورقہ کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد وحی کا سلسلہ بھی منقطع ہو گیا۔ (راوی کہتا ہے کہ) ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ نبی ﷺ کو اس وجہ سے اس قدر غم تھا کہ آپ نے کئی مرتبہ پہاڑ کی بلند چوٹی سے خود کو گرا دینا چاہا لیکن جب بھی آپ کسی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھتے تاکہ اس پر سے خود کو گرا دیں تو حضرت جبرئیل ؑ نمودار ہو کر فرماتے: یامحمد! یقیناً آپ اللہ کے رسول ہیں، اس سے آپ ﷺ کو سکون ملتا اور واپس آ جاتے، لیکن جب سلسلہ وحی زیادہ دنوں تک رکا رہا تو ایک مرتبہ آپ نے دوبارہ ایسا ارادہ کیا۔ جب آپ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھے تو حضرت جبرئیل ؑ سامنے آئے اور انہوں نے آپ ﷺ سے اسی طرح کی بات پھر کہی۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: فَالِقُ الاصبَاحِ سے مراد ہے: دن کے وقت سورج کی روشنی اور رات کے وقت چاند کی روشنی۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا‘ ان سے عقیل بن خالد نے بیان کیا‘ اور ان سے ابن شہاب نے بیان کیا (دوسری سند امام بخاری نے کہا) کہ مجھ سے عبداللہ بن محمدی مسندی نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا مجھ سے عبد الرزاق نے بیان کیا‘ ان سے معمر نے بیان کیا‘ ان سے زہری نے کہا کہ مجھے عروہ نے خبر دی اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ پر وحی کی ابتداء سونے کی حالت میں سچے خواب کے ذریعہ ہوئی۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ جو خواب بھی دیکھتے تو وہ صبح کی روشنی کی طرح سامنے آ جا تا اور آنحضرت ﷺ غار حرا میں چلے جاتے اور اس میں تنہا خدا کی یاد کرتے تھے چند مقررہ دنوں کے لیے۔ (یہاں آتے) اور ان دنوں کا توشہ بھی ساتھ لاتے۔ پھر حضرت خدیجہ ؓ کے پاس واپس تشریف لے جاتے اور وہ پھر اتنا ہی توشہ آپ کے ساتھ کر دیتیں یہاں تک کہ حق آپ کے پاس اچانک آگیا اور آپ غار حرا ہی میں تھے۔ چنانچہ اس میں فرشتہ آپ کے پاس آیا اور کہا کہ پڑھيے۔ آنحضرت ﷺ نے اس سے فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ آخر اس نے مجھے پکڑ لیا اور زور سے دابا اور خوب دابا جس کی وجہ سے مجھ کو بہت تکلیف ہوئی۔ پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھئے آپ ﷺ نے پھر وہی جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس نے مجھے ایسا دابا کہ میں بے قابو ہو گیا یا انہوں نے اپنا زور ختم کر دیا اور پھر چھوڑ کر اس نے مجھ سے کہا کہ پڑھے اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ہے۔ الفاظ ''مالم یعلم'' تک۔ پھر جب آپ ﷺ حضرت خدیجہ ؓ کے پاس آئے تو آپ کے مونڈھوں کے گوشت (ڈر کے مارے) پھڑک رہے تھے۔ جب گھر میں آپ ﷺ داخل ہوئے تو فرمایا کہ مجھے چادر اڑھا دو‘ مجھے چادر اڑھا دو چنانچہ کو چادر اڑھا دی گئی اور جب آپ ﷺ کا خوف دور ہو گیا تو فرمایا کہ خدیجہ ؓ میرا حال کیا ہو گیا ہے؟ پھر آپ ﷺ نے اپنا سارا حال بیان کیا اور فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔ لیکن حضرت خدیجہ ؓ نے کہا خدا کی قسم ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا‘ آپ خوش رہيے خداوند تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں‘ بات سچی بولتے ہیں‘ نا داروں کا بوجھ اٹھا تے ہیں‘ مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی وجہ سے پیش آنے والی مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ پھر آپ کو حضرت خدیجہ ؓ عنہ ورقہ بن نوفل بن اسد عبد العزیٰ بن قصی کے پاس لائیں جو حضرت خدیجہ ؓ کے والد خویلد کے بھائی کے بیٹے تھے۔ جو زمانہ جاہلیت میں عیسائی ہو گئے تھے اور عربی لکھ لیتے تھے اور وہ جتنا اللہ تعالیٰ چاہتا عربی میں انجیل کا ترجمہ لکھا کرتے تھے‘ وہ اس وقت بہت بوڑھے ہو گئے تھے اور بینائی بھی جاتی رہی تھی۔ ان سے حضرت خدیجہ ؓ نے کہا بھائی! اپنے بھتیجے کی بات سنو۔ ورقہ نے پوچھا بھتیجے تم کیا دیکھتے ہو؟ آنحضرت ﷺ نے جو دیکھا تھا وہ سنایا تو ورقہ نے کہا کہ یہ تو وہی فرشتہ (جبریل ؑ) ہے جو موسیٰ ؑ پر آیا تھا۔ کاش میں اس وقت جوان ہوتا جب تمہیں تمہاری قوم نکال دے گی اور زندہ رہتا آنحضرت ﷺ نے پوچھا کیا یہ مجھے نکالیں گے؟ ورقہ نے کہا کہ ہاں۔ جب بھی کوئی نبی ورسول وہ پیغام لے کر آیا جسے لے کر آپ آئے ہیں تو اس کے ساتھ دشمنی کی گئی اور اگر میں نے تمہارے وہ دن پا لیے تو میں تمہاری بھر پور مدد کروں گا لیکن کچھ ہی دنوں بعد ورقہ کا انتقال ہو گیا اور وحی کا سلسلہ کٹ گیا اور آنحضرت کو اس کی وجہ سے اتنا غم تھا کہ آپ نے کئی مرتبہ پہاڑ کی بلند چوٹی سے اپنے آپ کو گرا دینا چاہا لیکن جب بھی آپ کسی پہا ڑ کی چوٹی پر چڑھے تا کہ اس پر سے اپنے آپ کو گرا دیں تو جبریل ؑ آپ کے سامنے آ گئے اور کہا کہ یا محمد! آپ یقینا اللہ کے رسول ہیں۔ اس سے آنحضرت ﷺ کو سکون ہوتا اور آپ واپس آ جاتے لیکن جب وحی زیادہ دنوں تک رکی رہی تو آپ نے ایک مرتبہ اور ایسا ارادہ کیا لیکن جب پہاڑ کی چوٹی پر چڑھے تو حضرت جبریل ؑ سامنے آئے اور اسی طرح کی بات پھر کہی۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا سورۃ انعام میں لفظ فالق الاصباح سے مراد دن میں سورج کی روشنی اور رات میں چاند کی روشنی ہے۔
حدیث حاشیہ:
یہاں امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو اس لیے لائے کہ اس میں یہ ذکر ہے کہ آپ کے خواب سچے ہوا کرتے تھے۔ مذہبی کتابوں کے دوسری زبانوں میں تراجم کا سلسلہ مدت مدید سے جاری ہے جیسا کہ حضرت ورقہ کے حال سے ظاہر ہے۔ ان کو جنت میں اچھی حالت میں دیکھا گیا تھا جو اس ملاقات اور ان کے ایمان کی برکت تھی‘ جو ان کو حاصل ہوئی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : The commencement of the Divine Inspiration to Allah's Apostle (ﷺ) was in the form of good righteous (true) dreams in his sleep. He never had a dream but that it came true like bright day light. He used to go in seclusion (the cave of) Hira where he used to worship(Allah Alone) continuously for many (days) nights. He used to take with him the journey food for that (stay) and then come back to (his wife) Khadija (RA) to take his food like-wise again for another period to stay, till suddenly the Truth descended upon him while he was in the cave of Hira. The angel came to him in it and asked him to read. The Prophet (ﷺ) replied, "I do not know how to read." (The Prophet (ﷺ) added), "The angel caught me (forcefully) and pressed me so hard that I could not bear it anymore. He then released me and again asked me to read, and I replied, "I do not know how to read," whereupon he caught me again and pressed me a second time till I could not bear it anymore. He then released me and asked me again to read, but again I replied, "I do not know how to read (or, what shall I read?)." Thereupon he caught me for the third time and pressed me and then released me and said, "Read: In the Name of your Lord, Who has created (all that exists). Has created man from a clot. Read and Your Lord is Most Generous...up to..... ..that which he knew not." (96.15) Then Allah's Apostle (ﷺ) returned with the Inspiration, his neck muscles twitching with terror till he entered upon Khadija (RA) and said, "Cover me! Cover me!" They covered him till his fear was over and then he said, "O Khadija, what is wrong with me?" Then he told her everything that had happened and said, 'I fear that something may happen to me." Khadija (RA) said, 'Never! But have the glad tidings, for by Allah, Allah will never disgrace you as you keep good reactions with your kith and kin, speak the truth, help the poor and the destitute, serve your guest generously and assist the deserving, calamity-afflicted ones." Khadija (RA) then accompanied him to (her cousin) Waraqa bin Naufal bin Asad bin 'Abdul 'Uzza bin Qusai. Waraqa was the son of her paternal uncle, i.e., her father's brother, who during the Pre-Islamic Period became a Christian and used to write the Arabic writing and used to write of the Gospels in Arabic as much as Allah wished him to write. He was an old man and had lost his eyesight. Khadija (RA) said to him, "O my cousin! Listen to the story of your nephew." Waraqa asked, "O my nephew! What have you seen?" The Prophet (ﷺ) described whatever he had seen. Waraqa said, "This is the same Namus (i.e., Gabriel (ؑ), the Angel who keeps the secrets) whom Allah had sent to Moses (ؑ). I wish I were young and could live up to the time when your people would turn you out." Allah's Apostle (ﷺ) asked, "Will they turn me out?" Waraqa replied in the affirmative and said: "Never did a man come with something similar to what you have brought but was treated with hostility. If I should remain alive till the day when you will be turned out then I would support you strongly." But after a few days Waraqa died and the Divine Inspiration was also paused for a while and the Prophet (ﷺ) became so sad as we have heard that he intended several times to throw himself from the tops of high mountains and every time he went up the top of a mountain in order to throw himself down, Gabriel (ؑ) would appear before him and say, " O Muhammad (ﷺ) ! You are indeed Allah's Apostle (ﷺ) in truth" whereupon his heart would become quiet and he would calm down and would return home. And whenever the period of the coming of the inspiration used to become long, he would do as before, but when he used to reach the top of a mountain, Gabriel (ؑ) would appear before him and say to him what he had said before. (Ibn 'Abbas (RA) said regarding the meaning of: 'He it is that Cleaves the daybreak (from the darkness)' (6.96) that Al-Asbah. means the light of the sun during the day and the light of the moon at night).