Sahi-Bukhari:
Interpretation of Dreams
(Chapter: The dreams of righteous people)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ انا فتحنا میں فرمایا کہ بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کا خواب سچ کر دکھا یا کہ ” یقینا تم مسجد حرام میں داخل ہو گے اگر اللہ نے چاہا امن کے ساتھ کچھ لوگ اپنے سر کے بالو کو منڈوائیں گے یا کچھ کتروائیں گے اور تمہیں کسی کا خوف نہ ہوگا ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو وہ بات معلوم تھی جو تمہیں معلوم نہیں ہے پھر اللہ نے سردست تم کو ایک فتح ( فتح خیبر) کرادی۔ “ تشریح : ہوا یہ تھا کہ آنحضرت ﷺ نے حدیبیہ میں یہ خواب دیکھا کہ مسلمان لوگ مکہ میں داخل ہوئے ہیں ‘ کوئی حلق کرارہا ہے ‘ کوئی قصر‘ جب کافروں نے آپ کو مکہ میں نہ جانے دیا اور قربانی کا جانور وہیں حدیبہ میں کاٹ دئیے گئے تو صحابہ نے کہا کہ آپ کا خواب برا بر نکلا‘ اس وقت یہ آیت اتری۔ مطلب یہ ہے کہ پیغمبر کا خواب ہمیشہ سچ ہوتا ہے ۔ جھوٹ نہیں ہو سکتا اب اگر نہیں تو آئندہ پورا ہوگا اور پروردگار کو اپنی مصلحت خوب معلوم ہے ۔ مکہ میں داخل ہونے سے پہلے مسلمانوں کو ایک فتح کرادینا اس کو مناسب معلوم ہوا اور فتح یہی صلح حدیبیہ ہے یا فتح خیبر ۔ غرض صحابہ یہ سمجھے کہ ہر خواب کی تعبیر فوراً ظاہر ہونا ضروری ہے ‘ یہ ان کی غلطی تھی ۔ بعض خوابوں کی تعبیر سالہا سال کے بعد ظاہر ہوتی ہے جس طرح کہ حضرت یوسفؑ نے خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر ساٹھ سال بعد ظاہر ہوئی ۔
6983.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کسی نیک آدمی کا اچھا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہوتا ہے۔“
تشریح:
1۔اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود خواب کو حسنہ کہا ہے اور نیک لوگوں کے اچھے خوابوں کو نبوت کا چھیالسیواں حصہ قراردیا ہے،یعنی ضروری نہیں کہ ہر خواب مزاج کے اتارچڑھاؤ یا ذاتی رجحانات ہی کا نتیجہ ہو،اگرچہ ایک روایت میں مومن کے ہر خواب کے لیے یہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔ (صحیح البخاري، التعبیر، حدیث 6994) لیکن اس حدیث کے مطابق مومن کے اچھے خوابوں کو یہ مقام حاصل ہوتا ہے کہ وہ نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہوتے ہیں۔ 2۔یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ بعض اوقات مومن بھی پراگندہ خوابوں سے دوچار ہو جاتا ہے لیکن ایسا کبھی کبھار ہوتا ہے کیونکہ مومن کے متعلق شیطان کی دخل اندازی بہت کم ہوتی ہے، اچھے خواب کے متعلق نبوت کے چھیالیسواں حصے کی تشریح ہم آئندہ کریں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔
بعض لوگ خواب کی حقیقت اس طرح بیان کرتے ہیں کہ یہ انسانی مزاج کے اتارچڑھاؤ اور اخلاط کی کمی بیشی کا نتیجہ ہوتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ جس انسان کا مزاج بلغمی ہوتا ہے وہ بعض اوقات خود کو خواب میں دیکھتا ہے کہ وہ پانی میں تیررہا ہے اور جس پر صفراء کا غلبہ ہو وہ اکثر اوقات خود کو آگ میں دیکھتا ہے یا فضاء میں اڑتا ہے۔لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا موقف ہے کہ خواب کی حقیقت صرف اتنی ہی نہیں بلکہ انبیائے کرام علیہ السلام کے خواب وحی کا نتیجہ ہوتے ہیں اورنیک لوگوں کے خواب سچے اور صحیح ہوتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ بعض اوقات مسلمانوں کو بھی انبیائے کرام علیہ السلام کے خواب وحی ہونے میں تردد ہوا جیسا کہ صلح حدیبیہ سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب دکھایا گیا تھا کہ آپ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار مسجد حرام میں احرام باندھ کر داخل ہورہے ہیں۔لیکن مقام حدیبیہ پہنچ کر جو صورت حال سامنے آئی اس سے خواب کے سلسلے میں کچھ مسلمانوں کوتردد ہوا جس کا جواب آیات بالا میں دیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب وحی پر مبنی تھا اورفی الواقع سچا تھا اور وہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے تھا۔وہ مزاج کے اتار چڑھاؤ یا کسی ہیجانی کیفیت کا نتیجہ نہ تھا ،البتہ اس کے نتیجے میں کچھ دیر ہوسکتی ہے۔اس کی تعبیر کا فوراً ظاہر ہوناضروری نہیں۔بعض خوابوں کی تعبیر سالہا سال بعد ظاہر ہوتی ہے جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے بچپن میں ایک خواب دیکھا تھا جس کی تعبیر تقریباً ساٹھ سال بعد ظاہر ہوئی۔
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ انا فتحنا میں فرمایا کہ بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کا خواب سچ کر دکھا یا کہ ” یقینا تم مسجد حرام میں داخل ہو گے اگر اللہ نے چاہا امن کے ساتھ کچھ لوگ اپنے سر کے بالو کو منڈوائیں گے یا کچھ کتروائیں گے اور تمہیں کسی کا خوف نہ ہوگا ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو وہ بات معلوم تھی جو تمہیں معلوم نہیں ہے پھر اللہ نے سردست تم کو ایک فتح ( فتح خیبر) کرادی۔ “ تشریح : ہوا یہ تھا کہ آنحضرت ﷺ نے حدیبیہ میں یہ خواب دیکھا کہ مسلمان لوگ مکہ میں داخل ہوئے ہیں ‘ کوئی حلق کرارہا ہے ‘ کوئی قصر‘ جب کافروں نے آپ کو مکہ میں نہ جانے دیا اور قربانی کا جانور وہیں حدیبہ میں کاٹ دئیے گئے تو صحابہ نے کہا کہ آپ کا خواب برا بر نکلا‘ اس وقت یہ آیت اتری۔ مطلب یہ ہے کہ پیغمبر کا خواب ہمیشہ سچ ہوتا ہے ۔ جھوٹ نہیں ہو سکتا اب اگر نہیں تو آئندہ پورا ہوگا اور پروردگار کو اپنی مصلحت خوب معلوم ہے ۔ مکہ میں داخل ہونے سے پہلے مسلمانوں کو ایک فتح کرادینا اس کو مناسب معلوم ہوا اور فتح یہی صلح حدیبیہ ہے یا فتح خیبر ۔ غرض صحابہ یہ سمجھے کہ ہر خواب کی تعبیر فوراً ظاہر ہونا ضروری ہے ‘ یہ ان کی غلطی تھی ۔ بعض خوابوں کی تعبیر سالہا سال کے بعد ظاہر ہوتی ہے جس طرح کہ حضرت یوسفؑ نے خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر ساٹھ سال بعد ظاہر ہوئی ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کسی نیک آدمی کا اچھا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہوتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود خواب کو حسنہ کہا ہے اور نیک لوگوں کے اچھے خوابوں کو نبوت کا چھیالسیواں حصہ قراردیا ہے،یعنی ضروری نہیں کہ ہر خواب مزاج کے اتارچڑھاؤ یا ذاتی رجحانات ہی کا نتیجہ ہو،اگرچہ ایک روایت میں مومن کے ہر خواب کے لیے یہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔ (صحیح البخاري، التعبیر، حدیث 6994) لیکن اس حدیث کے مطابق مومن کے اچھے خوابوں کو یہ مقام حاصل ہوتا ہے کہ وہ نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہوتے ہیں۔ 2۔یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ بعض اوقات مومن بھی پراگندہ خوابوں سے دوچار ہو جاتا ہے لیکن ایسا کبھی کبھار ہوتا ہے کیونکہ مومن کے متعلق شیطان کی دخل اندازی بہت کم ہوتی ہے، اچھے خواب کے متعلق نبوت کے چھیالیسواں حصے کی تشریح ہم آئندہ کریں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالٰی ہے: ”بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کا خواب سچا کردکھایا،ایک حقیقت تھی کہ تم ان شاء اللہ مسجد حرام میں امن کے ساتھ داخل ہوگے۔ ۔ ایک قریبی فتح تمہیں عطا فرمادی۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا‘ ان سے اسحاق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت انس بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی نیک آدمی کا اچھا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔
حدیث حاشیہ:
ان چھیالیس حصوں کا علم اللہ ہی کو ہے ممکن ہے اللہ نے اپنے رسول پاک کو بھی ان سے آگاہ فرما دیا ہو ان حصوں کی تعداد کے بارے میں مختلف روایات ہیں جن سے زیادہ سے زیادہ نیک خواب کی فضیلت مراد ہے ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "A good dream (that comes true) of a righteous man is one of forty-six parts of prophetism."