باب : نبی کریم ﷺ کا فرمانا کہ میرے بعد تم بعض کام دیکھو گے جو تم کو برے لگیں گے
)
Sahi-Bukhari:
Afflictions and the End of the World
(Chapter: “After me you will see things which you will disapprove of.”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عبداللہ بن زید بن عامر نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ( انصار سے) یہ بھی فرمایا کہ تم ان کاموں پر صبر کرنا یہاں تک کہ تم حوض کوثر پر آکھ مجھ سے ملو۔ کچھ باتیں اپنی مرضی کے خلاف دیکھو گے ان پر صبر کرنا اور امت میں اتفاق کو قائم رکھنا۔
7056.
انہوں نے مزید کہا: آپ ﷺ ہم سے جن باتوں کا عہد لیا تھا وہ یہ تھیں کہ ہم خوشی وناگواری، تنگی و کشادگی اور اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دینے کی صورت میں بھی اپنے امیر کی بات سنیں گے اور اس کی اطاعت کریں گے اور حکمرانوں کے ساتھ حکومتی معاملات میں کوئی جھگڑا نہیں کریں گے: ”الا یہ کہ تم انہیں اعلانیہ کفر کرتے دیکھو اور تمہارے پاس اس کے متعلق کوئی واضح دلیل ہو۔“
تشریح:
1۔ان احادیث کا فتنوں کے ساتھ اس طرح تعلق ہے کہ جو آدمی کسی ملک کا باضابطہ شہری ہے تو اس پر ملک کے قانون کا احترام کرنا اور باتوں میں حکمرانوں کا کہا ماننا ضروری ہے۔ اگر وہ دیکھتا ہے کہ اسے حقوق نہیں دیے جا رہے یا حکمران غلط رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں تو اسے یہ اجازت ہے کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لیے بغیر احتجاج کرے لیکن یہ احتجاج سول نافرمانی کی شکل میں نہیں ہونا چاہیےاور نہ دھرنا دینے اور توڑ پھوڑ کرنے ہی کی اجازت ہے۔ اسی طرح احتجاج کے طور پر خود کش حملے کرنا بھی ناجائز ہے۔ اس سے ملک میں بدامنی ، بے چینی انار کی اور فساد پھیلتا ہے۔ یہ بہت بڑا فتنہ ہے جس کی اسلام قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ 2۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے بعد ایسے حکمران ہوں گے جن کے انسانی اجسام میں شیطانی دل ہوں گے وہ میرے طریقے کی کوئی پروا نہیں کریں گے۔‘‘ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ایسے حالات میں ہمارے لیے کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ایسے حکمرانوں کی بات سنی جائے اور ان کی اطاعت کی جائے اگرچہ وہ تمھارا مال کھا جائیں اور تمھاری پیٹھ پر ماریں۔‘‘ (صحیح مسلم، الإمارة، حدیث:4785(1847) 3۔ایسے حکمران کو اگر بغیر فتنہ و فساد کے معزول کرنا ممکن ہو تو اس کا معزول کرنا ضروری ہے بصورت دیگر صبر کیا جائے۔ ایسے حالات میں خواہ مخواہ حکومت سے ٹکر لینا درست نہیں اور نہ جیل بھرو تحریک ہی شروع کرنی چاہیے۔ 4۔بہرحال ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ حکمت بھرے انداز میں ڈنکے کی چوٹ کلمہ حق کہتا رہے۔ ایسے غلط کار حکمرانوں کے متعلق دل میں نفرت کے جذبات رکھے اور اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی دعا کرتا رہے۔ مسلح اقدام سے ہر صورت میں گریز کیا جائے۔ اس قسم کی تحریکات سے فائدے کے بجائے نقصان زیادہ ہوتا ہےاس قسم کے پرفتن دور میں بڑی دور اندیشی سے کام لینا چاہیے، جذبات میں آ کر کوئی ایسا کام نہ کیا جائے۔ جس سے اسلام یا اہل اسلام کو نقصان پہنچے۔ واللہ أعلم۔
حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا:"تم لوگوں نے اپنی حق تلفی پر صبر کرنا ہے حتی کہ تم حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کرو۔"(صحیح البخاری المغازی حدیث 4330) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وضاحت فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح تلقین کے باوجود ان حضرات نے صبر سے کام نہ لیا۔(صحیح البخاری المغازی حدیث 4330)
اور عبداللہ بن زید بن عامر نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ( انصار سے) یہ بھی فرمایا کہ تم ان کاموں پر صبر کرنا یہاں تک کہ تم حوض کوثر پر آکھ مجھ سے ملو۔ کچھ باتیں اپنی مرضی کے خلاف دیکھو گے ان پر صبر کرنا اور امت میں اتفاق کو قائم رکھنا۔
حدیث ترجمہ:
انہوں نے مزید کہا: آپ ﷺ ہم سے جن باتوں کا عہد لیا تھا وہ یہ تھیں کہ ہم خوشی وناگواری، تنگی و کشادگی اور اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دینے کی صورت میں بھی اپنے امیر کی بات سنیں گے اور اس کی اطاعت کریں گے اور حکمرانوں کے ساتھ حکومتی معاملات میں کوئی جھگڑا نہیں کریں گے: ”الا یہ کہ تم انہیں اعلانیہ کفر کرتے دیکھو اور تمہارے پاس اس کے متعلق کوئی واضح دلیل ہو۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ان احادیث کا فتنوں کے ساتھ اس طرح تعلق ہے کہ جو آدمی کسی ملک کا باضابطہ شہری ہے تو اس پر ملک کے قانون کا احترام کرنا اور باتوں میں حکمرانوں کا کہا ماننا ضروری ہے۔ اگر وہ دیکھتا ہے کہ اسے حقوق نہیں دیے جا رہے یا حکمران غلط رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں تو اسے یہ اجازت ہے کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لیے بغیر احتجاج کرے لیکن یہ احتجاج سول نافرمانی کی شکل میں نہیں ہونا چاہیےاور نہ دھرنا دینے اور توڑ پھوڑ کرنے ہی کی اجازت ہے۔ اسی طرح احتجاج کے طور پر خود کش حملے کرنا بھی ناجائز ہے۔ اس سے ملک میں بدامنی ، بے چینی انار کی اور فساد پھیلتا ہے۔ یہ بہت بڑا فتنہ ہے جس کی اسلام قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ 2۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے بعد ایسے حکمران ہوں گے جن کے انسانی اجسام میں شیطانی دل ہوں گے وہ میرے طریقے کی کوئی پروا نہیں کریں گے۔‘‘ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ایسے حالات میں ہمارے لیے کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ایسے حکمرانوں کی بات سنی جائے اور ان کی اطاعت کی جائے اگرچہ وہ تمھارا مال کھا جائیں اور تمھاری پیٹھ پر ماریں۔‘‘ (صحیح مسلم، الإمارة، حدیث:4785(1847) 3۔ایسے حکمران کو اگر بغیر فتنہ و فساد کے معزول کرنا ممکن ہو تو اس کا معزول کرنا ضروری ہے بصورت دیگر صبر کیا جائے۔ ایسے حالات میں خواہ مخواہ حکومت سے ٹکر لینا درست نہیں اور نہ جیل بھرو تحریک ہی شروع کرنی چاہیے۔ 4۔بہرحال ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ حکمت بھرے انداز میں ڈنکے کی چوٹ کلمہ حق کہتا رہے۔ ایسے غلط کار حکمرانوں کے متعلق دل میں نفرت کے جذبات رکھے اور اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی دعا کرتا رہے۔ مسلح اقدام سے ہر صورت میں گریز کیا جائے۔ اس قسم کی تحریکات سے فائدے کے بجائے نقصان زیادہ ہوتا ہےاس قسم کے پرفتن دور میں بڑی دور اندیشی سے کام لینا چاہیے، جذبات میں آ کر کوئی ایسا کام نہ کیا جائے۔ جس سے اسلام یا اہل اسلام کو نقصان پہنچے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عبداللہ بن زید ؓ نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”(تم ان کاموں پر) صبر کرو حتیٰ کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کرو۔“
حدیث ترجمہ:
انہوں نے بیان کیا کہ جن باتوں کا آنحضرت ﷺ نے ہم سے عہد لیا تھا ان میں یہ بھی تھا کہ خوشی و ناگواری، تنگی اور کشادگی اور اپنی حق تلفی میں بھی اطاعت و فرمانبرداری کریں اور یہ بھی کہ حکمرانوں کے ساتھ حکومت کے بارے میں اس وقت تک جھگڑا نہ کریں جب تک ان کو اعلانیہ کفر کرتے نہ دیکھ لیں۔ اگر وہ اعلانیہ کفر کریں تو تم کو اللہ کے پاس دلیل مل جائے گی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Junada bin Abi Umaiya (RA) : We entered upon ' 'Ubadah bin As-Samit (RA) while he was sick. We said, "May Allah make you healthy. Will you tell us a Hadith you heard from the Prophet (ﷺ) and by which Allah may make you benefit?" He said, "The Prophet (ﷺ) called us and we gave him the Pledge of allegiance for Islam, and among the conditions on which he took the Pledge from us, was that we were to listen and obey (the orders) both at the time when we were active and at the time when we were tired, and at our difficult time and at our ease and to be obedient to the ruler and give him his right even if he did not give us our right, and not to fight against him unless we noticed him having open Kufr (disbelief) for which we would have a proof with us from Allah."