باب:نبی کریم ﷺ کا یہ فرمایا کہ میری امت کی تباہی چند بے وقوف لڑکوں کی حکومت سے ہوگی
)
Sahi-Bukhari:
Afflictions and the End of the World
(Chapter: “The destruction of my followers will be through the hands of foolish young men.”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7058.
حضرت عمرو بن یحییٰ بن سعید سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے میرے دادا نے بتایا کہ میں مدینہ طیبہ میں نبی ﷺ کی مسجد میں حضرت ابو ہریرہ ؓ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور ہمارے ساتھ مروان بھی تھا۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہا: میں نے صادق ومصدوق ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”میری امت کی تباہی قریش کے چند چھوکروں کے ہاتھوں سے ہوگی۔“ مروان نے کہا: ان پر اللہ کی لعنت ہو۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہا: اگر میں ان کے خاندان سمیت ان کے نام بتانا چاہوں تو ان کی نشاندہی کر سکتا ہوں۔ پھر جب بنو مروان شام کی حکومت پر قابض ہو گئے تو میں اپنےدادا کے ہمراہ ان کی طرف جاتا تھا، انہوں نے جب وہاں ان کے چھوکروں کو دیکھا تو کہا: شاید یہ انھی میں سے ہوں۔ ہم نے کہا: ان کے متعلق تو آپ ہی بہتر جانتے ہیں۔
تشریح:
1۔حکومتی معاملات چلانے کے لیے جہاں وسیع تجربے،عقل وبصیرت اور وسیع علم کی ضرورت ہے وہاں بردباری اور بڑے حوصلے کی بھی ضرورت ہے۔ لیکن جب کم عقل ،جاہل،ناتجربہ کاراور جذباتی قسم کے کھلنڈرے حکومت پر قابض ہوجائیں تو وہاں تباہی یقینی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی امر کی نشاندہی کی ہے کہ میری اُمت کی ہلاکت قریش کے بے وقوف چھوکروں کے ہاتھوں سے ہوگی جیسا کہ ایک روایت میں اس کی وضاحت ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" میری اُمت کی تباہی قریش کے بےوقوف کم عقل چھوکروں کے ہاتھوں سے ہوگی۔" (مسند أحمد:45/2) 2۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس سے مراد حکمرانوں کا جسمانی طور پر نابالغ ہونا نہیں بلکہ عقلی طور پر ناپختہ کار، دینی اعتبار سے نااہل اور حکومت کے لحاظ سے نالائق لوگ مراد ہیں جیسا کہ امت سے مراد اس وقت کے لوگ یا اس کے قرب وجوار کے لوگ ہیں، نیز ہلاکت سے مراد بھی اخلاقی بربادی ہے۔ (فتح الباري: 13/13) ابن بطال نے کہا ہے کہ ہلاکت کی وضاحت ایک دوسری حدیث میں ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں بچوں کی حکومت سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ لوگوں نے کہا: اس سے کیا مراد ہے؟ انھوں نے کہا کہ اگر تم ان کا کہا مانو گے تو تمہارے دین کی تباہی اور اگر تم ان کی نافرمانی کرو گے تو وہ تمھیں تباہ کر دیں گے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقصد یہ تھا کہ ایسے حالات میں بغاوت کرنا جائز نہیں کیونکہ یہ تباہی کا راستہ ہے، البتہ کلمہ حق کہنے میں کوتاہی نہ کی جائے۔ (سلسلة الأحادیث الصحیحة، رقم: 3191 والمصنف لابن أبي شیبة: 49/5، رقم: 19082 وفتح الباري: 14/13)
حضرت عمرو بن یحییٰ بن سعید سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے میرے دادا نے بتایا کہ میں مدینہ طیبہ میں نبی ﷺ کی مسجد میں حضرت ابو ہریرہ ؓ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور ہمارے ساتھ مروان بھی تھا۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہا: میں نے صادق ومصدوق ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”میری امت کی تباہی قریش کے چند چھوکروں کے ہاتھوں سے ہوگی۔“ مروان نے کہا: ان پر اللہ کی لعنت ہو۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہا: اگر میں ان کے خاندان سمیت ان کے نام بتانا چاہوں تو ان کی نشاندہی کر سکتا ہوں۔ پھر جب بنو مروان شام کی حکومت پر قابض ہو گئے تو میں اپنےدادا کے ہمراہ ان کی طرف جاتا تھا، انہوں نے جب وہاں ان کے چھوکروں کو دیکھا تو کہا: شاید یہ انھی میں سے ہوں۔ ہم نے کہا: ان کے متعلق تو آپ ہی بہتر جانتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔حکومتی معاملات چلانے کے لیے جہاں وسیع تجربے،عقل وبصیرت اور وسیع علم کی ضرورت ہے وہاں بردباری اور بڑے حوصلے کی بھی ضرورت ہے۔ لیکن جب کم عقل ،جاہل،ناتجربہ کاراور جذباتی قسم کے کھلنڈرے حکومت پر قابض ہوجائیں تو وہاں تباہی یقینی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی امر کی نشاندہی کی ہے کہ میری اُمت کی ہلاکت قریش کے بے وقوف چھوکروں کے ہاتھوں سے ہوگی جیسا کہ ایک روایت میں اس کی وضاحت ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" میری اُمت کی تباہی قریش کے بےوقوف کم عقل چھوکروں کے ہاتھوں سے ہوگی۔" (مسند أحمد:45/2) 2۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس سے مراد حکمرانوں کا جسمانی طور پر نابالغ ہونا نہیں بلکہ عقلی طور پر ناپختہ کار، دینی اعتبار سے نااہل اور حکومت کے لحاظ سے نالائق لوگ مراد ہیں جیسا کہ امت سے مراد اس وقت کے لوگ یا اس کے قرب وجوار کے لوگ ہیں، نیز ہلاکت سے مراد بھی اخلاقی بربادی ہے۔ (فتح الباري: 13/13) ابن بطال نے کہا ہے کہ ہلاکت کی وضاحت ایک دوسری حدیث میں ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں بچوں کی حکومت سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ لوگوں نے کہا: اس سے کیا مراد ہے؟ انھوں نے کہا کہ اگر تم ان کا کہا مانو گے تو تمہارے دین کی تباہی اور اگر تم ان کی نافرمانی کرو گے تو وہ تمھیں تباہ کر دیں گے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقصد یہ تھا کہ ایسے حالات میں بغاوت کرنا جائز نہیں کیونکہ یہ تباہی کا راستہ ہے، البتہ کلمہ حق کہنے میں کوتاہی نہ کی جائے۔ (سلسلة الأحادیث الصحیحة، رقم: 3191 والمصنف لابن أبي شیبة: 49/5، رقم: 19082 وفتح الباري: 14/13)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عمرو بن یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے میرے دادا سعید نے خبر دی، کہا کہ میں ابوہریرہ ؓ کے پاس مدینہ منورہ میں نبی کریم ﷺ کی مسجد میں بیٹھا تھا اور ہمارے ساتھ مروان بھی تھا۔ ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ میں نے صادق و مصدوق سے سنا ہے آپ نے فرمایا کہ میری امت کی تباہی قریش کے چند چھوکروں کے ہاتھ سے ہوگی۔ مروان نے اس پر کہا ان پر اللہ کی لعنت ہو۔ ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ اگر میں ان کے خاندان کے نام لے کر بتلانا چاہوں تو بتلا سکتا ہوں۔ پھر جب بنی مروان شام کی حکومت پر قابض ہو گئے تو میں اپنے دادا کے ساتھ ان کی طرف جاتا تھا۔ جب وہاں انہوں نے نوجوان لڑکوں کو دیکھا تو کہا کہ شاید یہ انہی میں سے ہوں۔ ہم نے کہا کہ آپ کو زیادہ علم ہے۔
حدیث حاشیہ:
انہوں نے نام بنام ظالم حاکموں کے نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے تھے مگر ڈر کی وجہ سے بیان نہیں کر سکتے تھے۔ قسطلانی نے کہا اس بلا سے مراد وہ اختلاف ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اخیر خلافت میں ہوا یا وہ جنگ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ میں ہوئی۔ ابن ابی شیبہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً نکالا ہے کہ میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں چھوکروں کی حکومت سے۔ اگر تم ان کا کہنا مانو تو دین کی تباہی ہے اور اگر نہ مانو تو وہ تم کو تباہ کر دیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : I heard the truthful and trusted by Allah (i.e., the Prophet) saying, "The destruction of my followers will be through the hands of young men from Quraish."