باب:جب دو مسلمان اپنی تلواریں لے کر ایک دوسرے سے بھڑ جائیں تو ان کے لیے کیا حکم ہے ؟
)
Sahi-Bukhari:
Afflictions and the End of the World
(Chapter: If two Muslims meet each other with their swords)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7083.
حسن بصری سے روایت ہے انہوں نے (احنف بن قیس سے بیان کیا انہوں نے) کہا: میں فسادات کے زمانے میں اپنے ہتھیار لے کر نکلا تو راستے میں حضرت ابو بکرہ ؓ سے ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے پوچھا: کہاں جانے کا ارادہ ہے؟ میں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد(حضرت علی ؓ) کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب وہ مسلمان اپنی تلواریں لے کر ایک دوسرے سے بھڑ جائیں تو دونوں دوزخی ہیں۔ کہا گیا یہ تو قاتل تھا لیکن مقتول کا قصور ہے؟آپ نے فرمایا: ”اس نے بھی تو اپنے مقابل کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا۔“
تشریح:
1۔فسادات کے زمانے سے مراد جنگ جمل اور جنگ صفین کا زمانہ ہے۔ جب وہ مسلمان تلواریں لے کر ایک دوسرے کے مقابلے میں آ جائیں تو دونوں اجتہاد تاویل میں خطا کار ہوں گے یا ان میں سے ایک برحق اور دوسرا خطا کار ہوگا۔ ان میں تیسری صورت نہیں ہے کہ دونوں برحق ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک حق ایک ہے۔ 2۔پہلی صورت میں اگردونوں کے متعلق اصلاح کی امید ہوتو ان کی اصلاح کرنا ضروری ہے اور اگر اصلاح کی امید نہ ہو تو دونوں سے علیحدگی اختیار کرلی جائے۔ اپنی تلواروں کو توڑ کر گھر میں رہنا چاہیے۔ لڑائی کا حصہ بالکل ہی نہیں بننا چاہیے۔ 3۔دوسری صورت میں جبکہ ایک غلط اور دوسرا صحیح ہو تو صحیح موقف والے کی موافقت کرنا ضروری ہے۔ 4۔یہاں ایک اور صورت بھی ممکن ہے کہ دونوں مجتہد نہ ہوں بلکہ دونوں ظالم ہوں اور خاندانی عصبیت یا ہوس ملک گیری کے لیے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہوں تو بھی کسی کا ساتھ نہیں دینا چاہیے۔ دونوں سے علیحدگی اختیار کر لی جائے لیکن صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کے باہمی جھگڑوں کے متعلق خاموشی اختیار کرنے میں عافیت ہے۔ ان کے متعلق زبان کھولنا کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ 5۔حدیث میں وہ دو مسلمان مراد ہیں جو ذاتی عناد مخالفت یا دشمنی کی بنا پر ایک دوسرے کو قتل کرنے پرآمادہ ہوں۔ اگرچہ قاتل ایک ہوگا لیکن مقتول بھی اس کے قتل کرنے کے متعلق حریص تھا اتفاق سے اس کا داؤ نہیں چلا، اس لیے وہ قتل ہوگیا، لہذا سزا کے دونوں حق دار ہوں گے، پھر ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہے اگر چاہے تو ان کو سزا دے اور چاہے تو انھیں معاف کر دے۔ لیکن مجتہدین کے متعلق یہ حکم نہیں ہوگا جس کی تفصیل پہلے بیان ہو چکی ہے۔ بعض حضرات نے حدیث کو اس معنی پر محمول کیا ہے کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے قتل کو حلال خیال کریں۔ (فتح الباري: 43/13) 6۔ایک دوسری حدیث سے اس کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! دنیا اس وقت تک ختم نہ ہوگی جب تک لوگوں پر یہ وقت نہ آئے کہ قاتل کو قتل کرنے کی وجہ معلوم نہ ہو اور مقتول کو اپنے قتل ہونے کا سبب معلوم نہ ہو۔‘‘ پوچھا گیا: ایسا کیونکر ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ’’جب قتل وغارت گری عام ہوگی۔ ایسے حالات میں قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہوں گے۔ واللہ أعلم۔(صحیح مسلم، الفتن، حدیث: 7304(2908)
حسن بصری سے روایت ہے انہوں نے (احنف بن قیس سے بیان کیا انہوں نے) کہا: میں فسادات کے زمانے میں اپنے ہتھیار لے کر نکلا تو راستے میں حضرت ابو بکرہ ؓ سے ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے پوچھا: کہاں جانے کا ارادہ ہے؟ میں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد(حضرت علی ؓ) کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب وہ مسلمان اپنی تلواریں لے کر ایک دوسرے سے بھڑ جائیں تو دونوں دوزخی ہیں۔ کہا گیا یہ تو قاتل تھا لیکن مقتول کا قصور ہے؟آپ نے فرمایا: ”اس نے بھی تو اپنے مقابل کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا۔“
حدیث حاشیہ:
1۔فسادات کے زمانے سے مراد جنگ جمل اور جنگ صفین کا زمانہ ہے۔ جب وہ مسلمان تلواریں لے کر ایک دوسرے کے مقابلے میں آ جائیں تو دونوں اجتہاد تاویل میں خطا کار ہوں گے یا ان میں سے ایک برحق اور دوسرا خطا کار ہوگا۔ ان میں تیسری صورت نہیں ہے کہ دونوں برحق ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک حق ایک ہے۔ 2۔پہلی صورت میں اگردونوں کے متعلق اصلاح کی امید ہوتو ان کی اصلاح کرنا ضروری ہے اور اگر اصلاح کی امید نہ ہو تو دونوں سے علیحدگی اختیار کرلی جائے۔ اپنی تلواروں کو توڑ کر گھر میں رہنا چاہیے۔ لڑائی کا حصہ بالکل ہی نہیں بننا چاہیے۔ 3۔دوسری صورت میں جبکہ ایک غلط اور دوسرا صحیح ہو تو صحیح موقف والے کی موافقت کرنا ضروری ہے۔ 4۔یہاں ایک اور صورت بھی ممکن ہے کہ دونوں مجتہد نہ ہوں بلکہ دونوں ظالم ہوں اور خاندانی عصبیت یا ہوس ملک گیری کے لیے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہوں تو بھی کسی کا ساتھ نہیں دینا چاہیے۔ دونوں سے علیحدگی اختیار کر لی جائے لیکن صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کے باہمی جھگڑوں کے متعلق خاموشی اختیار کرنے میں عافیت ہے۔ ان کے متعلق زبان کھولنا کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ 5۔حدیث میں وہ دو مسلمان مراد ہیں جو ذاتی عناد مخالفت یا دشمنی کی بنا پر ایک دوسرے کو قتل کرنے پرآمادہ ہوں۔ اگرچہ قاتل ایک ہوگا لیکن مقتول بھی اس کے قتل کرنے کے متعلق حریص تھا اتفاق سے اس کا داؤ نہیں چلا، اس لیے وہ قتل ہوگیا، لہذا سزا کے دونوں حق دار ہوں گے، پھر ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہے اگر چاہے تو ان کو سزا دے اور چاہے تو انھیں معاف کر دے۔ لیکن مجتہدین کے متعلق یہ حکم نہیں ہوگا جس کی تفصیل پہلے بیان ہو چکی ہے۔ بعض حضرات نے حدیث کو اس معنی پر محمول کیا ہے کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے قتل کو حلال خیال کریں۔ (فتح الباري: 43/13) 6۔ایک دوسری حدیث سے اس کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! دنیا اس وقت تک ختم نہ ہوگی جب تک لوگوں پر یہ وقت نہ آئے کہ قاتل کو قتل کرنے کی وجہ معلوم نہ ہو اور مقتول کو اپنے قتل ہونے کا سبب معلوم نہ ہو۔‘‘ پوچھا گیا: ایسا کیونکر ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ’’جب قتل وغارت گری عام ہوگی۔ ایسے حالات میں قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہوں گے۔ واللہ أعلم۔(صحیح مسلم، الفتن، حدیث: 7304(2908)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا‘ ان سے ایک شخص نے جس کا نام نہیں بتا یا‘ ان سے مام حسن بصری نے بیان کیا کہ میں ایک مرتبہ باہمی فسادات کے دنوں میں اپنے ہتھیار لگا کر نکلا تو ابو بکر ؓ سے راستے میں ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے پوچھا کہاں جانے کا ارادہ ہے؟ میں نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے چچا کے لڑکے کی (جنگ جمل وصفین میں) مدد کرنی چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا لوٹ جاؤ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب دو مسلمان اپنی تلواروں کو لے کر آمنے سامنے مقابلہ پر آجائیں تو دونوں دوزخی ہیں۔ پوچھا گیا یہ تو قاتل تھا‘ مقتول نے کیا کیا (کہ وہ بھی ناری ہو گیا) فرمایا کہ وہ بھی اپنے مقابل کو قتل کرنے کا ارادہ کئے ہوئے تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Hasan (RA) : (Al-Ahnaf said:) I went out carrying my arms during the nights of the affliction (i.e. the war between 'Ali and 'Aisha (RA)) and Abu Bakra (RA) met me and asked, "Where are you going?" I replied, "I intend to help the cousin of Allah's Apostle (ﷺ) (i.e.,'Ali)." Abu Bakra (RA) said, "Allah's Apostle (ﷺ) said, 'If two Muslims take out their swords to fight each other, then both of them will be from amongst the people of the Hell-Fire.' It was said to the Prophet, 'It is alright for the killer but what about the killed one?' He replied, 'The killed one had the intention to kill his opponent.'" (See Hadith No. 30, Vol. 1).