باب:اس فتنے کا بیان جو فتنہ سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مارکر اٹھے گا
)
Sahi-Bukhari:
Afflictions and the End of the World
(Chapter: Al-Fitnah that will move like the waves of the sea)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ابن عیینہ نے خلف بن حوشب سے بیان کیا کہ سلف فتنہ کے وقت ان اشعار سے مثال دینا پسند کرتے تھے۔ جن میں امراءالقیس نے کہا ہے۔ ابتدا میں اک جواں عورت کی صورت ہے یہ جنگ دیکھ کر ناداں اسے ہوتے ہیں عاشق اور دنگ جبکہ بھڑکے شعلے اس کے پھیل جائیں ہر طرف تب وہ ہو جاتی ہے بوڑھی اور بدل جاتی ہے رنگ ایسی بد صورت کو رکھے کون چونڈا ہے سفید سونگھنے اور چومنے سے اس کے سب ہوتے ہیں تنگ امراءالقیس کے اشعار کا مندرجہ بالا منظوم ترجمہ مولانا وحید الزماں نے کیا ہے۔ جبکہ نثر میں ترجمہ اس طرح ہے۔ ” اول مرحلہ پر جنگ ایک نوجوان لڑکی معلوم ہوتی ہے جو ہر نادان کے بہکانے کے لیے اپنی زیب و زینت کے ساتھ دوڑتی ہے۔ یہاں تک کہ جب لڑائی بھڑک اٹھتی ہے اور اس کے شعلے بلند ہونے لگتے ہیں تو ایک رانڈ بیوہ بڑھیا کی طرح پیٹھ پھیر لیتی ہے، جس کے بالوں میں سیاہی کے ساتھ سفیدی کی ملاوٹ ہوگئی ہو اور اس کے رنگ کو ناپسند کیا جاتا ہو اور وہ اس طرح بدل گئی ہو کہ اس سے بوس و کنار کو ناپسند کیا جاتا ہو “
7098.
حضرت ابو وائل سے روایت ہے انہوں نے کہا: حضرت اسامہ ؓ سے کہا گیا: آپ حضرت عثمان ؓ سے گفتگو کیوں نہیں کرتے؟ انہوں نے فرمایا: میں نے کسی فتنے کا دروازہ کھولے بغیر ان سے گفتگو کی ہے۔ میں ایسا آدمی نہیں ہوں کہ سب سے پہلے کسی فتنے کا دروازہ کھولنے والا بنوں۔ میں کسی کی اس حد تک خوشامد نہیں کرتا کہ اگر اسے دو آدمیوں پر امیر بنا دیا جائے تو اسے کہوں: تو سب سے بہتر ہے جبکہ میں نےرسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: ”قیامت کے دن ایک شخص کو لاکر اسے آگ میں ڈال دیا جائے گا، پھر وہ اس میں گدھے کی طرح چکی پیسے گا یعنی وہ اپنی انتڑیوں کے گرد چکر لگائے گا۔ اہل جہنم اس کے گرد جمع ہو کر پوچھیں گے: اے فلاں! کیا تو امربالمعروف اور نہی عن المنکر نہیں کیا کرتا تھا؟ وہ کہے گا: میں اچھی بات کے لیے لوگوں کو ضرور کہتا تھا لیکن اس پر خود عمل نہیں کرتا تھا اور بری بات سے لوگوں کو منع کرتا تھا لیکن خود اس کا مرتکب ہوتا تھا۔“
تشریح:
1۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مادری بھائی ولید بن عقبہ نے شراب نوشی کی تو آپ نے تحقیق مکمل ہونے تک اس پر حد لگانے سے سکوت کیا۔ اس تاخیر میں لوگوں کے اندر شکوک وشبہات نے جنم لیا۔ سازشی گروہ نے اس بات کو بہت اچھالا، چنانچہ کسی نے حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ لوگوں میں ولید بن عقبہ کی شراب نوشی کا بہت چرچا ہو رہا ہے۔ آپ اس سلسلے میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے گفتگو کیوں نہیں کرتے؟ آپ نے فرمایا: تم میرے متعلق یہ گمان نہ کرو کہ میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اچھی بات کہنے میں سستی یا مداہنت سے کام لیتا ہوں اور نہ میں خوشامدی ہی ہوں کہ ان کے حاکم ہونے کی وجہ سے ان کی بے جا تعریف کروں، میں نے ان سے مصلحت، ادب واحترام اوررازداری کے طور پر بات کی ہے،میں نہیں چاہتا کہ سرعام ان سے گفتگو کروں جس سے فتنے کی آگ مزید بھڑک اٹھے اور سب سے بڑھ کر میں فتنہ اٹھانے والا بن جاؤں۔میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ امر بالمعروف میں کوتاہی کر کے اس شخص جیسا بن جاؤں جس کا ذکر حدیث میں بیان ہواہے۔ 2۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قابل تعریف رواداری اور قابل مذمت مداہنت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اچھی رواداری کا ضابطہ یہ ہے کہ اس میں دین کا کوئی پہلو مجروح نہ ہوتا ہو اور مداہنت یہ ہے کہ اس میں کسی بُری بات کی پردہ پوشی کی جائے اور باطل کو سہارا دیا جائے۔ (فتح الباري: 67/13)
مندرجہ بالا منظوم ترجمہ مولانا وحید الزمان نے کیاہے جبکہ نثر میں ترجمہ حسب ذیل ہے:اول مرحلے میں جنگ ایک نوجوان لڑکی معلوم ہوتی ہے جو ہرنادان کو بہکانے کے لیے اپنی زیب وزینت کے ساتھ دوڑتی ہے۔جب لڑائی بھڑک اٹھتی ہے اور اس کے شعلے بلند ہونے لگتے ہیں تو بیوہ بڑھیا کی طرح پیٹھ پھیر لیتی ہے۔جس کے بالوں میں سیاہی کے ساتھ سفیدی کی ملاوٹ ہو،پھر اس کے رنگ کو ناپسند کیاجاتاہے اور وہ اس طرح بدل گئی ہو کہ اس کے ساتھ بوس وکنار وک مکروہ خیال کیا جاتا ہے،یعنی آغاز میں فتنہ ہر ایک کا دل لبھاتا ہے اور انجام کے اعتبار سے ہر ایک بُرا لگتا ہے۔
ابن عیینہ نے خلف بن حوشب سے بیان کیا کہ سلف فتنہ کے وقت ان اشعار سے مثال دینا پسند کرتے تھے۔ جن میں امراءالقیس نے کہا ہے۔ ابتدا میں اک جواں عورت کی صورت ہے یہ جنگ دیکھ کر ناداں اسے ہوتے ہیں عاشق اور دنگ جبکہ بھڑکے شعلے اس کے پھیل جائیں ہر طرف تب وہ ہو جاتی ہے بوڑھی اور بدل جاتی ہے رنگ ایسی بد صورت کو رکھے کون چونڈا ہے سفید سونگھنے اور چومنے سے اس کے سب ہوتے ہیں تنگ امراءالقیس کے اشعار کا مندرجہ بالا منظوم ترجمہ مولانا وحید الزماں نے کیا ہے۔ جبکہ نثر میں ترجمہ اس طرح ہے۔ ” اول مرحلہ پر جنگ ایک نوجوان لڑکی معلوم ہوتی ہے جو ہر نادان کے بہکانے کے لیے اپنی زیب و زینت کے ساتھ دوڑتی ہے۔ یہاں تک کہ جب لڑائی بھڑک اٹھتی ہے اور اس کے شعلے بلند ہونے لگتے ہیں تو ایک رانڈ بیوہ بڑھیا کی طرح پیٹھ پھیر لیتی ہے، جس کے بالوں میں سیاہی کے ساتھ سفیدی کی ملاوٹ ہوگئی ہو اور اس کے رنگ کو ناپسند کیا جاتا ہو اور وہ اس طرح بدل گئی ہو کہ اس سے بوس و کنار کو ناپسند کیا جاتا ہو “
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو وائل سے روایت ہے انہوں نے کہا: حضرت اسامہ ؓ سے کہا گیا: آپ حضرت عثمان ؓ سے گفتگو کیوں نہیں کرتے؟ انہوں نے فرمایا: میں نے کسی فتنے کا دروازہ کھولے بغیر ان سے گفتگو کی ہے۔ میں ایسا آدمی نہیں ہوں کہ سب سے پہلے کسی فتنے کا دروازہ کھولنے والا بنوں۔ میں کسی کی اس حد تک خوشامد نہیں کرتا کہ اگر اسے دو آدمیوں پر امیر بنا دیا جائے تو اسے کہوں: تو سب سے بہتر ہے جبکہ میں نےرسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: ”قیامت کے دن ایک شخص کو لاکر اسے آگ میں ڈال دیا جائے گا، پھر وہ اس میں گدھے کی طرح چکی پیسے گا یعنی وہ اپنی انتڑیوں کے گرد چکر لگائے گا۔ اہل جہنم اس کے گرد جمع ہو کر پوچھیں گے: اے فلاں! کیا تو امربالمعروف اور نہی عن المنکر نہیں کیا کرتا تھا؟ وہ کہے گا: میں اچھی بات کے لیے لوگوں کو ضرور کہتا تھا لیکن اس پر خود عمل نہیں کرتا تھا اور بری بات سے لوگوں کو منع کرتا تھا لیکن خود اس کا مرتکب ہوتا تھا۔“
حدیث حاشیہ:
1۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مادری بھائی ولید بن عقبہ نے شراب نوشی کی تو آپ نے تحقیق مکمل ہونے تک اس پر حد لگانے سے سکوت کیا۔ اس تاخیر میں لوگوں کے اندر شکوک وشبہات نے جنم لیا۔ سازشی گروہ نے اس بات کو بہت اچھالا، چنانچہ کسی نے حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ لوگوں میں ولید بن عقبہ کی شراب نوشی کا بہت چرچا ہو رہا ہے۔ آپ اس سلسلے میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے گفتگو کیوں نہیں کرتے؟ آپ نے فرمایا: تم میرے متعلق یہ گمان نہ کرو کہ میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اچھی بات کہنے میں سستی یا مداہنت سے کام لیتا ہوں اور نہ میں خوشامدی ہی ہوں کہ ان کے حاکم ہونے کی وجہ سے ان کی بے جا تعریف کروں، میں نے ان سے مصلحت، ادب واحترام اوررازداری کے طور پر بات کی ہے،میں نہیں چاہتا کہ سرعام ان سے گفتگو کروں جس سے فتنے کی آگ مزید بھڑک اٹھے اور سب سے بڑھ کر میں فتنہ اٹھانے والا بن جاؤں۔میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ امر بالمعروف میں کوتاہی کر کے اس شخص جیسا بن جاؤں جس کا ذکر حدیث میں بیان ہواہے۔ 2۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قابل تعریف رواداری اور قابل مذمت مداہنت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اچھی رواداری کا ضابطہ یہ ہے کہ اس میں دین کا کوئی پہلو مجروح نہ ہوتا ہو اور مداہنت یہ ہے کہ اس میں کسی بُری بات کی پردہ پوشی کی جائے اور باطل کو سہارا دیا جائے۔ (فتح الباري: 67/13)
ترجمۃ الباب:
سفیان بن عیینہ نے خلف بن حوشب سے بیان کیا کہ سلف فتنے کے زمانے میں درج زیل اشعار کی مثال دینا پسند کرتے تھے جنہیں امراء القیس نے کہا ہے: ابتداء میں ایک جواں عورت کی صورت ہے یہ جنگ دیکھ کر ناداں اسے ہوتے ہیں عاشق اور دنگ جبکہ بھڑ کے شعلے اس کے پھیل جائیں پر طرف تب وہ ہوجاتی ہے بوڑھی اور بدل جاتی ہے رنگ ایسی بد صورت کو رکھے کون چونڈا ہے سفید سونگھنے اور چومنے سے اس کے سب ہوتے ہیں تنگ۔وضاحت: مندرجہ بالا منظوم ترجمہ مولانا وحید الزمان نے کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے بشر بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم کو جعفر نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں سلیمان نے کہ میں نے ابووائل سے سنا، انہوں نے کہا کہ اسامہ ؓ سے کہا گیا کہ آپ (عثمان بن عفان ؓ ) سے گفتگو کیوں نہیں کرتے (کہ عام مسلمانوں کی شکایات کا خیال رکھیں) انہوں نے کہا کہ میں نے (خلوت میں) ان سے گفتگو کی ہے لیکن (فتنہ کے) دروازہ کو کھولے بغیر کہ اس طرح میں سب سے پہلے اس دروازہ کو کھولنے والا ہوں گا میں ایسا آدمی نہیں ہوں کہ کسی شخص سے جب وہ دو آدمیوں پر امیر بنا دیا جائے یہ کہوں کہ تو سب سے بہتر ہے۔ جبکہ میں رسول اللہ ﷺ سے سن چکا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ ایک شخص کو (قیامت کے دن) لایا جائے گا اور اسے آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر وہ اس میں اس طرح چکی پیسے گا جیسے گدھا پیستا ہے۔ پھر دوزخ کے لوگ اس کے چاروں طرف جمع ہو جائیں گے اور کہیں گے، اے فلاں! کیا تم نیکیوں کا حکم کرتے اور برائیوں سے روکا نہیں کرتے تھے؟ وہ شخص کہے گا کہ میں اچھی بات کے لیے کہتا تو ضرور تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا اور بری بات سے روکتا بھی تھا لیکن خود کرتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کا مطلب یہ تھا کہ میری نسبت تم لوگ یہ خیال نہ کرنا کہ میں عثمان رضی اللہ عنہ کو نیک بات سمجھانے میں مداہنت اور سستی کرتا ہوں اور عثمان رضی اللہ عنہ کی اس وجہ سے کہ وہ حاکم ہیں خواہ مخواہ خوشامد کے طور پر تعریف کرتا ہوں۔ بعضوں نے کہا مطلب یہ ہے کہ جو شخص دو آدمیوں پر بھی حاکم بنے میں اس کی تعریف کرنے والا نہیں، اس لیے کہ حکومت بڑے مؤاخذے کی چیز ہے۔ حاکم کو عدل اور انصاف اور رعایا کی پوری خبرگیری کا انتظام کرنا چاہئے تو حاکم شخص کے لیے یہی غنیمت ہے کہ حکومت کی وجہ سے اور مؤاخذہ میں گرفتار نہ ہو چہ جائے کہ بھلائی اور ثواب حاصل کرے۔ اسامہ رضی اللہ عنہ نے اس دوزخی آدمی سے یہ حدیث بیان کر کے لوگوں کو یہ سمجھایا کہ تم میری نسبت یہ گمان نہ کرنا کہ میں عثمان رضی اللہ عنہ کو نیک صلاح دینے میں کوتاہی کرتا ہوں کیا میں قیامت کے دن اپنا حال اس شخص کا سا کر لوں گا جو انتڑیوں کو اٹھائے ہوئے گدھے کی طرح گھومے گا یعنی اگر میں تم لوگوں کو یہ کہوں گا کہ بری بات دیکھنے پر منع کیا کرو اور جو کوئی برا کام کرے اس کو سمجھا کر ایسے کام سے باز رکھا کروں اور خود میں ایسا نہ کروں بلکہ برے کاموں کو دیکھ کر خاموش رہ جاؤں تو میرا حال اسی شخص کا سا ہونا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Wail (RA) : Someone said to Usama, "Will you not talk to this (Uthman)?" Usama said, "I talked to him (secretly) without being the first man to open an evil door. I will never tell a ruler who rules over two men or more that he is good after I heard Allah's Apostle (ﷺ) saying, 'A man will be brought and put in Hell (Fire) and he will circumambulate (go around and round) in Hell (Fire) like a donkey of a (flour) grinding mill, and all the people of Hell (Fire) will gather around him and will say to him, O so-and-so! Didn't you use to order others for good and forbid them from evil?' That man will say, 'I used to order others to do good but I myself never used to do it, and I used to forbid others from evil while I myself used to do evil.' "