باب : امام اور بادشاہ اسلام کی بات سننا اور ماننا واجب ہے جب تک وہ خلاف شرع اور گناہ کی بات کا حکم نہ دے
)
Sahi-Bukhari:
Judgments (Ahkaam)
(Chapter: To listen to and obey the Imam)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7143.
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس نے اپنے امیر میں کوئی ایسی چیز دیکھی جسے وہ پسند نہیں کرتا تو اسے چاہیے کہ صبر کرے کیونکہ اگر کوئی جماعت سے ایک بالشت بھی الگ ہوا تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔“
تشریح:
1۔جماعت سے الگ ہونے سے مراد ملکی وقومی اور دینی نظام کوتوڑ کر حاکم اسلام سے بغاوت کرنا ہے۔ایسا آدمی عہد جاہلیت کی سی خودسری میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ایسی حالت میں مرناجاہلیت کی موت مرنا ہے جو مسلمان کی شان کے مناسب نہیں۔2۔اس حدیث میں امیر سے مراد ہماری خود ساختہ تنظیموں کے امیر نہیں بلکہ خلیفہ اسلام ہے جو صحیح معنوں میں صاحب اقتدار اوراختیارات کا مالک ہو۔ایسے امیر کی اطاعت ضروری ہے۔معمولی باتوں کا بہانہ بنا کر بغاوت کا راستہ ہموار کرنا جاہلیت کی یاد تازہ کرنے کے مترادف ہے کیونکہ دور جاہلیت کے لوگ ہر قسم کے قانون سے بالازندگی گزارنے کے عادی تھے۔ایسے حالات میں اگرکوئی حاکم وقت سے بغاوت کرتاہے تو جاہلیت کی موت مرتا ہے۔اس حدیث کی پہلے بھی وضاحت ہوچکی ہے۔واللہ المستعان۔
حاکم وقت کی بات ماننا ضروری ہے لیکن اگر وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم دے تو اس کا انکار کرنا بھی ضروری ہے۔حدیث میں ہے:"خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی بات نہ مانی جائے۔"(مسنداحمد 5/66)
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس نے اپنے امیر میں کوئی ایسی چیز دیکھی جسے وہ پسند نہیں کرتا تو اسے چاہیے کہ صبر کرے کیونکہ اگر کوئی جماعت سے ایک بالشت بھی الگ ہوا تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔“
حدیث حاشیہ:
1۔جماعت سے الگ ہونے سے مراد ملکی وقومی اور دینی نظام کوتوڑ کر حاکم اسلام سے بغاوت کرنا ہے۔ایسا آدمی عہد جاہلیت کی سی خودسری میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ایسی حالت میں مرناجاہلیت کی موت مرنا ہے جو مسلمان کی شان کے مناسب نہیں۔2۔اس حدیث میں امیر سے مراد ہماری خود ساختہ تنظیموں کے امیر نہیں بلکہ خلیفہ اسلام ہے جو صحیح معنوں میں صاحب اقتدار اوراختیارات کا مالک ہو۔ایسے امیر کی اطاعت ضروری ہے۔معمولی باتوں کا بہانہ بنا کر بغاوت کا راستہ ہموار کرنا جاہلیت کی یاد تازہ کرنے کے مترادف ہے کیونکہ دور جاہلیت کے لوگ ہر قسم کے قانون سے بالازندگی گزارنے کے عادی تھے۔ایسے حالات میں اگرکوئی حاکم وقت سے بغاوت کرتاہے تو جاہلیت کی موت مرتا ہے۔اس حدیث کی پہلے بھی وضاحت ہوچکی ہے۔واللہ المستعان۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حماد نے بیان کیا، ان سے جعد نے بیان کیا اور ان سے ابورجاءنے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، جس نے اپنے امیر میں کوئی برا کام دیکھا تو اسے صبر کرنا چاہئے کیوں کہ کوئی اگر جماعت سے ایک بالشت بھی جدا ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔
حدیث حاشیہ:
جماعت سے الگ ہونا اس سے یہ مراد ہے کہ حاکم اسلام سے باغی ہوکر اس کی اطاعت سے نکل جائے جیسا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں خارجیوں نے کیا تھا ایسا کرنا ملی نظام کو توڑنا اور عہد جاہلیت کی سی خودسری میں گرفتار ہونا ہے جو اہل جاہلیت کا شیوہ تھا۔ مسلمان کو ایسی خودسری کی حالت میں مرنا عہد جاہلیت والوں کی سی موت ہرنا ہے جو مسلمان کے لیے کسی طرح زیبا نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA) :
The Prophet (ﷺ) said, "If somebody sees his Muslim ruler doing something he disapproves of, he should be patient, for whoever becomes separate from the Muslim group even for a span and then dies, he will die as those who died in the Pre-lslamic period of ignorance (as rebellious sinners). (See Hadith No. 176 and 177)