باب : امام اور بادشاہ اسلام کی بات سننا اور ماننا واجب ہے جب تک وہ خلاف شرع اور گناہ کی بات کا حکم نہ دے
)
Sahi-Bukhari:
Judgments (Ahkaam)
(Chapter: To listen to and obey the Imam)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7145.
سیدنا علی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ایک دستہ بھیجا اور اس پر انصار کے ایک آدمی کو امیر بنایا۔ آپ نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اس کی اطاعت کریں۔پھر وہ امیر ان لشکریوں پر ناراض ہوگیا اور کہنے لگا: کیا تمہیں نبی ﷺ نے میری اطاعت کا حکم نہیں دیا تھا؟لوگوں نے کہا: کیوں نہیں! اس امیرنے کہا: میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ تم لکڑیوں جمع کرکے آگ جلاؤ پھر اس میں کود جاؤ،لوگوں نے لکڑیاں جمع کیں اور آگ جلائی۔پھر جب انہوں نے اس میں کودنے کا ارادہ کیا تو ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔کچھ لوگوں نے کہا: ہم نے نبی ﷺ کی فرمانبرداری تو آگ سے بچنے کے لیے کی تھی تو کیا پھر ہم خود ہی آگ میں کود جائیں؟ وہ اسی سوچ بچار میں تھے کہ اس دوران میں آگ ٹھنڈی ہوگئی اور امیر کا غصہ بھی جاتا رہا ،پھر جب نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: اگر وہ آگ میں کود جاتے تو پھر اس سے کبھی نہ نکل سکتے۔اطاعت صرف اچھے کاموں اور اچھی باتوں میں ہے۔
تشریح:
1۔امیر لشکر حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں سمندری ڈاکوؤں کی سرکوبی کے لیے جدے کی طرف روانہ کیا تھا۔جب ڈاکوؤں کوپتا چلا تو وہ ان کے پہنچنے سے پہلے ہی بھاگ گئے۔جب اہل لشکر کو اس بات کاعلم ہوا توا نھوں نے امیر کی اجازت کے بغیر واپسی کی تیاری شروع کردی ،اس پر امیر کوغصہ آگیا اور آگ کا الاؤ تیارکرنے کا حکم دیا۔یہ بات ان سے غصے کی حالت میں سرزدہوئی تھی اور غصہ ٹھنڈا ہونے تک وہ آگ بھی ٹھنڈی ہوگئی۔2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ لوگ آگ میں داخل ہوجاتے تو جل کر راکھ ہوجاتے اور اس سے زندہ نہ نکل سکتے۔اس سے جہنم کی آگ مرادنہیں کیونکہ حدیث شفاعت سے معلوم ہوتا ہے کہ کلمہ گو موحد جہنم کی آگ سے ایک نہ ایک دن ضرور نکل آئے گا۔اس سے مراد زجر وتوبیخ ڈانٹ ڈپٹ اور تنبیہ ہے تاکہ آئندہ اس قسم کے اقدام سے پرہیز کیا جائے۔3۔واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت تو غیر مشروط ہے لیکن امراء اور حکمرانوں کی اطاعت صرف اس صورت میں ہوگی جب وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے خلاف نہ ہو ،اگرخلاف ہوتوان کی بات نہیں مانی جائے گی،چنانچہ ایک روایت میں ہے:"اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں۔یہ اطاعت تو صرف معروف کاموں میں ہے۔"(صحیح مسلم الامارۃ حدیث 4765(1840)
حاکم وقت کی بات ماننا ضروری ہے لیکن اگر وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم دے تو اس کا انکار کرنا بھی ضروری ہے۔حدیث میں ہے:"خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی بات نہ مانی جائے۔"(مسنداحمد 5/66)
سیدنا علی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ایک دستہ بھیجا اور اس پر انصار کے ایک آدمی کو امیر بنایا۔ آپ نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اس کی اطاعت کریں۔پھر وہ امیر ان لشکریوں پر ناراض ہوگیا اور کہنے لگا: کیا تمہیں نبی ﷺ نے میری اطاعت کا حکم نہیں دیا تھا؟لوگوں نے کہا: کیوں نہیں! اس امیرنے کہا: میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ تم لکڑیوں جمع کرکے آگ جلاؤ پھر اس میں کود جاؤ،لوگوں نے لکڑیاں جمع کیں اور آگ جلائی۔پھر جب انہوں نے اس میں کودنے کا ارادہ کیا تو ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔کچھ لوگوں نے کہا: ہم نے نبی ﷺ کی فرمانبرداری تو آگ سے بچنے کے لیے کی تھی تو کیا پھر ہم خود ہی آگ میں کود جائیں؟ وہ اسی سوچ بچار میں تھے کہ اس دوران میں آگ ٹھنڈی ہوگئی اور امیر کا غصہ بھی جاتا رہا ،پھر جب نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: اگر وہ آگ میں کود جاتے تو پھر اس سے کبھی نہ نکل سکتے۔اطاعت صرف اچھے کاموں اور اچھی باتوں میں ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔امیر لشکر حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں سمندری ڈاکوؤں کی سرکوبی کے لیے جدے کی طرف روانہ کیا تھا۔جب ڈاکوؤں کوپتا چلا تو وہ ان کے پہنچنے سے پہلے ہی بھاگ گئے۔جب اہل لشکر کو اس بات کاعلم ہوا توا نھوں نے امیر کی اجازت کے بغیر واپسی کی تیاری شروع کردی ،اس پر امیر کوغصہ آگیا اور آگ کا الاؤ تیارکرنے کا حکم دیا۔یہ بات ان سے غصے کی حالت میں سرزدہوئی تھی اور غصہ ٹھنڈا ہونے تک وہ آگ بھی ٹھنڈی ہوگئی۔2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ لوگ آگ میں داخل ہوجاتے تو جل کر راکھ ہوجاتے اور اس سے زندہ نہ نکل سکتے۔اس سے جہنم کی آگ مرادنہیں کیونکہ حدیث شفاعت سے معلوم ہوتا ہے کہ کلمہ گو موحد جہنم کی آگ سے ایک نہ ایک دن ضرور نکل آئے گا۔اس سے مراد زجر وتوبیخ ڈانٹ ڈپٹ اور تنبیہ ہے تاکہ آئندہ اس قسم کے اقدام سے پرہیز کیا جائے۔3۔واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت تو غیر مشروط ہے لیکن امراء اور حکمرانوں کی اطاعت صرف اس صورت میں ہوگی جب وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے خلاف نہ ہو ،اگرخلاف ہوتوان کی بات نہیں مانی جائے گی،چنانچہ ایک روایت میں ہے:"اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں۔یہ اطاعت تو صرف معروف کاموں میں ہے۔"(صحیح مسلم الامارۃ حدیث 4765(1840)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے سعد بن عبیدہ نے بیان کیا، ان سے ابوعبدالرحمن نے بیان کیا اور ان سے حضرت علی ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک دستہ بھیجا اور اس پر انصار کے ایک شخص کو امیر بنایا اور لوگوں کو حکم دیا کہ ان کی اطاعت کریں۔ پھر امیر فوج کے لوگوں پر غصہ ہوئے اور کہا کہ کیا آنحضرت ﷺ نے تمہیں میری اطاعت کا حکم نہیں دیا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ضرور دیا ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ لکڑی جمع کرو اور اس سے آگ جلاؤ اور اس میں کود پڑو۔ لوگوں نے لکڑی جمع کی اور آگ جلائی، جب کودنا چاہا تو ایک دوسرے کو لوگ دیکھنے لگے اور ان میں سے بعض نے کہا کہ ہم نے آنحضرت ﷺ کی فرمانبرداری آگ سے بچنے کے لیے کی تھی، کیا پھر ہم اس میں خود ہی داخل ہوجائیں۔ اسی دوران میں آگ ٹھنڈی ہوگئی اور امیر کا غصہ بھی جاتا رہا۔ پھر آنحضرت ﷺ سے اس کا ذکر کیاگیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ اس میں کود پڑتے تو پھر اس میں سے نہ نکل سکتے۔ اطاعت صرف اچھی باتوں میں ہے۔
حدیث حاشیہ:
غلط باتوں میں اطاعت جائز نہیں ہے۔ یہ امیر لشکر حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی انصاری رضی اللہ عنہ تھے۔ غصہ میں ان سے یہ بات ہوئی۔ غصہ ٹھنڈا ہون تک وہ آگ بھی ٹھنڈی ہوگئی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ali (RA) :
The Prophet (ﷺ) sent an army unit (for some campaign) and appointed a man from the Ansar as its commander and ordered them (the soldiers) to obey him. (During the campaign) he became angry with them and said, "Didn't the Prophet (ﷺ) order you to obey me?" They said, "Yes." He said, "I order you to collect wood and make a fire and then throw yourselves into it." So they collected wood and made a fire, but when they were about to throw themselves into, it they started looking at each other, and some of them said, "We followed the Prophet (ﷺ) to escape from the fire. How should we enter it now?" So while they were in that state, the fire extinguished and their commander's anger abated. The event was mentioned to the Prophet (ﷺ) and he said, "If they had entered it (the fire) they would never have come out of it, for obedience is required only in what is good." (See Hadith No. 629. Vol. 5)