Sahi-Bukhari:
Judgments (Ahkaam)
(Chapter: What is disliked regarding the authority of ruling)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7148.
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”یقیناً تم عنقریب حکومتی عہدے کا لالچ کروگے اور ایسا کرنا تمہارے لیے قیامت کے دن ندامت ہوگا۔دودھ پلانے والی اچھی لگتی ہے اور دودھ چھڑانے والی بری محسوس ہوتی ہے۔“ ¤ایک دوسری سند کے مطابق سیدنا سعید مقبری ،عمر بن حکم کے واسطے سے سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے ان کا اپنا قول نقل کرتے ہیں-
تشریح:
1۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکومتی عہدے کی لذت اور حلاوت کی بہترین مثال دی ہے کہ انسان کو حکومتی منصب ملتے وقت بڑی لذت محسوس ہوتی ہے وہ خوب مزے اڑاتا ہے ۔یہ اس کا آغاز ہے جیسا کہ دودھ پلانے والی عورت ہوتی ہے لیکن یہ ہمیشہ قائم رہنے والی چیز نہیں ہے ایک دن چھن جائے گی تو جتنا مزہ اٹھایا تھا وہ سب کرکراہوجائےگا ۔حکومت جانے کا رنج اور پریشانی اس قدر ہوگی کہ اس کے مقابلے میں ابتدائی خوشی کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔عقلمند کوچاہیے کہ جس کام کے انجام میں رنج ہواسے معمولی سی لذت کی وجہ سے اختیار نہ کرے۔اس انجام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے"دودھ چھڑانے والی بری ہے" کے الفاظ سے بیان فرمایا ہے۔2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین پر یہ اثر ہوا کہ بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین حکومتی عہدوں سے بھاگتے تھے۔چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے زمانہ خلافت میں قاضی بنانا چاہا لیکن انھوں نے انکار کردیا اور کس طرح بھی راضی نہ ہوئے(جامع الترمذی الاحکام حدیث 1322)
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”یقیناً تم عنقریب حکومتی عہدے کا لالچ کروگے اور ایسا کرنا تمہارے لیے قیامت کے دن ندامت ہوگا۔دودھ پلانے والی اچھی لگتی ہے اور دودھ چھڑانے والی بری محسوس ہوتی ہے۔“ ¤ایک دوسری سند کے مطابق سیدنا سعید مقبری ،عمر بن حکم کے واسطے سے سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے ان کا اپنا قول نقل کرتے ہیں-
حدیث حاشیہ:
1۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکومتی عہدے کی لذت اور حلاوت کی بہترین مثال دی ہے کہ انسان کو حکومتی منصب ملتے وقت بڑی لذت محسوس ہوتی ہے وہ خوب مزے اڑاتا ہے ۔یہ اس کا آغاز ہے جیسا کہ دودھ پلانے والی عورت ہوتی ہے لیکن یہ ہمیشہ قائم رہنے والی چیز نہیں ہے ایک دن چھن جائے گی تو جتنا مزہ اٹھایا تھا وہ سب کرکراہوجائےگا ۔حکومت جانے کا رنج اور پریشانی اس قدر ہوگی کہ اس کے مقابلے میں ابتدائی خوشی کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔عقلمند کوچاہیے کہ جس کام کے انجام میں رنج ہواسے معمولی سی لذت کی وجہ سے اختیار نہ کرے۔اس انجام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے"دودھ چھڑانے والی بری ہے" کے الفاظ سے بیان فرمایا ہے۔2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین پر یہ اثر ہوا کہ بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین حکومتی عہدوں سے بھاگتے تھے۔چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے زمانہ خلافت میں قاضی بنانا چاہا لیکن انھوں نے انکار کردیا اور کس طرح بھی راضی نہ ہوئے(جامع الترمذی الاحکام حدیث 1322)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے سعید مقبری نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، تم حکومت کا لالچ کروگے اور یہ قیامت کے دن تمہارے لیے باعث ندامت ہوگی۔ پس کیا ہی بہتر ہے دودھ پلانے والی اور کیا ہی بری ہے دودھ چھڑانے والی۔ اور محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن حمران نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے سعید المقبری نے، ان سے عمر بن حکم نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے اپنا قول ( موقوفاً) نقل کیا۔
حدیث حاشیہ:
تو اس طریق میں دو باتیںاگلے طریق کے خلاف ہیں ایک تو سعید اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ میں عمر بن حکم کا واسطہ ہونا، دوسرے حدیث کو موقوفاً نقل کرنا۔
سبحان اللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا عمدہ مثال دی ہے۔ آدمی کو حکومت اور سرداری ملتے وقت بڑی لذت ہوتی ہے، خوب روپے کماتا ہے، مزے اڑاتا ہے لیکن اس کو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ سدا قائم رہنے والی چیز نہیں، ایک دن چھن جائے گی تو جتنا مزہ اٹھایا ہے وہ سب کرکرا ہوجائے گا اور اس رنج کے سامنے جو سرداری اور حکومت جاتے وقت ہوگا یہ خوشی کوئی چیز نہیں ہے۔ عاقل کو چاہئے کہ جس کام کے انجام میں رنج ہو اس کو تھوڑی سی لذت کی وجہ سے ہرگز اختیار نہ کرے۔ عاقل وہی کام کرتا ہے جس میں رنج اور دکھ کا نام نہ ہو، نری لذت ہی لذت ہو گویہ لذت مقدار میں تھوڑی ہو لیکن اس لذت سے بدرجہا بہتر ہے جس کے بعد رنج سہنا پڑے۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ دنیا کی حکومت پر سرداری اور بادشاہت درحقیقت ایک عذاب الیم ہے۔ اسی لیے عقل مند بزرگ اس سے ہمیشہ بھاگتے رہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے مارکھائی، قید میں رہے مگر حکومت قبول نہ کی۔ دوسری حدیث میں ہے جو شخص عدالت کا حاکم یعنی قاضی ( جج ) بنایا گیا وہ بن چھری ذبح کیاگیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) :
The Prophet (ﷺ) said, "You people will be keen to have the authority of ruling which will be a thing of regret for you on the Day of Resurrection. What an excellent wet nurse it is, yet what a bad weaning one it is!"