باب:قاضی کو فیصلہ یا فتویٰ غصہ کی حالت میں دینا درست ہے یا نہیں
)
Sahi-Bukhari:
Judgments (Ahkaam)
(Chapter: Can a judge give a judgement in an angry mood?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7160.
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ کا بیان ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی۔ اس بات کا ذکر سیدنا عمر ؓ نے نبی ﷺ سے کیا تو رسول اللہ ﷺ بہت خفا ہوئے۔ پھر آپ نے فرمایا: ”اسے چاہیئے کہ وہ رجوع کرے اور اسے اپنے پاس رکھے یہاں تک کہ وہ حیض سے پاک ہوجائے۔پھر جب وہ حائضہ ہو اور پاک ہوجائے تو اگر چاہے تو اسے طلاق دے دے۔“
تشریح:
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے ایک حدیث سے ثابت کیا تھا کہ قاضی کو بحالت غصہ کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے اب ان دو حدیثوں سے ثابت ہوتا ہےکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غصے کی حالت میں فیصلہ کیا اور فتوی دیا ان احادیث کے درمیان تطبیق کی یہ صورت ہے کہ اگر غصہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہو تو ایسی حالت میں فیصلہ بھی کیا جا سکتا ہے اور فتوی بھی دیا جا سکتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے اگر غصہ آنے سے پہلے پہلے حق واضح ہو گیا پھر بعد میں غصہ آیا تو ایسی حالت بھی فیصلہ اور فتوی میں رکاوٹ کا باعث نہیں ہے لیکن ہمارےرجحان کے مطابق تطبیق کی یہ صورت بہتر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس اصول اور ضابطے سے مستثنیٰ ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جتنے بھی غضبناک ہوتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوش و حواس قائم رہتے ہیں اور غصے اور ناراضی کی حالت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ کرنا یا فتوی دینا حق و صداقت پر مبنی تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم معصوم ہونے کی وجہ سے غلطی وغیرہ سے پاک ہیں۔(فتح الباری:13/171)
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ کا بیان ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی۔ اس بات کا ذکر سیدنا عمر ؓ نے نبی ﷺ سے کیا تو رسول اللہ ﷺ بہت خفا ہوئے۔ پھر آپ نے فرمایا: ”اسے چاہیئے کہ وہ رجوع کرے اور اسے اپنے پاس رکھے یہاں تک کہ وہ حیض سے پاک ہوجائے۔پھر جب وہ حائضہ ہو اور پاک ہوجائے تو اگر چاہے تو اسے طلاق دے دے۔“
حدیث حاشیہ:
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے ایک حدیث سے ثابت کیا تھا کہ قاضی کو بحالت غصہ کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے اب ان دو حدیثوں سے ثابت ہوتا ہےکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غصے کی حالت میں فیصلہ کیا اور فتوی دیا ان احادیث کے درمیان تطبیق کی یہ صورت ہے کہ اگر غصہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہو تو ایسی حالت میں فیصلہ بھی کیا جا سکتا ہے اور فتوی بھی دیا جا سکتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے اگر غصہ آنے سے پہلے پہلے حق واضح ہو گیا پھر بعد میں غصہ آیا تو ایسی حالت بھی فیصلہ اور فتوی میں رکاوٹ کا باعث نہیں ہے لیکن ہمارےرجحان کے مطابق تطبیق کی یہ صورت بہتر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس اصول اور ضابطے سے مستثنیٰ ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جتنے بھی غضبناک ہوتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوش و حواس قائم رہتے ہیں اور غصے اور ناراضی کی حالت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ کرنا یا فتوی دینا حق و صداقت پر مبنی تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم معصوم ہونے کی وجہ سے غلطی وغیرہ سے پاک ہیں۔(فتح الباری:13/171)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن ابی یعقوب الکرمانی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حسان بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یونس نے بیان کیا، محمد نے بیان کیا کہ مجھے سالم نے خبردی، انہیں عبداللہ بن عمر ؓ نے خبردی کہ انہوں نے اپنی بیوی کو جب کہ وہ حالت حیض میں تھیں( آمنہ بنت غفار) طلاق دے دی، پھر عمر ؓ نے اس کا تذکرہ آنحضرت ﷺ سے کیا تو آپ بہت خفا ہوئے پھر فرمایا انہیں چاہئے کہ وہ رجوع کرلیں اور انہیں اپنے پاس رکھیں، یہاں تک کہ جب وہ پاک ہوجائیں پھر حائضہ ہوں اور پھر پاک ہوں تب اگر چاہے تو اسے طلاع دے دے۔
حدیث حاشیہ:
آپ نے بحالت خفگی فتویٰ دیا۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت میں سے ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar (RA) :
That he had divorced his wife during her menses. 'Umar mentioned that to the Prophet. Allah's Apostle (ﷺ) became angry and said, "He must take her back (his wife) and keep her with him till she becomes clean from her menses and then to wait till she gets her next period and becomes clean again from it and only then, if he wants to divorce her, he may do so."