Sahi-Bukhari:
Judgments (Ahkaam)
(Chapter: To bear witness as to the writer of a stamped letter; and the letter of a ruler to a governor, and of a judge to a judge)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
( کہ فلاں شخص کا خط ہے) اور کون سی گواہی اس مقدمہ میں جائز ہے اور کون سی ناجائز اور حاکم جو اپنے نائبوں کو پروانے لکھے۔ اسی طرح ایک ملک کا قاضی دوسرے ملک کے قاضی کو، اس کا بیان اور بعض لوگوں نے کہا حاکم جو پروانے اپنے نائبوں کو لکھے ان پر عمل ہوسکتا ہے۔ مگر حدود شرعیہ میں نہیں ہوسکتا( کیوں کہ ڈر ہے کہ پروانہ جعلی نہ ہو) پھر خود ہی کہتے ہیں کہ قتل خطا میں پروانے پر عمل ہوسکتا ہے کیوں کہ وہ اس کی رائے پر مثل مالی دعوؤں کے ہے حالانکہ قتل خطا مالی دعوؤں کی طرح نہیں ہے بلکہ ثبوت کے بعد اس کی سزا مالی ہوتی ہے تو قتل خطا اور عمد دونوں کا حکم ایک رہنا چاہئے۔ ( دونوں میں پروانے کا اعتبار نہ ہونا چاہئے) اور حضرت عمر ؓ نے اپنے عاملوں کو حدود میں پروانے لکھے ہیں اور عمر بن عبدالعزیز نے دانت توڑنے کے مقدمہ میں پروانہ لکھا اور ابراہیم نخعی نے کہا ایک قاضی دوسرے قاضی کے خط پر عمل کرلے جب اس کی مہر اور خط کو پہچانتا ہو تو یہ جائز ہے اور شعبی مہری خط کو جو ایک قاضی کی طرف سے آئے جائز رکھتے تھے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی ایسا ہی منقول ہے اور معاویہ بن عبدالکریم ثقفی نے کہا میں عبدالملک بن یعلیٰ( بصرہ کے قاضی) اور ایاس بن معاویہ( بصریٰ کے قاضی) اور حسن بصری اور ثمامہ بن عبداللہ بن انس اور بلال بن ابی بردہ( بصریٰ کے قاضی) اور عبداللہ بن بریدہ( مرو کے قاضی) اور عامر بن عبیدہ( کوفہ کے قاضی) اور عباد بن منصور( بصریٰ کے قاضی) ان سب سے ملا ہوں۔ یہ سب ایک قاضی کا خط دوسرے قاضی کے نام بغیر گواہوں کے منظور کرتے۔ اگر فریق ثانی جس کو اس خط سے ضرر ہوتا ہے یوں کہے کہ یہ خط جعلی ہے تو اس کو حکم دیں گے کہ اچھا اس کا ثبوت دے اور قاضی کے خط پر سب سے پہلے ابن ابی لیلیٰ( کوفہ کے قاضی) اور سوار بن عبداللہ( بصریٰ کے قاضی) نے گواہی چاہی اور ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے کہا، ہم سے عبیداللہ بن محرز نے بیان کیا کہ میں نے موسیٰ بن انس بصری کے پاس اس مدعی پر گواہ پیش کئے کہ فلاں شخص پر میرا اتنا حق آتا ہے اور وہ کوفہ میں ہے پھر میں ان کا خط لے کر قاسم بن عبدالرحمن کوفہ کے قاضی کے پاس آیا۔ انہوں نے اس کو منظور کیا اور امام حسن بصری اور ابوقلابہ نے کہا وصیت نامہ پر اس وقت تک گواہی کرنا مکروہ ہے جب تک اس کا مضمون نہ سمجھ لے ایسا نہ ہو وہ ظلم اور خلاف شرع ہو۔ اور آنحضرت ﷺ نے خیبر کے یہودیوں کو خط بھیجا کہ یا تو اس شخص( یعنی عبداللہ بن سہل) مقتول کی دیت دو جو تمہاری بستی میں مارا گیا ہے ورنہ جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ۔ اور زہری نے کہا اگر عورت پردے کی آڑ میں ہو اور آواز وغیرہ سے تو اسے پہچانتا ہو تو اس پر گواہی دے سکتا ہے ورنہ نہیں۔
7162.
سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: جب نبی ﷺ نے اہل روم کو خط لکھنا چاہا تو صحابہ کرام ؓ نے کہا: اہل روم صرف سر بمہر خط قبول کرتے ہیں،چنانچہ نبی ﷺ نے چاندی کی ایک مہر بنوائی گویا میں اس کی چمک کو اب بھی دیکھ رہا ہوں۔ اس پر ”محمد رسول اللہ“ کے الفاظ کنندہ تھے
تشریح:
1۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خط پر عمل ہو سکتا ہے جب وہ سر بمہر ہو تو اس کے قابل اعتبار ہونے میں کوئی شک نہیں لیکن تاریخی طور پر یہ بات ثابت نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہر شدہ خط پر کسی نے گواہی طلب کی ہو کہ یہ واقعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا خط ہے جعلی طور پر کسی دوسرے نے نہیں لکھا۔2۔بہر حال اس حدیث سے مہر شدہ خط اور ایک قاضی کے دوسرے قاضی کو خط لکھنے کے جواز پر استدلال موجود ہے۔پھر مالی معاملات اور قصاص و حدود کی تفریق کرنا بھی خود ساختہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کی تخصیص کے متعلق کوئی دلیل نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔
( کہ فلاں شخص کا خط ہے) اور کون سی گواہی اس مقدمہ میں جائز ہے اور کون سی ناجائز اور حاکم جو اپنے نائبوں کو پروانے لکھے۔ اسی طرح ایک ملک کا قاضی دوسرے ملک کے قاضی کو، اس کا بیان اور بعض لوگوں نے کہا حاکم جو پروانے اپنے نائبوں کو لکھے ان پر عمل ہوسکتا ہے۔ مگر حدود شرعیہ میں نہیں ہوسکتا( کیوں کہ ڈر ہے کہ پروانہ جعلی نہ ہو) پھر خود ہی کہتے ہیں کہ قتل خطا میں پروانے پر عمل ہوسکتا ہے کیوں کہ وہ اس کی رائے پر مثل مالی دعوؤں کے ہے حالانکہ قتل خطا مالی دعوؤں کی طرح نہیں ہے بلکہ ثبوت کے بعد اس کی سزا مالی ہوتی ہے تو قتل خطا اور عمد دونوں کا حکم ایک رہنا چاہئے۔ ( دونوں میں پروانے کا اعتبار نہ ہونا چاہئے) اور حضرت عمر ؓ نے اپنے عاملوں کو حدود میں پروانے لکھے ہیں اور عمر بن عبدالعزیز نے دانت توڑنے کے مقدمہ میں پروانہ لکھا اور ابراہیم نخعی نے کہا ایک قاضی دوسرے قاضی کے خط پر عمل کرلے جب اس کی مہر اور خط کو پہچانتا ہو تو یہ جائز ہے اور شعبی مہری خط کو جو ایک قاضی کی طرف سے آئے جائز رکھتے تھے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی ایسا ہی منقول ہے اور معاویہ بن عبدالکریم ثقفی نے کہا میں عبدالملک بن یعلیٰ( بصرہ کے قاضی) اور ایاس بن معاویہ( بصریٰ کے قاضی) اور حسن بصری اور ثمامہ بن عبداللہ بن انس اور بلال بن ابی بردہ( بصریٰ کے قاضی) اور عبداللہ بن بریدہ( مرو کے قاضی) اور عامر بن عبیدہ( کوفہ کے قاضی) اور عباد بن منصور( بصریٰ کے قاضی) ان سب سے ملا ہوں۔ یہ سب ایک قاضی کا خط دوسرے قاضی کے نام بغیر گواہوں کے منظور کرتے۔ اگر فریق ثانی جس کو اس خط سے ضرر ہوتا ہے یوں کہے کہ یہ خط جعلی ہے تو اس کو حکم دیں گے کہ اچھا اس کا ثبوت دے اور قاضی کے خط پر سب سے پہلے ابن ابی لیلیٰ( کوفہ کے قاضی) اور سوار بن عبداللہ( بصریٰ کے قاضی) نے گواہی چاہی اور ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے کہا، ہم سے عبیداللہ بن محرز نے بیان کیا کہ میں نے موسیٰ بن انس بصری کے پاس اس مدعی پر گواہ پیش کئے کہ فلاں شخص پر میرا اتنا حق آتا ہے اور وہ کوفہ میں ہے پھر میں ان کا خط لے کر قاسم بن عبدالرحمن کوفہ کے قاضی کے پاس آیا۔ انہوں نے اس کو منظور کیا اور امام حسن بصری اور ابوقلابہ نے کہا وصیت نامہ پر اس وقت تک گواہی کرنا مکروہ ہے جب تک اس کا مضمون نہ سمجھ لے ایسا نہ ہو وہ ظلم اور خلاف شرع ہو۔ اور آنحضرت ﷺ نے خیبر کے یہودیوں کو خط بھیجا کہ یا تو اس شخص( یعنی عبداللہ بن سہل) مقتول کی دیت دو جو تمہاری بستی میں مارا گیا ہے ورنہ جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ۔ اور زہری نے کہا اگر عورت پردے کی آڑ میں ہو اور آواز وغیرہ سے تو اسے پہچانتا ہو تو اس پر گواہی دے سکتا ہے ورنہ نہیں۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: جب نبی ﷺ نے اہل روم کو خط لکھنا چاہا تو صحابہ کرام ؓ نے کہا: اہل روم صرف سر بمہر خط قبول کرتے ہیں،چنانچہ نبی ﷺ نے چاندی کی ایک مہر بنوائی گویا میں اس کی چمک کو اب بھی دیکھ رہا ہوں۔ اس پر ”محمد رسول اللہ“ کے الفاظ کنندہ تھے
حدیث حاشیہ:
1۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خط پر عمل ہو سکتا ہے جب وہ سر بمہر ہو تو اس کے قابل اعتبار ہونے میں کوئی شک نہیں لیکن تاریخی طور پر یہ بات ثابت نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہر شدہ خط پر کسی نے گواہی طلب کی ہو کہ یہ واقعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا خط ہے جعلی طور پر کسی دوسرے نے نہیں لکھا۔2۔بہر حال اس حدیث سے مہر شدہ خط اور ایک قاضی کے دوسرے قاضی کو خط لکھنے کے جواز پر استدلال موجود ہے۔پھر مالی معاملات اور قصاص و حدود کی تفریق کرنا بھی خود ساختہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کی تخصیص کے متعلق کوئی دلیل نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
بعض لوگوں نے کہا کہ حاکم جو اپنے کارندوں کو خط لکھتا ہے اور اس پر عمل ہوسکتا ہے مگر حدود میں نہیں ہوسکتا ،پھر خود ہی کہا کہ قتل میں پروانے پر عمل ہوسکتا ہے کیونکہ یہ ان کے گمان کے مطابق یہ مالی معماملہ ہے حالانکہ قتل خطا مالی معاملوں کی طرح نہیں بلکہ ثبوت قتل کے بعد مالی معاملہ بنتا ہے لہذا قتل خطا اور قتل عمدہ کا حکم ایک ہی رہنا چاہیے¤سیدنا عمر ؓ نے اپنے عامل کو حدود کے متعلق پروانہ لکھا تھا۔ اسی طرح سیدناعمر بن عبدالعزیز نے دانت توڑنے کے مقدمے میں ایک پروانہ لکھا (اور اسے اپنے عامل کی طرف روانہ کیاَ)¤ابراہیم نخعی نے کہا: ایک قاضی کا دوسرے کو خط لکھنا (اور اس کے مطابق عمل کرنا) جائز ہے بشرطیکہ دوسرا اس کی مہر اور خط کو پہچانتا ہوں۔¤امام شعبی مہر شدہ خط جس میں ایک قاضی کا ٖفیصلہ ہو جائز قرار دیتے ہیں اور عبداللہ بن عمرؓ سے بھی ایسا ہی منقول ہے¤معاویہ عبدالکریم ثقفی نے کہا: میں بصرہ کے قاضی عبدالملک بن یعلیٰ،ایاس بن معاویہ،حسن بصری ثمامہ بن عبداللہ بن انس ،بلال بن ابو بردہ عبداللہ بن بریدہ اسلمی،عامر بن عبید اور عباد بن مںصور سے ملا ہوں،یہ سب حضرات ایک قاضی کا خط دوسرے کے نام گواہوں کے بغیر قبول کرتے تھے اور اگر مدعیٰ علیہ جس کے خلاف خط شہادت قائم کی گئی ہے وہ کہے: یہ جھوٹ تو اسے کہا جائے گا:جاؤاس سے نکلنے کا کوئی راستہ تلاش کر لاؤ،یعنی اسے تحقیق کا موقع دیاجائے گا۔ سب سے پہلے جس نے قاضی کی تحریر پر دلیل طلب کی وہ ابن ابی لیلیٰ اور سوار بن عبداللہ تھے¤ ابو نعیم نے ہم سے کہا: ہم سے عبیداللہ بن محرز نے بیان کیا کہ میں بصرہ کے قاضی موسیٰ بن انس سے خط لے کر آیا اور انکے پاس گواہ پیش کیے کہ میرا فلاں شخص کے پاس اتنا مال ہے،حالانکہ وہ کوفہ میں تھا، میں اس فیصلہ کی تحریر قاسم بن عبدالرحمن کے پاس لایا تو انہوں نے اسے نافذ کیا۔¤ امام حسن بصری اور ابو قلابہ نے وصیت نامے پر اس وقت تک گواہ بننا مکروہ خیال کیا جب تک اس کا مضمون نہ سمجھ لیا جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ ظلم اور خلاف شرع ہو¤ خود نبی ﷺ نے اہل خیبر کو خط بھیجا: ”اپنے ساتھی مقتول کی دیت دو بصورت دیگر جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ۔“ ¤امام زہری نے کہا: اگر عورت پردے کی آڑ میں ہو، پھر اگر تم اسے پہچانتے ہوتو گواہی دو بصورت دیگر گواہی نہ دو یعنی اس کو دیکھنا ضروری نہیں
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے قتادہ سے سنا، ان سے انس بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم ﷺ نے اہل روم کو خط لکھنا چاہا تو صحابہ نے کہا کہ رومی صرف مہر لگا ہوا خط ہی قبول کرتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے چاندی کی ایک مہر بنوائی۔ گویا میں اس کی چمک کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور اس پر کلمہ” محمد رسول اللہ“ نقش تھا۔
حدیث حاشیہ:
اسی حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے نکالا کہ خط پر عمل ہوسکتا ہے بالخصوص جب وہ مختوم ہو تو شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA):
When the Prophet (ﷺ) intended to write to the Byzantines, the people said, "They do not read a letter unless it is sealed (stamped)." Therefore the Prophet (ﷺ) took a silver ring----as if I am looking at its glitter now----and its engraving was: 'Muhammad, Apostle of Allah (ﷺ) '