باب : اگر قاضی خود عہدہ قضا حاصل ہونے کے بعد یا اس سے پہلے ایک امر کا گواہ ہو تو کیا اس کی بنا پر فیصلہ کرسکتا ہے؟
)
Sahi-Bukhari:
Judgments (Ahkaam)
(Chapter: If a judge has to witness in favour of a litigant)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور شریح( مکہ کے قاضی) سے ایک آدمی ( نام نامعلوم) نے کہا تم اس مقدمہ میں گواہی دو۔ انہوں نے کہا تو بادشاہ کے پاس جاکر کہنا تو میں وہاں دوں گا۔ اور عکرمہ کہتے ہیں عمر ؓ نے عبدالرحمن بن عوف ؓ سے پوچھا اگر تو خود اپنی آنکھ سے کسی کو زنا یا چوری کا جرم کرتے دیکھے اور تو امیر ہو تو کیا اس کو حد لگادے گا۔ عبدالرحمن نے کہا کہ نہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا آخری تیری گواہی ایک مسلمان کی گواہی کی طرح ہوگی یا نہیں۔ عبدالرحمن نے کہا بے شک سچ کہتے ہو۔ عمر ؓنے کہا اگر لوگ یوں نہ کہیں کہ عمر نے اللہ کی کتاب میں اپنی طرف سے بڑھادیا تو میں رجم کی آیت اپنے ہاتھ سے مصحف میں لکھ دیتا۔ اور ماعز اسلمی نے آنحضرتﷺ کے سامنے چار بار زنا کا اقرار کیا تو آپ ﷺ نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دے دیا اور یہ منقول نہیں ہوا کہ آنحضرتﷺ نے اس کے اقرار پر حاضرین کو گواہ کیا ہو۔ اور حماد بن ابی سلیمان( استاد امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ) نے کہا اگر زنا کرنے والا حاکم کے سامنے ایک بار بھی اقرار کرلے تو وہ سنگسار کیا جائے گا اور حکم بن عتیبہ نے کہا، جب تک چار بار اقرار نہ کرلے سنگسار نہیں ہوسکتا۔ تشریح : اس کو ابن ابی شیبہ نے وصل کیا، باب کا ترجمہ یہ ہے کہ اگر قاضی خود عہدہ قضا حاصل ہونے کے بعد یا قبل ایک امر کا گواہ ہو تو کیا اس کی بنا پر فیصلہ کرسکتا ہے یعنی اپنی شہادت اور واقفیت کی بنا پر، اس مسئلہ میں اختلاف ہے اور امام بخاری کے نزدیک راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ قاضی کو خود اپنے علم یا گواہی پر فیصلہ کرنا درست نہیں بلکہ ایسا مقدمہ بادشاہ وقت یا دوسرے قاضی کے پاس رجوع ہونا چاہئے اور اس قاضی کو مثل دوسرے گواہوں کے وہاں گواہی دینا چاہئے۔
7170.
سیدنا ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے حنین کے دن فرمایا: ”جس کے پاس کسی مقتول کے بارے میں گواہی ہو جسے اس نے قتل کیا ہوتو اسکا سامان اسے ملے گا۔“ چنانچہ میں ایک مقتول کے متعلق گواہ تلاش کرنے کے لیے کھڑا ہوا تو میں نے کسی کونہ دیکھا جو میرے لیے گواہی دے، اس لیے میں بیٹھ گیا۔ پھر مجھے خیال آیا تو میں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ کے سامنے کر دیا۔ وہاں بیٹھےہوئے لوگوں میں سے ایک صاحب نے کہا: جس مقتول کا انہوں نے ذکر کیا ہے اس کا سامان میرے پاس ہے، آپ اسے میری طرف سے راضی کر دیں۔ اس پر سیدنا ابو بکر ؓ گویا ہوئے: ہرگز نہیں، وہ قریش کے بد رنگ (معمولی) آدمی کو سامان دے دیں اور اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کو نظر انداز کر دیں جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جہاد کرتا ہے۔ سیدنا ابو قتادہ ؓ نے کہا: پھر رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تو اس نے وہ ہتھیار مجھے دے دیے، پھر میں نے ان کے عوض ایک باغ خریدا۔ یہ پہلا مال تھا جو میں نے (اسلام کے بعد) حاصل کیا تھا (امام بخاری ؓ کہتے ہیں:) مجھ سے عبداللہ بن صالح نے بیان کیا ہے، ان سے لیث بن سعد نے بیان کیا کہ پھر نبی ﷺ کھڑے ہوئے اور مجھے وہ سامان دلا دیا، اہل حجاز نے کہا: حاکم اپنے علم کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہ کرے، خواہ وہ اس معاملے پر عہدہ قضا حاصل ہونے کے بعد مطلع ہوا ہو اس سے پہلے باخبر ہوا ہو۔ اگر مجلس قضا میں اس کے پاس کوئی فریق دوسرے کے حق کا اقرار کرے تو بھی کچھ علماء کا خیال ہے کہ وہ اس بنیاد ہر کوئی فیصلہ نہ کرے یہاں تک کہ دو گواہوں کو بلائے اور ان کی موجودگی میں ان سے اقرار کرائے جبکہ اہل عراق کا کہنا ہے کہ قاضی مجلس قضا میں جو سنے یا دیکھے تو اس کے مطابق فیصلہ کر دے لیکن جو کچھ عدالت کے باہر دیکھے تو وہ دو گواہوں کی گواہی کے بغیر فیصلہ نہ کرے اور انہیں میں سے کچھ حضرات نے کہا ہے کہ وہ اس بنیاد پر فیصلہ کر سکتا ہے کیونکہ وہ امانت دار ہے اور شہادت کا مقصد بھی تو حق کا جاننا ہے لہذا قاضی کا خیال ہے کہ مالی معاملات کے متعلق تو اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ کر سکتا ہے اور دوسرے معاملات میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا، سیدنا قاسم نے کہا: حاکم کے لیے درست نہیں کہ وہ اپنے علم کی بنیاد پر کوئی فیصلہ کرے اور دوسرے کے علم کو نظر انداز کر دے اگرچہ قاضی کا علم دوسرے کی گواہی سے بڑھ کر حیثیت رکھتا ہے لیکن چونکہ اس میں عام مسلمانوں کے نزدیک تہمت کا اندیشہ ہے اور انہیں بدگمانی میں مبتلا کرنا ہے جبکہ نبی ﷺ نے بدگمانی کو ناپسند کرتے ہوئے فرمایاتھا: ”یہ میری بیوی صفیہ ہے“ (لہٰذا اسے اپنے علم کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے)
تشریح:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی حاکم یا قاضی کسی شخص کو زنا یا چوری یا قتل کرتے دیکھتا ہے تو صرف اپنے علم کی بنیاد پر مجرم کو سزا نہیں دے سکتا جب تک باضابطہ شہادت سے اسے ثابت نہ کیا جائے، اگر ایسا کیا جائے اور شہادت کے بغیر کوئی فیصلہ کر دیا جائے تو اس سے کئی ایک مفاسد پیدا ہوتے ہیں پھر قاضی جسے چاہے گا، اسے سزادے ڈالے گا۔ 2۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بھی کہتے ہیں کہ قیاس کے مطابق ان سب مقدمات میں قاضی کے لیے اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ کرنا جائز ہے لیکن میں قیاس کو چھوڑ کر بطور استحسان کہتا ہوں کہ کوئی قاضی اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ نہ کرے، اس میں عافیت کا راستہ ہے۔ (فتح الباري: 200/13)
قاضی اپنی شہادت یا ذاتی علم کی بنیاد ہر کوئی فیصلہ کر سکتا ہے یا نہیں؟امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اختلاف کی وجہ سے کوئی فیصلہ نہیں کیا لیکن آثار وقرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے رجحان کے مطابق قاضی کے لیے اپنے علم یا اپنی گواہی کی بنیاد پر فیصلہ کرنادرست نہیں بلکہ ایسا مقدمہ بادشاہ وقت یا دوسرے قاضی کے ہاں پیش ہونا چاہیے اور اسے دوسرے گواہوں کی طرح وہاں پیش ہونا چاہیے وہ خود اس بنیاد پر فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں کیونکہ اس سے ایک چوردروازہ کھلتا ہے کہ قاضی اپنی ذاتی دشمنی کی آگ بجھانے کے لیے کسی بھی شخص کو اپنی گواہی یا اپنے علم کی آڑ میں رسوا کرسکتا ہے۔2۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے کہ اگر برے قاضی نہ ہوتے تو میں کہتا کہ قاضی اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ کرسکتا ہے۔(فتح الباری 13/199)
اور شریح( مکہ کے قاضی) سے ایک آدمی ( نام نامعلوم) نے کہا تم اس مقدمہ میں گواہی دو۔ انہوں نے کہا تو بادشاہ کے پاس جاکر کہنا تو میں وہاں دوں گا۔ اور عکرمہ کہتے ہیں عمر ؓ نے عبدالرحمن بن عوف ؓ سے پوچھا اگر تو خود اپنی آنکھ سے کسی کو زنا یا چوری کا جرم کرتے دیکھے اور تو امیر ہو تو کیا اس کو حد لگادے گا۔ عبدالرحمن نے کہا کہ نہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا آخری تیری گواہی ایک مسلمان کی گواہی کی طرح ہوگی یا نہیں۔ عبدالرحمن نے کہا بے شک سچ کہتے ہو۔ عمر ؓنے کہا اگر لوگ یوں نہ کہیں کہ عمر نے اللہ کی کتاب میں اپنی طرف سے بڑھادیا تو میں رجم کی آیت اپنے ہاتھ سے مصحف میں لکھ دیتا۔ اور ماعز اسلمی نے آنحضرتﷺ کے سامنے چار بار زنا کا اقرار کیا تو آپ ﷺ نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دے دیا اور یہ منقول نہیں ہوا کہ آنحضرتﷺ نے اس کے اقرار پر حاضرین کو گواہ کیا ہو۔ اور حماد بن ابی سلیمان( استاد امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ) نے کہا اگر زنا کرنے والا حاکم کے سامنے ایک بار بھی اقرار کرلے تو وہ سنگسار کیا جائے گا اور حکم بن عتیبہ نے کہا، جب تک چار بار اقرار نہ کرلے سنگسار نہیں ہوسکتا۔ تشریح : اس کو ابن ابی شیبہ نے وصل کیا، باب کا ترجمہ یہ ہے کہ اگر قاضی خود عہدہ قضا حاصل ہونے کے بعد یا قبل ایک امر کا گواہ ہو تو کیا اس کی بنا پر فیصلہ کرسکتا ہے یعنی اپنی شہادت اور واقفیت کی بنا پر، اس مسئلہ میں اختلاف ہے اور امام بخاری کے نزدیک راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ قاضی کو خود اپنے علم یا گواہی پر فیصلہ کرنا درست نہیں بلکہ ایسا مقدمہ بادشاہ وقت یا دوسرے قاضی کے پاس رجوع ہونا چاہئے اور اس قاضی کو مثل دوسرے گواہوں کے وہاں گواہی دینا چاہئے۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے حنین کے دن فرمایا: ”جس کے پاس کسی مقتول کے بارے میں گواہی ہو جسے اس نے قتل کیا ہوتو اسکا سامان اسے ملے گا۔“ چنانچہ میں ایک مقتول کے متعلق گواہ تلاش کرنے کے لیے کھڑا ہوا تو میں نے کسی کونہ دیکھا جو میرے لیے گواہی دے، اس لیے میں بیٹھ گیا۔ پھر مجھے خیال آیا تو میں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ کے سامنے کر دیا۔ وہاں بیٹھےہوئے لوگوں میں سے ایک صاحب نے کہا: جس مقتول کا انہوں نے ذکر کیا ہے اس کا سامان میرے پاس ہے، آپ اسے میری طرف سے راضی کر دیں۔ اس پر سیدنا ابو بکر ؓ گویا ہوئے: ہرگز نہیں، وہ قریش کے بد رنگ (معمولی) آدمی کو سامان دے دیں اور اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کو نظر انداز کر دیں جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جہاد کرتا ہے۔ سیدنا ابو قتادہ ؓ نے کہا: پھر رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تو اس نے وہ ہتھیار مجھے دے دیے، پھر میں نے ان کے عوض ایک باغ خریدا۔ یہ پہلا مال تھا جو میں نے (اسلام کے بعد) حاصل کیا تھا (امام بخاری ؓ کہتے ہیں:) مجھ سے عبداللہ بن صالح نے بیان کیا ہے، ان سے لیث بن سعد نے بیان کیا کہ پھر نبی ﷺ کھڑے ہوئے اور مجھے وہ سامان دلا دیا، اہل حجاز نے کہا: حاکم اپنے علم کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہ کرے، خواہ وہ اس معاملے پر عہدہ قضا حاصل ہونے کے بعد مطلع ہوا ہو اس سے پہلے باخبر ہوا ہو۔ اگر مجلس قضا میں اس کے پاس کوئی فریق دوسرے کے حق کا اقرار کرے تو بھی کچھ علماء کا خیال ہے کہ وہ اس بنیاد ہر کوئی فیصلہ نہ کرے یہاں تک کہ دو گواہوں کو بلائے اور ان کی موجودگی میں ان سے اقرار کرائے جبکہ اہل عراق کا کہنا ہے کہ قاضی مجلس قضا میں جو سنے یا دیکھے تو اس کے مطابق فیصلہ کر دے لیکن جو کچھ عدالت کے باہر دیکھے تو وہ دو گواہوں کی گواہی کے بغیر فیصلہ نہ کرے اور انہیں میں سے کچھ حضرات نے کہا ہے کہ وہ اس بنیاد پر فیصلہ کر سکتا ہے کیونکہ وہ امانت دار ہے اور شہادت کا مقصد بھی تو حق کا جاننا ہے لہذا قاضی کا خیال ہے کہ مالی معاملات کے متعلق تو اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ کر سکتا ہے اور دوسرے معاملات میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا، سیدنا قاسم نے کہا: حاکم کے لیے درست نہیں کہ وہ اپنے علم کی بنیاد پر کوئی فیصلہ کرے اور دوسرے کے علم کو نظر انداز کر دے اگرچہ قاضی کا علم دوسرے کی گواہی سے بڑھ کر حیثیت رکھتا ہے لیکن چونکہ اس میں عام مسلمانوں کے نزدیک تہمت کا اندیشہ ہے اور انہیں بدگمانی میں مبتلا کرنا ہے جبکہ نبی ﷺ نے بدگمانی کو ناپسند کرتے ہوئے فرمایاتھا: ”یہ میری بیوی صفیہ ہے“ (لہٰذا اسے اپنے علم کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے)
حدیث حاشیہ:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی حاکم یا قاضی کسی شخص کو زنا یا چوری یا قتل کرتے دیکھتا ہے تو صرف اپنے علم کی بنیاد پر مجرم کو سزا نہیں دے سکتا جب تک باضابطہ شہادت سے اسے ثابت نہ کیا جائے، اگر ایسا کیا جائے اور شہادت کے بغیر کوئی فیصلہ کر دیا جائے تو اس سے کئی ایک مفاسد پیدا ہوتے ہیں پھر قاضی جسے چاہے گا، اسے سزادے ڈالے گا۔ 2۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بھی کہتے ہیں کہ قیاس کے مطابق ان سب مقدمات میں قاضی کے لیے اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ کرنا جائز ہے لیکن میں قیاس کو چھوڑ کر بطور استحسان کہتا ہوں کہ کوئی قاضی اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ نہ کرے، اس میں عافیت کا راستہ ہے۔ (فتح الباري: 200/13)
ترجمۃ الباب:
قاضی شریح سے ایک آدمی نے کہا کہ تم اس مقدمے میں گواہی دو تو انہوں نے کہا: تم بادشاہ کے پاس جاکر کہو، میں وہاں تیرے لیے گواہی دوں گا¤عکرمہ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر ؓ نے عبدالرحمن بن عوفؓ سے کہا: اگر تم خود کسی کو زنا کرتے دیکھو یا وہ تمہارے سامنے چوری کا ارتکاب کرے اور تم خود فیصلہ کرنے والے ہوتو؟ انہوں نے کہا:یہ ایک عام مسلمان کو گواہی کی طرح ہے۔ سیدنا عمر ؓ نے فرمایا: تو نے سچ کہا¤سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر مجھے اس امر کا اندیشہ نہ ہو کہ لوگ کہیں گے: عمر نے اللہ کی کتاب میں کچھ اضافہ کردیا تو میں آیت رجم اپنے ہاتھ سے اس میں لکھ دیتا ¤سیدنا ماعز ؓ نے چار مرتبہ نبی ﷺ کے سامنے زنا کا اقرار کیا تو نبی ﷺ نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا لیکن یہ منقول نہیں کہ آپ نے اس اقرار پر حاضرین کو گواہ بنایا ہو۔¤ حماد نے کہا: اگر زنا کرنے والا حاکم کے سامنے ایک دفعہ بھی اقرار نہ کرلے سنگسار نہیں ہوسکتا
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید انصاری نے، ان سے عمر بن کثیر نے، ان سے ابوقتادہ کے غلام ابو محمد نافع نے اور ان سے ابوقتادہ ؓ نے کہ رسول کریم ﷺ نے حنین کی جنگ کے دن فرمایا، جس کے پا س کسی مقتول کے بارے میں جسے اس نے قتل کیا ہو گواہی ہو تو اس کا سامان اسے ملے گا۔ چنانچہ میں مقتول کے لیے گواہ تلاش کرنے کے لیے کھڑا ہوا تو میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو میرے لیے گواہی دے سکے، اس لیے میں بیٹھ گیا۔ پھر میرے سامنے ایک صورت آئی اور میں نے اس کا ذکر آنحضرت ﷺ سے کیا تو وہاں بیٹھے ہوئے ایک صاحب نے کہا کہ اس مقتول کا سامان جس کا ابوقتادہ ذکر کرہے ہیں، میرے پاس ہے۔ انہیں اس کے لیے راضی کردیجئے (کہ وہ یہ ہتھیار وغیرہ مجھے دے دیں) اس پر ابوبکر ؓ نے کہا کہ ہرگز نہیں۔ اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کو نظرانداز کرکے جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کرتا ہے وہ قریش کے معمولی آدمی کو ہتھیار نہیں دیں گے۔ بیان کیا کہ پھر آنحضرت ﷺ نے حکم دیا اور انہوں نے ہتھیار مجھے دے دیے اور میں نے اس سے ایک باغ خریدا۔ یہ پہلا مال تھا جو میں نے (اسلام کے بعد) حاصل کیا تھا۔ حضرت امام بخاری ؓ نے کہا اور مجھ سے عبداللہ بن صالح نے بیان کیا، ان سے لیث بن سعد نے کہ ”پھر آنحضرت ﷺ کھڑے ہوئے اور مجھے وہ سامان دلا دیا، اور اہل حجاز امام مالک وغیرہ نے کہا کہ حاکم کو صرف اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ کرنا درست نہیں۔ خواہ وہ معاملہ پر عہدہ قضا حاصل ہونے کے بعد گواہ ہوا ہو یا اس سے پہلے اور اگر کسی فریق نے اس کے سامنے دوسرے کے لیے مجلس قضا میں کسی حق کا اقرار کیا تو بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس بنیاد پر وہ فیصلہ نہیں کرے گا بلکہ دو گواہوں کو بلاکر ان کے سامنے اقرار کرائے گا۔ اور بعض اہل عراق نے کہا ہے کہ جو کچھ قاضی نے عدالت میں دیکھا یا سنا اس کے مطابق فیصلہ کرے گا لیکن جو کچھ عدالت کے باہر ہوگا اس کی بنیاد پر دو کے بغیر فیصلہ نہیں کرسکتا اور انہیں میں سے دوسرے لوگوں نے کہا کہ اس کی بنیاد پر بھی فیصلہ کرسکتا ہے کیں کہ وہ امانت دار ہے۔ شہادت کا مقصد تو صرف حق کا جاننا ہے پس قاضی کا ذاتی علم گواہی سے بڑھ کر ہے۔ اور بعض ان میں سے کہتے ہیں کہ اموال کے بارے میں تو اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ کرے گا اور اس کے سوا میں نہیں کرے گا اور قاسم نے کہا کہ حاکم کے لیے درست نہیں کہ وہ کوئی فیصلہ صرف اپنے علم کی بنیاد پر کرے اور دوسرے کے علم کو نظرانداز کردے گو قاضی کا علم دوسرے کی گواہی سے بڑھ کر ہے لیکن چونکہ عام مسلمانوں کی نظر میں اس صورت میں قاضی کے مہتمم ہونے کا خطرہ ہے اور مسلمانوں کو اس طرح بدگمانی میں مبتلا کرنا ہے اور نبی کریم ﷺ نے بدگمانی کو ناپسند کیا تھا اور فرمایا تھا کہ یہ صفیہ میری بیوی ہیں۔
حدیث حاشیہ:
جب دو انصاریوں نے آپ کو مسجد سے باہر ان کے ساتھ چلتے دیکھا تھا تو ان کی بدگمانی دور کرنے کے لیے آپ نے یہ فرمایا تھا جس کی تفصیل آگے والی حدیث میں وارد ہے۔ تو اگر حاکم یا قاضی نے کسی شخص کو زنا یا چوری یا خون کرتے دیکھا تو صرف اپنے علم کی بنا پر مجرم کو سزا نہیں دے سکتا جب تک باقاعدہ شہادت سے ثبوت نہ ہو۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ایسا ہی مروی ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں قیاس تو یہ تھا کہ ان سب مقدمات میں بھی قاضی کو اپنے علم پر فیصلہ کرنا جائز ہوتا لیکن میں قیاس کو چھوڑ دیتا ہوں اور استحسان کے رو سے یہ کہتا ہوں کہ قاضی ان مقدمات میں اپنے علم کی بنا پر حکم نہ دے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Qatada (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said on the Day of (the battle of) Hunain, "Whoever has killed an infidel and has a proof or a witness for it, then the salb (arms and belongings of that deceased) will be for him." I stood up to seek a witness to testify that I had killed an infidel but I could not find any witness and then sat down. Then I thought that I should mention the case to Allah's Apostle (ﷺ) I (and when I did so) a man from those who were sitting with him said, "The arms of the killed person he has mentioned, are with me, so please satisfy him on my behalf." Abu Bakr (RA) said, "No, he will not give the arms to a bird of Quraish and deprive one of Allah's lions of it who fights for the cause of Allah and His Apostle." Allah's Apostle (ﷺ) I stood up and gave it to me, and I bought a garden with its price, and that was my first property which I owned through the war booty. The people of Hijaz said, "A judge should not pass a judgment according to his knowledge, whether he was a witness at the time he was the judge or before that" And if a litigant gives a confession in favor of his opponent in the court, in the opinion of some scholars, the judge should not pass a judgment against him till the latter calls two witnesses to witness his confession. And some people of Iraq said, "A judge can pass a judgement according to what he hears or witnesses (the litigant's confession) in the court itself, but if the confession takes place outside the court, he should not pass the judgment unless two witnesses witness the confession." Some of them said, "A judge can pass a judgement depending on his knowledge of the case as he is trust-worthy, and that a witness is Required just to reveal the truth. The judge's knowledge is more than the witness." Some said, "A judge can judge according to his knowledge only in cases involving property, but in other cases he cannot." Al-Qasim said, "A judge ought not to pass a judgment depending on his knowledge if other people do not know what he knows, although his knowledge is more than the witness of somebody else because he might expose himself to suspicion by the Muslims and cause the Muslims to have unreasonable doubt. "