باب : اگر قاضی خود عہدہ قضا حاصل ہونے کے بعد یا اس سے پہلے ایک امر کا گواہ ہو تو کیا اس کی بنا پر فیصلہ کرسکتا ہے؟
)
Sahi-Bukhari:
Judgments (Ahkaam)
(Chapter: If a judge has to witness in favour of a litigant)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور شریح( مکہ کے قاضی) سے ایک آدمی ( نام نامعلوم) نے کہا تم اس مقدمہ میں گواہی دو۔ انہوں نے کہا تو بادشاہ کے پاس جاکر کہنا تو میں وہاں دوں گا۔ اور عکرمہ کہتے ہیں عمر ؓ نے عبدالرحمن بن عوف ؓ سے پوچھا اگر تو خود اپنی آنکھ سے کسی کو زنا یا چوری کا جرم کرتے دیکھے اور تو امیر ہو تو کیا اس کو حد لگادے گا۔ عبدالرحمن نے کہا کہ نہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا آخری تیری گواہی ایک مسلمان کی گواہی کی طرح ہوگی یا نہیں۔ عبدالرحمن نے کہا بے شک سچ کہتے ہو۔ عمر ؓنے کہا اگر لوگ یوں نہ کہیں کہ عمر نے اللہ کی کتاب میں اپنی طرف سے بڑھادیا تو میں رجم کی آیت اپنے ہاتھ سے مصحف میں لکھ دیتا۔ اور ماعز اسلمی نے آنحضرتﷺ کے سامنے چار بار زنا کا اقرار کیا تو آپ ﷺ نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دے دیا اور یہ منقول نہیں ہوا کہ آنحضرتﷺ نے اس کے اقرار پر حاضرین کو گواہ کیا ہو۔ اور حماد بن ابی سلیمان( استاد امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ) نے کہا اگر زنا کرنے والا حاکم کے سامنے ایک بار بھی اقرار کرلے تو وہ سنگسار کیا جائے گا اور حکم بن عتیبہ نے کہا، جب تک چار بار اقرار نہ کرلے سنگسار نہیں ہوسکتا۔ تشریح : اس کو ابن ابی شیبہ نے وصل کیا، باب کا ترجمہ یہ ہے کہ اگر قاضی خود عہدہ قضا حاصل ہونے کے بعد یا قبل ایک امر کا گواہ ہو تو کیا اس کی بنا پر فیصلہ کرسکتا ہے یعنی اپنی شہادت اور واقفیت کی بنا پر، اس مسئلہ میں اختلاف ہے اور امام بخاری کے نزدیک راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ قاضی کو خود اپنے علم یا گواہی پر فیصلہ کرنا درست نہیں بلکہ ایسا مقدمہ بادشاہ وقت یا دوسرے قاضی کے پاس رجوع ہونا چاہئے اور اس قاضی کو مثل دوسرے گواہوں کے وہاں گواہی دینا چاہئے۔
7171.
سیدنا علی بن حسین سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے پاس سیدنا صفیہ بنت حییی ؓ آئیں۔ جب وہ وآپس جانے لگیں تو آپ ﷺ بھی ان کے ساتھ چلے۔ اس وقت دو انصاری آپ کے پاس سے گزرے تو آپ نے انہیں بلا کر فرمایا: ”یہ صفیہ ہیں“ انہوں نے کہا: سبحان اللہ! (ہمیں بد گمانی کیسے ہوسکتی ہے) آپ ﷺ نے فرمایا: ”شیطان انسان کے اندر اس طرح دوڑتا ہے جیسے خون گردش کرتا ہے۔“ اس حدیث کو شعیب، ابن مسافر، ابن ابی عتیق اور اسحاق بن یحیٰی نے امام زہری سے، انہوں نے علی بن حسین سے، انہوں نے سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا اور انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا۔
تشریح:
1۔حدیث سابق کے تحت بدگمانی سے بچنے کےضمن میں حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے واقعے کا حوالہ دیا گیا تھا۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ واقعہ مستقل طور پر مستند طریقے سے بیان کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری حضرات کے متعلق یہ اندیشہ محسوس کیا کہ شاید یہ کسی بدگمانی میں مبتلا ہوجائیں اور ان کے دلوں میں کوئی غلط بات بیٹھ جائے جس کی وجہ سے ان کی آخرت تباہ ہو جائے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جلدی سے وضاحت کر دی کہ یہ عورت کوئی اجنبی نہیں بلکہ میری بیوی صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہے۔جب انھوں نےاظہار تعجب کیا کہ یہ ہم آپ کے متعلق بدگمانی کیسے کر سکتے تھے توآپ نے فرمایا: شیطان انسان کے رگ وریشے میں سرایت کیے ہوئے ہے، اس سے ایسا وسوسہ دینا بعید نہیں۔ 2۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ تہمت کادورکرنا انتہائی ضروری ہے۔جب حاکم کا اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ کرنا بدگمانی کو دعوت دیتا ہے تو اسے دور کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ محض اپنے علم کی بنیاد پر کوئی بھی فیصلہ کرنے سے گریز کیا جائے بلکہ اس کے لیے باقاعدہ ثبوت اور شہادتیں طلب کی جائیں۔ (فتح الباري: 201/13)
قاضی اپنی شہادت یا ذاتی علم کی بنیاد ہر کوئی فیصلہ کر سکتا ہے یا نہیں؟امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اختلاف کی وجہ سے کوئی فیصلہ نہیں کیا لیکن آثار وقرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے رجحان کے مطابق قاضی کے لیے اپنے علم یا اپنی گواہی کی بنیاد پر فیصلہ کرنادرست نہیں بلکہ ایسا مقدمہ بادشاہ وقت یا دوسرے قاضی کے ہاں پیش ہونا چاہیے اور اسے دوسرے گواہوں کی طرح وہاں پیش ہونا چاہیے وہ خود اس بنیاد پر فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں کیونکہ اس سے ایک چوردروازہ کھلتا ہے کہ قاضی اپنی ذاتی دشمنی کی آگ بجھانے کے لیے کسی بھی شخص کو اپنی گواہی یا اپنے علم کی آڑ میں رسوا کرسکتا ہے۔2۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے کہ اگر برے قاضی نہ ہوتے تو میں کہتا کہ قاضی اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ کرسکتا ہے۔(فتح الباری 13/199)
اور شریح( مکہ کے قاضی) سے ایک آدمی ( نام نامعلوم) نے کہا تم اس مقدمہ میں گواہی دو۔ انہوں نے کہا تو بادشاہ کے پاس جاکر کہنا تو میں وہاں دوں گا۔ اور عکرمہ کہتے ہیں عمر ؓ نے عبدالرحمن بن عوف ؓ سے پوچھا اگر تو خود اپنی آنکھ سے کسی کو زنا یا چوری کا جرم کرتے دیکھے اور تو امیر ہو تو کیا اس کو حد لگادے گا۔ عبدالرحمن نے کہا کہ نہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا آخری تیری گواہی ایک مسلمان کی گواہی کی طرح ہوگی یا نہیں۔ عبدالرحمن نے کہا بے شک سچ کہتے ہو۔ عمر ؓنے کہا اگر لوگ یوں نہ کہیں کہ عمر نے اللہ کی کتاب میں اپنی طرف سے بڑھادیا تو میں رجم کی آیت اپنے ہاتھ سے مصحف میں لکھ دیتا۔ اور ماعز اسلمی نے آنحضرتﷺ کے سامنے چار بار زنا کا اقرار کیا تو آپ ﷺ نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دے دیا اور یہ منقول نہیں ہوا کہ آنحضرتﷺ نے اس کے اقرار پر حاضرین کو گواہ کیا ہو۔ اور حماد بن ابی سلیمان( استاد امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ) نے کہا اگر زنا کرنے والا حاکم کے سامنے ایک بار بھی اقرار کرلے تو وہ سنگسار کیا جائے گا اور حکم بن عتیبہ نے کہا، جب تک چار بار اقرار نہ کرلے سنگسار نہیں ہوسکتا۔ تشریح : اس کو ابن ابی شیبہ نے وصل کیا، باب کا ترجمہ یہ ہے کہ اگر قاضی خود عہدہ قضا حاصل ہونے کے بعد یا قبل ایک امر کا گواہ ہو تو کیا اس کی بنا پر فیصلہ کرسکتا ہے یعنی اپنی شہادت اور واقفیت کی بنا پر، اس مسئلہ میں اختلاف ہے اور امام بخاری کے نزدیک راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ قاضی کو خود اپنے علم یا گواہی پر فیصلہ کرنا درست نہیں بلکہ ایسا مقدمہ بادشاہ وقت یا دوسرے قاضی کے پاس رجوع ہونا چاہئے اور اس قاضی کو مثل دوسرے گواہوں کے وہاں گواہی دینا چاہئے۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا علی بن حسین سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے پاس سیدنا صفیہ بنت حییی ؓ آئیں۔ جب وہ وآپس جانے لگیں تو آپ ﷺ بھی ان کے ساتھ چلے۔ اس وقت دو انصاری آپ کے پاس سے گزرے تو آپ نے انہیں بلا کر فرمایا: ”یہ صفیہ ہیں“ انہوں نے کہا: سبحان اللہ! (ہمیں بد گمانی کیسے ہوسکتی ہے) آپ ﷺ نے فرمایا: ”شیطان انسان کے اندر اس طرح دوڑتا ہے جیسے خون گردش کرتا ہے۔“ اس حدیث کو شعیب، ابن مسافر، ابن ابی عتیق اور اسحاق بن یحیٰی نے امام زہری سے، انہوں نے علی بن حسین سے، انہوں نے سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا اور انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا۔
حدیث حاشیہ:
1۔حدیث سابق کے تحت بدگمانی سے بچنے کےضمن میں حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے واقعے کا حوالہ دیا گیا تھا۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ واقعہ مستقل طور پر مستند طریقے سے بیان کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری حضرات کے متعلق یہ اندیشہ محسوس کیا کہ شاید یہ کسی بدگمانی میں مبتلا ہوجائیں اور ان کے دلوں میں کوئی غلط بات بیٹھ جائے جس کی وجہ سے ان کی آخرت تباہ ہو جائے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جلدی سے وضاحت کر دی کہ یہ عورت کوئی اجنبی نہیں بلکہ میری بیوی صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہے۔جب انھوں نےاظہار تعجب کیا کہ یہ ہم آپ کے متعلق بدگمانی کیسے کر سکتے تھے توآپ نے فرمایا: شیطان انسان کے رگ وریشے میں سرایت کیے ہوئے ہے، اس سے ایسا وسوسہ دینا بعید نہیں۔ 2۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ تہمت کادورکرنا انتہائی ضروری ہے۔جب حاکم کا اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ کرنا بدگمانی کو دعوت دیتا ہے تو اسے دور کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ محض اپنے علم کی بنیاد پر کوئی بھی فیصلہ کرنے سے گریز کیا جائے بلکہ اس کے لیے باقاعدہ ثبوت اور شہادتیں طلب کی جائیں۔ (فتح الباري: 201/13)
ترجمۃ الباب:
قاضی شریح سے ایک آدمی نے کہا کہ تم اس مقدمے میں گواہی دو تو انہوں نے کہا: تم بادشاہ کے پاس جاکر کہو، میں وہاں تیرے لیے گواہی دوں گا¤عکرمہ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر ؓ نے عبدالرحمن بن عوفؓ سے کہا: اگر تم خود کسی کو زنا کرتے دیکھو یا وہ تمہارے سامنے چوری کا ارتکاب کرے اور تم خود فیصلہ کرنے والے ہوتو؟ انہوں نے کہا:یہ ایک عام مسلمان کو گواہی کی طرح ہے۔ سیدنا عمر ؓ نے فرمایا: تو نے سچ کہا¤سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر مجھے اس امر کا اندیشہ نہ ہو کہ لوگ کہیں گے: عمر نے اللہ کی کتاب میں کچھ اضافہ کردیا تو میں آیت رجم اپنے ہاتھ سے اس میں لکھ دیتا ¤سیدنا ماعز ؓ نے چار مرتبہ نبی ﷺ کے سامنے زنا کا اقرار کیا تو نبی ﷺ نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا لیکن یہ منقول نہیں کہ آپ نے اس اقرار پر حاضرین کو گواہ بنایا ہو۔¤ حماد نے کہا: اگر زنا کرنے والا حاکم کے سامنے ایک دفعہ بھی اقرار نہ کرلے سنگسار نہیں ہوسکتا
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے جناب زین العابدین علی بن حسین ؓ نے کہ صفیہ بنت حیی ؓ (رات کے وقت) نبی کریم ﷺ کے پاس آئیں (اور آنحضرت ﷺ مسجد میں معتکف تھے) جب وہ واپس آنے لگیں تو آنحضرت ﷺ بھی ان کے ساتھ آئے۔ اس وقت دو انصاری صحابی ادھر سے گزرے تو آنحضرت ﷺ نے انہیں بلایا اور فرمایا کہ یہ صفیہ ہیں۔ ان دونوں انصاریوں نے کہا، سبحان اللہ (کیا ہم آپ پر شبہ کریںگے) آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ شیطان انسان کے اندر اس طرح دوڑتا ہے جیسے خون دوڑتا ہے۔ اس کی روایت شعیب ابن مسافر ابن ابی عتیق اور اسحاق بن یحییٰ نے زہری سے کی ہے، ان سے علی بن حسین نے اور ان سے صفیہ ؓ نے نبی کریم ﷺ سے یہی واقعہ نقل کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ali bin Husain (RA) : Safiya bint (daughter of) Huyai came to the Prophet (ﷺ) (in the mosque), and when she returned (home), the Prophet (ﷺ) accompanied her. It happened that two men from the Ansar passed by them and the Prophet (ﷺ) called them saying, "She is Safiya!" those two men said, "Subhan Allah!" The Prophet (ﷺ) said, "Satan circulates in the human body as blood does."