باب : اگر کسی شخص کو حاکم دوسرے مسلمان بھائی کا مال ناحق دلادے تو اس کو نہ لے کیوں کہ حاکم کے فیصلہ سے نہ حرام حلال ہوسکتا ہے نہ حلال حرام ہوسکتا ہے
)
Sahi-Bukhari:
Judgments (Ahkaam)
(Chapter: Whoever is given the right of his brother through a judicial decision)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7182.
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدنا عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: عتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص ؓ کی یہ وصیت کی تھی کہ زمعہ کی لونڈی کا لڑکا میرا ہے، تم اسے اپنی پرورش میں لے لینا، چنانچہ فتح مکہ کے دن سیدنا سعد ؓ نے اسے اپنے قبضے میں لے لیا اور کہا: یہ میرا بھتیجا ہے اور مجھے میرے بھائی نے اس کے متعلق وصیت کی تھی۔ اس دوران میں عبد بن زمعہ کھڑے ہوئے اور کہا: یہ میرا بھائی ہے میرے والد کی لونڈی کا لڑکا ہے اور انھی کے بستر پر پیدا ہوا ہے چنانچہ وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس اپنا مقدمہ لے کر گئے۔ سیدنا سعد ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! یہ میرے بھائی کا لڑکا ہے اور اسی کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”عبد بن زمعہ! یہ تمہارا (بھائی) ہے“ اس کےبعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”بچہ بستر والے کا ہوتا ہے اور زانی بدکار کے لیے تو پتھر ہیں۔ آپ نے سیدہ سودہ بنت زمعہ ؓ سے فرمایا: ”تم اس (لڑکے) سے پردہ کیا کرو“ کیونکہ آپ نے عتبہ سے اس کی مشابہت دیکھ لی تھی، چنانچہ اس نے سیدہ سودہ ؓ کو مرنے تک نہیں دیکھا۔
تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بہت باریک بینی سے اپنے قائم کیے ہوئے عنوان کو ثابت کیا ہے وہ اس طرح کہ اگر قاضی کا فیصلہ ظاہر دونوں طرح نافذ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے مطابق وہ لڑکا حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بھائی بن جاتا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو پردے کا حکم نہ دیتے جب پردے کا حکم دیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ صرف ظاہری جھگڑا ختم کرنے کے لیے تھا حقیقت اور باطن کو بدلنے کے لیے نہ تھا۔ 2۔اگرچہ ظاہر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکے کو حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بھائی ٹھرایا لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ان کا بھائی نہیں تھا، اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔ اگر یہ فیصلہ باطن میں بھی نافذ العمل ہوتا تو بھائی سے پردے کا حکم نہ دیا جاتا۔ واللہ أعلم۔
اگر کسی قاضی نے کسی کے لیے مال ملکیت کا فیصلہ کردیا تواگر وہ حقیقت میں بھی ظاہر کے موافق ہے تو وہ اسے لے لے اور اگرحقیقت میں اس کے مخالف ہے توقاضی کا فیصلہ حرام کو حلال نہیں کرے گا،اس لیے دوسرا آدمی اسے نہ لے۔
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدنا عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: عتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص ؓ کی یہ وصیت کی تھی کہ زمعہ کی لونڈی کا لڑکا میرا ہے، تم اسے اپنی پرورش میں لے لینا، چنانچہ فتح مکہ کے دن سیدنا سعد ؓ نے اسے اپنے قبضے میں لے لیا اور کہا: یہ میرا بھتیجا ہے اور مجھے میرے بھائی نے اس کے متعلق وصیت کی تھی۔ اس دوران میں عبد بن زمعہ کھڑے ہوئے اور کہا: یہ میرا بھائی ہے میرے والد کی لونڈی کا لڑکا ہے اور انھی کے بستر پر پیدا ہوا ہے چنانچہ وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس اپنا مقدمہ لے کر گئے۔ سیدنا سعد ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! یہ میرے بھائی کا لڑکا ہے اور اسی کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”عبد بن زمعہ! یہ تمہارا (بھائی) ہے“ اس کےبعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”بچہ بستر والے کا ہوتا ہے اور زانی بدکار کے لیے تو پتھر ہیں۔ آپ نے سیدہ سودہ بنت زمعہ ؓ سے فرمایا: ”تم اس (لڑکے) سے پردہ کیا کرو“ کیونکہ آپ نے عتبہ سے اس کی مشابہت دیکھ لی تھی، چنانچہ اس نے سیدہ سودہ ؓ کو مرنے تک نہیں دیکھا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بہت باریک بینی سے اپنے قائم کیے ہوئے عنوان کو ثابت کیا ہے وہ اس طرح کہ اگر قاضی کا فیصلہ ظاہر دونوں طرح نافذ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے مطابق وہ لڑکا حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بھائی بن جاتا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو پردے کا حکم نہ دیتے جب پردے کا حکم دیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ صرف ظاہری جھگڑا ختم کرنے کے لیے تھا حقیقت اور باطن کو بدلنے کے لیے نہ تھا۔ 2۔اگرچہ ظاہر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکے کو حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بھائی ٹھرایا لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ان کا بھائی نہیں تھا، اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔ اگر یہ فیصلہ باطن میں بھی نافذ العمل ہوتا تو بھائی سے پردے کا حکم نہ دیا جاتا۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے نبی ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ عتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص ؓ کو یہ وصیت کی تھی کہ زمعہ کی لونڈی (کا لڑکا) میرا ہے۔ تم اسے اپنی پروش میں لے لینا۔ چنانچہ فتح مکہ کے دن سعد ؓ نے اسے لے لیا اور کہا کہ یہ میرے بھائی کا لڑکا ہے اور مجھے اس کے بارے میں انہوں نے وصیت کی تھی، پھر عبد بن زمعہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ یہ میرا بھائی، میرے والد کی لونڈی کا لڑکا ہے اور انہیں کے فراش پر پیدا ہوا۔ چنانچہ یہ دونوں آنحضرت ﷺ کے پاس پہنچے۔ سعد ؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ! میرے بھائی کا لڑکا ہے، انہوں نے مجھے اس کی وصیت کی تھی اور عبد بن زمعہ نے کہا کہ میرا بھائی ہے، میرے والد کی لونڈی کا لڑکا ہے اور انہیں کے فراش پر پیدا ہوا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ عبد بن زمعہ! یہ تمہارا ہے، پھر آپ نے فرمایا کہ بچہ فراش کا ہوتا ہے اور زانی کے لیے پتھر ہے۔ پھر آپ نے سودہ بنت زمعہ ؓ سے کہا کہ اس لڑکے سے پردہ کیا کرو کیونکہ آپ ﷺ نے لڑکے کی عتبہ سے مشابہت دیکھ لی تھی۔ چنانچہ اس نے سودہ ؓ کو موت تک نہیں دیکھا۔
حدیث حاشیہ:
سبحان اللہ! امام بخاری رحمہ اللہ کے باریک فہم پر آفریں۔ انہوں نے اس حدیث سے باب کا مطلب یوں ثابت کیا کہ اگر قاضی کی قضا ظاہر اور باطن یعنی عند الناس وعند اللہ دونوں طرح نافذ ہو جاتی جیسے حنفیہ کہتے ہیں تو جب آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ بچہ زمعہ کا بیٹا ہے تو سودہ کا بھائی ہو جاتا ہے اور اس وقت آپ سودہ رضی اللہ عنہ کو اس سے پردہ کرنے کا کیوں حکم دیتے۔ جب پردے کا حکم دیا تو معلوم ہوا کہ قضائے قاضی سے باطنی اور حقیقی امر نہیں بدلتا گو ظاہر میں وہ سودہ کا بھائی ٹھہرا مگر حقیقتاًعند اللہ بھائی نہ ٹھہرا‘ اسی وجہ سے پردہ کا حکم دیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : (the wife of the Prophet) 'Utba bin Abi Waqqas said to his brother Sa'd bin Abi Waqqas (RA), "The son of the slave girl of Zam'a is from me, so take him into your custody." So in the year of Conquest of Makkah, Sa'd took him and said. (This is) my brother's son whom my brother has asked me to take into my custody." 'Abd bin Zam'a got up before him and said, (He is) my brother and the son of the slave girl of my father, and was born on my father's bed." So they both submitted their case before Allah's Apostle. Sa'd said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! This boy is the son of my brother and he entrusted him to me." 'Abd bin Zam'a said, "This boy is my brother and the son of the slave girl of my father, and was born on the bed of my father." Allah's Apostle (ﷺ) said, "The boy is for you, O 'Abd bin Zam'a!" Then Allah's Apostle (ﷺ) further said, "The child is for the owner of the bed, and the stone is for the adulterer," He then said to Sauda bint Zam'a, "Veil (screen) yourself before him," when he saw the child's resemblance to 'Utba. The boy did not see her again till he met Allah.