باب : کسی شخص کی سرداری میں نا فرمانی سے لوگ طعنہ دیں اور حاکم ان کے طعنہ کی پرواہ نہ کرے
)
Sahi-Bukhari:
Judgments (Ahkaam)
(Chapter: Slanders made by ignorant people against the Amirs)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7187.
سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر تشکیل دیا اور اس پر سیدنا اسامہ بن زید ؓ کو امیر مقرر فرمایا لیکن جب ان کی امارت کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اگر تم اس کی امارت پر طعن کرتے ہو تو اس سے پہلے تم نے اس کے والد کے لائق تھے اور مجھے تمام لوگوں سے زیادہ عزیز تھے اور ا ن کے بعد اسامہ بھی مجھے تمام لوگوں سے زیادہ عزیز ہے۔“
تشریح:
1۔حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی امارت پر طعن کیا گیا تھا کہ کبار اور مشائخ صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کی موجودگی میں اسے امیر کیوں بنایا گیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پروپیگنڈے کی کوئی پروانہ کی اور انھیں امارت سے الگ نہ کیا بلکہ ان کی تعریف فرمائی لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کے پروپیگنڈے کے پیش نظر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کوفے کی امارت سے معزول کر دیاتھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوفے کے حالات ایسے تھے کہ انھیں معزول کرنا ضروری تھا۔ اگرامارت سے انھیں الگ نہ کیاجاتا توحالات کے بگڑ جانے کا خطرہ تھا، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس امر کی وضاحت بھی فرمائی، لیکن حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق حالات کے خراب ہونے اور کسی قسم کے فتنے کا خطرہ نہ تھا۔ 2۔ان کے امیر مقرر کیے جانے کا سبب یہ تھا کہ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رومیوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی سرکوبی کے لیے جو لشکر تشکیل دیا اس کی امارت حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے کی تاکہ انھیں تسلی ہو اور رومیوں سے بے جگری سے لڑیں اور پورے جوش سے ان کا مقابلہ کریں۔بہرحال حاکم وقت کو چاہیے کہ وہ اس قدر پختہ کار ہوکر غلط پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر کوئی اقدام نہ کرے بلکہ حالات کا کھلی آنکھ سے جائزہ لے کر کسی نتیجے پر پہنچے۔ (فتح الباري :233/13)
طعنہ زنی کرنےوالا اگر کسی کوعلم کے بغیر طعن وتشنیع کا نشانہ بناتا ہے تو اس کی پروا نہیں کرنی چاہیے اورنہ اس کے مطابق عمل ہی کرنا چاہیے اور اگرکسی ٹھوس بنیاد پر دوسرے کو مَطعُون کرتا ہے تو اس پر ضرور غور کرنا چاہیے اوراگردونوں پہلو برابر ہیں تو اسے امام کی صوابدید پر چھوڑدیا جائے۔(فتح الباری 13/223)
سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر تشکیل دیا اور اس پر سیدنا اسامہ بن زید ؓ کو امیر مقرر فرمایا لیکن جب ان کی امارت کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اگر تم اس کی امارت پر طعن کرتے ہو تو اس سے پہلے تم نے اس کے والد کے لائق تھے اور مجھے تمام لوگوں سے زیادہ عزیز تھے اور ا ن کے بعد اسامہ بھی مجھے تمام لوگوں سے زیادہ عزیز ہے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی امارت پر طعن کیا گیا تھا کہ کبار اور مشائخ صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کی موجودگی میں اسے امیر کیوں بنایا گیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پروپیگنڈے کی کوئی پروانہ کی اور انھیں امارت سے الگ نہ کیا بلکہ ان کی تعریف فرمائی لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کے پروپیگنڈے کے پیش نظر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کوفے کی امارت سے معزول کر دیاتھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوفے کے حالات ایسے تھے کہ انھیں معزول کرنا ضروری تھا۔ اگرامارت سے انھیں الگ نہ کیاجاتا توحالات کے بگڑ جانے کا خطرہ تھا، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس امر کی وضاحت بھی فرمائی، لیکن حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق حالات کے خراب ہونے اور کسی قسم کے فتنے کا خطرہ نہ تھا۔ 2۔ان کے امیر مقرر کیے جانے کا سبب یہ تھا کہ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رومیوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی سرکوبی کے لیے جو لشکر تشکیل دیا اس کی امارت حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے کی تاکہ انھیں تسلی ہو اور رومیوں سے بے جگری سے لڑیں اور پورے جوش سے ان کا مقابلہ کریں۔بہرحال حاکم وقت کو چاہیے کہ وہ اس قدر پختہ کار ہوکر غلط پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر کوئی اقدام نہ کرے بلکہ حالات کا کھلی آنکھ سے جائزہ لے کر کسی نتیجے پر پہنچے۔ (فتح الباري :233/13)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے عبد العزیز بن مسلم نے بیان کیا، ان سے عبد اللہ بن دینار نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ میں نے عبد اللہ بن عمر ؓ سے سنا‘ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک لشکر بھیجا اور اس کا امیر اسامہ بن زید ؓ کو بنا یا لیکن ان کی سرداری پر طعن کیا گیا۔ آنحضرت ﷺ نے اس پر فرمایا کہ اگر آج تم ان کی امارت کو مطعون قرار دیتے ہو تو تم نے اس سے پہلے اس کے والد (زید ؓ) کی امارت کو بھی مطعون قرار دیا تھا اور خدا کی قسم وہ امارت کے لیے سزاوار تھے اور وہ مجھے تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عزیز تھے اور یہ (اسامہ ؓ) ان کے بعد سب سے زیادہ مجھے عزیز ہے۔
حدیث حاشیہ:
کہ بوڑھے بوڑھے لوگ ہوتے ہوئے آپ نے ایک چھو کرے کو سردار بنا یا۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فعل مصلحت اور دور اندیشی سے خالی نہ تھا۔ ہوا یہ تھا کہ اسامہ رضی اللہ عنہ کے والد زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ان رومی کافروں کے ہاتھ سے شہید ہوئے تھے۔ آپ نے ان کے بیٹے کو اس لیے سردار بنایا تھا کہ وہ اپنے باپ کے مارنے والوں کو بڑے جوش کے ساتھ لڑیں گے۔ دوسرے یہ کہ اسامہ رضی اللہ عنہ کے دل کو ذرا تسلی ہوگی۔ اسامہ رضی اللہ عنہ کے والد حضرت زید رضی اللہ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹا بنایا تھاجب وہ غزوہ موتہ میں شہید ہوئے تو ایک اکلوتا بیٹا اسامہ رضی اللہ عنہ چھوڑ گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو بے انتہا چاہتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک ران پر ان کو بٹھاتے اور ایک ران پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو اور فرماتے یا اللہ ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان دونوں سے محبت کر اس حدیث کے لانے سے یہاں یہ غرض ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے لغوطعن وتشنیع پر کچھ خیال نہیں کیا اور اسامہ رضی اللہ عنہ کو سرداری سے علیحدہ نہیں کیا۔ اب یہ اعتراض نہ ہوگا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ کی بے اصل شکایات پر سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو کیوں معزول کر دیا کیونکہ ہر زمانہ اور ہر موقع کی مصلحت جدا گانہ ہوتی ہے گو سعد رضی اللہ عنہ کی شکایت جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیں تو بے اصل نکلیں مگر کسی فتنے یا فساد کے ڈر سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان کا علیحدہ ہی کر دینا قرین مصلحت نظر آیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے کسی فتنہ اور فساد کا اندیشہ نہ تھا۔ بہر حال یہ امر امام کی رائے کی طرف مفوض ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) sent an army unit headed by Usama bin Zaid and the people criticized his leadership. The Prophet (ﷺ) said (to the people), "If you are criticizing his leadership now, then you used to criticize his father's leadership before. By Allah, he (Usama's father) deserved the leadership and used to be one of the most beloved persons to me, and now his son (Usama) is one of the most beloved persons to me after him. " (See Hadith No. 745, Vol. 5)