باب : جب حاکم کا فیصلہ ظالمانہ ہو یا علماءکے خلاف ہو تو وہ رد کردیا جائے گا
)
Sahi-Bukhari:
Judgments (Ahkaam)
(Chapter: If a judge passes an unjust judgement)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7189.
سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے سیدنا خالد بن ولید ؓ کو بنو خزیمہ کی طرف بھیجا تو وہ اپنے اسلام لانے کا اظہار اچھی طرح نہ کرسکے۔ انہوں نے ”ہم اسلام لائے“ کے بجائے ”ہم اپنے دین سے پھر گئے“ کہنا شروع کر دیا۔ سیدنا خالد ؓ نے انہیں قتل کرنا اور قیدی بنانا شروع کر دیا۔ اور انہوں نے ہم میں سے ہر ایک کو اس کے حصے کا قیدی دیا اور حکم دیا کہ ہر شخص اپنے قیدی کو قتل کر دے۔ میں نے کہا : اللہ کی قسم! میں اپنا قیدی قتل نہیں کروں گا اور نہ میرے ساتھیوں ہی میں سے کوئی اپنا قیدی قتل کرے گا۔ پھر (واپسی پر ہم) نے اس واقعے کا ذکر نبی ﷺ سے کیا تو آپ نے فرمایا: ”اے اللہ! جو کچھ خالد بن ولید نے کیا ہے میں اس سے اظہار براءت کرتا ہوں۔“ یہ الفاظ آپ نے دو مرتبہ فرمائے۔
تشریح:
1۔حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو انھیں قتل کرنے کا فیصلہ کرنے سے پہلے پوچھنا چاہیے تھا کہ تمہاری اس سے کیا مراد ہے؟ چونکہ انھوں نے یہ فیصلہ اپنے اجتہاد سے کیا تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں کوئی سزا نہیں دی۔ صرف ان کے فعل سے اظہار براءت فرمایا تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ اقدام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے نہ تھا تاکہ آئندہ کوئی ایسا کرنے کی جراءت نہ کرے۔ 2۔اس سے معلوم ہوا کہ اس قسم کا فیصلہ اگراجتہاد وتاویل کی بنیاد پر ہوتو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا لیکن چونکہ یہ فیصلہ کتاب وسنت کے خلاف تھا، اس لیے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے موقف کی تائید فرمائی اور حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اقدام قتل سے اظہار براءت فرمایا۔ (فتح الباري: 225/13)
سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے سیدنا خالد بن ولید ؓ کو بنو خزیمہ کی طرف بھیجا تو وہ اپنے اسلام لانے کا اظہار اچھی طرح نہ کرسکے۔ انہوں نے ”ہم اسلام لائے“ کے بجائے ”ہم اپنے دین سے پھر گئے“ کہنا شروع کر دیا۔ سیدنا خالد ؓ نے انہیں قتل کرنا اور قیدی بنانا شروع کر دیا۔ اور انہوں نے ہم میں سے ہر ایک کو اس کے حصے کا قیدی دیا اور حکم دیا کہ ہر شخص اپنے قیدی کو قتل کر دے۔ میں نے کہا : اللہ کی قسم! میں اپنا قیدی قتل نہیں کروں گا اور نہ میرے ساتھیوں ہی میں سے کوئی اپنا قیدی قتل کرے گا۔ پھر (واپسی پر ہم) نے اس واقعے کا ذکر نبی ﷺ سے کیا تو آپ نے فرمایا: ”اے اللہ! جو کچھ خالد بن ولید نے کیا ہے میں اس سے اظہار براءت کرتا ہوں۔“ یہ الفاظ آپ نے دو مرتبہ فرمائے۔
حدیث حاشیہ:
1۔حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو انھیں قتل کرنے کا فیصلہ کرنے سے پہلے پوچھنا چاہیے تھا کہ تمہاری اس سے کیا مراد ہے؟ چونکہ انھوں نے یہ فیصلہ اپنے اجتہاد سے کیا تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں کوئی سزا نہیں دی۔ صرف ان کے فعل سے اظہار براءت فرمایا تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ اقدام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے نہ تھا تاکہ آئندہ کوئی ایسا کرنے کی جراءت نہ کرے۔ 2۔اس سے معلوم ہوا کہ اس قسم کا فیصلہ اگراجتہاد وتاویل کی بنیاد پر ہوتو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا لیکن چونکہ یہ فیصلہ کتاب وسنت کے خلاف تھا، اس لیے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے موقف کی تائید فرمائی اور حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اقدام قتل سے اظہار براءت فرمایا۔ (فتح الباري: 225/13)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمود نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبد الرزاق نے بیان کہا‘ کہا ہم کو معمر نے خبر دی‘ انہیں زہری نے انہیں سالم نے اور انہیں ابن عمر ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے خالد ؓ کو بھیجا۔ (دوسری سند) امام بخاری نے کہا اور مجھ سے نعیم بن حماد نے بیان کیا‘ کہا ہم کو عبد اللہ نے خبر دی‘ کہا ہم کو معمر نے خبر دی‘ انہیں زہری نے‘ انہیں سالم نے‘ انہیں ان کے والد نے نبی کریم ﷺ نے خالد بن ولید ؓ کو بنی جذیمہ‘ کی طرف بھیجا (جب انہیں اسلام کی دعوت دی) تو وہ ”أسلمنا“ (ہم اسلام لائے) کہہ کر اچھی طرح اظہار اسلام نے کر سکے بلکہ کہنے لگے کہ صبانا صبانا (ہم اپنے دین سے پھر گئے‘ ہم اپنے دین سے پھر گئے) اس پر خالد ؓ انہیں قتل اور قید کرنے لگے اور ہم میں سے ہر شخص کو اس کا حصہ کا قیدی دیا اور ہمیں حکم دیا کہ ہر شخص اپنے قیدی کو قتل کر دے۔ اس پر میں نے کہا کہ واللہ! میں اپنے قیدی کو قتل نہیں کروں گا اور نہ میرے ساتھیوں میں کوئی اپنے قیدی کو قتل کرے گا۔ پھر ہم نے اس کا ذکر نبی کریم ﷺ سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ اے اللہ! میں اس سے براءت ظاہر کرتا ہوں جو خالد بن ولید ؓ رضی اللہ نے کیا۔ دو مرتبہ۔
حدیث حاشیہ:
آپ نے یہ الفاظ فرمائے۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ حاکم تھے مگر ان کے غلط فیصلے کو ساتھیوں نے نہیں مانا۔ اسی سے باب کا مطلب ثابت ہوتا ہے۔ سچ ہے لا طاعةَ للمخلوقِ فِي معصبةِ الخالقِ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA) : The Prophet (ﷺ) sent (an army unit under the command of) Khalid bin Al-Walid to fight against the tribe of Bani Jadhima and those people could not express themselves by saying, "Aslamna," but they said, "Saba'na! Saba'na! " Khalid kept on killing some of them and taking some others as captives, and he gave a captive to everyone of us and ordered everyone of us to kill his captive. I said, "By Allah, I shall not kill my captive and none of my companions shall kill his captive!" Then we mentioned that to the Prophet (ﷺ) and he said, "O Allah! I am free from what Khalid bin Al-Walid has done," and repeated it twice.