باب : امام کسی جماعت کے پاس آئے اور ان میں باہم صلح کرادے
)
Sahi-Bukhari:
Judgments (Ahkaam)
(Chapter: The Imam going to establish peace among people)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7190.
سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: قبیلہ بنو عمرو میں باہم لڑائی ہوگئی۔نبی ﷺ کو اس کو اطلاع ملی تو آپ نے ظہر کی نماز پڑھی ،پھر ان کے ہاں صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے۔جب نماز عصر کا وقت ہوا تو بلال ؓ نے اذان اور اقامت کہی، پھر سیدنا ابو بکر ؓ سے کہا کہ وہ آگے بڑھیں اور نماز پڑھائیں ، چنانچہ آپ نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھے تو نبی ﷺ بھی تشریف لے آئے جبکہ ابو بکر ؓ نماز ہی میں تھے ۔آپ ﷺ صفوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھے اور سیدنا ابو بکر ؓ کے پیچھے کھڑے ہوگئے اور اس صف میں تشریف لے گئے جو ابو بکر ؓ کے قریب تھی۔ سیدنا سہل ؓ نے کہا: لوگوں نے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مارا، لیکن سیدنا ابو بکر ؓ جب نماز شروع کرتے تو ختم کرنے سے پہلے کسی طرف توجہ نہیں کرتے تھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ لوگوں کی تالیاں بند نہیں ہورہیں تو ادھر متوجہ ہوئے اور نبی ﷺ کو اپنے پیچھے دیکھا۔ نبی ﷺ نے انہیں اشارہ کیا کہ نماز کو جاری رکھیں اور اس طرح آپ نے اپنے دست مبارک سے اشارہ فرمایا: سیدنا ابو بکر ؓ تھوڑی دیر ٹھہرے اور نبی کے حکم کی تعمیل میں اللہ کی حمد وثنا کرتے رہے، پھر آپ الٹے پاؤں پیچھے آگئے۔ جب نبی ﷺ نے یہ دیکھا تو آپ آگے بڑھے اور لوگوں کو نماز پڑھائی۔ نماز مکمل کرنے کے بعد آپ نے فرمایا: ابو بکر! جب میں نےاشارہ کردیا تھا تو تمہیں نماز پوری پڑھانے میں کیا چیز مانع تھی؟ انہوں نے کہا: ابو قحافہ کے بیٹے کے لیے مناسب نہیں تھا کہ وہ نبی ﷺ کی امامت کرائے۔ اس کے بعد نبی ﷺ نے لوگوں سے فرمایا: ”جب (نماز میں) کوئی معاملہ پیش آجائے تو مرد سبحان اللہ کہیں اور عورتوں کو چاہیئے کہ وہ ہاتھ ماریں۔“
تشریح:
1۔کامیاب مثالی حکومت کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے عوام کی ضروریات وسہولیات کا پوراپورا خیال رکھے اور عدل وانصاف ان کے دروازے تک پہنچانے کا اہتمام کرے۔ جب کہیں ان میں گڑ بڑ کا پتا چلے تو فوراً اس کے سد باب کا اہتمام کرے۔ اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ حاکم وقت وہاں جائے اور حالات کا جائزہ لے، چنانچہ قبیلہ بنوعمرو جو قباء میں رہائش رکھے ہوئے تھا ان میں لڑائی ہوئی۔ نوبت پتھراؤ کرنے تک جاپہنچی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے فرمایا چلیں، ان کے درمیان صلح کرادیں۔ (صحیح البخاري، الصلح، حدیث: 2693) چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس وہاں تشریف لے گئے، فریقین کے بیانات سنے اور ان کے درمیان صلح کرادی۔ اس طرح جھگڑا بھی ختم ہوگیا اور مقامی احباب کی حوصلہ افزائی بھی ہوئی کہ ہمارے سربراہ ہمارے پاس چل کر آئے ہیں۔ 2۔بہرحال ایسے معاملات میں حاکم وقت کو دلچسپی لینی چاہیے اور اسے اپنی شان کے خلاف خیال نہ کرے جیسا کہ عام طور پر صاحب اقتدار حضرات کویہ "بیماری" لاحق ہو جاتی ہے۔واللہ أعلم۔
حاکم وقت لوگوں کے پاس جانے کو اپنی عزت وشان کے خلاف نہ سمجھے بلکہ یہ اس کی خوبی ہے کہ وہ خود چل کر لوگوں کے پاس جائے اور انھیں صلح صفائی اور امن وسلامتی کی تعلیم دے۔
سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: قبیلہ بنو عمرو میں باہم لڑائی ہوگئی۔نبی ﷺ کو اس کو اطلاع ملی تو آپ نے ظہر کی نماز پڑھی ،پھر ان کے ہاں صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے۔جب نماز عصر کا وقت ہوا تو بلال ؓ نے اذان اور اقامت کہی، پھر سیدنا ابو بکر ؓ سے کہا کہ وہ آگے بڑھیں اور نماز پڑھائیں ، چنانچہ آپ نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھے تو نبی ﷺ بھی تشریف لے آئے جبکہ ابو بکر ؓ نماز ہی میں تھے ۔آپ ﷺ صفوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھے اور سیدنا ابو بکر ؓ کے پیچھے کھڑے ہوگئے اور اس صف میں تشریف لے گئے جو ابو بکر ؓ کے قریب تھی۔ سیدنا سہل ؓ نے کہا: لوگوں نے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مارا، لیکن سیدنا ابو بکر ؓ جب نماز شروع کرتے تو ختم کرنے سے پہلے کسی طرف توجہ نہیں کرتے تھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ لوگوں کی تالیاں بند نہیں ہورہیں تو ادھر متوجہ ہوئے اور نبی ﷺ کو اپنے پیچھے دیکھا۔ نبی ﷺ نے انہیں اشارہ کیا کہ نماز کو جاری رکھیں اور اس طرح آپ نے اپنے دست مبارک سے اشارہ فرمایا: سیدنا ابو بکر ؓ تھوڑی دیر ٹھہرے اور نبی کے حکم کی تعمیل میں اللہ کی حمد وثنا کرتے رہے، پھر آپ الٹے پاؤں پیچھے آگئے۔ جب نبی ﷺ نے یہ دیکھا تو آپ آگے بڑھے اور لوگوں کو نماز پڑھائی۔ نماز مکمل کرنے کے بعد آپ نے فرمایا: ابو بکر! جب میں نےاشارہ کردیا تھا تو تمہیں نماز پوری پڑھانے میں کیا چیز مانع تھی؟ انہوں نے کہا: ابو قحافہ کے بیٹے کے لیے مناسب نہیں تھا کہ وہ نبی ﷺ کی امامت کرائے۔ اس کے بعد نبی ﷺ نے لوگوں سے فرمایا: ”جب (نماز میں) کوئی معاملہ پیش آجائے تو مرد سبحان اللہ کہیں اور عورتوں کو چاہیئے کہ وہ ہاتھ ماریں۔“
حدیث حاشیہ:
1۔کامیاب مثالی حکومت کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے عوام کی ضروریات وسہولیات کا پوراپورا خیال رکھے اور عدل وانصاف ان کے دروازے تک پہنچانے کا اہتمام کرے۔ جب کہیں ان میں گڑ بڑ کا پتا چلے تو فوراً اس کے سد باب کا اہتمام کرے۔ اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ حاکم وقت وہاں جائے اور حالات کا جائزہ لے، چنانچہ قبیلہ بنوعمرو جو قباء میں رہائش رکھے ہوئے تھا ان میں لڑائی ہوئی۔ نوبت پتھراؤ کرنے تک جاپہنچی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے فرمایا چلیں، ان کے درمیان صلح کرادیں۔ (صحیح البخاري، الصلح، حدیث: 2693) چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس وہاں تشریف لے گئے، فریقین کے بیانات سنے اور ان کے درمیان صلح کرادی۔ اس طرح جھگڑا بھی ختم ہوگیا اور مقامی احباب کی حوصلہ افزائی بھی ہوئی کہ ہمارے سربراہ ہمارے پاس چل کر آئے ہیں۔ 2۔بہرحال ایسے معاملات میں حاکم وقت کو دلچسپی لینی چاہیے اور اسے اپنی شان کے خلاف خیال نہ کرے جیسا کہ عام طور پر صاحب اقتدار حضرات کویہ "بیماری" لاحق ہو جاتی ہے۔واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو النعمان نے بیان کیا‘ کہا ہم سے حماد نے بیان کیا‘ ان سے ابو حازم المدینی نے بیان کیا اور ان سے سہل بن سعد الساعدی ؓ نے بیان کیا کہ قبیلہ بنی عمر وبن عوف میں باہم لڑائی ہو گئی۔ جب آنحضرت ﷺ کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے ظہر کی نماز پڑھی اور ان کے یہاں صلح کرانے کے لئے تشریف لائے۔ جب عصر کی نماز کا وقت ہوا (مدینہ میں) تو بلال ؓ نے اذان دی اور اقامت کہی۔ آپ نے ابو بکر ؓ کو نماز پڑھانے کا حکم دیا تھا۔ چنانچہ وہ آگئے بڑھے‘ اتنے میں آنحضرت ﷺ تشریف لے آئے ابو بکر ؓ نماز ہی میں تھے‘ پھر آنحضرت ﷺ لوگوں کی صف کو چیرتے ہوئے آگے بڑھے اور ابو بکر ؓ کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور اس صف میں آگئے جو ان سے قریب تھی ۔ سہل ؓ نے کہا کہ لوگوں نے آنحضرت ﷺ کی آمد کو بتانے کے لیے ہاتھ مارے۔ ابو بکر ؓ جب نماز شروع کرتے تو ختم کرنے سے پہلے کسی طرف توجہ نہیں کرتے تھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ ہاتھ پر ہاتھ مارنا رکتا ہی نہیں تو آپ متوجہ ہوئے اور آنحضرت ﷺ کو اپنے پیچھے دیکھا لیکن آنحضرت ﷺ نے اشارہ کیا کہ نماز پوری کریں اور آپ نے اس طرح ہاتھ سے اپنی جگہ ٹھہرے رہنے کا اشارہ کیا۔ ابو بکر ؓ تھوڑی دیر نبی کریم ﷺ کے حکم پر اللہ کی حمد کرنے کے لیے ٹھہرے رہے‘ پھر آپ الٹے پاؤں پیچھے آگئے۔ جب آنحضرت ﷺ نے یہ دیکھا تو آپ آگے بڑھے اور لوگوں کو آپ نے نماز پڑھائی۔ نماز پوری کرنے کے بعد آپ نے فرمایا‘ ابو بکر! جب میں نے ارشاد کردیا تھا تو آپ کو نماز پوری پڑھانے میں کیا چیز مانع تھی؟ انہوں نے عرض کیا‘ ابن ابی قحافہ کے لیے مناسب نہیں تھا کہ وہ آنحضرت ﷺ کی امامت کرے اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ (نماز میں) جب کوئی معاملہ پیش آئے تو مردوں کو سبحان اللہ کہنا چاہئیے اور عورتوں کو ہاتھ پر ہاتھ مارنا چاہئے۔
حدیث حاشیہ:
قبیلہ بنی عمر بن عوف میں آپ صلح کرانے گئے‘ اسی سے باب کا مطلب ثابت ہوا‘ اس میں امام کی کسر شان نہیں ہے بلکہ یہ اس خوبی ہوگی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl bin Sa'd As-Saidi (RA) : There was some quarrel (sighting) among Bani 'Amr, and when this news reached the Prophet, he offered the Zuhr prayer and went to establish peace among them. In the meantime the time of 'Asr prayer was due, Bilal (RA) pronounced the Adhan and then the Iqama for the prayer and requested Abu Bakr (RA) (to lead the prayer) and Abu Bakr (RA) went forward. The Prophet (ﷺ) arrived while Abu Bakr (RA) was still praying. He entered the rows of praying people till he stood behind Abu Bakr (RA) in the (first) row. The people started clapping, and it was the habit of Abu Bakr (RA) that whenever he stood for prayer, he never glanced side-ways till he had finished it, but when Abu Bakr (RA) observed that the clapping was not coming to an end, he looked and saw the Prophet (ﷺ) standing behind him. The Prophet (ﷺ) beckoned him to carry on by waving his hand. Abu Bakr (RA) stood there for a while, thanking Allah for the saying of the Prophet (ﷺ) and then he retreated, taking his steps backwards. When the Prophet (ﷺ) saw that, he went ahead and led the people in prayer. When he finished the prayer, he said, "O Abu Bakr! What prevented you from carrying on with the prayer after I beckoned you to do so?" Abu Bakr (RA) replied, "It does not befit the son of Abi Quhafa to lead the Prophet (ﷺ) in prayer." Then the Prophet (ﷺ) said to the people, "If some problem arises during prayers, then the men should say, Subhan Allah!; and the women should clap." (See Hadith No. 652, Vol. 1)