باب : ایک خلیفہ مرتے وقت کسی اور کو خلیفہ کرجائے تو کیسا ہے ؟
)
Sahi-Bukhari:
Judgments (Ahkaam)
(Chapter: The appointment of a caliph)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7218.
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ سیدنا عمر ؓ سے کہا گیا: آپ کسی کو خلیفہ کیوں نہیں نامزد کردیتے؟ انہوں نے فرمایا: اگر میں کسی کو خلیفہ نامزد کرتا ہوں تو اس شخص نے خلیفہ نامزد کیا تھا جو مجھ سے بہتر تھے۔ یعنی ابو بکر ؓ اور اگر میں اسے مسلمانوں کی رائے پر چھوڑتا ہوں تو اس بزرگ نے اسے مسلمانوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا تھا جو مجھ سے بہت بہتر تھے، یعنی رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی۔ لوگوں نے اس موقف پر ان کی تعریف کی تو انہوں نے فرمایا: کوئی تو میری دل سے تعریف کرتا ہے اور کوئی ڈرتے ہوئے ایسا کرتا ہے۔ اب تو میں یہی غنیمت سمجھتا ہوں کہ خلافت کی ذمہ داریوں سے برابر برابر نجات پاجاؤں نہ مجھے اس کا کوئی ثواب ملے اور نہ مجھ سے اس کے متعلق کوئی باز پرس ہی ہو، میں نے خلافت کا بوجھ زندگی بھر اٹھایا لیکن مرتے وقت اس بار کو نہیں اٹھاؤں گا۔
تشریح:
1۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلافت کے سلسلے میں انتہائی محتاط طریقہ اختیار فرمایا۔ انھوں نے جب دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو خلیفہ نہیں بنایا بلکہ مسلمانوں کی صوابدید پر اسے چھوڑ دیا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نامزدگی کی تھی تو انھوں نے ایک ایسا راستہ اختیار کیا جس میں دونوں حضرات کی پیروی تھی۔ کچھ لوگوں کے مشورے پر چھوڑدیا اور کچھ نامزدگی کر دی۔ انھوں نے چھ آدمیوں کی کمیٹی بنادی جو اس وقت تمام مسلمانوں سے افضل تھے، پھر ان چھ میں کسی کا تعین مسلمانوں کی صوابدید پر چھوڑدیا۔ 2۔بہرحال خلافت کے سلسلے میں انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورسیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں حضرات کے طریقے کو اختیار فرمایا۔۔۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔۔۔
اسلام میں انتخاب امیر کا کوئی خاص طریقہ متعین نہیں ہے ۔حالات کے پیش نظر خلیفہ اپنی موت کے وقت خلافت کے لیے کسی شخص کو نامزد کرسکتا ہے اور ایک جماعت بھی تشکیل دے سکتا ہے جو اپنے میں سے کسی ایک کو خلیفہ منتخب کرلیں۔الغرض دینی مقاصد اور شرعی احکام وحدود کا لحاظ کرتے ہوئے حالات کے مطابق کوئی طریقہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ سیدنا عمر ؓ سے کہا گیا: آپ کسی کو خلیفہ کیوں نہیں نامزد کردیتے؟ انہوں نے فرمایا: اگر میں کسی کو خلیفہ نامزد کرتا ہوں تو اس شخص نے خلیفہ نامزد کیا تھا جو مجھ سے بہتر تھے۔ یعنی ابو بکر ؓ اور اگر میں اسے مسلمانوں کی رائے پر چھوڑتا ہوں تو اس بزرگ نے اسے مسلمانوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا تھا جو مجھ سے بہت بہتر تھے، یعنی رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی۔ لوگوں نے اس موقف پر ان کی تعریف کی تو انہوں نے فرمایا: کوئی تو میری دل سے تعریف کرتا ہے اور کوئی ڈرتے ہوئے ایسا کرتا ہے۔ اب تو میں یہی غنیمت سمجھتا ہوں کہ خلافت کی ذمہ داریوں سے برابر برابر نجات پاجاؤں نہ مجھے اس کا کوئی ثواب ملے اور نہ مجھ سے اس کے متعلق کوئی باز پرس ہی ہو، میں نے خلافت کا بوجھ زندگی بھر اٹھایا لیکن مرتے وقت اس بار کو نہیں اٹھاؤں گا۔
حدیث حاشیہ:
1۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلافت کے سلسلے میں انتہائی محتاط طریقہ اختیار فرمایا۔ انھوں نے جب دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو خلیفہ نہیں بنایا بلکہ مسلمانوں کی صوابدید پر اسے چھوڑ دیا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نامزدگی کی تھی تو انھوں نے ایک ایسا راستہ اختیار کیا جس میں دونوں حضرات کی پیروی تھی۔ کچھ لوگوں کے مشورے پر چھوڑدیا اور کچھ نامزدگی کر دی۔ انھوں نے چھ آدمیوں کی کمیٹی بنادی جو اس وقت تمام مسلمانوں سے افضل تھے، پھر ان چھ میں کسی کا تعین مسلمانوں کی صوابدید پر چھوڑدیا۔ 2۔بہرحال خلافت کے سلسلے میں انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورسیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں حضرات کے طریقے کو اختیار فرمایا۔۔۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔۔۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا‘ کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی‘ انہیں ہشام بن عروہ نے‘ انہیں ان کے والد نے اور ان سے عبد اللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ حضرت عمر ؓ جب زخمی ہوئے تو ان سے کہا گیا کہ آپ اپنا خلیفہ منتخب کیوں نہیں نامزد کردیتے؟ انہوں نے فرمایا: اگر میں کسی کو خلیفہ نامزد کرتا ہوں (تو اس کی بھی مثال ہے کہ) اس شخص نے اپنا خلیفہ منتخب کیا تھا جو مجھ سے بہتر تھے یعنی ابو بکر ؓ اور اگر میں اسے مسلمانوں کی رائے پر چھوڑتا ہوں تو (اس کی بھی مثال موجود ہے کہ) اس بزرگ نے (خلیفہ کا انتخاب مسلمانوں کے لیے) چھوڑ دیا تھا جو مجھ سے بہتر تھے یعنی رسول کریم ﷺ۔ پھر لوگوں نے آپ کی تعریف کی‘ پھر انہوں نے کہا کہ کوئی تو دل سے میری تعریف کرتا ہے کوئی ڈر کر۔ اب میں تو یہی غنیمت سمجھتا ہوں کہ خلافت کی ذمہ داریوں میں اللہ کے ہاں برابر برابر ہی چھوٹ جاؤں‘ نہ مجھے کچھ ثواب ملے اور نہ کوئی عذاب میں نے خلافت کا بوجھ اپنی زندگی بھر اٹھایا۔ اب مرنے پر میں اس بار کو نہیں اٹھاؤں گا۔
حدیث حاشیہ:
سبحان اللہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی احتیاط انہوں نے جب دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کسی کو خلیفہ نہیں کیا‘ مسلمانوں کی رائے پر چھوڑا اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ کر گئے تو وہ ایسے رستے چلے جس میں دونوں کی پیروی ہو جاتی ہے یعنی کچھ مشورہ پر چھوڑا کچھ مقرر کردیا۔ انہوں نے چھ آدمیوں کو اس وقت افضل اور اعلیٰ تھے‘ معین کیا پھر ان چھ میں سے کسی کی تعیین مسلمانوں کی رائے پر چھوڑدی۔ گویا دونوں سنتوں پر عمل کیا۔ دوسرے تقویٰ شعاری دیکھئے کہ عشرہ مبشرہ میں سے سعید بن زید بھی زندہ تھے مگر ان کا نام تک نہ لیا‘ اس خیال سے کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کچھ رشتہ رکھتے تھے۔ ہائے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح مسلمانوں میں کون بے نفس اور عادل مصنف پیدا ہوا ہے۔ ان کا ایک ایک کام ایسا ہے جو ان کی فضیلت پہچاننے کے لیے کافی ہے اور افسوس ہے ان عقل کے اندھوں پر جو ایسے فرد فرید کو جسکا نظیر اسلام میں نہیں ہوا برا جانتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar (RA) : It was said to 'Umar, "Will you appoint your successor?" Umar said, "If I appoint a Caliph (as my successor) it is true that somebody who was better than I (i.e., Abu Bakr) did so, and if I leave the matter undecided, it is true that somebody who was better than I (i.e., Allah's Apostle) (ﷺ) did so." On this, the people praised him. 'Umar said, "People are of two kinds: Either one who is keen to take over the Caliphate or one who is afraid of assuming such a responsibility. I wish I could be free from its responsibility in that I would receive neither reward nor retribution I won't bear the burden of the caliphate in my death as I do in my life."