باب : ایک خلیفہ مرتے وقت کسی اور کو خلیفہ کرجائے تو کیسا ہے ؟
)
Sahi-Bukhari:
Judgments (Ahkaam)
(Chapter: The appointment of a caliph)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7219.
سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے سیدنا عمر کا دوسرا خطبہ سنا جب آپ منبر پر بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ واقعہ نبی ﷺ کی وفات کے دوسرے دن کا ہے۔ سیدنا عمر نے خطبہ پڑھا جبکہ سیدنا ابو بکر ؓ خاموش تھے اور کوئی بات نہ کرتے تھے پھر سیدنا عمر نے کہا: مجھے امید تھی کہ رسول اللہ ﷺ زندہ رہیں گے اور ہمارے کاموں کی تدبیر و انتظام کرتے رہیں گے۔ اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ سیدنا محمد ﷺ ان سب سے آخر میں وفات پائیں گے۔ اگر محمد ﷺ وفات پا چکے ہیں تو بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہارے سامنے نور(قرآن) کو باقی رکھا ہے جس کے ذریعے سے تم ہدایت حاصل کرتے رہو گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعے سے سیدنا محمد ﷺ کی رہنمائی فرمائی۔ سیدنا ابو بکر ؓ رسول اللہ کے ساتھی اور دو میں سے دوسرے ہیں۔ وہ مسلمانوں میں بہترین شخص ہیں جو تمہارے امور سر انجام دیں لہذا اٹھو اور ان کی بیعت کرو۔ ان میں سے ایک جماعت پہلے ہی سقیفہ بنو ساعدہ میں آپ کی بیعت کرچکی تھی۔ پھر عام لوگوں نے منبر نبوی پر بیعت کی۔ زہری نے سیدنا انس ؓ سے بیان کیا، انہوں نے سیدنا عمر ؓ سے سنا کہ وہ سیدنا ابو بکر ؓ سے اس دن کہہ رہے تھے: آپ منبر پر تشریف لائیں۔ وہ ان سے مسلسل کہتے رہے حتیٰ کہ وہ تشریف لے آئے اور سب لوگوں نے آپ سے بیعت کرلی۔
تشریح:
1۔سقیفہ بنو ساعدہ ایک پنچائیت گھر تھا جس میں خاص لوگوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیعت کی تھی۔ اس کے بعدحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اجتماع عام میں اعلان کیا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کے لیے موزوں اور مستحق ہیں۔ اس سے انھوں نے حاضرین کو ان سے بیعت کرنے کی ترغیب دلائی، پھر عام لوگوں نے ان کی بیعت کی۔ یہ بیعت ثانیہ تھی جو پہلی بیعت سے عام اور زیادہ مشہور ہے۔ 2۔باب سے مناسبت یہ ہے کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی تم سب میں خلافت کے زیادہ مستحق اور زیادہ لائق ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ابن التین کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو منبر پر چڑھنے کے لیے کہا اور اس پر اصرارکیا تاکہ آپ کا سب لوگوں سے تعارف ہوجائے لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تواضع اور انکسار کی وجہ سے انکار کر رہے تھے۔ (فتح الباري: 258/13) 3۔اس سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جن کا موقف ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زور اور اصرار سے ہوئی اورحضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے لائق نہیں تھے۔ یہ اس لیے بھی غلط ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اس سے کیوں اتفاق کرتے؟ بہرحال حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی اس وقت خلافت کے سب سے زیادہ حق دار اور مناسب تھے اور اس پر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا اجماع ہے۔ واللہ المستعان۔
اسلام میں انتخاب امیر کا کوئی خاص طریقہ متعین نہیں ہے ۔حالات کے پیش نظر خلیفہ اپنی موت کے وقت خلافت کے لیے کسی شخص کو نامزد کرسکتا ہے اور ایک جماعت بھی تشکیل دے سکتا ہے جو اپنے میں سے کسی ایک کو خلیفہ منتخب کرلیں۔الغرض دینی مقاصد اور شرعی احکام وحدود کا لحاظ کرتے ہوئے حالات کے مطابق کوئی طریقہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔
سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے سیدنا عمر کا دوسرا خطبہ سنا جب آپ منبر پر بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ واقعہ نبی ﷺ کی وفات کے دوسرے دن کا ہے۔ سیدنا عمر نے خطبہ پڑھا جبکہ سیدنا ابو بکر ؓ خاموش تھے اور کوئی بات نہ کرتے تھے پھر سیدنا عمر نے کہا: مجھے امید تھی کہ رسول اللہ ﷺ زندہ رہیں گے اور ہمارے کاموں کی تدبیر و انتظام کرتے رہیں گے۔ اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ سیدنا محمد ﷺ ان سب سے آخر میں وفات پائیں گے۔ اگر محمد ﷺ وفات پا چکے ہیں تو بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہارے سامنے نور(قرآن) کو باقی رکھا ہے جس کے ذریعے سے تم ہدایت حاصل کرتے رہو گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعے سے سیدنا محمد ﷺ کی رہنمائی فرمائی۔ سیدنا ابو بکر ؓ رسول اللہ کے ساتھی اور دو میں سے دوسرے ہیں۔ وہ مسلمانوں میں بہترین شخص ہیں جو تمہارے امور سر انجام دیں لہذا اٹھو اور ان کی بیعت کرو۔ ان میں سے ایک جماعت پہلے ہی سقیفہ بنو ساعدہ میں آپ کی بیعت کرچکی تھی۔ پھر عام لوگوں نے منبر نبوی پر بیعت کی۔ زہری نے سیدنا انس ؓ سے بیان کیا، انہوں نے سیدنا عمر ؓ سے سنا کہ وہ سیدنا ابو بکر ؓ سے اس دن کہہ رہے تھے: آپ منبر پر تشریف لائیں۔ وہ ان سے مسلسل کہتے رہے حتیٰ کہ وہ تشریف لے آئے اور سب لوگوں نے آپ سے بیعت کرلی۔
حدیث حاشیہ:
1۔سقیفہ بنو ساعدہ ایک پنچائیت گھر تھا جس میں خاص لوگوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیعت کی تھی۔ اس کے بعدحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اجتماع عام میں اعلان کیا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کے لیے موزوں اور مستحق ہیں۔ اس سے انھوں نے حاضرین کو ان سے بیعت کرنے کی ترغیب دلائی، پھر عام لوگوں نے ان کی بیعت کی۔ یہ بیعت ثانیہ تھی جو پہلی بیعت سے عام اور زیادہ مشہور ہے۔ 2۔باب سے مناسبت یہ ہے کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی تم سب میں خلافت کے زیادہ مستحق اور زیادہ لائق ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ابن التین کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو منبر پر چڑھنے کے لیے کہا اور اس پر اصرارکیا تاکہ آپ کا سب لوگوں سے تعارف ہوجائے لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تواضع اور انکسار کی وجہ سے انکار کر رہے تھے۔ (فتح الباري: 258/13) 3۔اس سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جن کا موقف ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زور اور اصرار سے ہوئی اورحضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے لائق نہیں تھے۔ یہ اس لیے بھی غلط ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اس سے کیوں اتفاق کرتے؟ بہرحال حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی اس وقت خلافت کے سب سے زیادہ حق دار اور مناسب تھے اور اس پر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا اجماع ہے۔ واللہ المستعان۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا‘ کہا ہم کو ہشام نے خبر دی‘ انہیں معمر نے‘ انہیں زہری نے‘ انہیں انس بن مالک ؓ نے خبردی کہ انہوں نے عمر ؓ کا دوسرا خطبہ سنا جب آپ منبر پر بیٹھے ہوئے تھے‘ یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے دوسرے دن کا ہے۔ انہوں نے کلمہ شہادت پڑھا‘ حضرت ابو بکر ؓ خاموش تھے اور کچھ نہیں بول رہے تھے‘ پھر کہا مجھے امید تھی کہ آنحضرت ﷺ زندہ رہیں گے اور ہمارے کاموں کی تدبیر وانتظام کرتے رہیں گے۔ ان کا منشا یہ تھا کہ آنحضرت ﷺ ان سب لوگوں کے بعد تک زندہ رہیں گے تو اگر آج محمد ﷺ وفات پا گئے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے تمہارے سامنے نور (قرآن) کو باقی رکھا ہے جس کے ذریعہ تم ہدایت حاصل کرتے رہو گے اور اللہ نے محمد ﷺ کو اس سے ہدایت کی اور حضرت ابو بکر ؓ آنحضرت ﷺ کے ساتھی (جو غار ثور میں) دو میں کے دوسرے ہیں‘ بلا شک وہ تمہارے امور خلافت کے لیے تمام مسلمانوں میں سب سے بہتر ہیں۔ پس اٹھو اور ان سے بیعت کرو۔ ایک جماعت ان سے پہلے ہی سقیفہ بنی ساعدہ میں بیعت کرچکی تھی‘ پھر عام لوگوں نے منبر پر بیعت کی۔ زہری نے بیان کیا‘ ان سے انس بن مالک ؓ نے‘ انہوں نے عمر ﷺ سے سنا کہ وہ حضرت ابو بکر ؓ سے‘ اس دن کہہ ہے تھے‘ منبر پر چڑھ آئیں۔ چنانچہ وہ اس کا برابر اصرار کرتے رہے‘ یہاں تک کہ ابو بکر ؓ منبر پر چڑھ گئے اور سب لوگوں نے آپ سے بیعت کی۔
حدیث حاشیہ:
سقیفہ کا ترجمہ مولاناوحید الزمان رحمہ اللہ نے منڈو سے کیا ہے۔ عرف عام میں بنو ساعدہ کی چوپالی ٹھیک ہے۔ کانت مکان اجتماعھم للحکومات یعنی وہ پنچائت گھر تھا۔ ابن معین نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اصرار حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کومنبر پر چڑھانے کے لیے درست تھا تاکہ آپ کا سب سے تعارف ہو جائے اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تواضع کی بنا پر چڑھنے سے انکار کررہے تھے۔ آخر چڑھ گئے اور اب بیعت عمومی ہوئی جب کہ سقیفہ بنو ساعدہ کی بیعت خصوصی تھی۔ باب کی مناسبت اس سے نکلی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نسبت فرمایا وہ تم سب میں خلافت کے زیادہ مستحق اور زیادہ لائق ہیں۔ شیعہ کہتے ہیں کہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی کے زور اور اصرار سے ہوئی ورنہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ بالکل درویش صفت اور منکسر المزاج اور خلافت سے متنفر تھے۔ ہم کہتے ہیں اگر ایسا ہی ہو جب بھی کیا قباحب ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے نزدیک جس کو خلافت کے لائق سمجھا اس کے لیے زور دیا اور حق پسند لوگوں کا یہی قاعدہ ہوتا ہے۔ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ رائے غلط ہوتی تو دوسرے صدہا ہزارہا صحابہ جو وہاں موجود تھے وہ کیوں اتفگاق کرتے۔ غرض باجماع صحابہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خلافت کے اہل اور قابل ٹھہرے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): That he heard 'Umar's second speech he delivered when he sat on the pulpit on the day following the death of the Prophet (ﷺ) 'Umar recited the Tashahhud while Abu Bakr (RA) was silent. 'Umar said, "I wish that Allah's Apostle (ﷺ) had outlived all of us, i.e., had been the last (to die). But if Muhammad is dead, Allah nevertheless has kept the light amongst you from which you can receive the same guidance as Allah guided Muhammad with that. And Abu Bakr (RA) is the companion of Allah's Apostle (ﷺ) He is the second of the two in the cave. He is the most entitled person among the Muslims to manage your affairs. Therefore get up and swear allegiance to him." Some people had already taken the oath of allegiance to him in the shed of Bani Sa'ida but the oath of allegiance taken by the public was taken at the pulpit. I heard 'Umar saying to Abu Bakr (RA) on that day. "Please ascend the pulpit," and kept on urging him till he ascended the pulpit whereupon, all the people swore allegiance to him.