باب : ایک خلیفہ مرتے وقت کسی اور کو خلیفہ کرجائے تو کیسا ہے ؟
)
Sahi-Bukhari:
Judgments (Ahkaam)
(Chapter: The appointment of a caliph)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7221.
سیدنا طارق بن شہاب سے روایت ہے کہ سیدنا ابو بکر ؓ نے بزاخہ کے وفد سے فرمایا تھا: تم لوگ اونٹوں کی دموں کے پیچھے پیچھے جنگلوں میں گھومتے رہو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول اللہ ﷺ کے خلیفہ اور مہاجرین کو کوئی بات دکھا دے جس کی وجہ سے وہ تمہارا قصور معاف کر دیں۔
تشریح:
قبیلہ اسد اور غطفان کے بہت سے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مرتد ہوگئے اور طلحہ بن خویلد اسدی پر ایمان لے آئے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب مسیلمہ کذاب کے فتنے سے فارغ ہوئے تو ان لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے، آخر کار وہ ان پر غالب آگئے۔ انھوں نے بے بس اور عاجز ہوکر ایک وفد حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں بھیجا، اسی کو"وفد بزاخہ" کہا جاتا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: جنگ اختیار کرلو جس کا نتیجہ جلاوطنی ہے یا ذلت کی صلح کرلو۔ انھوں نے کہا: ذلت کی صلح سے کیا مراد ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ہتھیار اور سامان جنگ ہمارے حوالے کردو۔ تمہارا لوٹ کا مال مسلمانوں میں تقسیم ہوگا اور دوران جنگ میں جو لوگ مارے گئے ہیں ان کی دیت ادا کرنا ہوگی اورجو تمہارے لوگ مارے گئے انھیں جہنم رسید خیال کرو پھر بے وطن ہوکر جنگلوں میں اونٹ چراتے رہو، حتی کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کے خلیفہ اور مہاجرین کو وہ امر دکھائے جس کے باعث وہ تمھیں معذور خیال کریں۔ (فتح الباري: 259/13)
اسلام میں انتخاب امیر کا کوئی خاص طریقہ متعین نہیں ہے ۔حالات کے پیش نظر خلیفہ اپنی موت کے وقت خلافت کے لیے کسی شخص کو نامزد کرسکتا ہے اور ایک جماعت بھی تشکیل دے سکتا ہے جو اپنے میں سے کسی ایک کو خلیفہ منتخب کرلیں۔الغرض دینی مقاصد اور شرعی احکام وحدود کا لحاظ کرتے ہوئے حالات کے مطابق کوئی طریقہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔
سیدنا طارق بن شہاب سے روایت ہے کہ سیدنا ابو بکر ؓ نے بزاخہ کے وفد سے فرمایا تھا: تم لوگ اونٹوں کی دموں کے پیچھے پیچھے جنگلوں میں گھومتے رہو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول اللہ ﷺ کے خلیفہ اور مہاجرین کو کوئی بات دکھا دے جس کی وجہ سے وہ تمہارا قصور معاف کر دیں۔
حدیث حاشیہ:
قبیلہ اسد اور غطفان کے بہت سے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مرتد ہوگئے اور طلحہ بن خویلد اسدی پر ایمان لے آئے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب مسیلمہ کذاب کے فتنے سے فارغ ہوئے تو ان لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے، آخر کار وہ ان پر غالب آگئے۔ انھوں نے بے بس اور عاجز ہوکر ایک وفد حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں بھیجا، اسی کو"وفد بزاخہ" کہا جاتا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: جنگ اختیار کرلو جس کا نتیجہ جلاوطنی ہے یا ذلت کی صلح کرلو۔ انھوں نے کہا: ذلت کی صلح سے کیا مراد ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ہتھیار اور سامان جنگ ہمارے حوالے کردو۔ تمہارا لوٹ کا مال مسلمانوں میں تقسیم ہوگا اور دوران جنگ میں جو لوگ مارے گئے ہیں ان کی دیت ادا کرنا ہوگی اورجو تمہارے لوگ مارے گئے انھیں جہنم رسید خیال کرو پھر بے وطن ہوکر جنگلوں میں اونٹ چراتے رہو، حتی کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کے خلیفہ اور مہاجرین کو وہ امر دکھائے جس کے باعث وہ تمھیں معذور خیال کریں۔ (فتح الباري: 259/13)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا‘ کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا‘ ان سے سفیان نے‘ ان سے قیس بن مسلم نے‘ ان سے طارق بن شہاب نے کہ ابو بکر ؓ نے قبائل بزاخہ کے وفد سے (جو آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد مرتد ہو گیا تھا اور اب معافی کے لیے آیا تھا) فرمایا کہ اونٹوں کی دموں کے پیچھے پیچھے جنگلوں میں گھومتے رہو‘ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے بنی کریم ﷺ کے خلیفہ اور مہاجرین کو کوئی امر بتلا دے جس کی وجہ سے وہ تمہارا قصور معاف کردیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Tariq bin Shihab: Abu Bakr (RA) said to the delegate of Buzakha. "Follow the tails of the camels till Allah shows the Caliph (successor) of His Prophet (ﷺ) and Al-Muhajirin (emigrants) something because of which you may excuse yourselves "