باب : آرزو کرنے کے بارے میں اور جس نے شہادت کی آرزو کی
)
Sahi-Bukhari:
Wishes
(Chapter: Wishes for martyrdom)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7227.
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میری آرزو ہے کہ میں اللہ کے راستے میں جنگ کروں اور قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں۔“ (راوی حدیث کہتے ہیں کہ) میں اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ کلمات تین مرتبہ دہرائے تھے۔
تشریح:
1۔وُدّ کے معنی ہیں: کسی چیز سے محبت کرنا اور اس کے وقوع کی خواہش کرنا۔ اگرچہ یہاں تمنا کے لیے عربی زبان کا مخصوص لفظ: لَيْتَ استعمال نہیں ہوا، تاہم اس مقام پر ایک پاکیزہ آرزو کا اظہار کیا گیا ہے، اور ایسی شہادتیں جائز اور مباح بلکہ مستحب ہیں جیسا کہ ان احادیث میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کی بار بار تمنا کی ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق حفاظت کی ضمانت دی تھی، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ تعالیٰ آ پ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔‘‘(المآئدة: 67) 2۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آرزو کو شہادت پر ختم کیا، حالانکہ قرار تو حیات پر ہوتا ہے، اس انداز سے شہادت کی فضیلت بیان کرنا مقصود ہے۔ واللہ أعلم۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میری آرزو ہے کہ میں اللہ کے راستے میں جنگ کروں اور قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں۔“ (راوی حدیث کہتے ہیں کہ) میں اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ کلمات تین مرتبہ دہرائے تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔وُدّ کے معنی ہیں: کسی چیز سے محبت کرنا اور اس کے وقوع کی خواہش کرنا۔ اگرچہ یہاں تمنا کے لیے عربی زبان کا مخصوص لفظ: لَيْتَ استعمال نہیں ہوا، تاہم اس مقام پر ایک پاکیزہ آرزو کا اظہار کیا گیا ہے، اور ایسی شہادتیں جائز اور مباح بلکہ مستحب ہیں جیسا کہ ان احادیث میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کی بار بار تمنا کی ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق حفاظت کی ضمانت دی تھی، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ تعالیٰ آ پ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔‘‘(المآئدة: 67) 2۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آرزو کو شہادت پر ختم کیا، حالانکہ قرار تو حیات پر ہوتا ہے، اس انداز سے شہادت کی فضیلت بیان کرنا مقصود ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن یوسف نے بیان کیا‘ کہا ہم کو مالک نے خبر دی‘ انہیں ابو الزناد نے‘ انہیں اعرج نے اور انہیں ابوہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا‘ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ میری آرزو ہے کہ میں اللہ کے راستے میں جنگ کروں اور قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں‘ پھر قتل کیا جاؤں‘ پھر زندہ کیا جاؤں‘ پھر قتل کیا جاؤں‘ ابوہریرہ ؓ ان الفاظ کو تین مرتبہ دہراتے تھے کہ میں اللہ کو گواہ کر کے کہتا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح فرمایا۔ آخر میں ختم شہادت پر کیا کیونکہ مقصود ہی تھی جو آپ کو بتلا دیا گیا تھا کہ اللہ آپ کی جان حفاظت کرے گا جیسا کہ فرمایا‘ (وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ) لیکن یہ آرزو محض فضیلت جہاد کے ظاہر کرنے کے لیے آپ نے فرمائی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-A'rai (RA) : Abu Hurairah (RA) said, Allah's Apostle (ﷺ) said, "By Him in Whose Hand my life is, I would love to fight in Allah's Cause and then get martyred and then resurrected (come to life) and then get martyred and then resurrected (come to life) and then get martyred, and then resurrected (come to life) and then get martyred and then resurrected (come to life)." Abu Hurairah (RA) used to repeat those words three times and I testify to it with Allah's Oath.