Sahi-Bukhari:
Wishes
(Chapter: What uses of Al-Lau are allowed)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اوراللہ تعالیٰ کاارشاد” اگر مجھے تمہارامقابلہ کرنے کی قوت ہوتی“ تشریح : امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب لا کر اس طرف اشارہ کیا کہ مسلم نے جو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ اگر مگر کہنا شیطان کا کام کھولتا ہے اور نسائی نے جو روایت کی جب تجھ پر کوئی بلا آئے تو یوں نہ کہہ اگر میں ایسا کرتا اگر ہوں ہوتا بلکہ یوں کہہ اللہ کی تقدیر میں یوں ہی تھا ۔ اس نے جو چاہا وہ کیا تو ان روایتوں کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر مگر کہنا مطلقاً منع ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو اللہ اور رسول کے کلام میں اگر کا لفظ کیوں آتا ۔ بلکہ ان روایتوں کا مطلب یہ ہے کہ اپنی تدبیر پر نازاں ہو کر اور اللہ کی مشیت سے غافل ہو کر اگر مگر کہنا منع ہے ۔ آیت کے الفاظ حضرت ابو لوط علیہ السلام کے ہیں جو انہوں نے قوم کی فرشتوں کے ساتھ گستاخی دیکھ کر کہے تھے ۔
7242.
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے وصال کے روزے رکھنے سے منع فرمایا تو کچھ صحابہ کرام ؓ نے کہا: آپ تو خود وصال کے روزے رکھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”تم میں سے مجھ جیسا کون ہے؟ میں تو اس حالت میں رات گزارتا ہوں کہ میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے۔“ لیکن جب لوگ نہ مانے تو آپ نے ایک دن کے ساتھ دوسرا روزہ ملا رکھا، پھر انہوں نے چاند دیکھ لیا تو آپ نے فرمایا: ”اگر (چاند) مؤخر ہوتا تو میں مزید وصال کے روزے رکھتا۔“ گویا آپ نے انہیں تنبیہ کرنے کے ایسا فرمایا۔
تشریح:
1۔صوم وِصَال یہ ہے کہ سحری کھائے پئے بغیر روزہ رکھنا اور انھیں مسلسل جاری رکھنا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ قوت میسر فرماتا تھا جو عام لوگوں کو کھانے پینے سے ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام لوگوں کو وصال کے روزے رکھنے سے منع فرمایا ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےخود رکھے ہیں۔ 2۔ان احادیث میں لفظ لواستعمال ہوا ہے، اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے جواز پر استدلال کیا ہے کیونکہ اس کا استعمال کسی فائدے کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر اعتراض یا اس سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے نہیں ہے۔ واللہ أعلم۔
بعض روایات میں"اگرمگر" کے الفاظ استعمال کرنے سے منع کیا گیا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ثابت کیا ہے کہ یہ حکم امتناعی علی الاطلاق نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت سے غافل اور اپنی قوت وتدبیر پر فخر کرتے ہوئے اگر مگر کہنا منع ہے۔آیت کے الفاظ حضرت لوط علیہ السلام نے اس وقت کہے تھے جب ان کی قوم فرشتوں سے بدتمیزی اور گستاخی پر اترآئی تھی۔
اوراللہ تعالیٰ کاارشاد” اگر مجھے تمہارامقابلہ کرنے کی قوت ہوتی“ تشریح : امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب لا کر اس طرف اشارہ کیا کہ مسلم نے جو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ اگر مگر کہنا شیطان کا کام کھولتا ہے اور نسائی نے جو روایت کی جب تجھ پر کوئی بلا آئے تو یوں نہ کہہ اگر میں ایسا کرتا اگر ہوں ہوتا بلکہ یوں کہہ اللہ کی تقدیر میں یوں ہی تھا ۔ اس نے جو چاہا وہ کیا تو ان روایتوں کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر مگر کہنا مطلقاً منع ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو اللہ اور رسول کے کلام میں اگر کا لفظ کیوں آتا ۔ بلکہ ان روایتوں کا مطلب یہ ہے کہ اپنی تدبیر پر نازاں ہو کر اور اللہ کی مشیت سے غافل ہو کر اگر مگر کہنا منع ہے ۔ آیت کے الفاظ حضرت ابو لوط علیہ السلام کے ہیں جو انہوں نے قوم کی فرشتوں کے ساتھ گستاخی دیکھ کر کہے تھے ۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے وصال کے روزے رکھنے سے منع فرمایا تو کچھ صحابہ کرام ؓ نے کہا: آپ تو خود وصال کے روزے رکھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”تم میں سے مجھ جیسا کون ہے؟ میں تو اس حالت میں رات گزارتا ہوں کہ میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے۔“ لیکن جب لوگ نہ مانے تو آپ نے ایک دن کے ساتھ دوسرا روزہ ملا رکھا، پھر انہوں نے چاند دیکھ لیا تو آپ نے فرمایا: ”اگر (چاند) مؤخر ہوتا تو میں مزید وصال کے روزے رکھتا۔“ گویا آپ نے انہیں تنبیہ کرنے کے ایسا فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
1۔صوم وِصَال یہ ہے کہ سحری کھائے پئے بغیر روزہ رکھنا اور انھیں مسلسل جاری رکھنا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ قوت میسر فرماتا تھا جو عام لوگوں کو کھانے پینے سے ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام لوگوں کو وصال کے روزے رکھنے سے منع فرمایا ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےخود رکھے ہیں۔ 2۔ان احادیث میں لفظ لواستعمال ہوا ہے، اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے جواز پر استدلال کیا ہے کیونکہ اس کا استعمال کسی فائدے کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر اعتراض یا اس سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے نہیں ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: (سیدنا لوط ؑ نے کہا:) کاش! میرے پاس تمہارا مقابلہ کرنے کی کچھ طاقت ہوتی۔¤
وضاحت : بعض روایات میں ”اگر مگر“ کے الفاظ استعمال کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ ممانعت کا یہ حکم مطلق نہیں بلکہ اللہ کی مشیت سے غافل اور اپنی قوت وتدبیر پر فخر کرتے ہوئے اگر مگر کہنا منع ہے۔ آیت کے الفاظ سیدنا لوط علیہ السلام نے اس وقت کہے تھے جب ان کی قوم فرشتوں سے بد تمیزی اور گستاخی پر اتر آئی تھی
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا‘ کہا ہم کو شعیب نے خبر دی‘ کہا ہم کو زہری نے خبر دی اور لیث نے کہا کہ مجھ سے عبد الرحمن بن خالد نے بیان کیا‘ ان سے ابن شہاب (زہری) نے‘ انہیں سعید بن مسیب نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے صوم وصال سے منع کیا تو صحابہ نے عرض کی کہ آپ تو وصال کرتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تم میں کون مجھ جیسا ہے‘ میں تو اس حال میں رات گزراتا ہوں کہ میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے لیکن جب لوگ نہ مانے تو آپ نے ایک دن کے ساتھا دوسرا دن ملا کر (وصال کا) روزہ رکھا‘ پھر لوگوں نے (عید کا) چاند دیکھا تو آپ نے فرمایا کہ اگر چاند نہ ہوتا تو میں اور وصال کرتا۔ گو یا آپ نے انہیں تنبیہ کرنے کے لیے ایسا فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) forbade Al-Wisal. The people said (to him), "But you fast Al-'Wisal," He said, "Who among you is like me? When I sleep (at night), my Lord makes me eat and drink. But when the people refused to give up Al-Wisal, he fasted Al-Wisal along with them for two days and then they saw the crescent whereupon the Prophet (ﷺ) said, "If the crescent had not appeared I would have fasted for a longer period," as if he intended to punish them herewith.