باب : ایک سچے شخص کی خبر پر اذان نماز روزے فرائض سارے احکام میں عمل ہونا
)
Sahi-Bukhari:
Accepting Information Given by a Truthful Person
(Chapter: Acceptance of the information given by one truthful person in about all matters)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ توبہ میں فرمایا ” ایسا کیوں نہیں کرتے ہر فرقہ میں سے کچھ لوگ نکلیں تا کہ وہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور لوٹ کر اپنی قوم کے لوگوں کے ڈرائیں اس لئے کہ وہ تباہی سے بچے رہے “ اور ایک شخص کو بھی طائفہ کہہ سکتے ہیں جیسے سورۃ حجرات کی اس آیت میں فرمایا ” اگر مسلمانوں کے دو طائفے لڑ پڑیں اور اس میں وہ دو مسلمان بھی داخل ہیں جو آپس میں لڑ پڑیں ( تو ہر ایک مسلمان ایک طائفہ ہوا ) اور ( اسی سورت میں ) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” مسلمانو! ( جلدی مت کیا کرو ) اگر تمہارے پاس بدکارشخص کچھ خبر لائے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو “ ۔ اور اگر خبر واحد مقبول نہ ہوتی تو آنحضرت ﷺایک شخص کو حاکم بنا کر اور اس کے بعد دوسرے شخص کو کیوں بھیجتے اور یہ کیوں فرماتے کہ اگر پہلا حاکم کچھ بھول جائے تو دوسرا حاکم اس کو سنت کے طریق پر لگا دے ۔ تشریح : جن کو اصلاح اہلحدیث میں خبر واحدکہتے ہیںاکثر صحیح احادیث اسی قسم کی ہیں کہ ان کو ایک دو بار صحابہ یا ایک یا دو تابعیوں نے روایت کیا ہے ۔ خبر واحد کاجب روای سچا اور ثقہ اور معتبر ہو تو اس کا قبول کرنا تمام اماموں نے واجب رکھا ہے ۔ اور ہمیشہ قیاس کو ایسی حدیث کے مقابل ترک کردیا ہے ۔ بلکہ امام ابو حنیفہ نے تو اور زیادہ احتیاط کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مرسل اور ضعیف حدیث یہاں تک کہ صحابی کا قول بھی حبت ہے اور قیاس کو اس کے مقابلہ میں ترک کردیں گے ۔ اللہ تعالیٰ امام ابو حنیفہ کو جزائے خیر دے وہ اہلسنت یعنی اہل حدیث کے پیشوا تھے۔ ہمارے زمانے میں جو لوگ اپنے تئیں حنفی کہتے ہیں اور صحیح حدیث کو سن کر بھی قیاس کی پیروی نہیں چھوڑتے وہ سچے حنفی نہیں ہیں بلکہ بد نام کنندہ نکونامے چند امام کے جھوٹے نام لیوا ہیں ۔ سچے حنفی اہل حدیث ہیں جو امام ابو حنیفہ کی ہدایت اور ارشاد کے مطابق چلتے ہیں اور تمام عقائد اور صفات اللہ اور اصول میں ان کے ہم اعتقاد اور ہم عمل ہیں ۔ اس آیت ذیل سے خبر واحد کا حجت ہونا نکلتا ہے کیونکہ طائفہ ایک شخص کو بھی کہہ سکتے ہیں اور بعضفے فرقہ میں صرف تین ہی آدمی ہوتے ہیں ۔ اس دوسری آیت سے صاف نکلتا ہے کہ اگر نیک اور سچا اور معتبر شخص کوئی خبر لائے تو اس کو مان لینا چاہئیے۔ اس میں تحقیق کی ضرورت نہیں کیونکہ اگر اس کا خبر کا بھی یہی حکم ہو جو بد کار کی خبر کا ہے تو نیک اور بد کار دنوں یکساں ہونا لازم آئے گا ۔ ابن کثیر نے کہا آیت سے یہ بھی نکلا کہ فاسق اور بد کار شخص کی روایت کی ہوئی حدیث حجت نہیں ‘ اسی طرح مجہول الحال کی ۔ حدیث مذکور سے ظاہر ہوا کہ اگر خبر واحد قبول کے لائق نہ ہوتی تو ایک شخص واحد کو حاکم بنا کر بھیجنا یا ایک شخص واحد کا دوسرے کی غلطی ظاہر کرنا اس کو ٹھیک رستے پر لگانا اس کے کچھ معنی نہ ہوتے ۔
7251.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے، اچانک ان کے پاس ایک آنے والا آیا اور اس نے کہا: بے شک رسول اللہ ﷺ پر رات قرآن نازل ہوا ہے اور آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ نماز میں کعبے کی طرف منہ کرلو۔ ان کے منہ شام کی جانب تھے، پھر وہ لوگ کعبے کی طرف پھر گئے۔
تشریح:
قباء کا علاقہ مدینہ طیبہ سے باہر ہے ان حضرات کو تحویل قبلہ (قبلہ تبدیل ہونے) کے اگلے دن نماز صبح میں اطلاع ملی اور یہ اطلاع بھی صرف ایک شخص نے دی۔ اہل قباء نے اس کی تصدیق کرتے ہوئےاپنا رخ بیت اللہ کی طرف کر لیا۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ ان کے ہاں خبر واحد حجت تھی اس لیے اگر کوئی ایک معتبر آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا ہے خواہ اس کا تعلق ایمانیات سے ہو یا اعمال سے اسے ماننا چاہیے۔ ہمارے اسلاف اسی راہ پر گامزن تھے۔ خبر واحد کی حجیت سے انکار بہت بعد کی پیداوار ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ توبہ میں فرمایا ” ایسا کیوں نہیں کرتے ہر فرقہ میں سے کچھ لوگ نکلیں تا کہ وہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور لوٹ کر اپنی قوم کے لوگوں کے ڈرائیں اس لئے کہ وہ تباہی سے بچے رہے “ اور ایک شخص کو بھی طائفہ کہہ سکتے ہیں جیسے سورۃ حجرات کی اس آیت میں فرمایا ” اگر مسلمانوں کے دو طائفے لڑ پڑیں اور اس میں وہ دو مسلمان بھی داخل ہیں جو آپس میں لڑ پڑیں ( تو ہر ایک مسلمان ایک طائفہ ہوا ) اور ( اسی سورت میں ) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” مسلمانو! ( جلدی مت کیا کرو ) اگر تمہارے پاس بدکارشخص کچھ خبر لائے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو “ ۔ اور اگر خبر واحد مقبول نہ ہوتی تو آنحضرت ﷺایک شخص کو حاکم بنا کر اور اس کے بعد دوسرے شخص کو کیوں بھیجتے اور یہ کیوں فرماتے کہ اگر پہلا حاکم کچھ بھول جائے تو دوسرا حاکم اس کو سنت کے طریق پر لگا دے ۔ تشریح : جن کو اصلاح اہلحدیث میں خبر واحدکہتے ہیںاکثر صحیح احادیث اسی قسم کی ہیں کہ ان کو ایک دو بار صحابہ یا ایک یا دو تابعیوں نے روایت کیا ہے ۔ خبر واحد کاجب روای سچا اور ثقہ اور معتبر ہو تو اس کا قبول کرنا تمام اماموں نے واجب رکھا ہے ۔ اور ہمیشہ قیاس کو ایسی حدیث کے مقابل ترک کردیا ہے ۔ بلکہ امام ابو حنیفہ نے تو اور زیادہ احتیاط کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مرسل اور ضعیف حدیث یہاں تک کہ صحابی کا قول بھی حبت ہے اور قیاس کو اس کے مقابلہ میں ترک کردیں گے ۔ اللہ تعالیٰ امام ابو حنیفہ کو جزائے خیر دے وہ اہلسنت یعنی اہل حدیث کے پیشوا تھے۔ ہمارے زمانے میں جو لوگ اپنے تئیں حنفی کہتے ہیں اور صحیح حدیث کو سن کر بھی قیاس کی پیروی نہیں چھوڑتے وہ سچے حنفی نہیں ہیں بلکہ بد نام کنندہ نکونامے چند امام کے جھوٹے نام لیوا ہیں ۔ سچے حنفی اہل حدیث ہیں جو امام ابو حنیفہ کی ہدایت اور ارشاد کے مطابق چلتے ہیں اور تمام عقائد اور صفات اللہ اور اصول میں ان کے ہم اعتقاد اور ہم عمل ہیں ۔ اس آیت ذیل سے خبر واحد کا حجت ہونا نکلتا ہے کیونکہ طائفہ ایک شخص کو بھی کہہ سکتے ہیں اور بعضفے فرقہ میں صرف تین ہی آدمی ہوتے ہیں ۔ اس دوسری آیت سے صاف نکلتا ہے کہ اگر نیک اور سچا اور معتبر شخص کوئی خبر لائے تو اس کو مان لینا چاہئیے۔ اس میں تحقیق کی ضرورت نہیں کیونکہ اگر اس کا خبر کا بھی یہی حکم ہو جو بد کار کی خبر کا ہے تو نیک اور بد کار دنوں یکساں ہونا لازم آئے گا ۔ ابن کثیر نے کہا آیت سے یہ بھی نکلا کہ فاسق اور بد کار شخص کی روایت کی ہوئی حدیث حجت نہیں ‘ اسی طرح مجہول الحال کی ۔ حدیث مذکور سے ظاہر ہوا کہ اگر خبر واحد قبول کے لائق نہ ہوتی تو ایک شخص واحد کو حاکم بنا کر بھیجنا یا ایک شخص واحد کا دوسرے کی غلطی ظاہر کرنا اس کو ٹھیک رستے پر لگانا اس کے کچھ معنی نہ ہوتے ۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے، اچانک ان کے پاس ایک آنے والا آیا اور اس نے کہا: بے شک رسول اللہ ﷺ پر رات قرآن نازل ہوا ہے اور آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ نماز میں کعبے کی طرف منہ کرلو۔ ان کے منہ شام کی جانب تھے، پھر وہ لوگ کعبے کی طرف پھر گئے۔
حدیث حاشیہ:
قباء کا علاقہ مدینہ طیبہ سے باہر ہے ان حضرات کو تحویل قبلہ (قبلہ تبدیل ہونے) کے اگلے دن نماز صبح میں اطلاع ملی اور یہ اطلاع بھی صرف ایک شخص نے دی۔ اہل قباء نے اس کی تصدیق کرتے ہوئےاپنا رخ بیت اللہ کی طرف کر لیا۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ ان کے ہاں خبر واحد حجت تھی اس لیے اگر کوئی ایک معتبر آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا ہے خواہ اس کا تعلق ایمانیات سے ہو یا اعمال سے اسے ماننا چاہیے۔ ہمارے اسلاف اسی راہ پر گامزن تھے۔ خبر واحد کی حجیت سے انکار بہت بعد کی پیداوار ہے۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ان کے ہر گروہ میں سے کچھ لوگ کیوں نہیں نکلے(تاکہ وہ دین میں سمجھ حاصل کریں۔۔۔۔۔) ایک شخص کو بھی طائفہ کہہ سکتے ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ”اگر مسلمان کے دو طائفے (گروہ) لڑپڑیں۔“ اس آیت کریمہ میں وہ مسلمان بھی داخل ہیں جو آپس میں لڑ پڑیں¤ نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو۔“ ¤اور اگر خبر واحد قبول نہ ہوتی تو نبی ﷺ ایک شخص کو حاکم بناکر اس کے دوسرے شخص کو کیوں بھیجتے (اور یہ کیوں فرماتے) ان میں سے ایک بھول جائے تو اسے سنت کی طرف پھیر دیا جائے¤
وضاحت: خبر واحد سے مراد وہ حدیث ہے جس میں متواتر کی شرائط نہ پائی جائیں اور جسے کم از کم ایک راوی بیان کرے۔ ایک وہ ثقہ اور قابل اعتبار ہے تو اس کی بیان کردہ روایت قابل حجت ہے۔ اکثر صحیح احادیث اسی طرح کی ہیں۔ اس قسم کی احادیث تمام ائمہ دین قبول کی ہیں اور اس کے مقابلے میں قیاس کو ترک کیا ہے اور عقائد واحکام میں اسے تسلیم کیا ہے
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا‘ کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا‘ ان سے عبد اللہ بن دینار نے‘ ان سے عبد اللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ مسجد قبا میں لوگ صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک آنے والے نے ان کے پاس پہنچ کر کہا کہ رسول اللہ ﷺ پر رات قرآن کی آیت نازل ہوئی ہے اور آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ نماز میں کعبہ کی طرف منہ کر لیں پس تم بھی اسی طرف رخ کرلو۔ ان لوگوں کے چہرے شام (یعنی بیت المقدس) کی طرف تھے‘ پھر وہ لوگ کعبہ کی طرف مڑ گئے۔
حدیث حاشیہ:
باب کی مطابقت یہ ہے کہ ایک شخص کی خبر پر مسجد قبا والوں نے عمل کیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar (RA) : While the people were at Quba offering the morning prayer, suddenly a person came to them saying, "Tonight Divine Inspiration has been revealed to Allah's Apostle (ﷺ) and he has been ordered to face the Ka’bah (in prayers): therefore you people should face it." There faces were towards Sham, so they turned their faces towards the Ka’bah (at Makkah).