Sahi-Bukhari:
Accepting Information Given by a Truthful Person
(Chapter: Enter not the Prophet ’s (saws) houses unless permission is given to you…”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
” نبی کے گھروں میں نہ دخل ہو مگر اجازت لے کر جب تم کو کھانے کے لیے بلا یا جائے۔ “ ظاہر ہے کہ اجازت کے لیے ایک شخص کا بھی اذان دینا کافی ہے ۔ جمہور کا یہی قول ہے کیونکہ آیت میں کوئی قید نہیں ہے کہ ایک شخص یا اتنے شخص اجازت دیں بلکہ اذان کے لیے ایک عادل شخص کا اذان دینا کافی کیونکہ ایسے معاملے میں جھوٹ بولنے کا موقع نہیں ہے اس سے بھی خبر واحد کی صحت ثابت ہوتی ہے ۔
7262.
سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک باغ میں تشریف لے گئے اور مجھے دروازے کی نگرانی کا حکم دیا۔ پھر ایک آدمی آیا اور وہ اجازت طلب کرتا تھا۔ آپ ﷺ نےفرمایا: ”اسے اجازت کےساتھ جنت کی بھی بشارت دے دو۔“ وہ ابو بکر ؓ تھے۔ پھر سیدنا عمر ؓ آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”انہیں بھی اجازت دے دو اور جنت کی بشارت سنا دو۔“ پھر سیدنا عثمان ؓ آئے تو آپ نے فرمایا: ”انہیں بھی اجازت کے ساتھ جنت کی خوشخبری دے دو۔“
تشریح:
1۔ایک روایت کے مطابق حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دروازے پر بیٹھنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ (صحیح البخاري، الفتن، حدیث: 7097) جبکہ اس روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا؟ ان دونوں روایات میں کوئی تضاد اور اختلاف نہیں ہے کیونکہ ابتدا میں انھوں نے خود اس چوکیداری کو اپنے ذمے لیا تھا لیکن جب حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ذمے داری انھیں سونپ دی تھی۔ 2۔بہر حال امام بخاری نے اس حدیث سے خبر واحد کی حجیت کو ثابت کیا ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اکیلے ان حضرات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے مطلع کرتے تھے اور یہ قابل قدر حضرات اس پر یقین اور اعتماد کرتے تھے۔
آیت کریمہ کے متعلق جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ آیت میں کوئی پابندی نہیں ہے۔خواہ ایک آدمی اجازت دے دے تو بھی کافی ہے کیونکہ ایسے معاملات میں جھوٹ کا امکان نہیں ہوتا۔اس سے بھی خبر واحد کی حجیت ثابت ہوتی ہے۔
” نبی کے گھروں میں نہ دخل ہو مگر اجازت لے کر جب تم کو کھانے کے لیے بلا یا جائے۔ “ ظاہر ہے کہ اجازت کے لیے ایک شخص کا بھی اذان دینا کافی ہے ۔ جمہور کا یہی قول ہے کیونکہ آیت میں کوئی قید نہیں ہے کہ ایک شخص یا اتنے شخص اجازت دیں بلکہ اذان کے لیے ایک عادل شخص کا اذان دینا کافی کیونکہ ایسے معاملے میں جھوٹ بولنے کا موقع نہیں ہے اس سے بھی خبر واحد کی صحت ثابت ہوتی ہے ۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک باغ میں تشریف لے گئے اور مجھے دروازے کی نگرانی کا حکم دیا۔ پھر ایک آدمی آیا اور وہ اجازت طلب کرتا تھا۔ آپ ﷺ نےفرمایا: ”اسے اجازت کےساتھ جنت کی بھی بشارت دے دو۔“ وہ ابو بکر ؓ تھے۔ پھر سیدنا عمر ؓ آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”انہیں بھی اجازت دے دو اور جنت کی بشارت سنا دو۔“ پھر سیدنا عثمان ؓ آئے تو آپ نے فرمایا: ”انہیں بھی اجازت کے ساتھ جنت کی خوشخبری دے دو۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ایک روایت کے مطابق حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دروازے پر بیٹھنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ (صحیح البخاري، الفتن، حدیث: 7097) جبکہ اس روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا؟ ان دونوں روایات میں کوئی تضاد اور اختلاف نہیں ہے کیونکہ ابتدا میں انھوں نے خود اس چوکیداری کو اپنے ذمے لیا تھا لیکن جب حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ذمے داری انھیں سونپ دی تھی۔ 2۔بہر حال امام بخاری نے اس حدیث سے خبر واحد کی حجیت کو ثابت کیا ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اکیلے ان حضرات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے مطلع کرتے تھے اور یہ قابل قدر حضرات اس پر یقین اور اعتماد کرتے تھے۔
ترجمۃ الباب:
اجازت کے لیے ایک شخص کا اذان ہی کافی ہے
حدیث ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا‘ کہا ہم سے حماد نے بیان کیا‘ ان سے ایوب نے‘ ان سے ابو عثمان نے اور ان سے ابو موسیٰ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ ایک باغ میں داخل ہوئے اور مجھے دروازہ کی نگرانی کا حکم دیا‘ پھر ایک صحابی آئے اور اجازت چاہی۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور انہیں جنت کی بشارت دے دو۔ وہ ابو بکر ؓ تھے۔ پھر عمر ؓ آئے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور انہیں جنت کی بشارت دے دو۔ پھر عثمان ؓ آئے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ انہیں بھی اجازت دے دو اور جنت کی بشارت دے دو۔
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب کی مطابقت ظاہر ہے کہ انہوں نے ایک شخص یعنی ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کی اجازت کو کافی سمجھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa (RA) : The Prophet (ﷺ) entered a garden and told me to guard its gate. Then a man came and asked permission to enter. The Prophet, said, "Permit him and give him the good news that he will enter Paradise." Behold! It was Abu Bakr. Then 'Umar came, and the Prophet (ﷺ) said, "Admit him and give him the good news that he will enter Paradise." Then 'Uthman came and the Prophet (ﷺ) said, "Admit him and give him the good news that he will enter Paradise. "