قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: صفات و شمائل

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ (بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ التَّعَمُّقِ وَالتَّنَازُعِ فِي العِلْمِ، وَالغُلُوِّ فِي الدِّينِ وَالبِدَعِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

ترجمة الباب: لِقَوْلِهِ تَعَالَى: {يَا أَهْلَ الكِتَابِ لاَ تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلاَ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الحَقَّ} [النساء: 171]

7299 .   حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا هِشَامٌ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُوَاصِلُوا قَالُوا إِنَّكَ تُوَاصِلُ قَالَ إِنِّي لَسْتُ مِثْلَكُمْ إِنِّي أَبِيتُ يُطْعِمُنِي رَبِّي وَيَسْقِينِي فَلَمْ يَنْتَهُوا عَنْ الْوِصَالِ قَالَ فَوَاصَلَ بِهِمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَيْنِ أَوْ لَيْلَتَيْنِ ثُمَّ رَأَوْا الْهِلَالَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ تَأَخَّرَ الْهِلَالُ لَزِدْتُكُمْ كَالْمُنَكِّلِ لَهُمْ

صحیح بخاری:

کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا

 

تمہید کتاب  (

باب : کسی امر میں تشدد اور سختی کرنا

)
  تمہید باب

مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)

ترجمۃ الباب:

یا علم کی بات میں بے موقع فضول جھگڑا کرنا اور دین میں غلو کرنا ‘ بدعتیں نکالنا‘ حد سے بڑھ جانا منع ہے کیونکہ اللہ پاک نے سورۃ نساء میں فرمایا ” کتاب والو! اپنے دین میں حد سے مت بڑھو “ تشریح : جیسے یہود نے حضرت عیسیٰ ؑ کو گھٹا کر ان کی پیغمبری کا بھی انکار کردیا اور نصاریٰ نے چڑھا یا کہ ان کو خدا بنا دیا ‘ دونوں باتیں غلو ہیں ۔ غلو اسی کو کہتے ہیں جس کی مسلمانوں میں بھی بہت سی مثالیں ہیں ۔ شیعہ اور اہل بدعت نے غلو میں یہود ونصاری کی پیروی کی ۔ ھداھم اللہ تعالیٰ۔

7299.   سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نےفرمایا: ”تم پے در پے روزے نہ رکھا کرو۔“ صحابہ کرام نے کہا: آپ بھی تو پے در پے روزے رکھتے ہیں آپ نےفرمایا: ”میں تمہارے جیسا نہیں ہوں۔ میں رات بسر کرتا ہوں میرا رب مجھے کھلا پلا دیتا ہے“ لیکن لوگ پے در پے روزے رکھنے سے باز نہ آئے۔ سیدنا ابو ہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ان کےساتھ پے در پے دو دن روزہ رکھا۔ پھر لوگوں نے چاند دیکھ لیا تو آپ نے فرمایا: ”اگر چاند نظر نہ آتا تو میں تمہیں مزید دو روزے رکھاتا۔“ آپ ﷺ کا مقصد انہیں سزا دینا تھا۔