کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا
(
باب : کسی امر میں تشدد اور سختی کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Holding Fast to the Qur'an and Sunnah
(Chapter: Going deeply into and arguing about knowledge, and exaggerating in religion, and inventing heresies)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
یا علم کی بات میں بے موقع فضول جھگڑا کرنا اور دین میں غلو کرنا ‘ بدعتیں نکالنا‘ حد سے بڑھ جانا منع ہے کیونکہ اللہ پاک نے سورۃ نساء میں فرمایا ” کتاب والو! اپنے دین میں حد سے مت بڑھو “ تشریح : جیسے یہود نے حضرت عیسیٰ ؑ کو گھٹا کر ان کی پیغمبری کا بھی انکار کردیا اور نصاریٰ نے چڑھا یا کہ ان کو خدا بنا دیا ‘ دونوں باتیں غلو ہیں ۔ غلو اسی کو کہتے ہیں جس کی مسلمانوں میں بھی بہت سی مثالیں ہیں ۔ شیعہ اور اہل بدعت نے غلو میں یہود ونصاری کی پیروی کی ۔ ھداھم اللہ تعالیٰ۔
7304.
سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے ،انہوں نے کہا: سیدنا عویمر عجلانی ؓ سیدنا عاصم بن عدی ؓ کے پاس آئے اور کہا: اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ مرد کو پائے اور اس سے قتل کر دیں گے؟ اے عاصم! آپ رسول اللہ ﷺ سے میرے لیے یہ مسلہ دریافت کریں۔ انہوں نے آپ ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا تو نبی ﷺ نے اس طرح کے سوالات کو ناپسند فرمایا اور معیوب خیال کیا۔ سیدنا عاصم ؓ نے واپس آکر انہیں بتایا کہ نبی ﷺ نے اس طرح کے سوالات کو ناپسند فرمایا ہے۔ سیدنا عویمر ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! میں خود نبی ﷺ کے پاس جاتا ہوں۔ پھر وہ آئے جبکہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا عاصم ؓ کے واپس جانے کے بعد قرآن کی آیات آپ پر نازل کر دی تھیں۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”تمہارے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل کیا ہے۔“ پھر آپ نے دونوں (میاں بیوی) کو بلایا۔ وہ دونوں آئے اور لعان کیا۔ پھر عویمر نے کہا: اللہ کے رسول! اگر میں اس عورت کو اپنے پاس رکھوں تو میں نے اس پر جھوٹ بولا ہوگا، اس لیے انہوں نے فوری طور پر اپنی بیوی کو جدا کر دیا جبکہ نبی ﷺ نے جدا کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ پھرلعان کرنے والوں میں یہی طریقہ رائج ہوگیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”تم دیکھتے رہو اگر اس عورت نے چھوٹے قد والا سرخ رنگ کا بچہ جنم دیا جیسے زمین کا کیڑا ہوتا ہے تو میں عویمر کو جھوٹا خیال کروں گا۔ اور اگر اس نے کالا، موٹی آنکھوں والا بھاری سرینوں والا بچی جنا تو میں سمجھوں گا کہ عویمر سچا ہے۔“ پھر اس عورت نے مکروہ صورت کا بچہ جنم دیا، یعنی جس مرد سے بدنام ہوئی تھی اسی صورت کا بچہ پیدا ہوا۔
تشریح:
1۔اس طرح کا ایک واقعہ حضرت ہلال بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیش آیا جب انھوں نے اپنی بیوی کو شریک بن سحماء سے متہم کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ہلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےفرمایا: ’’گواہ لاؤ بصورت دیگر تمھاری پشت پر حد قذف لگے گی۔‘‘ آخر کار ان کے درمیان لعان ہوا۔ لعان کی تفصیل سورہ نور آیت 6 تا 9۔ میں بیان ہوئی ہے 2۔لعان کے بعد مرد طلاق دے یا نہ دے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہمیشہ کے لیے جدائی خود بخود عمل میں آ جاتی ہے۔ مرد اپنی بیوی سے حق مہر یا دیگر اخراجات کی واپسی کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔ لعان کے بعد دوران عدت میں عورت کا نان ونفقہ یا رہائش وغیرہ مرد کے ذمے نہیں ہوتی۔ پیدا ہونے والا بچہ ماں کی طرف منسوب ہو گا اور وہی اس کا وارث ہو گا۔ چنانچہ اس قسم کے مسائل اور سوالات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا: اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے بیان کیا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
7031
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
7304
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
7304
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
7304
تمہید کتاب
اس پُر فتن دور میں مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی سخت ضرورت ہے لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جب عقیدہ و ایمان اور مسائل و احکام میں صرف کتاب و سنت کو مرکز و محور قراردیا جائے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ)"تم اس(ہدایت)کی پیروی کرو جو تمھارے رب کی طرف سے تمھاری طرف نازل کی گئی ہے۔اس کے علاوہ (دوسرے)دوستوں کی پیروی نہ کرو۔ تم بہت کم ہی نصیحت حاصل کرتے ہو۔"(الاعراف:7/3)بلا شبہ انسانی زندگی کے لیے جو قوانین اس کتاب میں بیان کیے گئے ہیں ہم مسلمانوں کو صرف انھی کا اتباع کرنا چاہیے غیر مسلم قائدین سے کسی طرح کے قواعد و ضوابط در آمد کرنے کی ضرورت نہیں لیکن افسوس کہ آج مسلمانوں کی اکثریت دین و شریعت کے مسائل معلوم کرنے کے لیے خود ساختہ اراءو قیاسات کا سہارا لینے پر مجبور ہے۔زہدو رہبانیت کے لیے ہندی اور یونانی فلسفے کی محتاج ہے اپنا معاشی نظام لینن(Lenin)اور کارل مارکس(Korl marx)روس اور چین سے اور سیاسی نظام کے لیے امریکی جمہوریت اسلام میں گھسا لائی ہے حالانکہ انسانی زندگی کی تمام ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کتاب و سنت کافی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت یہی بات سمجھانے کی کوشش کی ہے دراصل آپ کا عنوان درج ذیل آیت کریمہ سے ماخوذہے۔(وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا )"اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور جدا جدا نہ ہو جاؤ۔"(آل عمران:3/103)آیت کریمہ میں اللہ کی رسی سے مراد دین اسلام یا کتاب و سنت کے احکام ہیں فقہی آراء مقصود نہیں ۔کتاب و سنت کو اللہ کی رسی اس لیے کہا گیا ہے کہ یہی وہ رشتہ ہے جو تمام اہل ایمان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوطی کے ساتھ جوڑے رکھتا ہے اور دوسری طرف اہل ایمان کو ایک دوسرے سے مربوط کرتا ہے۔کتاب و سنت کے احکام پر سختی سے عمل پیرا ہونے سے اس بات کا امکان ہی نہیں رہتا کہ مسلمانوں میں کسی قسم کا اختلاف و انتشار یا عداوت پیدا ہو گی۔یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارا دستور حیات قرآ ن و سنت کی واضح شکل میں ہمیں میسر ہے جس کا تعلق وحی الٰہی سے ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے لازوال اور بے شمار برکتوں سے مالا مال ہے۔لیکن ہمارے دشمنوں نے اس چشمہ رشد و ہدایت سے ہمیں بد ظن اور دور کرنے اور اس کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔مستشرقین نے جہاں براہ راست قرآن کریم کے اسلوب بیان ، ترتیب و تدوین اور تصور وحی و تنزیل کو ہدف تنقید بنایا ہے وہاں ہمارے ہاں اشراق زدہ روشن خیال متجددین نے آزادی تحقیق کے نام پردین کے ایک اہم ماخذ حدیث و سنت کے متعلق شکوک وشبہات بلکہ استہزاء واستخفاف کا رویہ اپنایا ہے حالانکہ حدیث و سنت کی تدوین اپنے دامن میں ایسا استناد اتصال اور تسلسل لیے ہوئے ہے جس کی مثال دینا کے کسی مذہبی یا تاریخی لٹریچر میں نہیں پائی جاتی ۔ہمارے نزدیک حدیث و سنت کی محبت و ضرورت کا انکار دراصل رسالت سے انکار بلکہ دین اسلام کے انکار کے مترادف ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:(وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ)"اور ہم نے آپ کی طرف یہ ذکر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کے سامنے وہ باتیں وضاحت سے بیان کردیں جو ان کی طرف اتاری گئی ہیں۔"(النحل:16۔44)ایک دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ منصب رسالت کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے۔(وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ)"اور ہم نے آپ پر کتاب اس لیے نازل کی ہے تاکہ آپ اس امر کی وضاحت کردیں جس میں انھوں نے اختلاف کر رکھا ہے۔"(النحل:16۔64) ان آیات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب کی وضاحت ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت ایک چٹھی رساں کی نہیں جو ایک بند لفافہ اس شخص تک پہنچادیں جسے وہ خط لکھا گیا ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے عمل و کردار اور قول و گفتار سے اس آئین زندگی کی وضاحت کرنا ہے کیونکہ شاہی فرمان کا مطلب مصاحب خاص اور محرم راز سے زیادہ اور کوئی نہیں سمجھ سکتا۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی مجملات کی تفصیل مبہمات کی وضاحت مشکلات کی تفسیر کنایات کی تصریح اور اس کے ارشادات کی توضیح فرمائی ہے۔اپنے عمل سے احکام الٰہی کی تفصیل کا طریقہ بتایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اسلام کے وامرو نواہی پر مشتمل ایک مکمل نظام زندگی تشکیل دے کر ہمارے حوالے کردیا۔اب قرآن کریم اور اسوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ان میں سے کسی کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میں تمھارےپاس دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ جب تک تم انھیں مضبوطی سے تھامے رکھو گے دنیا کی کوئی طاقت تمھیں گمراہ نہیں کرسکے گی۔ایک اللہ کی کتاب اوردوسری میری سنت ہے ۔یہ دونوں الگ الگ نہیں کی جاسکتیں حتی کہ حوضِ کوثر کی تقسیم کے وقت یہ دونوں اکٹھی ہوں گی۔"(المستدرک للحاکم 1/93)جن لوگوں نے انھیں الگ کرنا چاہا ان کی نشاندہی ان الفاظ میں فرمائی:"میں تم میں سے کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ وہ اپنی مسند پر تکیہ لگا کربیٹھا ہو اور اس کے پاس میرا امر یا نہی آئے تو وہ کہے:ہم اسے نہیں جانتے،جو ہمیں کتاب اللہ میں ملےگا ہم تواسی کی پیروی کریں گے۔"(جامع الترمذی العلم حدیث 2663)سنت کی ضرورت واہمیت کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:(لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ )"بلاشبہ یقیناً تمہارے لیے اللہ کے رسول(کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے۔"(الاحزاب 21/33)اس آیت کی رو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی قرآن کریم کی مجسم تفسیر ہے۔اس آیت کے تناظر میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ اس عملی تفسیر کی روشنی میں قرآن کریم کو سمجھا جائے اور اس کے احکام پر عمل کیا جائے۔یہی بات حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے منقول ہے جب ان سے کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق سوال کیا تھا توع انھوں نے فرمایا:"یہ قرآن ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق تھا۔"(صحیح مسلم صلاۃ المسافرین حدیث 1739(746)خلق میں اقوال وافکار،اعمال وافعال اور تقریرات سب کچھ آجاتا ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قول یا عمل ایسا نہ تھا جوقرآن کریم سے باہر ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی"خلق" کو عالم(جہان والوں) کے لیے نمونہ بنایا گیاہے۔اسی خلق کا نام حدیث ہےاور اسی خُلُق کو سنت کہاجاتا ہے۔اس خلق نبوی کے بغیر نہ قرآن سمجھا جاسکتاہے اور نہ اس پر عمل ہی کیا جاسکتا ہے۔جن لوگوں نے خلقِ نبوی کے بغیر قرآن فہمی کی کوشش کی ہے انھوں نے گویا اندھیرے میں تیر چلائے ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان کی ان الفاظ میں تشریح کی ہے:"لفظ اعتصام ،باب افتعال کا مصدر اور عصمۃ سے ماخوذ ہے۔اس سے مراد اللہ کے ارشاد:(وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا )"اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور جدا جدا نہ ہو جاؤ۔"(آل عمران:3/103)کی تعمیل ہے۔ كيونكہ حبل اللہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔اس پر عمل پیرا ہونے سے مقصود اخروی ثواب حاصل کرنا ہے جیسا کہ رسی سے مقصود کنویں سے پانی کھینچتا ہوتا ہے۔آخرت میں ثواب،اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہوکرہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔کتاب سے مراد قرآن مجید ہے جس کی محض تلاوت کرنا بھی عبادت ہے اور سنت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تقریرات ہیں۔لغوی پر لفظ سنت،طریقے پر بولا جاتا ہے اور محدثین کی اصطلاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تقریرات پر بولاجاتا ہے۔واضح رہے کہ تقریرات سے مراد ایسے کام ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کیے گئے ہوں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منع نہ کیا ہو بلکہ خاموشی اختیار کرکے انھیں ثابت رکھا ہو۔شارح صحیح بخاری ابن بطال نے کہا ہے کہ غلطی سے محفوظ صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے،پھر اجماع علماء جوقرآن وسنت کے مطابق ہو۔اس کے علاوہ کوئی بھی غلطی سے محفوظ نہیں۔بہرحال محدثین کے نزدیک شریعت کے اصل مآخذ دو ہیں: کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں اپنے دین کو مکمل کردیا تھا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ)"آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا"(المآئدۃ 3/5)دین سے مراد شریعت کے تمام اُصول اور احکام وہدایات ہیں اور ان احکام پر عمل پیرا ہونے کا وہ طریقہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں کے سامنے پیش کیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو زندگی گزارنے کے لیے کتاب وسنت کافی ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موقف کو ثابت کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔اس عنوان کے تحت ایک سوستائیس(127) احادیث پیش کی ہیں جن میں چھبیس (26) معلق اور باقی موصول ہیں،نیز ان میں ایک سودس (110) مکرر اور باقی خالص ہیں۔سات(7) احادیث امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کی ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ تقریباً سولہ(16) صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ کے آثار بھی پیش کیے ہیں۔انھوں نے ان احادیث پر تقریباً اٹھائیس(28) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کا بڑی باریک بینی اور دقت نظری سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کاموقف یہ ہے کہ مسلمانوں کو شرعی احکام کے سلسلے میں سب سے پہلے واضح نصوص کا اتباع کرنا چاہیے،خوامخواہ قیاسات کی تلاش میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے اگر کہیں ضرورت محسوس ہوتو مقیس علیہ(جس پر قیاس کیا جائے) واضح اور معلوم ہو،یعنی علت حکم نمایاں ہو،چنانچہ آپ نے ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے:(باب من شبه أصلا معلوما بأصل مبين وقد بين النبي صلى الله عليه وسلم حكمهما ليفهم السائل)"ایک معلوم امر کو دوسرے واضح امر سے تشبیہ دینا جبکہ ان دونوں کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمادیا ہوتاکہ سائل سمجھ جائے۔"حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ قیاس میں اصل اور علت کو واضح ہوناچاہیے،محض ظن وتخمین پر انحصار نہ کیا جائے،چنانچہ اس کی روک تھام کے لیے یوں عنوان قائم کیا ہے:(بابُ مَا يُذْكَرُ مِنْ ذَمِّ الرَّأيِ وتَكَلُّفِ القِياسِ)"رائے زنی اور خوامخواہ قیاس کرنے کی مذمت کا بیان۔"امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر کتاب وسنت میں کسی مسئلے کے متعلق کوئی دلیل نہ مل سکے تو بھی انسان کو فضول قسم کے قیاس اور رائےزنی سے بچتے ہوئے اس سے ملتے جلتے مسائل پر غور کرکے پیش آنے والے مسئلے کا حل تلاش کرناچاہیے۔فرضی قیاسات کو انھوں نے درج ذیل آیت کے مفہوم میں داخل فرمایا:(وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَـٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا)"جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ۔ کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے" (بنی اسرائیل:17/36)بہرحال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے محدثین کے مسلک کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال وافعال کی پیروی کرنے پر زوردیا ہے،چنانچہ آپ نے اس سلسلے میں دوعنوان قائم کیے ہیں:(باب الاِقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّٰهِ صلى الله عليه وسلم)"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا۔"(ب)۔(باب الاقتداء بأفعال النبي صلى الله عليه وسلم )"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کے مطابق عمل کرنا۔"قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا بغورمطالعہ کریں اور اس سلسلے میں ہماری گزارشات کو بھی مد نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے ۔آمین یارب العالمین۔
تمہید باب
غلو کے معنی حد سے تجاوز کرنا ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دینی معاملات میں غلو سے منع فرمایا ہے جیسا کہ ذات باری تعالیٰ کے متعلق بحث و تمحیص کرتے وقت انسان اس حدسے تجاوز کر جائے کہ شیطان کو دخل اندازی کا موقع مل جائے۔ یہود و نصاریٰ نے بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق غلو سے کام لیا تھا۔یہودیوں نے ان کی قدر و منزلت کو اس حد تک گھٹا دیا کہ ان کی رسالت ہی سے انکار کردیا ۔اور نصاریٰ نے انھیں اس قدر بڑھایا کہ انھیں الٰہ بنادیا یا انھیں اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دے دیا ہمارے مسلمانوں میں بھی اس قسم کے غلو کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ دین اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
یا علم کی بات میں بے موقع فضول جھگڑا کرنا اور دین میں غلو کرنا ‘ بدعتیں نکالنا‘ حد سے بڑھ جانا منع ہے کیونکہ اللہ پاک نے سورۃ نساء میں فرمایا ” کتاب والو! اپنے دین میں حد سے مت بڑھو “ تشریح : جیسے یہود نے حضرت عیسیٰ ؑ کو گھٹا کر ان کی پیغمبری کا بھی انکار کردیا اور نصاریٰ نے چڑھا یا کہ ان کو خدا بنا دیا ‘ دونوں باتیں غلو ہیں ۔ غلو اسی کو کہتے ہیں جس کی مسلمانوں میں بھی بہت سی مثالیں ہیں ۔ شیعہ اور اہل بدعت نے غلو میں یہود ونصاری کی پیروی کی ۔ ھداھم اللہ تعالیٰ۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے ،انہوں نے کہا: سیدنا عویمر عجلانی ؓ سیدنا عاصم بن عدی ؓ کے پاس آئے اور کہا: اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ مرد کو پائے اور اس سے قتل کر دیں گے؟ اے عاصم! آپ رسول اللہ ﷺ سے میرے لیے یہ مسلہ دریافت کریں۔ انہوں نے آپ ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا تو نبی ﷺ نے اس طرح کے سوالات کو ناپسند فرمایا اور معیوب خیال کیا۔ سیدنا عاصم ؓ نے واپس آکر انہیں بتایا کہ نبی ﷺ نے اس طرح کے سوالات کو ناپسند فرمایا ہے۔ سیدنا عویمر ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! میں خود نبی ﷺ کے پاس جاتا ہوں۔ پھر وہ آئے جبکہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا عاصم ؓ کے واپس جانے کے بعد قرآن کی آیات آپ پر نازل کر دی تھیں۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”تمہارے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل کیا ہے۔“ پھر آپ نے دونوں (میاں بیوی) کو بلایا۔ وہ دونوں آئے اور لعان کیا۔ پھر عویمر نے کہا: اللہ کے رسول! اگر میں اس عورت کو اپنے پاس رکھوں تو میں نے اس پر جھوٹ بولا ہوگا، اس لیے انہوں نے فوری طور پر اپنی بیوی کو جدا کر دیا جبکہ نبی ﷺ نے جدا کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ پھرلعان کرنے والوں میں یہی طریقہ رائج ہوگیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”تم دیکھتے رہو اگر اس عورت نے چھوٹے قد والا سرخ رنگ کا بچہ جنم دیا جیسے زمین کا کیڑا ہوتا ہے تو میں عویمر کو جھوٹا خیال کروں گا۔ اور اگر اس نے کالا، موٹی آنکھوں والا بھاری سرینوں والا بچی جنا تو میں سمجھوں گا کہ عویمر سچا ہے۔“ پھر اس عورت نے مکروہ صورت کا بچہ جنم دیا، یعنی جس مرد سے بدنام ہوئی تھی اسی صورت کا بچہ پیدا ہوا۔
حدیث حاشیہ:
1۔اس طرح کا ایک واقعہ حضرت ہلال بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیش آیا جب انھوں نے اپنی بیوی کو شریک بن سحماء سے متہم کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ہلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےفرمایا: ’’گواہ لاؤ بصورت دیگر تمھاری پشت پر حد قذف لگے گی۔‘‘ آخر کار ان کے درمیان لعان ہوا۔ لعان کی تفصیل سورہ نور آیت 6 تا 9۔ میں بیان ہوئی ہے 2۔لعان کے بعد مرد طلاق دے یا نہ دے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہمیشہ کے لیے جدائی خود بخود عمل میں آ جاتی ہے۔ مرد اپنی بیوی سے حق مہر یا دیگر اخراجات کی واپسی کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔ لعان کے بعد دوران عدت میں عورت کا نان ونفقہ یا رہائش وغیرہ مرد کے ذمے نہیں ہوتی۔ پیدا ہونے والا بچہ ماں کی طرف منسوب ہو گا اور وہی اس کا وارث ہو گا۔ چنانچہ اس قسم کے مسائل اور سوالات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا: اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے بیان کیا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”اے اہل کتاب ! اپنے دین میں غلو نہ کرو اور حق کے سوا اللہ پر کچھ نہ کہو۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے کہا، ہم زہری نے، ان سے سہل بن سعد ساعدی ؓ نے بیان کیا کہ عویمر عجلانی عاصم بن عدی کے پاس آیا اور کہا اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی دوسرے مرد کو پائے اور اسے قتل کر دے، کیا آپ لوگ مقتول کے بدلہ میں اسے قتل کر دیں گے؟ عاصم! میرے لیے آپ رسول اللہ ﷺ سے اس کے متلعق پوچھ دیجئے۔ چنانچہ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا لیکن آپ نے اس طرح کے سوال کو ناپسند کیا اور معیوب جانا۔ عاصم ؓ نے واپس آ کر انہیں بتایا کہ آنحضرت ﷺ نے اس طرح کے سوال کو ناپسند کیا ہے۔ اس پر عویمر ؓ بولے کہ واللہ! میں خود آنحضرت ﷺ کے پاس جاؤں گا خیر عویمر آپ کے پاس آئے اور عاصم کے لوٹ جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی آیت آپ ﷺ پر نازل کی۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے ان سے کہا کہ تمہارے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل کیا ہے، پھر آپ نے دونوں (میاں بیوی) کو بلایا۔ دونوں آگے بڑھے اور لعان کیا۔ پھر عویمر نے کہا کہ یارسول اللہ! اگر اسے اب بھی اپنے پاس رکھتا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں جھوٹا ہوں چنانچہ اس نے فوری اپنی بیوی کو جدا کدیا۔ آنحضرت ﷺ نے جدا کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ پھر لعان کرنے والوں میں یہی طریقہ رائج ہوگیا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ دیکھتے رہو اس کا بچہ لال لال پست قد بامنی کی طرح کا پیدا ہو تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ عویمر ہی کا بچہ ہے۔ عویمر نے عورت پر جھوٹا طوفان باندھا اور اور اگر سانولے رنگ کا بڑی آنکھ والا بڑے بڑے چوتڑوالا پیدا ہو، جب میں سمجھوں گا کہ عویمر سچا ہے پھر اس عورت کا بچہ اس مکروہ صورت کا یعنی جس مرد سے وہ بدنام ہوئی تھی، اسی صورت کا پیدا ہوا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے سولات کو برا جانا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl bin Sa'd As-Sa'idi (RA) : 'Uwaimir Al-'Ajlani came to 'Asim bin 'Adi and said, "If a man found another man with his wife and killed him, would you sentence the husband to death (in Qisas,) i.e., equality in punishment)? O 'Asim! Please ask Allah's Apostle (ﷺ) about this matter on my behalf." 'Asim asked the Prophet (ﷺ) but the Prophet (ﷺ) disliked the question and disapproved of it. 'Asim returned and informed 'Uwaimir that the Prophet (ﷺ) disliked that type of question. 'Uwaimir said, "By Allah, I will go (personally) to the Prophet." 'Uwaimir came to the Prophet (ﷺ) when Allah had already revealed Qur'anic Verses (in that respect), after 'Asim had left (the Prophet (ﷺ) ). So the Prophet (ﷺ) said to 'Uwaimir, "Allah has revealed Qur'anic Verses regarding you and your wife." The Prophet (ﷺ) then called for them, and they came and carried out the order of Lian. Then 'Uwaimir said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Now if I kept her with me, I would be accused of telling a lie." So 'Uwaimir divorced her although the Prophet (ﷺ) did not order him to do so. Later on this practice of divorcing became the tradition of couples involved in a case of Li'an. The Prophet (ﷺ) said (to the people). "Wait for her! If she delivers a red short (small) child like a Wahra (a short red animal). then I will be of the opinion that he ('Uwaimir) has told a lie but if she delivered a black big-eyed one with big buttocks, then I will be of the opinion that he has told the truth about her." 'Ultimately she gave birth to a child that proved the accusation. (See Hadith No. 269, Vol. 6)