کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا
(
باب : دین کے مسائل میں رائے پر عمل کرنے کی مذمت ‘ اسی طرح بے ضرورت قیاس کرنے کی برائی
)
Sahi-Bukhari:
Holding Fast to the Qur'an and Sunnah
(Chapter: Judging made on the basis of opinion or Qiyas)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
جیسا کہ ارشاد باری ہے سورۃ بنی اسرائیل میں ولا تقف لا تقل ما لیس لک بہ علم یعنی نہ کہو وہ بات جس کا تم کو علم نہ ہو ۔ تشریح : یا تکلف کے ساتھ قیاس کرنے کی جیسے حنفیہ نے استحسان نکالا ہے یعنی قیاس جلی کے خلاف ایک باریک علت کو لینا ہماری شرع میں ان باتوں کو کسی صحابی نے پسند نہیں کیا بلکہ ہمیشہ کتاب وسنت پر عمل کرتے رہے جس مسئلے میں کتاب وسنت کا حکم نہ ملا اس میں اپنی رائے کو دخل دیا وہ بھی سیدھے سادھے طور سے اور پیچ دار وجہوں سے ہمیشہ پر ہیز کیا ۔ ترجمہ باب میں رائے کی مذمت سے وہی رائے مراد ہے جو نص ہوتے ساتھی دی جائے۔
7308.
ہم سے عبدان نے بیان کیا‘ کہا ہم کو ابو حمزہ نے خبر دی‘ کہا میں نے اعمش سے سنا‘ کہا کہ میں نے ابو وائل سے پوچھا تم صفین کی لڑائی میں شریک تھے؟ کہا کہ ہاں‘ پھر میں نے سہل بن حنیف کو کہتے سنا (دوسری سند)
تشریح:
1۔صفین شام میں رقہ اور بالس کے درمیان دریائے فرات کی دائیں جانب ایک مقام کا نام ہے جہاں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت معاویہ کے درمیان بہت بڑی جنگ ہوئی تھی جس میں ہزاروں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین شہید ہوئے تھے اور ابو جندل کے دن سے مراد صلح حدیبیہ کا دن ہے۔ 2۔لوگوں نے حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جنگ صفین میں شرکت نہ کرنے کی وجہ سے کوتاہی کے ساتھ متہم کیا ان پر یہ باتیں بہت گراں گزریں۔ انھوں نے کہا: میں نے اس جنگ میں شرکت سے کوتاہی نہیں کی اور نہ میری یہ عادت ہی ہے کہ ضرورت کے وقت کسی قسم کی کوتاہی کا ارتکاب کروں جب حضرت ابو جندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمان ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح کی شرائط کے مطابق انھیں مشرکین کی طرف واپس کر دیا تو اس وقت بھی مجھ پر یہ چیز بہت گراں گزری تھی۔ ہم اس وقت اس پوزیشن میں تھے کہ اگر ہم ابو جندل کو واپس نہ کرتے تو مشرکین ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے لیکن ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کومقدم رکھا اور حضرت ابو جندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واپس ہونے کو برداشت کیا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس کرنے کا حکم دیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو مسترد کرنے کی ہم میں طاقت نہ تھی اس مقام پر بھی میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوں۔ اس لیے تم مجھے کو تاہی کا الزام دینے کے بجائے اپنے آپ پر غور کرو۔ چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہےکہ دینی معاملات میں محض رائے پر عمل کرنا مستحسن اقدام نہیں۔ 3۔صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں ایک عبارت زائد پائی جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مسئلے میں جب تک کتاب وسنت سے دلیل نہ ہو تو اپنی رائے سے اس مسئلے کو صحیح خیال نہ کرو اور رائے کے مطابق فتوی نہ دو بلکہ کتاب و سنت پر غور کر کے اس سے مسئلے کا حکم ثابت کرو۔ بہر حال محدثین کرام رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مذموم رائے مراد ہے کہ انسان کتاب و سنت کو چھوڑ کر اس کے مطابق عمل کرے۔ واللہ المستعان۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
7374
٢
ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)
ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)
7308
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
6764
٤
ترقيم فتح الباري (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم فتح الباری (کتب تسعہ پروگرام)
7308
٥
ترقيم د. البغا (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ڈاکٹر البغا (کتب تسعہ پروگرام)
6878
٦
ترقيم شرکة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
7035
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
7308
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
7308
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
7308
تمہید کتاب
اس پُر فتن دور میں مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی سخت ضرورت ہے لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جب عقیدہ و ایمان اور مسائل و احکام میں صرف کتاب و سنت کو مرکز و محور قراردیا جائے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ)"تم اس(ہدایت)کی پیروی کرو جو تمھارے رب کی طرف سے تمھاری طرف نازل کی گئی ہے۔اس کے علاوہ (دوسرے)دوستوں کی پیروی نہ کرو۔ تم بہت کم ہی نصیحت حاصل کرتے ہو۔"(الاعراف:7/3)بلا شبہ انسانی زندگی کے لیے جو قوانین اس کتاب میں بیان کیے گئے ہیں ہم مسلمانوں کو صرف انھی کا اتباع کرنا چاہیے غیر مسلم قائدین سے کسی طرح کے قواعد و ضوابط در آمد کرنے کی ضرورت نہیں لیکن افسوس کہ آج مسلمانوں کی اکثریت دین و شریعت کے مسائل معلوم کرنے کے لیے خود ساختہ اراءو قیاسات کا سہارا لینے پر مجبور ہے۔زہدو رہبانیت کے لیے ہندی اور یونانی فلسفے کی محتاج ہے اپنا معاشی نظام لینن(Lenin)اور کارل مارکس(Korl marx)روس اور چین سے اور سیاسی نظام کے لیے امریکی جمہوریت اسلام میں گھسا لائی ہے حالانکہ انسانی زندگی کی تمام ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کتاب و سنت کافی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت یہی بات سمجھانے کی کوشش کی ہے دراصل آپ کا عنوان درج ذیل آیت کریمہ سے ماخوذہے۔(وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا )"اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور جدا جدا نہ ہو جاؤ۔"(آل عمران:3/103)آیت کریمہ میں اللہ کی رسی سے مراد دین اسلام یا کتاب و سنت کے احکام ہیں فقہی آراء مقصود نہیں ۔کتاب و سنت کو اللہ کی رسی اس لیے کہا گیا ہے کہ یہی وہ رشتہ ہے جو تمام اہل ایمان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوطی کے ساتھ جوڑے رکھتا ہے اور دوسری طرف اہل ایمان کو ایک دوسرے سے مربوط کرتا ہے۔کتاب و سنت کے احکام پر سختی سے عمل پیرا ہونے سے اس بات کا امکان ہی نہیں رہتا کہ مسلمانوں میں کسی قسم کا اختلاف و انتشار یا عداوت پیدا ہو گی۔یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارا دستور حیات قرآ ن و سنت کی واضح شکل میں ہمیں میسر ہے جس کا تعلق وحی الٰہی سے ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے لازوال اور بے شمار برکتوں سے مالا مال ہے۔لیکن ہمارے دشمنوں نے اس چشمہ رشد و ہدایت سے ہمیں بد ظن اور دور کرنے اور اس کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔مستشرقین نے جہاں براہ راست قرآن کریم کے اسلوب بیان ، ترتیب و تدوین اور تصور وحی و تنزیل کو ہدف تنقید بنایا ہے وہاں ہمارے ہاں اشراق زدہ روشن خیال متجددین نے آزادی تحقیق کے نام پردین کے ایک اہم ماخذ حدیث و سنت کے متعلق شکوک وشبہات بلکہ استہزاء واستخفاف کا رویہ اپنایا ہے حالانکہ حدیث و سنت کی تدوین اپنے دامن میں ایسا استناد اتصال اور تسلسل لیے ہوئے ہے جس کی مثال دینا کے کسی مذہبی یا تاریخی لٹریچر میں نہیں پائی جاتی ۔ہمارے نزدیک حدیث و سنت کی محبت و ضرورت کا انکار دراصل رسالت سے انکار بلکہ دین اسلام کے انکار کے مترادف ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:(وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ)"اور ہم نے آپ کی طرف یہ ذکر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کے سامنے وہ باتیں وضاحت سے بیان کردیں جو ان کی طرف اتاری گئی ہیں۔"(النحل:16۔44)ایک دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ منصب رسالت کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے۔(وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ)"اور ہم نے آپ پر کتاب اس لیے نازل کی ہے تاکہ آپ اس امر کی وضاحت کردیں جس میں انھوں نے اختلاف کر رکھا ہے۔"(النحل:16۔64) ان آیات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب کی وضاحت ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت ایک چٹھی رساں کی نہیں جو ایک بند لفافہ اس شخص تک پہنچادیں جسے وہ خط لکھا گیا ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے عمل و کردار اور قول و گفتار سے اس آئین زندگی کی وضاحت کرنا ہے کیونکہ شاہی فرمان کا مطلب مصاحب خاص اور محرم راز سے زیادہ اور کوئی نہیں سمجھ سکتا۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی مجملات کی تفصیل مبہمات کی وضاحت مشکلات کی تفسیر کنایات کی تصریح اور اس کے ارشادات کی توضیح فرمائی ہے۔اپنے عمل سے احکام الٰہی کی تفصیل کا طریقہ بتایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اسلام کے وامرو نواہی پر مشتمل ایک مکمل نظام زندگی تشکیل دے کر ہمارے حوالے کردیا۔اب قرآن کریم اور اسوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ان میں سے کسی کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میں تمھارےپاس دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ جب تک تم انھیں مضبوطی سے تھامے رکھو گے دنیا کی کوئی طاقت تمھیں گمراہ نہیں کرسکے گی۔ایک اللہ کی کتاب اوردوسری میری سنت ہے ۔یہ دونوں الگ الگ نہیں کی جاسکتیں حتی کہ حوضِ کوثر کی تقسیم کے وقت یہ دونوں اکٹھی ہوں گی۔"(المستدرک للحاکم 1/93)جن لوگوں نے انھیں الگ کرنا چاہا ان کی نشاندہی ان الفاظ میں فرمائی:"میں تم میں سے کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ وہ اپنی مسند پر تکیہ لگا کربیٹھا ہو اور اس کے پاس میرا امر یا نہی آئے تو وہ کہے:ہم اسے نہیں جانتے،جو ہمیں کتاب اللہ میں ملےگا ہم تواسی کی پیروی کریں گے۔"(جامع الترمذی العلم حدیث 2663)سنت کی ضرورت واہمیت کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:(لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ )"بلاشبہ یقیناً تمہارے لیے اللہ کے رسول(کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے۔"(الاحزاب 21/33)اس آیت کی رو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی قرآن کریم کی مجسم تفسیر ہے۔اس آیت کے تناظر میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ اس عملی تفسیر کی روشنی میں قرآن کریم کو سمجھا جائے اور اس کے احکام پر عمل کیا جائے۔یہی بات حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے منقول ہے جب ان سے کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق سوال کیا تھا توع انھوں نے فرمایا:"یہ قرآن ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق تھا۔"(صحیح مسلم صلاۃ المسافرین حدیث 1739(746)خلق میں اقوال وافکار،اعمال وافعال اور تقریرات سب کچھ آجاتا ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قول یا عمل ایسا نہ تھا جوقرآن کریم سے باہر ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی"خلق" کو عالم(جہان والوں) کے لیے نمونہ بنایا گیاہے۔اسی خلق کا نام حدیث ہےاور اسی خُلُق کو سنت کہاجاتا ہے۔اس خلق نبوی کے بغیر نہ قرآن سمجھا جاسکتاہے اور نہ اس پر عمل ہی کیا جاسکتا ہے۔جن لوگوں نے خلقِ نبوی کے بغیر قرآن فہمی کی کوشش کی ہے انھوں نے گویا اندھیرے میں تیر چلائے ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان کی ان الفاظ میں تشریح کی ہے:"لفظ اعتصام ،باب افتعال کا مصدر اور عصمۃ سے ماخوذ ہے۔اس سے مراد اللہ کے ارشاد:(وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا )"اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور جدا جدا نہ ہو جاؤ۔"(آل عمران:3/103)کی تعمیل ہے۔ كيونكہ حبل اللہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔اس پر عمل پیرا ہونے سے مقصود اخروی ثواب حاصل کرنا ہے جیسا کہ رسی سے مقصود کنویں سے پانی کھینچتا ہوتا ہے۔آخرت میں ثواب،اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہوکرہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔کتاب سے مراد قرآن مجید ہے جس کی محض تلاوت کرنا بھی عبادت ہے اور سنت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تقریرات ہیں۔لغوی پر لفظ سنت،طریقے پر بولا جاتا ہے اور محدثین کی اصطلاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تقریرات پر بولاجاتا ہے۔واضح رہے کہ تقریرات سے مراد ایسے کام ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کیے گئے ہوں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منع نہ کیا ہو بلکہ خاموشی اختیار کرکے انھیں ثابت رکھا ہو۔شارح صحیح بخاری ابن بطال نے کہا ہے کہ غلطی سے محفوظ صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے،پھر اجماع علماء جوقرآن وسنت کے مطابق ہو۔اس کے علاوہ کوئی بھی غلطی سے محفوظ نہیں۔بہرحال محدثین کے نزدیک شریعت کے اصل مآخذ دو ہیں: کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں اپنے دین کو مکمل کردیا تھا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ)"آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا"(المآئدۃ 3/5)دین سے مراد شریعت کے تمام اُصول اور احکام وہدایات ہیں اور ان احکام پر عمل پیرا ہونے کا وہ طریقہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں کے سامنے پیش کیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو زندگی گزارنے کے لیے کتاب وسنت کافی ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موقف کو ثابت کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔اس عنوان کے تحت ایک سوستائیس(127) احادیث پیش کی ہیں جن میں چھبیس (26) معلق اور باقی موصول ہیں،نیز ان میں ایک سودس (110) مکرر اور باقی خالص ہیں۔سات(7) احادیث امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کی ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ تقریباً سولہ(16) صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ کے آثار بھی پیش کیے ہیں۔انھوں نے ان احادیث پر تقریباً اٹھائیس(28) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کا بڑی باریک بینی اور دقت نظری سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کاموقف یہ ہے کہ مسلمانوں کو شرعی احکام کے سلسلے میں سب سے پہلے واضح نصوص کا اتباع کرنا چاہیے،خوامخواہ قیاسات کی تلاش میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے اگر کہیں ضرورت محسوس ہوتو مقیس علیہ(جس پر قیاس کیا جائے) واضح اور معلوم ہو،یعنی علت حکم نمایاں ہو،چنانچہ آپ نے ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے:(باب من شبه أصلا معلوما بأصل مبين وقد بين النبي صلى الله عليه وسلم حكمهما ليفهم السائل)"ایک معلوم امر کو دوسرے واضح امر سے تشبیہ دینا جبکہ ان دونوں کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمادیا ہوتاکہ سائل سمجھ جائے۔"حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ قیاس میں اصل اور علت کو واضح ہوناچاہیے،محض ظن وتخمین پر انحصار نہ کیا جائے،چنانچہ اس کی روک تھام کے لیے یوں عنوان قائم کیا ہے:(بابُ مَا يُذْكَرُ مِنْ ذَمِّ الرَّأيِ وتَكَلُّفِ القِياسِ)"رائے زنی اور خوامخواہ قیاس کرنے کی مذمت کا بیان۔"امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر کتاب وسنت میں کسی مسئلے کے متعلق کوئی دلیل نہ مل سکے تو بھی انسان کو فضول قسم کے قیاس اور رائےزنی سے بچتے ہوئے اس سے ملتے جلتے مسائل پر غور کرکے پیش آنے والے مسئلے کا حل تلاش کرناچاہیے۔فرضی قیاسات کو انھوں نے درج ذیل آیت کے مفہوم میں داخل فرمایا:(وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَـٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا)"جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ۔ کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے" (بنی اسرائیل:17/36)بہرحال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے محدثین کے مسلک کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال وافعال کی پیروی کرنے پر زوردیا ہے،چنانچہ آپ نے اس سلسلے میں دوعنوان قائم کیے ہیں:(باب الاِقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّٰهِ صلى الله عليه وسلم)"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا۔"(ب)۔(باب الاقتداء بأفعال النبي صلى الله عليه وسلم )"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کے مطابق عمل کرنا۔"قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا بغورمطالعہ کریں اور اس سلسلے میں ہماری گزارشات کو بھی مد نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے ۔آمین یارب العالمین۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت رائے زنی اور تکلف قیاس کی مذمت کی ہے۔ رائے اور قیاس ایک ہی چیز ہیں۔ قیاس ایک ضرورت کی چیز ہے بشرطیکہ وہ ان اصول و ضوابط کے مطابق ہو جو محدثین کرام اور فقہائے عظام نے اس کے معتبر ہونے کے لیے بنائے ہیں قیاس کے چار ارکان ہیں۔ اصل فرع حکم اور علت ۔ ان سب کا واضح ہونا ضروری ہے۔ پھر جو رائے اور قیاس مذموم ہے اس کی دو صورتیں ہیں۔(ا)شرعی نصوص کے مقابلے میں نہ ہو۔(ب)اس کے استعمال میں وسعت سے کام نہ لیا جائے۔ اختصار کے پیش نظر ہم ان دونوں صورتوں کی وضاحت کرتے ہیں نص شرعی کے مقابلے میں قیاس کرنا احناف کا کہنا ہے کہ جن جانوروں کا گوشت استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کا پیشاب پلید ہے۔ انھوں نے اس سلسلے میں دوسرے حرام جانوروں کے پیشاب پر قیاس کیا حالانکہ حدیث میں ہے کہ کچھ لوگ مدینہ طیبہ آئے لیکن انھیں وہاں کی آب ہواموافق نہ آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پینے کا حکم دیا۔(صحیح البخاری:الوضو حدیث:233)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پیشاب نجس نہیں کیونکہ نجس میں شفا نہیں ہوتی ہے۔ اس کے استعمال میں وسعت سے کام لینا فقہائے احناف نے قیاس کے استعمال میں اس قدر وسعت سے کام لیا کہ فرضٰ مسائل کے ڈھیر لگادیے جنھوں نے اسلامی شریعت کو غیر مسلموں کی نظر میں بدنام کر ڈالا ہم صرف دومثالوں پراکتفا کرتے ہیں۔(ا)اگر بکری اور کتے کے ملاپ سے ایسا بچہ پیدا ہو جس کا سر کتے کا اور باقی دھڑ بکرے کا ہو تو اس کے حلال و حرام ہونے کے متعلق فقہاء نے حسب ذیل وضاحت ہے۔ اس کے سامنے گوشت اور چارہ ڈالا جائے اگر وہ گوشت کھائے تو اس کا گوشت حرام ہے کیونکہ بنیادی طور پر وہ کتا ہے اور اگر وہ چارہ کھائے تو ذبح کرنے کے بعد اس کا سر پھینک دیا جائے اور باقی گوشت استعمال کر لیا جائے اور اگر وہ چارہ اور گوشت دونوں کو کھاجائے تو پھر اسے مارا جائے۔اگر بھونکتا ہے تو اس کا گوشت استعمال کے قابل نہیں کیونکہ وہ کتا ہے اور اگر وہ ممیاتاہے تو ذبح کر کے اس کا سر پھینک دیا جائے اور باقی حصہ کھالیا جائے کیونکہ وہ بنیادی طور پر بکرا ہے اگر مارنے سے دونوں قسم کی آوازیں برآمدہوں تو اس کا پیٹ چاک کیا جائے۔ اگر اس سے اوجھری نکلے تو اس کا سر کاٹ کر پھینک دیا جائے۔ اور باقی حصہ قابل استعمال ہے اور اگر اوجھری کے بجائے انتڑیاں ہی بر آمد ہوں تو وہ کتا ہے اور اسے استعمال نہ کیا جائے۔اس قسم کی رائے زنی اور تکلف قیاس پر ہم کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے صرف اتنا کہنے کا حق رکھتے ہیں کہ دنیا میں کبھی ایسا ہوا ہے؟کیا ایسا ہونا عدتاً ممکن ہے؟(ب)اگر کوئی مخنث اپنے آپ سے خود ہی جنسی تعلق قائم کرے اور اس کے نتیجے میں بچہ پیدا ہو جائے تو کیا وہ بچہ اس مخنث کی وراثت اپنا باپ ہونے کی حیثیت سے پائے گا یا اپنی ماں ہونے کے لحاظ سے یا دونوں کے اعتبار سے؟ اور اگر اس کا ایک بیٹا اس کے پیٹ سے پیدا ہوا دوسرا پیٹھ سے ہو تو وہ اپس میں ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں گے کیونکہ وہ دونوں ایک پیٹ یا ایک پیٹھ میں جمع نہیں رہے۔2۔بڑے افسوس سے ہم اس حقیقت کا اظہار کرتےہیں کہ ان لوگوں نے کتاب انجیل کے نام سے ایسی کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں لوگوں کو تعلیم دی گئی ہے کہ اگر وہ اسلامی احکام کی زد میں آجائیں تو ان سے کیسے خلاصی حاصل کریں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کے رائے زنی اور خواہ مخواہ قیاس کرنے کی مذمت کی ہے اور اس قسم کے فرضی قیاسات کو (وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ)(بنی اسرائیل:17۔36) میں داخل فرمایا ہے۔ واللہ المستعان۔
جیسا کہ ارشاد باری ہے سورۃ بنی اسرائیل میں ولا تقف لا تقل ما لیس لک بہ علم یعنی نہ کہو وہ بات جس کا تم کو علم نہ ہو ۔ تشریح : یا تکلف کے ساتھ قیاس کرنے کی جیسے حنفیہ نے استحسان نکالا ہے یعنی قیاس جلی کے خلاف ایک باریک علت کو لینا ہماری شرع میں ان باتوں کو کسی صحابی نے پسند نہیں کیا بلکہ ہمیشہ کتاب وسنت پر عمل کرتے رہے جس مسئلے میں کتاب وسنت کا حکم نہ ملا اس میں اپنی رائے کو دخل دیا وہ بھی سیدھے سادھے طور سے اور پیچ دار وجہوں سے ہمیشہ پر ہیز کیا ۔ ترجمہ باب میں رائے کی مذمت سے وہی رائے مراد ہے جو نص ہوتے ساتھی دی جائے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدان نے بیان کیا‘ کہا ہم کو ابو حمزہ نے خبر دی‘ کہا میں نے اعمش سے سنا‘ کہا کہ میں نے ابو وائل سے پوچھا تم صفین کی لڑائی میں شریک تھے؟ کہا کہ ہاں‘ پھر میں نے سہل بن حنیف کو کہتے سنا (دوسری سند)
حدیث حاشیہ:
1۔صفین شام میں رقہ اور بالس کے درمیان دریائے فرات کی دائیں جانب ایک مقام کا نام ہے جہاں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت معاویہ کے درمیان بہت بڑی جنگ ہوئی تھی جس میں ہزاروں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین شہید ہوئے تھے اور ابو جندل کے دن سے مراد صلح حدیبیہ کا دن ہے۔ 2۔لوگوں نے حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جنگ صفین میں شرکت نہ کرنے کی وجہ سے کوتاہی کے ساتھ متہم کیا ان پر یہ باتیں بہت گراں گزریں۔ انھوں نے کہا: میں نے اس جنگ میں شرکت سے کوتاہی نہیں کی اور نہ میری یہ عادت ہی ہے کہ ضرورت کے وقت کسی قسم کی کوتاہی کا ارتکاب کروں جب حضرت ابو جندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمان ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح کی شرائط کے مطابق انھیں مشرکین کی طرف واپس کر دیا تو اس وقت بھی مجھ پر یہ چیز بہت گراں گزری تھی۔ ہم اس وقت اس پوزیشن میں تھے کہ اگر ہم ابو جندل کو واپس نہ کرتے تو مشرکین ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے لیکن ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کومقدم رکھا اور حضرت ابو جندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واپس ہونے کو برداشت کیا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس کرنے کا حکم دیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو مسترد کرنے کی ہم میں طاقت نہ تھی اس مقام پر بھی میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوں۔ اس لیے تم مجھے کو تاہی کا الزام دینے کے بجائے اپنے آپ پر غور کرو۔ چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہےکہ دینی معاملات میں محض رائے پر عمل کرنا مستحسن اقدام نہیں۔ 3۔صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں ایک عبارت زائد پائی جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مسئلے میں جب تک کتاب وسنت سے دلیل نہ ہو تو اپنی رائے سے اس مسئلے کو صحیح خیال نہ کرو اور رائے کے مطابق فتوی نہ دو بلکہ کتاب و سنت پر غور کر کے اس سے مسئلے کا حکم ثابت کرو۔ بہر حال محدثین کرام رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مذموم رائے مراد ہے کہ انسان کتاب و سنت کو چھوڑ کر اس کے مطابق عمل کرے۔ واللہ المستعان۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”ایسی بات نہ کہو، جس کا تمہیں علم نہ ہو۔“ «(لا تقف)» کے معنی ہیں: لا تقل یعنی نہ کہو
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدان نے بیان کیا‘ کہا ہم کو ابو حمزہ نے خبر دی‘ کہا میں نے اعمش سے سنا‘ کہا کہ میں نے ابو وائل سے پوچھا تم صفین کی لڑائی میں شریک تھے؟ کہا کہ ہاں‘ پھر میں نے سہل بن حنیف کو کہتے سنا (دوسری سند)
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-A'mash: I asked Abu Wail, "Did you witness the battle of Siffin between 'Ali and Muawiyah?" He said, "Yes," and added,