Sahi-Bukhari
10. Call to Prayers (Adhaan)
85. Chapter: To raise both hands while saying the Takbir [on opening As-Salat (the prayer)], and while bowing and on raising up the head (after bowing)
باب: رفع یدین تکبیر تحریمہ کے وقت، رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت کرنا (سنت ہے)۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: To raise both hands while saying the Takbir [on opening As-Salat (the prayer)], and while bowing and on raising up the head (after bowing))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
736.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا جب آپ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے تھے اور اس طرح جب رکوع کے لیے اللہ أکبر کہتے، نیز جب آپ رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی اسی طرح کرتے اور سمع اللہ لمن حمدہ کہتے۔ اور سجدوں میں آپ یہ عمل نہ کرتے تھے۔
تشریح:
(1) ہم نے مختصر صحیح بخاری کے ترجمے میں اس حدیث کے فوائد میں لکھا تھا کہ تکبیر تحریمہ کے وقت اور رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اور تیسری رکعت کے لیے اٹھتے وقت دونوں ہاتھوں کو کندھوں یا کانوں تک اٹھانا رفع الیدین کہلاتا ہے۔ بقول امام شافعی ؒ اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عظمت کا اظہار اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کا اتباع ہے۔ (2) تکبیر تحریمہ کے وقت رفع الیدین پر تمام امت کا اجماع ہے اور باقی مقامات ثلاثہ میں رفع الیدین کرنے پر بھی اہل کوفہ کے علاوہ تمام علمائے امت کا اتفاق ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ساری زندگی اس سنت پر عمل کیا اور یہ ایسی سنت متواترہ ہے جسے عشرۂ مبشرہ کے علاوہ دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی بیان کرتے ہیں اور اس پر عمل پیرا دکھائی دیتے ہیں، لہٰذا مذکورہ حدیث کی بنا پر تمام مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ رکوع میں جاتے، اس سے سر اٹھاتے اور تیسری رکعت کےلیے اٹھتے وقت اللہ کی عظمت کا اظہار کرتے ہوئے رفع الیدین کریں۔ (3) علاوہ ازیں حافظ ابن حجر ؒ نے رفع الیدین کی چند ایک حکمتیں بیان کی ہیں جن کا خلاصہ حسب ذیل ہے: ٭دنیا کو چھوڑ کر کلی طور پر اللہ کی طرف متوجہ ہوجانے کی علامت ہے۔٭پوری طرح اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرماں برداری اختیار کرنے کا اشارہ ہے تاکہ اللہ أکبر کہنے کے ساتھ مناسبت پید ا ہوجائے۔٭نماز کی کمال عظمت کا اقرار کرنا ہے جسے نمازی اب شروع کرنے والا ہے۔٭اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ عابد اور معبود کے درمیان حجابات نماز میں اٹھ جاتے ہیں۔٭سارے بدن کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونے کے لیے ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں۔٭حضرت ابن عمر ؓ کا ارشاد گرامی ہے کہ رفع الیدین نماز کی زینت ہے۔٭ اللہ تعالیٰ کے حضور قیام کی تکمیل رفع الیدین سے ہوتی ہے۔٭عقبہ بن عامر ؓ کا فرمان ہے کہ ہر رفع الیدین سے دس نیکیاں ملتی ہیں، یعنی ہر انگلی کے بدلے ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔ (فتح الباري:283/2) ٭ رفع الیدین سے ماسوی اللہ کی نفی اوراللہ أکبر سے اللہ کی وحدانیت کو ثابت کرنا ہے۔٭بعض صوفیاء نے لکھا ہے کہ رفع الیدین کرنا گویا دنیا کو پس پشت پھینک دینے کی طرف اشارہ ہے۔ایسی محبوب سنت کے متعلق نسخ کا دعویٰ کرنا یا اسے منافئ سکون قرار دینا یا اس پر سنت غیر مؤکدہ کا ٹھپا لگانا یا اس کے متعلق عدم دوام کی پھبتی کسنا، یا اس کے ترک کو ثابت کرنے کے لیے زور قلم صرف کرنا یا اس کے متعلق بے بنیاد مناظروں کی داستانیں وضع کرنا فقہائے عراق کے دست ہنر شناس ہی کا کرشمہ ہوسکتا ہے۔ والله المستعان
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
728
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
736
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
736
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
736
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
تکبیر تحریمہ کے وقت رفع الیدین کرنا پہلے بیان ہو چکا ہے، اب دوسرے دو مقام، یعنی رکوع میں جاتے اور اس سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرنا اسے بیان کیا جائے گا۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا جب آپ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے تھے اور اس طرح جب رکوع کے لیے اللہ أکبر کہتے، نیز جب آپ رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی اسی طرح کرتے اور سمع اللہ لمن حمدہ کہتے۔ اور سجدوں میں آپ یہ عمل نہ کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ہم نے مختصر صحیح بخاری کے ترجمے میں اس حدیث کے فوائد میں لکھا تھا کہ تکبیر تحریمہ کے وقت اور رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اور تیسری رکعت کے لیے اٹھتے وقت دونوں ہاتھوں کو کندھوں یا کانوں تک اٹھانا رفع الیدین کہلاتا ہے۔ بقول امام شافعی ؒ اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عظمت کا اظہار اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کا اتباع ہے۔ (2) تکبیر تحریمہ کے وقت رفع الیدین پر تمام امت کا اجماع ہے اور باقی مقامات ثلاثہ میں رفع الیدین کرنے پر بھی اہل کوفہ کے علاوہ تمام علمائے امت کا اتفاق ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ساری زندگی اس سنت پر عمل کیا اور یہ ایسی سنت متواترہ ہے جسے عشرۂ مبشرہ کے علاوہ دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی بیان کرتے ہیں اور اس پر عمل پیرا دکھائی دیتے ہیں، لہٰذا مذکورہ حدیث کی بنا پر تمام مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ رکوع میں جاتے، اس سے سر اٹھاتے اور تیسری رکعت کےلیے اٹھتے وقت اللہ کی عظمت کا اظہار کرتے ہوئے رفع الیدین کریں۔ (3) علاوہ ازیں حافظ ابن حجر ؒ نے رفع الیدین کی چند ایک حکمتیں بیان کی ہیں جن کا خلاصہ حسب ذیل ہے: ٭دنیا کو چھوڑ کر کلی طور پر اللہ کی طرف متوجہ ہوجانے کی علامت ہے۔٭پوری طرح اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرماں برداری اختیار کرنے کا اشارہ ہے تاکہ اللہ أکبر کہنے کے ساتھ مناسبت پید ا ہوجائے۔٭نماز کی کمال عظمت کا اقرار کرنا ہے جسے نمازی اب شروع کرنے والا ہے۔٭اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ عابد اور معبود کے درمیان حجابات نماز میں اٹھ جاتے ہیں۔٭سارے بدن کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونے کے لیے ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں۔٭حضرت ابن عمر ؓ کا ارشاد گرامی ہے کہ رفع الیدین نماز کی زینت ہے۔٭ اللہ تعالیٰ کے حضور قیام کی تکمیل رفع الیدین سے ہوتی ہے۔٭عقبہ بن عامر ؓ کا فرمان ہے کہ ہر رفع الیدین سے دس نیکیاں ملتی ہیں، یعنی ہر انگلی کے بدلے ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔ (فتح الباري:283/2) ٭ رفع الیدین سے ماسوی اللہ کی نفی اوراللہ أکبر سے اللہ کی وحدانیت کو ثابت کرنا ہے۔٭بعض صوفیاء نے لکھا ہے کہ رفع الیدین کرنا گویا دنیا کو پس پشت پھینک دینے کی طرف اشارہ ہے۔ایسی محبوب سنت کے متعلق نسخ کا دعویٰ کرنا یا اسے منافئ سکون قرار دینا یا اس پر سنت غیر مؤکدہ کا ٹھپا لگانا یا اس کے متعلق عدم دوام کی پھبتی کسنا، یا اس کے ترک کو ثابت کرنے کے لیے زور قلم صرف کرنا یا اس کے متعلق بے بنیاد مناظروں کی داستانیں وضع کرنا فقہائے عراق کے دست ہنر شناس ہی کا کرشمہ ہوسکتا ہے۔ والله المستعان
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ ہم کو یونس بن یزید ایلی نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے سالم بن عبداللہ بن عمر ؓ نے عبداللہ بن عمر ؓ سے خبر دی، انہوں نے بتلایا میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو تکبیر تحریمہ کے وقت آپ ﷺ نے رفع یدین کیا۔ آپ کے دونوں ہاتھ اس وقت مونڈھوں (کندھوں) تک اٹھے اور اسی طرح جب آپ رکوع کے لیے تکبیر کہتے اس وقت بھی کرتے۔ اس وقت آپ کہتے سمع اللہ لمن حمدہ البتہ سجدہ میں آپ رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar (RA): I saw that whenever Allah's Apostle (ﷺ) stood for the prayer, he used to raise both his hands up to the shoulders, and used to do the same on saying the Takbir for bowing and on raising his head from it and used to say, "Sami a-l-lahu Liman hamida". But he did not do that (i.e. raising his hands) in prostrations.