کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا
(
باب : اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ شوریٰ میں ) فرمانا مسلمانوں کا کام آپس کے صلاح اور مشورے سے چلتا ہے
)
Sahi-Bukhari:
Holding Fast to the Qur'an and Sunnah
(Chapter: “…And who (conduct) their affair by mutual consultation…”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
( اور سورۃ آل عمران میں ) فرمانا ” اے پیغمبر ! ان سے کاموں میں مشورہ لے “ اور یہ بھی بیان ہے کہ مشورہ ایک کام کا مصمم عزم اور اس کے بیان کردینے سے پہلے لینا چاہئیے جیسے فرمایا پھر جب ایک بات ٹھہرالے ( یعنی صلاح ومشورہ کے بعد ) تو اللہ پر بھروسہ کر ( اس کو کر گزر ) پھر جب آنحضرت ﷺمشورے کے بعد ایک کام ٹھہرالیں اب کسی آدمی کو اللہ اور اس کے رسول کے آگے بڑھنا درست نہیں ( یعنی دوسری رائے دینا ) اور آنحضرتﷺ نے جنگ احد میں اپنے اصحاب سے مشورہ لیا کہ مدینہ ہی میں رہ کر لڑیں یا باہر نکل کر۔ جب آپ نے زرہ پہن لی اور باہر نکل کر لڑنا ٹھہرا لیا ‘ اب بعض لوگ کہنے لگے مدین ہی میں رہنا اچھا ہے ۔ آپ نے ان کے قول کی طرف التفاف نہیں کیا کیونکہ ( مشورے کے بعد ) آپ ایک بات ٹھہرا چکے تھے ۔ آپ نے فرمایا کہ جب پیغمبر ( لڑائی پر مستعد ہو کر ) اپنی زرہ پہن لے ( ہتھیار وغیرہ باندھ کر لیس ہو جائے ) اب بغیر اللہ کے حکم کے اس کو اتار نہیں سکتا ۔ اس حدیث کو طبرانی نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے وصل کیا ) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے علی اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے عائشہ ؓ پر جو بہتان لگا گیا تھا اس مقدمہ میں مشورہ کیا اور ان کی رائے سنی یہاں تک کہ قرآن اترا اور آپ نے تہمت لگانے والوں کو کوڑے مارے اور علی اور اسامہ ؓ میں جو اختلاف رائے تھا اس پر کچھ التفات نہیں کیا ( علی کی رائے اوپر گزری ہے ) بلکہ آپ نے اللہ کے ارشاد کے موافق حکم دیا اور آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد جتنے امام اور خلیفہ ہوئے وہ ایماندار لوگوں سے اور عالموں سے مباح کاموں میں مشورہ لیا کرتے تا کہ جو کام آسان ہو ‘ اس کو اختیار کریں پھر جب ان کو قرآن اور حدیث کا حکم مل جاتا تو اس کے خلاف کسی کی نہ سنتے کیونکہ آنحضرت ﷺ کی پیروی سب پر مقدم ہے اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں سے جوزکوۃٰ نہیں دیتے تھے لڑنا مناسب سمجھا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تم ان لوگوں سے کیسے لڑوگے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا کہ مجھ کو لوگوں سے لڑنے کا حکم ہوا یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہیں جب انہوں نے لا الہ الا اللہ کہہ لیا تو اپنی جانوں اور مالوں کو مجھ سے بچا لیا ۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا ‘ میں تو ان لوگوں سے ضرور لڑوں گا جو ان فرضوں کو جدا کریں جن کو آنحضرت ﷺم نے یکساں رکھا ۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ کی وہی رائے ہوگئی غرض ابو بکر نے عمر ؓ کے مشورے پر کچھ التفاف نہ کیا ان کے پاس آنحضرت ﷺ کا حکم موجود تھا جو لوگ نماز اور زکوۃٰ میں فرق کریں ‘ دین کے احکام اور ارکان کو بدل ڈالیں ان سے لڑنا چاہئیے ( وہ کافر ہو گئے ) اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنا دین بدل ڈالے ( اسلام سے پھر جائے ) اس کو مار ڈالو اور عمر ؓ کے مشورے میں وہی صحابہ شریک رہتے جو قرآن کے قاری تھے ( یعنی عالم لوگ ) جوان ہوں یا بوڑھے اور عمر رضی اللہ عنہ جہاں اللہ کی کتاب کا کوئی حکم سنتے بس ٹھہر جاتے اس کے موافق عمل کرتے اس کے خلاف کسی کا مشورہ نہ سنتے ۔ تشریح : سبحان اللہ ! عمدہ اخلاق حاصل کرنے کے لیے قرآن سے زیادہ کوئی کتاب نہیں ہے ۔ اس آیت شوریٰ میں وہ طریقہ اختصار کے ساتھ بیان کردیا ۔ جو بڑی بڑی پوٹ کتابوں کا لب لباب ہے ۔ حاصل یہ ہے کہ آدمی کو دینی اور دنیاوی کاموں میں صرف اپنی رائے منفرد رائے پھر بھروسہ کرنا باعث تباہی اور بر بادی ہے ۔ ہر کام میں عقلاءاور علماءسے مشورہ لینا چاہئیے‘ پھر بعضے لوگ کیا کرتے ہیں کہ مشورہ ہی لیتے لیتے وہمی مزاج ہو جاتے ہیں ۔ ان میں قوت فیصلہ بالکل نہیں ہوتی ۔ ایسے آدمیوں سے بھی کوئی کام پورا نہیں ہوتا تو فرما یا پس مشورے کے بعد جب ایک کام ٹھہرالے جب کوئی وہم نہ کر اور اللہ کے بھروسے پر کر گزر یہی قوت فیصلہ ہے ۔ یہ ب باب میں مذکورہ احادیث اوپر موصولاً گزر چکی ہیں ۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا مطلب یہ ہے کہ حاکم اور بادشاہ اسلام کو سلطنت کے کاموں میں علماءاور عقلمندوں سے مشورہ لینا چاہیے لیکن جس کام میں اللہ اور رسول کا حکم صاف صاف موجود ہے اس میں مشورہ کی حاجت نہیں اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر عمل کرنا چاہئیے اگر مشورہ والے اس کے خلاف مشورہ دیں تو اس کو بیکار سمجھنا چاہئیے ۔ اللہ اور رسول پر کسی کی تقدیم جائز نہیں ہے ۔ دعوا کل قول عند قول محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔
7369.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ جب تمہت لگانے والوں نے ان پر تہمت لگائی تو رسول اللہﷺ نے سیدنا علی ؓ اور سیدنا اسامہ بن زید ؓ کو بلایا۔ اس وقت واقعہ افک کے متعلق کوئی وحی نہیں آئی تھی۔ آپ ﷺ نے ان دونوں سے پوچھا اور اپنے اہل خانہ کو جدا کرنے کے سلسلے میں ان حضرات سے مشورہ لینا چاہا تو سیدنا اسامہ ؓ نے وہی مشورہ دیا جو انہیں معلوم تھا کہ آپﷺ کی اہلیہ اس تہمت سے بری ہیں۔ لیکن سیدنا علی ؓ نےکہا: اللہ تعالیٰ نے آپ پر کوئی پابندی تو عائد نہیں کی۔ ان کے علاوہ عورتیں بہت ہیں۔ آپ اس سلسلے میں لونڈی(بریرہ ؓ ) سے دریافت کرلیں وہ آپ سے سچی بات کرے گی۔ تو آپ ﷺ نے پوچھا: ”کیا تو نے کوئی ایسی بات دیکھی ہے جس سے تجھے کوئی شبہ پیدا ہوتا ہو؟“ اس (بریرہ) نے کہا: میں نے اس سے زیادہ کوئی شے نہیں دیکھی کہ وہ ایک کم عمر لڑکی ہے، اپنے گھر والوں کا آٹا گوندھ کر سو جاتی ہے تو بکری آکر کھا جاتی ہے، یعنی کم عمری کی وجہ سے مزاج میں بے پروائی ہے۔ اس کے بعد آپ ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”اے مسلمانو! وہ کون ہے جو مجھے اس شخص کو سزا دینے میں معذور خیال کرے جس نے مجھے میری بیوی کے بارے میں تکلیف پہنچائی ہے؟ اللہ کی قسم! مجھے اپنی اہلیہ محترمہ کے متعلق خیر کے علاوہ کچھ معلوم نہیں۔“ پھر آپ نے ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ کی براءت ذکر فرمائی۔ اس واقعے کو ابو اسامہ نے ہشام بن عروہ سے بیان کیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
7094
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
7369
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
7369
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
7369
تمہید کتاب
اس پُر فتن دور میں مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی سخت ضرورت ہے لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جب عقیدہ و ایمان اور مسائل و احکام میں صرف کتاب و سنت کو مرکز و محور قراردیا جائے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ)"تم اس(ہدایت)کی پیروی کرو جو تمھارے رب کی طرف سے تمھاری طرف نازل کی گئی ہے۔اس کے علاوہ (دوسرے)دوستوں کی پیروی نہ کرو۔ تم بہت کم ہی نصیحت حاصل کرتے ہو۔"(الاعراف:7/3)بلا شبہ انسانی زندگی کے لیے جو قوانین اس کتاب میں بیان کیے گئے ہیں ہم مسلمانوں کو صرف انھی کا اتباع کرنا چاہیے غیر مسلم قائدین سے کسی طرح کے قواعد و ضوابط در آمد کرنے کی ضرورت نہیں لیکن افسوس کہ آج مسلمانوں کی اکثریت دین و شریعت کے مسائل معلوم کرنے کے لیے خود ساختہ اراءو قیاسات کا سہارا لینے پر مجبور ہے۔زہدو رہبانیت کے لیے ہندی اور یونانی فلسفے کی محتاج ہے اپنا معاشی نظام لینن(Lenin)اور کارل مارکس(Korl marx)روس اور چین سے اور سیاسی نظام کے لیے امریکی جمہوریت اسلام میں گھسا لائی ہے حالانکہ انسانی زندگی کی تمام ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کتاب و سنت کافی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت یہی بات سمجھانے کی کوشش کی ہے دراصل آپ کا عنوان درج ذیل آیت کریمہ سے ماخوذہے۔(وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا )"اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور جدا جدا نہ ہو جاؤ۔"(آل عمران:3/103)آیت کریمہ میں اللہ کی رسی سے مراد دین اسلام یا کتاب و سنت کے احکام ہیں فقہی آراء مقصود نہیں ۔کتاب و سنت کو اللہ کی رسی اس لیے کہا گیا ہے کہ یہی وہ رشتہ ہے جو تمام اہل ایمان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوطی کے ساتھ جوڑے رکھتا ہے اور دوسری طرف اہل ایمان کو ایک دوسرے سے مربوط کرتا ہے۔کتاب و سنت کے احکام پر سختی سے عمل پیرا ہونے سے اس بات کا امکان ہی نہیں رہتا کہ مسلمانوں میں کسی قسم کا اختلاف و انتشار یا عداوت پیدا ہو گی۔یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارا دستور حیات قرآ ن و سنت کی واضح شکل میں ہمیں میسر ہے جس کا تعلق وحی الٰہی سے ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے لازوال اور بے شمار برکتوں سے مالا مال ہے۔لیکن ہمارے دشمنوں نے اس چشمہ رشد و ہدایت سے ہمیں بد ظن اور دور کرنے اور اس کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔مستشرقین نے جہاں براہ راست قرآن کریم کے اسلوب بیان ، ترتیب و تدوین اور تصور وحی و تنزیل کو ہدف تنقید بنایا ہے وہاں ہمارے ہاں اشراق زدہ روشن خیال متجددین نے آزادی تحقیق کے نام پردین کے ایک اہم ماخذ حدیث و سنت کے متعلق شکوک وشبہات بلکہ استہزاء واستخفاف کا رویہ اپنایا ہے حالانکہ حدیث و سنت کی تدوین اپنے دامن میں ایسا استناد اتصال اور تسلسل لیے ہوئے ہے جس کی مثال دینا کے کسی مذہبی یا تاریخی لٹریچر میں نہیں پائی جاتی ۔ہمارے نزدیک حدیث و سنت کی محبت و ضرورت کا انکار دراصل رسالت سے انکار بلکہ دین اسلام کے انکار کے مترادف ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:(وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ)"اور ہم نے آپ کی طرف یہ ذکر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کے سامنے وہ باتیں وضاحت سے بیان کردیں جو ان کی طرف اتاری گئی ہیں۔"(النحل:16۔44)ایک دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ منصب رسالت کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے۔(وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ)"اور ہم نے آپ پر کتاب اس لیے نازل کی ہے تاکہ آپ اس امر کی وضاحت کردیں جس میں انھوں نے اختلاف کر رکھا ہے۔"(النحل:16۔64) ان آیات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب کی وضاحت ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت ایک چٹھی رساں کی نہیں جو ایک بند لفافہ اس شخص تک پہنچادیں جسے وہ خط لکھا گیا ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے عمل و کردار اور قول و گفتار سے اس آئین زندگی کی وضاحت کرنا ہے کیونکہ شاہی فرمان کا مطلب مصاحب خاص اور محرم راز سے زیادہ اور کوئی نہیں سمجھ سکتا۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی مجملات کی تفصیل مبہمات کی وضاحت مشکلات کی تفسیر کنایات کی تصریح اور اس کے ارشادات کی توضیح فرمائی ہے۔اپنے عمل سے احکام الٰہی کی تفصیل کا طریقہ بتایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اسلام کے وامرو نواہی پر مشتمل ایک مکمل نظام زندگی تشکیل دے کر ہمارے حوالے کردیا۔اب قرآن کریم اور اسوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ان میں سے کسی کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میں تمھارےپاس دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ جب تک تم انھیں مضبوطی سے تھامے رکھو گے دنیا کی کوئی طاقت تمھیں گمراہ نہیں کرسکے گی۔ایک اللہ کی کتاب اوردوسری میری سنت ہے ۔یہ دونوں الگ الگ نہیں کی جاسکتیں حتی کہ حوضِ کوثر کی تقسیم کے وقت یہ دونوں اکٹھی ہوں گی۔"(المستدرک للحاکم 1/93)جن لوگوں نے انھیں الگ کرنا چاہا ان کی نشاندہی ان الفاظ میں فرمائی:"میں تم میں سے کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ وہ اپنی مسند پر تکیہ لگا کربیٹھا ہو اور اس کے پاس میرا امر یا نہی آئے تو وہ کہے:ہم اسے نہیں جانتے،جو ہمیں کتاب اللہ میں ملےگا ہم تواسی کی پیروی کریں گے۔"(جامع الترمذی العلم حدیث 2663)سنت کی ضرورت واہمیت کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:(لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ )"بلاشبہ یقیناً تمہارے لیے اللہ کے رسول(کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے۔"(الاحزاب 21/33)اس آیت کی رو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی قرآن کریم کی مجسم تفسیر ہے۔اس آیت کے تناظر میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ اس عملی تفسیر کی روشنی میں قرآن کریم کو سمجھا جائے اور اس کے احکام پر عمل کیا جائے۔یہی بات حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے منقول ہے جب ان سے کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق سوال کیا تھا توع انھوں نے فرمایا:"یہ قرآن ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق تھا۔"(صحیح مسلم صلاۃ المسافرین حدیث 1739(746)خلق میں اقوال وافکار،اعمال وافعال اور تقریرات سب کچھ آجاتا ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قول یا عمل ایسا نہ تھا جوقرآن کریم سے باہر ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی"خلق" کو عالم(جہان والوں) کے لیے نمونہ بنایا گیاہے۔اسی خلق کا نام حدیث ہےاور اسی خُلُق کو سنت کہاجاتا ہے۔اس خلق نبوی کے بغیر نہ قرآن سمجھا جاسکتاہے اور نہ اس پر عمل ہی کیا جاسکتا ہے۔جن لوگوں نے خلقِ نبوی کے بغیر قرآن فہمی کی کوشش کی ہے انھوں نے گویا اندھیرے میں تیر چلائے ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان کی ان الفاظ میں تشریح کی ہے:"لفظ اعتصام ،باب افتعال کا مصدر اور عصمۃ سے ماخوذ ہے۔اس سے مراد اللہ کے ارشاد:(وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا )"اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور جدا جدا نہ ہو جاؤ۔"(آل عمران:3/103)کی تعمیل ہے۔ كيونكہ حبل اللہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔اس پر عمل پیرا ہونے سے مقصود اخروی ثواب حاصل کرنا ہے جیسا کہ رسی سے مقصود کنویں سے پانی کھینچتا ہوتا ہے۔آخرت میں ثواب،اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہوکرہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔کتاب سے مراد قرآن مجید ہے جس کی محض تلاوت کرنا بھی عبادت ہے اور سنت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تقریرات ہیں۔لغوی پر لفظ سنت،طریقے پر بولا جاتا ہے اور محدثین کی اصطلاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تقریرات پر بولاجاتا ہے۔واضح رہے کہ تقریرات سے مراد ایسے کام ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کیے گئے ہوں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منع نہ کیا ہو بلکہ خاموشی اختیار کرکے انھیں ثابت رکھا ہو۔شارح صحیح بخاری ابن بطال نے کہا ہے کہ غلطی سے محفوظ صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے،پھر اجماع علماء جوقرآن وسنت کے مطابق ہو۔اس کے علاوہ کوئی بھی غلطی سے محفوظ نہیں۔بہرحال محدثین کے نزدیک شریعت کے اصل مآخذ دو ہیں: کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں اپنے دین کو مکمل کردیا تھا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ)"آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا"(المآئدۃ 3/5)دین سے مراد شریعت کے تمام اُصول اور احکام وہدایات ہیں اور ان احکام پر عمل پیرا ہونے کا وہ طریقہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں کے سامنے پیش کیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو زندگی گزارنے کے لیے کتاب وسنت کافی ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موقف کو ثابت کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔اس عنوان کے تحت ایک سوستائیس(127) احادیث پیش کی ہیں جن میں چھبیس (26) معلق اور باقی موصول ہیں،نیز ان میں ایک سودس (110) مکرر اور باقی خالص ہیں۔سات(7) احادیث امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کی ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ تقریباً سولہ(16) صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ کے آثار بھی پیش کیے ہیں۔انھوں نے ان احادیث پر تقریباً اٹھائیس(28) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کا بڑی باریک بینی اور دقت نظری سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کاموقف یہ ہے کہ مسلمانوں کو شرعی احکام کے سلسلے میں سب سے پہلے واضح نصوص کا اتباع کرنا چاہیے،خوامخواہ قیاسات کی تلاش میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے اگر کہیں ضرورت محسوس ہوتو مقیس علیہ(جس پر قیاس کیا جائے) واضح اور معلوم ہو،یعنی علت حکم نمایاں ہو،چنانچہ آپ نے ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے:(باب من شبه أصلا معلوما بأصل مبين وقد بين النبي صلى الله عليه وسلم حكمهما ليفهم السائل)"ایک معلوم امر کو دوسرے واضح امر سے تشبیہ دینا جبکہ ان دونوں کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمادیا ہوتاکہ سائل سمجھ جائے۔"حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ قیاس میں اصل اور علت کو واضح ہوناچاہیے،محض ظن وتخمین پر انحصار نہ کیا جائے،چنانچہ اس کی روک تھام کے لیے یوں عنوان قائم کیا ہے:(بابُ مَا يُذْكَرُ مِنْ ذَمِّ الرَّأيِ وتَكَلُّفِ القِياسِ)"رائے زنی اور خوامخواہ قیاس کرنے کی مذمت کا بیان۔"امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر کتاب وسنت میں کسی مسئلے کے متعلق کوئی دلیل نہ مل سکے تو بھی انسان کو فضول قسم کے قیاس اور رائےزنی سے بچتے ہوئے اس سے ملتے جلتے مسائل پر غور کرکے پیش آنے والے مسئلے کا حل تلاش کرناچاہیے۔فرضی قیاسات کو انھوں نے درج ذیل آیت کے مفہوم میں داخل فرمایا:(وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَـٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا)"جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ۔ کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے" (بنی اسرائیل:17/36)بہرحال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے محدثین کے مسلک کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال وافعال کی پیروی کرنے پر زوردیا ہے،چنانچہ آپ نے اس سلسلے میں دوعنوان قائم کیے ہیں:(باب الاِقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّٰهِ صلى الله عليه وسلم)"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا۔"(ب)۔(باب الاقتداء بأفعال النبي صلى الله عليه وسلم )"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کے مطابق عمل کرنا۔"قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا بغورمطالعہ کریں اور اس سلسلے میں ہماری گزارشات کو بھی مد نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے ۔آمین یارب العالمین۔
( اور سورۃ آل عمران میں ) فرمانا ” اے پیغمبر ! ان سے کاموں میں مشورہ لے “ اور یہ بھی بیان ہے کہ مشورہ ایک کام کا مصمم عزم اور اس کے بیان کردینے سے پہلے لینا چاہئیے جیسے فرمایا پھر جب ایک بات ٹھہرالے ( یعنی صلاح ومشورہ کے بعد ) تو اللہ پر بھروسہ کر ( اس کو کر گزر ) پھر جب آنحضرت ﷺمشورے کے بعد ایک کام ٹھہرالیں اب کسی آدمی کو اللہ اور اس کے رسول کے آگے بڑھنا درست نہیں ( یعنی دوسری رائے دینا ) اور آنحضرتﷺ نے جنگ احد میں اپنے اصحاب سے مشورہ لیا کہ مدینہ ہی میں رہ کر لڑیں یا باہر نکل کر۔ جب آپ نے زرہ پہن لی اور باہر نکل کر لڑنا ٹھہرا لیا ‘ اب بعض لوگ کہنے لگے مدین ہی میں رہنا اچھا ہے ۔ آپ نے ان کے قول کی طرف التفاف نہیں کیا کیونکہ ( مشورے کے بعد ) آپ ایک بات ٹھہرا چکے تھے ۔ آپ نے فرمایا کہ جب پیغمبر ( لڑائی پر مستعد ہو کر ) اپنی زرہ پہن لے ( ہتھیار وغیرہ باندھ کر لیس ہو جائے ) اب بغیر اللہ کے حکم کے اس کو اتار نہیں سکتا ۔ اس حدیث کو طبرانی نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے وصل کیا ) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے علی اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے عائشہ ؓ پر جو بہتان لگا گیا تھا اس مقدمہ میں مشورہ کیا اور ان کی رائے سنی یہاں تک کہ قرآن اترا اور آپ نے تہمت لگانے والوں کو کوڑے مارے اور علی اور اسامہ ؓ میں جو اختلاف رائے تھا اس پر کچھ التفات نہیں کیا ( علی کی رائے اوپر گزری ہے ) بلکہ آپ نے اللہ کے ارشاد کے موافق حکم دیا اور آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد جتنے امام اور خلیفہ ہوئے وہ ایماندار لوگوں سے اور عالموں سے مباح کاموں میں مشورہ لیا کرتے تا کہ جو کام آسان ہو ‘ اس کو اختیار کریں پھر جب ان کو قرآن اور حدیث کا حکم مل جاتا تو اس کے خلاف کسی کی نہ سنتے کیونکہ آنحضرت ﷺ کی پیروی سب پر مقدم ہے اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں سے جوزکوۃٰ نہیں دیتے تھے لڑنا مناسب سمجھا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تم ان لوگوں سے کیسے لڑوگے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا کہ مجھ کو لوگوں سے لڑنے کا حکم ہوا یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہیں جب انہوں نے لا الہ الا اللہ کہہ لیا تو اپنی جانوں اور مالوں کو مجھ سے بچا لیا ۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا ‘ میں تو ان لوگوں سے ضرور لڑوں گا جو ان فرضوں کو جدا کریں جن کو آنحضرت ﷺم نے یکساں رکھا ۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ کی وہی رائے ہوگئی غرض ابو بکر نے عمر ؓ کے مشورے پر کچھ التفاف نہ کیا ان کے پاس آنحضرت ﷺ کا حکم موجود تھا جو لوگ نماز اور زکوۃٰ میں فرق کریں ‘ دین کے احکام اور ارکان کو بدل ڈالیں ان سے لڑنا چاہئیے ( وہ کافر ہو گئے ) اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنا دین بدل ڈالے ( اسلام سے پھر جائے ) اس کو مار ڈالو اور عمر ؓ کے مشورے میں وہی صحابہ شریک رہتے جو قرآن کے قاری تھے ( یعنی عالم لوگ ) جوان ہوں یا بوڑھے اور عمر رضی اللہ عنہ جہاں اللہ کی کتاب کا کوئی حکم سنتے بس ٹھہر جاتے اس کے موافق عمل کرتے اس کے خلاف کسی کا مشورہ نہ سنتے ۔ تشریح : سبحان اللہ ! عمدہ اخلاق حاصل کرنے کے لیے قرآن سے زیادہ کوئی کتاب نہیں ہے ۔ اس آیت شوریٰ میں وہ طریقہ اختصار کے ساتھ بیان کردیا ۔ جو بڑی بڑی پوٹ کتابوں کا لب لباب ہے ۔ حاصل یہ ہے کہ آدمی کو دینی اور دنیاوی کاموں میں صرف اپنی رائے منفرد رائے پھر بھروسہ کرنا باعث تباہی اور بر بادی ہے ۔ ہر کام میں عقلاءاور علماءسے مشورہ لینا چاہئیے‘ پھر بعضے لوگ کیا کرتے ہیں کہ مشورہ ہی لیتے لیتے وہمی مزاج ہو جاتے ہیں ۔ ان میں قوت فیصلہ بالکل نہیں ہوتی ۔ ایسے آدمیوں سے بھی کوئی کام پورا نہیں ہوتا تو فرما یا پس مشورے کے بعد جب ایک کام ٹھہرالے جب کوئی وہم نہ کر اور اللہ کے بھروسے پر کر گزر یہی قوت فیصلہ ہے ۔ یہ ب باب میں مذکورہ احادیث اوپر موصولاً گزر چکی ہیں ۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا مطلب یہ ہے کہ حاکم اور بادشاہ اسلام کو سلطنت کے کاموں میں علماءاور عقلمندوں سے مشورہ لینا چاہیے لیکن جس کام میں اللہ اور رسول کا حکم صاف صاف موجود ہے اس میں مشورہ کی حاجت نہیں اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر عمل کرنا چاہئیے اگر مشورہ والے اس کے خلاف مشورہ دیں تو اس کو بیکار سمجھنا چاہئیے ۔ اللہ اور رسول پر کسی کی تقدیم جائز نہیں ہے ۔ دعوا کل قول عند قول محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔
حدیث ترجمہ:
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ جب تمہت لگانے والوں نے ان پر تہمت لگائی تو رسول اللہﷺ نے سیدنا علی ؓ اور سیدنا اسامہ بن زید ؓ کو بلایا۔ اس وقت واقعہ افک کے متعلق کوئی وحی نہیں آئی تھی۔ آپ ﷺ نے ان دونوں سے پوچھا اور اپنے اہل خانہ کو جدا کرنے کے سلسلے میں ان حضرات سے مشورہ لینا چاہا تو سیدنا اسامہ ؓ نے وہی مشورہ دیا جو انہیں معلوم تھا کہ آپﷺ کی اہلیہ اس تہمت سے بری ہیں۔ لیکن سیدنا علی ؓ نےکہا: اللہ تعالیٰ نے آپ پر کوئی پابندی تو عائد نہیں کی۔ ان کے علاوہ عورتیں بہت ہیں۔ آپ اس سلسلے میں لونڈی(بریرہ ؓ ) سے دریافت کرلیں وہ آپ سے سچی بات کرے گی۔ تو آپ ﷺ نے پوچھا: ”کیا تو نے کوئی ایسی بات دیکھی ہے جس سے تجھے کوئی شبہ پیدا ہوتا ہو؟“ اس (بریرہ) نے کہا: میں نے اس سے زیادہ کوئی شے نہیں دیکھی کہ وہ ایک کم عمر لڑکی ہے، اپنے گھر والوں کا آٹا گوندھ کر سو جاتی ہے تو بکری آکر کھا جاتی ہے، یعنی کم عمری کی وجہ سے مزاج میں بے پروائی ہے۔ اس کے بعد آپ ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”اے مسلمانو! وہ کون ہے جو مجھے اس شخص کو سزا دینے میں معذور خیال کرے جس نے مجھے میری بیوی کے بارے میں تکلیف پہنچائی ہے؟ اللہ کی قسم! مجھے اپنی اہلیہ محترمہ کے متعلق خیر کے علاوہ کچھ معلوم نہیں۔“ پھر آپ نے ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ کی براءت ذکر فرمائی۔ اس واقعے کو ابو اسامہ نے ہشام بن عروہ سے بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
مشورہ کسی کام کے پختہ ارادے اور اس کے طے کرنے سے پہلے لینا چاہیے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”جب آپ عزم کرلیں تو پھر اللہ پر توکل کریں۔“ جب رسول اللہ ﷺ کسی کام کا پختہ ارادہ کرلیں تو کسی بندہ بشر کو حق حاصل نہیں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے آگے بڑھے¤
اور نبی ﷺ نے جنگ اُحد کے دن اصحاب سے مشورہ لیا کہ مدینہ طیبہ میں رہ کر لڑیں یا باہر نکل کر جنگ کریں تو انہوں نے باہر نکل کر لڑائی کا مشورہ دیا، پھر جب آپ نے زرہ پہن لی اور باہر نکل کر لڑنا طے کرلیا تو کچھ صحابہ نے کہا: مدینہ ہی میں رہنا اچھا ہے آپ نے ان کی بات کو قابل توجہ خیال نہ کیا کیونکہ آپ ایک بات طے کر چکے تھے،آپ نے فرمایا: ”جب پیغمبر تیار ہوکر زرہ پہن لے تو اب اللہ کے فیصلے کے بغیر اسے اتار نہیں سکتا۔“ ¤
اور آپ ﷺ نے اس بہتان کے متعلق جو صدیقہ کائنات سیدہ عائشہ ؓ پر لگایا گیا تھا سیدنا علی اور سیدنا اسامہ ؓ سے مشورہ کیا اور ان کی رائے سنی یہاں تک کہ صدیقہ کائنات کی براءت میں قرآن نازل ہوا تو بہتان لگانے والوں کو کوڑے مارے۔ سیدنا علی اور سیدنا اسامہ ؓ جو اختلاف رائے تھا اس کی طرف کوئی توجہ نہ فرمائی بلکہ آپ نے فیصلہ کیا جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا۔نبی ﷺ کی وفات کے بعد تمام حکمران جائز کاموں میں دیانت دار اہل علم سے مشورہ لیا کرتے تھے تاکہ جو کام آسان ہو اس کو اختیار کریں پھر جب ان کو قرآن وحدیث سےکوئی حکم مل جاتا تو اس کے خلاف کسی کی نہ سنتے تھے کیونکہ نبیﷺ کی پیروی سب سے مقدم ہے¤
سیدنا ابو بکر ؓ نے زکاۃ نہ دینے والوں سے جنگ کرنے کا ارادہ کیا تو سیدنا عمر ؓ نے کہا: آپ ان لوگوں سے کیونکر جنگ کریں گے؟ جبکہ رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے : ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ لا الہ اللہ کہیں۔ جب انہوں نے لا الہ اللہ کا اقرار کرلیا تو انہوں نے اپنی جانوں اور مالوں کو مجھ سے بچا لیا سوائے حقوق اسلام کے۔“ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں ان لوگوں سے ضرور جنگ کروں گا جنہوں نے اس امر میں تفریق کی جس کو رسول اللہ ﷺ نے جمع کیا ہے۔ پھر اس کے بعد سیدنا عمر ؓ کی رائے بھی ان کے موافق ہوگئی۔ چنانچہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر بن خطاب ؓ جے مشورے کی طرف کوئی توجہ نہ فرمائی کیونکہ ان کے پاس رسول اللہ ﷺ کا حکم موجود تھا کہ جو لوگ نماز اور زکاۃ میں فرق کریں اور دین کے احکام اور ارکان کو بدل ڈالیں ان سے لڑنا چاہیے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص اپنا دین بدل ڈالے اے قتل کردو“ ¤ سیدنا عمر ؓکی مجلس مشاورت میں وہ لوگ شامل تھے جو قرآن کریم کے قاری اور عالم تھے خواہ وہ جوان ہوں یا بوڑھے لیکن سیدنا عمر بن خطاب ؓ جہاں اللہ کا حکم سنتے وہاں ٹھیر جاتے (اس کے مطابق عمل کرتے ،اس کے خلاف کسی کا مشورہ نہ سنتے)¤
فائدہ: مشورہ صرف ایسے کاموں میں کیا جائے جن کے کرنے یا نہ کرنے کے متعلق کتاب وسنت میں کوئی واضح حکم نہ ہو کیونکہ قرآن وحدیث کے واضح حکموں میں مشورے کی کوئی حیثیت نہیں
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد العزیز بن عبد الہ اویسی نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے‘ ان سے صالح بن کیسان نے‘ ان سے ابن شہاب نے‘ کہا کہ مجھ سے عروہ بن مسیب اور علقمہ بن وقاص اور عبید اللہ بن عبد اللہ نے بیان کیا اور ان سے عائشہ ؓ نے کہ جب تہمت لگا نے والوں نے ان پر تہمت لگائی تھی اور رسول اللہ ﷺ نے علی بن ابی طالب‘ اسامہ بن زید ؓ کو بلایا کیونکہ اس معاملہ میں وحی اس وقت تک نہیں آئی تھی اور آنحضرت ﷺ اپنی اہل خانہ کو جدا کرنے کے سلسلہ میں ان سے مشورہ لینا چاہتے تھے تو اسامہ ؓ نے وہی مشورہ دیا جو انہیں معلوم تھا یعنی آنحضرت ﷺ کی اہل خانہ کی براءت کا لیکن علی ؓ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر کوئی پابندی تو عائد نہیں کی ہے اور اس کے سوا اور بہت سی عورتیں ہیں‘ باندی سے آپ دریافت فرما لیں‘ وہ آپ سے صحیح بات بتا دے گی۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے پوچھا کہ کیا تم نے کوئی ایسی بات دیکھی ہے جس سے شبہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اس کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا کہ وہ کم عمر لڑکی ہیں‘ آٹا گوندھ کر بھی سو جاتی ہیں اور پڑوس کی بکری آکر اسے کھا جاتی ہے (یعنی کم عمری کی وجہ سے مزاج میں بے پروائی ہے) اس کے بعد آنحضرت ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا‘ اے مسلمانو! میرے معاملے میں اس سے کون نمٹے گا جس کی اذیتیں اب میرے اہل خانہ تک پہنچ گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں نے ان کے بارے میں بھلائی کے سوا اور کچھ نہیں جانا ہے۔ پھر آپ نے عائشہ ؓ کی پاک دامنی کاقصہ بیان کیا اور ابو اسامہ نے ہشام بن عروہ سے بیان کیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : After the slanderers had given a forged statement against her, Allah's Apostle (ﷺ) called ' Ali Ibn Abi Talib (RA) and Usama bin Zaid when the Divine Inspiration was delayed. He wanted to ask them and consult them about the question of divorcing me. Usama gave his evidence that was based on what he knew about my innocence, but 'Ali said, "Allah has not put restrictions on you and there are many women other than her. Furthermore you may ask the slave girl who will tell you the truth." So the Prophet (ﷺ) asked Barira (my salve girl), "Have you seen anything that may arouse your suspicion?" She replied, "I have not seen anything more than that she is a little girl who sleeps, leaving the dough of her family (unguarded) that the domestic goats come and eat it." Then the Prophet (ﷺ) stood on the pulpit and said, "O Muslims! Who will help me against the man who has harmed me by slandering my wife? By Allah, I know nothing about my family except good." The narrator added: Then the Prophet (ﷺ) mentioned the innocence of 'Aisha (RA). (See Hadith No. 274, Vol. 6)