کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا
(
باب : اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ شوریٰ میں ) فرمانا مسلمانوں کا کام آپس کے صلاح اور مشورے سے چلتا ہے
)
Sahi-Bukhari:
Holding Fast to the Qur'an and Sunnah
(Chapter: “…And who (conduct) their affair by mutual consultation…”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
( اور سورۃ آل عمران میں ) فرمانا ” اے پیغمبر ! ان سے کاموں میں مشورہ لے “ اور یہ بھی بیان ہے کہ مشورہ ایک کام کا مصمم عزم اور اس کے بیان کردینے سے پہلے لینا چاہئیے جیسے فرمایا پھر جب ایک بات ٹھہرالے ( یعنی صلاح ومشورہ کے بعد ) تو اللہ پر بھروسہ کر ( اس کو کر گزر ) پھر جب آنحضرت ﷺمشورے کے بعد ایک کام ٹھہرالیں اب کسی آدمی کو اللہ اور اس کے رسول کے آگے بڑھنا درست نہیں ( یعنی دوسری رائے دینا ) اور آنحضرتﷺ نے جنگ احد میں اپنے اصحاب سے مشورہ لیا کہ مدینہ ہی میں رہ کر لڑیں یا باہر نکل کر۔ جب آپ نے زرہ پہن لی اور باہر نکل کر لڑنا ٹھہرا لیا ‘ اب بعض لوگ کہنے لگے مدین ہی میں رہنا اچھا ہے ۔ آپ نے ان کے قول کی طرف التفاف نہیں کیا کیونکہ ( مشورے کے بعد ) آپ ایک بات ٹھہرا چکے تھے ۔ آپ نے فرمایا کہ جب پیغمبر ( لڑائی پر مستعد ہو کر ) اپنی زرہ پہن لے ( ہتھیار وغیرہ باندھ کر لیس ہو جائے ) اب بغیر اللہ کے حکم کے اس کو اتار نہیں سکتا ۔ اس حدیث کو طبرانی نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے وصل کیا ) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے علی اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے عائشہ ؓ پر جو بہتان لگا گیا تھا اس مقدمہ میں مشورہ کیا اور ان کی رائے سنی یہاں تک کہ قرآن اترا اور آپ نے تہمت لگانے والوں کو کوڑے مارے اور علی اور اسامہ ؓ میں جو اختلاف رائے تھا اس پر کچھ التفات نہیں کیا ( علی کی رائے اوپر گزری ہے ) بلکہ آپ نے اللہ کے ارشاد کے موافق حکم دیا اور آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد جتنے امام اور خلیفہ ہوئے وہ ایماندار لوگوں سے اور عالموں سے مباح کاموں میں مشورہ لیا کرتے تا کہ جو کام آسان ہو ‘ اس کو اختیار کریں پھر جب ان کو قرآن اور حدیث کا حکم مل جاتا تو اس کے خلاف کسی کی نہ سنتے کیونکہ آنحضرت ﷺ کی پیروی سب پر مقدم ہے اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں سے جوزکوۃٰ نہیں دیتے تھے لڑنا مناسب سمجھا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تم ان لوگوں سے کیسے لڑوگے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا کہ مجھ کو لوگوں سے لڑنے کا حکم ہوا یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہیں جب انہوں نے لا الہ الا اللہ کہہ لیا تو اپنی جانوں اور مالوں کو مجھ سے بچا لیا ۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا ‘ میں تو ان لوگوں سے ضرور لڑوں گا جو ان فرضوں کو جدا کریں جن کو آنحضرت ﷺم نے یکساں رکھا ۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ کی وہی رائے ہوگئی غرض ابو بکر نے عمر ؓ کے مشورے پر کچھ التفاف نہ کیا ان کے پاس آنحضرت ﷺ کا حکم موجود تھا جو لوگ نماز اور زکوۃٰ میں فرق کریں ‘ دین کے احکام اور ارکان کو بدل ڈالیں ان سے لڑنا چاہئیے ( وہ کافر ہو گئے ) اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنا دین بدل ڈالے ( اسلام سے پھر جائے ) اس کو مار ڈالو اور عمر ؓ کے مشورے میں وہی صحابہ شریک رہتے جو قرآن کے قاری تھے ( یعنی عالم لوگ ) جوان ہوں یا بوڑھے اور عمر رضی اللہ عنہ جہاں اللہ کی کتاب کا کوئی حکم سنتے بس ٹھہر جاتے اس کے موافق عمل کرتے اس کے خلاف کسی کا مشورہ نہ سنتے ۔ تشریح : سبحان اللہ ! عمدہ اخلاق حاصل کرنے کے لیے قرآن سے زیادہ کوئی کتاب نہیں ہے ۔ اس آیت شوریٰ میں وہ طریقہ اختصار کے ساتھ بیان کردیا ۔ جو بڑی بڑی پوٹ کتابوں کا لب لباب ہے ۔ حاصل یہ ہے کہ آدمی کو دینی اور دنیاوی کاموں میں صرف اپنی رائے منفرد رائے پھر بھروسہ کرنا باعث تباہی اور بر بادی ہے ۔ ہر کام میں عقلاءاور علماءسے مشورہ لینا چاہئیے‘ پھر بعضے لوگ کیا کرتے ہیں کہ مشورہ ہی لیتے لیتے وہمی مزاج ہو جاتے ہیں ۔ ان میں قوت فیصلہ بالکل نہیں ہوتی ۔ ایسے آدمیوں سے بھی کوئی کام پورا نہیں ہوتا تو فرما یا پس مشورے کے بعد جب ایک کام ٹھہرالے جب کوئی وہم نہ کر اور اللہ کے بھروسے پر کر گزر یہی قوت فیصلہ ہے ۔ یہ ب باب میں مذکورہ احادیث اوپر موصولاً گزر چکی ہیں ۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا مطلب یہ ہے کہ حاکم اور بادشاہ اسلام کو سلطنت کے کاموں میں علماءاور عقلمندوں سے مشورہ لینا چاہیے لیکن جس کام میں اللہ اور رسول کا حکم صاف صاف موجود ہے اس میں مشورہ کی حاجت نہیں اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر عمل کرنا چاہئیے اگر مشورہ والے اس کے خلاف مشورہ دیں تو اس کو بیکار سمجھنا چاہئیے ۔ اللہ اور رسول پر کسی کی تقدیم جائز نہیں ہے ۔ دعوا کل قول عند قول محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔
7370.
سیدہ عائشہ ؓ س روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے خطاب کیا اور اللہ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا: ”تم مجھے ان لوگوں کے بارے میں کیا مشورہ دیتے ہو جو میرے اہل خانہ کو بدنام کرتے ہیں۔ حالانکہ مجھے ان کے متعلق کبھی کوئی بری بات معلوم نہیں ہوئی۔“ سیدنا عروہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب سیدہ عائشہ ؓ کو اس واقعے کا علم ہوا تو انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں اپنے میکے چلی جاؤں؟ تو آپ نے انہیں اجازت دے دی اور انکے ہمراہ ایک غلام بھیجا۔ انصار میں سے ایک صاحب نے کہا: ”اے اللہ تیری ذات پاک ہے ہمارے لیے زیبا نہیں کہ ہم ایسی باتیں زبان پر لائیں۔ تیری ذات پاک ہے یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔“
تشریح:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقام پر حدیث افک کو دو طریق سے بیان کیا ہے اور صرف اتنا حصہ بیان فرمایا جس سے مشورہ کی اہمیت پرروشنی پڑتی کیونکہ یہاں واقعے کی تفصیلات بیان کرنا نہیں بلکہ صرف مشورے کی افادیت بتانا مقصود ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے متعلق حضرت اسامہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتخاب کیا۔ ان میں ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لاڈلے محبوب اور دوسرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دختر کے شوہر نامدار تھے۔ حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: ہم تو خیر کے علاوہ کچھ نہیں جانتے۔ انھوں نے بھی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح علیحدگی کا مشورہ نہیں دیا، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پریشانی دیکھ کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر تنگی نہیں کی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے علاوہ عورتیں بہت ہیں۔ انھوں نے مزید یہ کہا کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھ لیں وہ زیادہ بہتر بتا سکیں گی۔ مقصود یہ تھا کہ علیحدگی اختیار نہ کریں، مزید تحقیق کر لیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس بات پر عمل کیا لیکن علیحدگی کے اشارے پر توجہ نہ دی کیونکہ حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اشارہ بھی عدم مفارقت کی طرف تھا، البتہ حالات کی سازگاری تک کے لیے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو میکےجانے کی اجازت دے دی، پھر جب وحی کے ذریعے سے اصل راز کھلا تو اس سلسلے میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مشورہ لیا کہ اب تہمت لگانے والوں کے ساتھ کیا برتاؤ کرنا چاہیے؟ تو سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اشارہ دیا کہ آپ اس سلسلے میں جو مناسب سمجھیں کر گزریں، ہم آپ کے قول وفعل میں پورے پورے ہم نوا ہیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسطح بن اثاثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اور حمنہ بنت حجش رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر حد قذف جاری فرمائی۔ 2۔بہرحال ان روایات سے مشورے کی اہمیت کا پتا چلتا ہے۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق میمون بن مہران بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب کوئی اہم معاملہ پیش آتا تواس کا حل اللہ تعالیٰ کی کتاب میں تلاش کرتے۔ اگر اس میں کوئی آیت مل جاتی تو اس کے مطابق فیصلہ کرتے بصورت دیگر سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نظر کرتے اور اس کے مطابق فیصلہ کرتے۔ اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہ ملتی تو باہر نکل کر دوسرے مسلمانوں سے سنت کے متعلق سوال کرتے۔ اگر کہیں سے کوئی سراغ نہ ملتا تو اہل اسلام کو دعوت دیتے۔ برسرعام اہل علم سے مشورہ کرتے۔ مشورہ کے بعد کوئی فیصلہ کرتے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ ان کی مجلس مشاورت کا ذکر پہلے ہو چکا ہے، چنانچہ انھوں نے شراب کی حد کے متعلق مشورہ لیا جیسا کہ کتاب الحدود میں بیان ہوا ہے۔ عورت کا حمل ضائع ہو جائے تو اس جنین کی دیت کے متعلق صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے رائے لی جیسا کہ کتاب الدیات میں اس کی صراحت ہے، اسی طرح اہل فارس سے جنگ کرنے کے متعلق صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے ان کا مشورہ کتاب الجہاد میں بیان ہوا ہے۔ جب آپ شام کے علاقے میں گئے تو وہاں پہنچنے سے پہلے پتا چلا کہ طاعون کی وبا پھیلی ہے تو آپ نے مہاجرین وانصار اور سرکردہ قریش سے وہاں جانے کے متعلق مشورہ لیا، جس کی تفصیل کتاب الطب میں بیان ہو چکی ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب خلیفہ بنے تو ان کے پاس پہلا مقدمہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پیش ہوا کیونکہ انھوں نے جذبات میں آکر ہرمزان کو قتل کر دیا تھا۔ انھیں گمان تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت میں ہرمزان کا پورا پورا ہاتھ ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے متعلق تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مشورہ لیا کہ اب کیا کرنا چاہیے؟ اس کی تفصیل طبقات ابن سعد میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اسی طرح انھوں نے مصاحف لکھنے میں بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اعتماد میں لیا، چنانچہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مصاحف لکھوانے میں ہم سے بھر پور مشاورت کی۔ (فتح الباري: 418/13) الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے متعدد روایات سے مشورے کی افادیت اور اہمیت بیان کی ہے جو دراصل کتاب الاعتصام ہی کا ایک حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
7095
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
7370
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
7370
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
7370
تمہید کتاب
اس پُر فتن دور میں مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی سخت ضرورت ہے لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جب عقیدہ و ایمان اور مسائل و احکام میں صرف کتاب و سنت کو مرکز و محور قراردیا جائے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ)"تم اس(ہدایت)کی پیروی کرو جو تمھارے رب کی طرف سے تمھاری طرف نازل کی گئی ہے۔اس کے علاوہ (دوسرے)دوستوں کی پیروی نہ کرو۔ تم بہت کم ہی نصیحت حاصل کرتے ہو۔"(الاعراف:7/3)بلا شبہ انسانی زندگی کے لیے جو قوانین اس کتاب میں بیان کیے گئے ہیں ہم مسلمانوں کو صرف انھی کا اتباع کرنا چاہیے غیر مسلم قائدین سے کسی طرح کے قواعد و ضوابط در آمد کرنے کی ضرورت نہیں لیکن افسوس کہ آج مسلمانوں کی اکثریت دین و شریعت کے مسائل معلوم کرنے کے لیے خود ساختہ اراءو قیاسات کا سہارا لینے پر مجبور ہے۔زہدو رہبانیت کے لیے ہندی اور یونانی فلسفے کی محتاج ہے اپنا معاشی نظام لینن(Lenin)اور کارل مارکس(Korl marx)روس اور چین سے اور سیاسی نظام کے لیے امریکی جمہوریت اسلام میں گھسا لائی ہے حالانکہ انسانی زندگی کی تمام ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کتاب و سنت کافی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت یہی بات سمجھانے کی کوشش کی ہے دراصل آپ کا عنوان درج ذیل آیت کریمہ سے ماخوذہے۔(وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا )"اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور جدا جدا نہ ہو جاؤ۔"(آل عمران:3/103)آیت کریمہ میں اللہ کی رسی سے مراد دین اسلام یا کتاب و سنت کے احکام ہیں فقہی آراء مقصود نہیں ۔کتاب و سنت کو اللہ کی رسی اس لیے کہا گیا ہے کہ یہی وہ رشتہ ہے جو تمام اہل ایمان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوطی کے ساتھ جوڑے رکھتا ہے اور دوسری طرف اہل ایمان کو ایک دوسرے سے مربوط کرتا ہے۔کتاب و سنت کے احکام پر سختی سے عمل پیرا ہونے سے اس بات کا امکان ہی نہیں رہتا کہ مسلمانوں میں کسی قسم کا اختلاف و انتشار یا عداوت پیدا ہو گی۔یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارا دستور حیات قرآ ن و سنت کی واضح شکل میں ہمیں میسر ہے جس کا تعلق وحی الٰہی سے ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے لازوال اور بے شمار برکتوں سے مالا مال ہے۔لیکن ہمارے دشمنوں نے اس چشمہ رشد و ہدایت سے ہمیں بد ظن اور دور کرنے اور اس کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔مستشرقین نے جہاں براہ راست قرآن کریم کے اسلوب بیان ، ترتیب و تدوین اور تصور وحی و تنزیل کو ہدف تنقید بنایا ہے وہاں ہمارے ہاں اشراق زدہ روشن خیال متجددین نے آزادی تحقیق کے نام پردین کے ایک اہم ماخذ حدیث و سنت کے متعلق شکوک وشبہات بلکہ استہزاء واستخفاف کا رویہ اپنایا ہے حالانکہ حدیث و سنت کی تدوین اپنے دامن میں ایسا استناد اتصال اور تسلسل لیے ہوئے ہے جس کی مثال دینا کے کسی مذہبی یا تاریخی لٹریچر میں نہیں پائی جاتی ۔ہمارے نزدیک حدیث و سنت کی محبت و ضرورت کا انکار دراصل رسالت سے انکار بلکہ دین اسلام کے انکار کے مترادف ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:(وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ)"اور ہم نے آپ کی طرف یہ ذکر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کے سامنے وہ باتیں وضاحت سے بیان کردیں جو ان کی طرف اتاری گئی ہیں۔"(النحل:16۔44)ایک دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ منصب رسالت کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے۔(وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ)"اور ہم نے آپ پر کتاب اس لیے نازل کی ہے تاکہ آپ اس امر کی وضاحت کردیں جس میں انھوں نے اختلاف کر رکھا ہے۔"(النحل:16۔64) ان آیات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب کی وضاحت ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت ایک چٹھی رساں کی نہیں جو ایک بند لفافہ اس شخص تک پہنچادیں جسے وہ خط لکھا گیا ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے عمل و کردار اور قول و گفتار سے اس آئین زندگی کی وضاحت کرنا ہے کیونکہ شاہی فرمان کا مطلب مصاحب خاص اور محرم راز سے زیادہ اور کوئی نہیں سمجھ سکتا۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی مجملات کی تفصیل مبہمات کی وضاحت مشکلات کی تفسیر کنایات کی تصریح اور اس کے ارشادات کی توضیح فرمائی ہے۔اپنے عمل سے احکام الٰہی کی تفصیل کا طریقہ بتایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اسلام کے وامرو نواہی پر مشتمل ایک مکمل نظام زندگی تشکیل دے کر ہمارے حوالے کردیا۔اب قرآن کریم اور اسوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ان میں سے کسی کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میں تمھارےپاس دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ جب تک تم انھیں مضبوطی سے تھامے رکھو گے دنیا کی کوئی طاقت تمھیں گمراہ نہیں کرسکے گی۔ایک اللہ کی کتاب اوردوسری میری سنت ہے ۔یہ دونوں الگ الگ نہیں کی جاسکتیں حتی کہ حوضِ کوثر کی تقسیم کے وقت یہ دونوں اکٹھی ہوں گی۔"(المستدرک للحاکم 1/93)جن لوگوں نے انھیں الگ کرنا چاہا ان کی نشاندہی ان الفاظ میں فرمائی:"میں تم میں سے کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ وہ اپنی مسند پر تکیہ لگا کربیٹھا ہو اور اس کے پاس میرا امر یا نہی آئے تو وہ کہے:ہم اسے نہیں جانتے،جو ہمیں کتاب اللہ میں ملےگا ہم تواسی کی پیروی کریں گے۔"(جامع الترمذی العلم حدیث 2663)سنت کی ضرورت واہمیت کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:(لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ )"بلاشبہ یقیناً تمہارے لیے اللہ کے رسول(کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے۔"(الاحزاب 21/33)اس آیت کی رو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی قرآن کریم کی مجسم تفسیر ہے۔اس آیت کے تناظر میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ اس عملی تفسیر کی روشنی میں قرآن کریم کو سمجھا جائے اور اس کے احکام پر عمل کیا جائے۔یہی بات حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے منقول ہے جب ان سے کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق سوال کیا تھا توع انھوں نے فرمایا:"یہ قرآن ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق تھا۔"(صحیح مسلم صلاۃ المسافرین حدیث 1739(746)خلق میں اقوال وافکار،اعمال وافعال اور تقریرات سب کچھ آجاتا ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قول یا عمل ایسا نہ تھا جوقرآن کریم سے باہر ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی"خلق" کو عالم(جہان والوں) کے لیے نمونہ بنایا گیاہے۔اسی خلق کا نام حدیث ہےاور اسی خُلُق کو سنت کہاجاتا ہے۔اس خلق نبوی کے بغیر نہ قرآن سمجھا جاسکتاہے اور نہ اس پر عمل ہی کیا جاسکتا ہے۔جن لوگوں نے خلقِ نبوی کے بغیر قرآن فہمی کی کوشش کی ہے انھوں نے گویا اندھیرے میں تیر چلائے ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان کی ان الفاظ میں تشریح کی ہے:"لفظ اعتصام ،باب افتعال کا مصدر اور عصمۃ سے ماخوذ ہے۔اس سے مراد اللہ کے ارشاد:(وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا )"اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور جدا جدا نہ ہو جاؤ۔"(آل عمران:3/103)کی تعمیل ہے۔ كيونكہ حبل اللہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔اس پر عمل پیرا ہونے سے مقصود اخروی ثواب حاصل کرنا ہے جیسا کہ رسی سے مقصود کنویں سے پانی کھینچتا ہوتا ہے۔آخرت میں ثواب،اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہوکرہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔کتاب سے مراد قرآن مجید ہے جس کی محض تلاوت کرنا بھی عبادت ہے اور سنت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تقریرات ہیں۔لغوی پر لفظ سنت،طریقے پر بولا جاتا ہے اور محدثین کی اصطلاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تقریرات پر بولاجاتا ہے۔واضح رہے کہ تقریرات سے مراد ایسے کام ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کیے گئے ہوں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منع نہ کیا ہو بلکہ خاموشی اختیار کرکے انھیں ثابت رکھا ہو۔شارح صحیح بخاری ابن بطال نے کہا ہے کہ غلطی سے محفوظ صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے،پھر اجماع علماء جوقرآن وسنت کے مطابق ہو۔اس کے علاوہ کوئی بھی غلطی سے محفوظ نہیں۔بہرحال محدثین کے نزدیک شریعت کے اصل مآخذ دو ہیں: کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں اپنے دین کو مکمل کردیا تھا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ)"آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا"(المآئدۃ 3/5)دین سے مراد شریعت کے تمام اُصول اور احکام وہدایات ہیں اور ان احکام پر عمل پیرا ہونے کا وہ طریقہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں کے سامنے پیش کیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو زندگی گزارنے کے لیے کتاب وسنت کافی ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موقف کو ثابت کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔اس عنوان کے تحت ایک سوستائیس(127) احادیث پیش کی ہیں جن میں چھبیس (26) معلق اور باقی موصول ہیں،نیز ان میں ایک سودس (110) مکرر اور باقی خالص ہیں۔سات(7) احادیث امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کی ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ تقریباً سولہ(16) صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ کے آثار بھی پیش کیے ہیں۔انھوں نے ان احادیث پر تقریباً اٹھائیس(28) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کا بڑی باریک بینی اور دقت نظری سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کاموقف یہ ہے کہ مسلمانوں کو شرعی احکام کے سلسلے میں سب سے پہلے واضح نصوص کا اتباع کرنا چاہیے،خوامخواہ قیاسات کی تلاش میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے اگر کہیں ضرورت محسوس ہوتو مقیس علیہ(جس پر قیاس کیا جائے) واضح اور معلوم ہو،یعنی علت حکم نمایاں ہو،چنانچہ آپ نے ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے:(باب من شبه أصلا معلوما بأصل مبين وقد بين النبي صلى الله عليه وسلم حكمهما ليفهم السائل)"ایک معلوم امر کو دوسرے واضح امر سے تشبیہ دینا جبکہ ان دونوں کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمادیا ہوتاکہ سائل سمجھ جائے۔"حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ قیاس میں اصل اور علت کو واضح ہوناچاہیے،محض ظن وتخمین پر انحصار نہ کیا جائے،چنانچہ اس کی روک تھام کے لیے یوں عنوان قائم کیا ہے:(بابُ مَا يُذْكَرُ مِنْ ذَمِّ الرَّأيِ وتَكَلُّفِ القِياسِ)"رائے زنی اور خوامخواہ قیاس کرنے کی مذمت کا بیان۔"امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر کتاب وسنت میں کسی مسئلے کے متعلق کوئی دلیل نہ مل سکے تو بھی انسان کو فضول قسم کے قیاس اور رائےزنی سے بچتے ہوئے اس سے ملتے جلتے مسائل پر غور کرکے پیش آنے والے مسئلے کا حل تلاش کرناچاہیے۔فرضی قیاسات کو انھوں نے درج ذیل آیت کے مفہوم میں داخل فرمایا:(وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَـٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا)"جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ۔ کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے" (بنی اسرائیل:17/36)بہرحال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے محدثین کے مسلک کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال وافعال کی پیروی کرنے پر زوردیا ہے،چنانچہ آپ نے اس سلسلے میں دوعنوان قائم کیے ہیں:(باب الاِقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّٰهِ صلى الله عليه وسلم)"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا۔"(ب)۔(باب الاقتداء بأفعال النبي صلى الله عليه وسلم )"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کے مطابق عمل کرنا۔"قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا بغورمطالعہ کریں اور اس سلسلے میں ہماری گزارشات کو بھی مد نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے ۔آمین یارب العالمین۔
( اور سورۃ آل عمران میں ) فرمانا ” اے پیغمبر ! ان سے کاموں میں مشورہ لے “ اور یہ بھی بیان ہے کہ مشورہ ایک کام کا مصمم عزم اور اس کے بیان کردینے سے پہلے لینا چاہئیے جیسے فرمایا پھر جب ایک بات ٹھہرالے ( یعنی صلاح ومشورہ کے بعد ) تو اللہ پر بھروسہ کر ( اس کو کر گزر ) پھر جب آنحضرت ﷺمشورے کے بعد ایک کام ٹھہرالیں اب کسی آدمی کو اللہ اور اس کے رسول کے آگے بڑھنا درست نہیں ( یعنی دوسری رائے دینا ) اور آنحضرتﷺ نے جنگ احد میں اپنے اصحاب سے مشورہ لیا کہ مدینہ ہی میں رہ کر لڑیں یا باہر نکل کر۔ جب آپ نے زرہ پہن لی اور باہر نکل کر لڑنا ٹھہرا لیا ‘ اب بعض لوگ کہنے لگے مدین ہی میں رہنا اچھا ہے ۔ آپ نے ان کے قول کی طرف التفاف نہیں کیا کیونکہ ( مشورے کے بعد ) آپ ایک بات ٹھہرا چکے تھے ۔ آپ نے فرمایا کہ جب پیغمبر ( لڑائی پر مستعد ہو کر ) اپنی زرہ پہن لے ( ہتھیار وغیرہ باندھ کر لیس ہو جائے ) اب بغیر اللہ کے حکم کے اس کو اتار نہیں سکتا ۔ اس حدیث کو طبرانی نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے وصل کیا ) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے علی اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے عائشہ ؓ پر جو بہتان لگا گیا تھا اس مقدمہ میں مشورہ کیا اور ان کی رائے سنی یہاں تک کہ قرآن اترا اور آپ نے تہمت لگانے والوں کو کوڑے مارے اور علی اور اسامہ ؓ میں جو اختلاف رائے تھا اس پر کچھ التفات نہیں کیا ( علی کی رائے اوپر گزری ہے ) بلکہ آپ نے اللہ کے ارشاد کے موافق حکم دیا اور آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد جتنے امام اور خلیفہ ہوئے وہ ایماندار لوگوں سے اور عالموں سے مباح کاموں میں مشورہ لیا کرتے تا کہ جو کام آسان ہو ‘ اس کو اختیار کریں پھر جب ان کو قرآن اور حدیث کا حکم مل جاتا تو اس کے خلاف کسی کی نہ سنتے کیونکہ آنحضرت ﷺ کی پیروی سب پر مقدم ہے اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں سے جوزکوۃٰ نہیں دیتے تھے لڑنا مناسب سمجھا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تم ان لوگوں سے کیسے لڑوگے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا کہ مجھ کو لوگوں سے لڑنے کا حکم ہوا یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہیں جب انہوں نے لا الہ الا اللہ کہہ لیا تو اپنی جانوں اور مالوں کو مجھ سے بچا لیا ۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا ‘ میں تو ان لوگوں سے ضرور لڑوں گا جو ان فرضوں کو جدا کریں جن کو آنحضرت ﷺم نے یکساں رکھا ۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ کی وہی رائے ہوگئی غرض ابو بکر نے عمر ؓ کے مشورے پر کچھ التفاف نہ کیا ان کے پاس آنحضرت ﷺ کا حکم موجود تھا جو لوگ نماز اور زکوۃٰ میں فرق کریں ‘ دین کے احکام اور ارکان کو بدل ڈالیں ان سے لڑنا چاہئیے ( وہ کافر ہو گئے ) اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنا دین بدل ڈالے ( اسلام سے پھر جائے ) اس کو مار ڈالو اور عمر ؓ کے مشورے میں وہی صحابہ شریک رہتے جو قرآن کے قاری تھے ( یعنی عالم لوگ ) جوان ہوں یا بوڑھے اور عمر رضی اللہ عنہ جہاں اللہ کی کتاب کا کوئی حکم سنتے بس ٹھہر جاتے اس کے موافق عمل کرتے اس کے خلاف کسی کا مشورہ نہ سنتے ۔ تشریح : سبحان اللہ ! عمدہ اخلاق حاصل کرنے کے لیے قرآن سے زیادہ کوئی کتاب نہیں ہے ۔ اس آیت شوریٰ میں وہ طریقہ اختصار کے ساتھ بیان کردیا ۔ جو بڑی بڑی پوٹ کتابوں کا لب لباب ہے ۔ حاصل یہ ہے کہ آدمی کو دینی اور دنیاوی کاموں میں صرف اپنی رائے منفرد رائے پھر بھروسہ کرنا باعث تباہی اور بر بادی ہے ۔ ہر کام میں عقلاءاور علماءسے مشورہ لینا چاہئیے‘ پھر بعضے لوگ کیا کرتے ہیں کہ مشورہ ہی لیتے لیتے وہمی مزاج ہو جاتے ہیں ۔ ان میں قوت فیصلہ بالکل نہیں ہوتی ۔ ایسے آدمیوں سے بھی کوئی کام پورا نہیں ہوتا تو فرما یا پس مشورے کے بعد جب ایک کام ٹھہرالے جب کوئی وہم نہ کر اور اللہ کے بھروسے پر کر گزر یہی قوت فیصلہ ہے ۔ یہ ب باب میں مذکورہ احادیث اوپر موصولاً گزر چکی ہیں ۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا مطلب یہ ہے کہ حاکم اور بادشاہ اسلام کو سلطنت کے کاموں میں علماءاور عقلمندوں سے مشورہ لینا چاہیے لیکن جس کام میں اللہ اور رسول کا حکم صاف صاف موجود ہے اس میں مشورہ کی حاجت نہیں اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر عمل کرنا چاہئیے اگر مشورہ والے اس کے خلاف مشورہ دیں تو اس کو بیکار سمجھنا چاہئیے ۔ اللہ اور رسول پر کسی کی تقدیم جائز نہیں ہے ۔ دعوا کل قول عند قول محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔
حدیث ترجمہ:
سیدہ عائشہ ؓ س روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے خطاب کیا اور اللہ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا: ”تم مجھے ان لوگوں کے بارے میں کیا مشورہ دیتے ہو جو میرے اہل خانہ کو بدنام کرتے ہیں۔ حالانکہ مجھے ان کے متعلق کبھی کوئی بری بات معلوم نہیں ہوئی۔“ سیدنا عروہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب سیدہ عائشہ ؓ کو اس واقعے کا علم ہوا تو انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں اپنے میکے چلی جاؤں؟ تو آپ نے انہیں اجازت دے دی اور انکے ہمراہ ایک غلام بھیجا۔ انصار میں سے ایک صاحب نے کہا: ”اے اللہ تیری ذات پاک ہے ہمارے لیے زیبا نہیں کہ ہم ایسی باتیں زبان پر لائیں۔ تیری ذات پاک ہے یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقام پر حدیث افک کو دو طریق سے بیان کیا ہے اور صرف اتنا حصہ بیان فرمایا جس سے مشورہ کی اہمیت پرروشنی پڑتی کیونکہ یہاں واقعے کی تفصیلات بیان کرنا نہیں بلکہ صرف مشورے کی افادیت بتانا مقصود ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے متعلق حضرت اسامہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتخاب کیا۔ ان میں ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لاڈلے محبوب اور دوسرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دختر کے شوہر نامدار تھے۔ حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: ہم تو خیر کے علاوہ کچھ نہیں جانتے۔ انھوں نے بھی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح علیحدگی کا مشورہ نہیں دیا، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پریشانی دیکھ کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر تنگی نہیں کی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے علاوہ عورتیں بہت ہیں۔ انھوں نے مزید یہ کہا کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھ لیں وہ زیادہ بہتر بتا سکیں گی۔ مقصود یہ تھا کہ علیحدگی اختیار نہ کریں، مزید تحقیق کر لیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس بات پر عمل کیا لیکن علیحدگی کے اشارے پر توجہ نہ دی کیونکہ حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اشارہ بھی عدم مفارقت کی طرف تھا، البتہ حالات کی سازگاری تک کے لیے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو میکےجانے کی اجازت دے دی، پھر جب وحی کے ذریعے سے اصل راز کھلا تو اس سلسلے میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مشورہ لیا کہ اب تہمت لگانے والوں کے ساتھ کیا برتاؤ کرنا چاہیے؟ تو سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اشارہ دیا کہ آپ اس سلسلے میں جو مناسب سمجھیں کر گزریں، ہم آپ کے قول وفعل میں پورے پورے ہم نوا ہیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسطح بن اثاثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اور حمنہ بنت حجش رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر حد قذف جاری فرمائی۔ 2۔بہرحال ان روایات سے مشورے کی اہمیت کا پتا چلتا ہے۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق میمون بن مہران بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب کوئی اہم معاملہ پیش آتا تواس کا حل اللہ تعالیٰ کی کتاب میں تلاش کرتے۔ اگر اس میں کوئی آیت مل جاتی تو اس کے مطابق فیصلہ کرتے بصورت دیگر سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نظر کرتے اور اس کے مطابق فیصلہ کرتے۔ اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہ ملتی تو باہر نکل کر دوسرے مسلمانوں سے سنت کے متعلق سوال کرتے۔ اگر کہیں سے کوئی سراغ نہ ملتا تو اہل اسلام کو دعوت دیتے۔ برسرعام اہل علم سے مشورہ کرتے۔ مشورہ کے بعد کوئی فیصلہ کرتے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ ان کی مجلس مشاورت کا ذکر پہلے ہو چکا ہے، چنانچہ انھوں نے شراب کی حد کے متعلق مشورہ لیا جیسا کہ کتاب الحدود میں بیان ہوا ہے۔ عورت کا حمل ضائع ہو جائے تو اس جنین کی دیت کے متعلق صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے رائے لی جیسا کہ کتاب الدیات میں اس کی صراحت ہے، اسی طرح اہل فارس سے جنگ کرنے کے متعلق صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے ان کا مشورہ کتاب الجہاد میں بیان ہوا ہے۔ جب آپ شام کے علاقے میں گئے تو وہاں پہنچنے سے پہلے پتا چلا کہ طاعون کی وبا پھیلی ہے تو آپ نے مہاجرین وانصار اور سرکردہ قریش سے وہاں جانے کے متعلق مشورہ لیا، جس کی تفصیل کتاب الطب میں بیان ہو چکی ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب خلیفہ بنے تو ان کے پاس پہلا مقدمہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پیش ہوا کیونکہ انھوں نے جذبات میں آکر ہرمزان کو قتل کر دیا تھا۔ انھیں گمان تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت میں ہرمزان کا پورا پورا ہاتھ ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے متعلق تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مشورہ لیا کہ اب کیا کرنا چاہیے؟ اس کی تفصیل طبقات ابن سعد میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اسی طرح انھوں نے مصاحف لکھنے میں بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اعتماد میں لیا، چنانچہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مصاحف لکھوانے میں ہم سے بھر پور مشاورت کی۔ (فتح الباري: 418/13) الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے متعدد روایات سے مشورے کی افادیت اور اہمیت بیان کی ہے جو دراصل کتاب الاعتصام ہی کا ایک حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین۔
ترجمۃ الباب:
مشورہ کسی کام کے پختہ ارادے اور اس کے طے کرنے سے پہلے لینا چاہیے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”جب آپ عزم کرلیں تو پھر اللہ پر توکل کریں۔“ جب رسول اللہ ﷺ کسی کام کا پختہ ارادہ کرلیں تو کسی بندہ بشر کو حق حاصل نہیں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے آگے بڑھے¤
اور نبی ﷺ نے جنگ اُحد کے دن اصحاب سے مشورہ لیا کہ مدینہ طیبہ میں رہ کر لڑیں یا باہر نکل کر جنگ کریں تو انہوں نے باہر نکل کر لڑائی کا مشورہ دیا، پھر جب آپ نے زرہ پہن لی اور باہر نکل کر لڑنا طے کرلیا تو کچھ صحابہ نے کہا: مدینہ ہی میں رہنا اچھا ہے آپ نے ان کی بات کو قابل توجہ خیال نہ کیا کیونکہ آپ ایک بات طے کر چکے تھے،آپ نے فرمایا: ”جب پیغمبر تیار ہوکر زرہ پہن لے تو اب اللہ کے فیصلے کے بغیر اسے اتار نہیں سکتا۔“ ¤
اور آپ ﷺ نے اس بہتان کے متعلق جو صدیقہ کائنات سیدہ عائشہ ؓ پر لگایا گیا تھا سیدنا علی اور سیدنا اسامہ ؓ سے مشورہ کیا اور ان کی رائے سنی یہاں تک کہ صدیقہ کائنات کی براءت میں قرآن نازل ہوا تو بہتان لگانے والوں کو کوڑے مارے۔ سیدنا علی اور سیدنا اسامہ ؓ جو اختلاف رائے تھا اس کی طرف کوئی توجہ نہ فرمائی بلکہ آپ نے فیصلہ کیا جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا۔نبی ﷺ کی وفات کے بعد تمام حکمران جائز کاموں میں دیانت دار اہل علم سے مشورہ لیا کرتے تھے تاکہ جو کام آسان ہو اس کو اختیار کریں پھر جب ان کو قرآن وحدیث سےکوئی حکم مل جاتا تو اس کے خلاف کسی کی نہ سنتے تھے کیونکہ نبیﷺ کی پیروی سب سے مقدم ہے¤
سیدنا ابو بکر ؓ نے زکاۃ نہ دینے والوں سے جنگ کرنے کا ارادہ کیا تو سیدنا عمر ؓ نے کہا: آپ ان لوگوں سے کیونکر جنگ کریں گے؟ جبکہ رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے : ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ لا الہ اللہ کہیں۔ جب انہوں نے لا الہ اللہ کا اقرار کرلیا تو انہوں نے اپنی جانوں اور مالوں کو مجھ سے بچا لیا سوائے حقوق اسلام کے۔“ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں ان لوگوں سے ضرور جنگ کروں گا جنہوں نے اس امر میں تفریق کی جس کو رسول اللہ ﷺ نے جمع کیا ہے۔ پھر اس کے بعد سیدنا عمر ؓ کی رائے بھی ان کے موافق ہوگئی۔ چنانچہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر بن خطاب ؓ جے مشورے کی طرف کوئی توجہ نہ فرمائی کیونکہ ان کے پاس رسول اللہ ﷺ کا حکم موجود تھا کہ جو لوگ نماز اور زکاۃ میں فرق کریں اور دین کے احکام اور ارکان کو بدل ڈالیں ان سے لڑنا چاہیے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص اپنا دین بدل ڈالے اے قتل کردو“ ¤ سیدنا عمر ؓکی مجلس مشاورت میں وہ لوگ شامل تھے جو قرآن کریم کے قاری اور عالم تھے خواہ وہ جوان ہوں یا بوڑھے لیکن سیدنا عمر بن خطاب ؓ جہاں اللہ کا حکم سنتے وہاں ٹھیر جاتے (اس کے مطابق عمل کرتے ،اس کے خلاف کسی کا مشورہ نہ سنتے)¤
فائدہ: مشورہ صرف ایسے کاموں میں کیا جائے جن کے کرنے یا نہ کرنے کے متعلق کتاب وسنت میں کوئی واضح حکم نہ ہو کیونکہ قرآن وحدیث کے واضح حکموں میں مشورے کی کوئی حیثیت نہیں
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن حرب نے بیان کیا‘ کہا ہم سے یحییٰ بن زکریا نے بیان کیا‘ ان سے ہشام بن عروہ نے‘ ان سے عروہ اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو خطاب کیا اور اللہ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا‘ تم مجھے ان لوگوں کے بارے میں مشورہ دیتے ہو جو میرے اہل خانہ کو بد نام کرتے ہیں حالانکہ ان کے بارے میں مجھے کوئی بری بات کبھی نہیں معلوم ہوئی۔ عروہ سے روایت ہے‘ انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ عائشہ ؓ کو جب اس واقعہ کا علم ہوا (کہ کچھ لوگ انہیں بد نام کر رہے ہیں) تو انہوں نے آنحضرت ﷺ سے کہا یا رسول اللہ! کیا مجھے آپ اپنے والد کے گھر جانے کی اجازت دیں گے؟ آنحضرت ﷺ نے انہیں اجازت دی اور ان کے ساتھ غلام کو بھیجا۔ انصار میں سے ایک صاحب ابو ایوب ؓ نے کہا سبحانك مایکون لنا أن نتکلم بھذا سبحانك ھذا بھتان عظیم تیری ذات پاک ہے اے اللہ! ہمارے لیے مناسب نہیں کہ ہم اس طرح کی باتیں کریں تیری ذات پاک ہے‘ یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔
حدیث حاشیہ:
یہ واقعہ پچھلے تفصیل سے بیان ہو چکا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) addressed the people, and after praising and glorifying Allah, he said, "What do you suggest me regarding those people who are abusing my wife? I have never known anything bad about her." The sub-narrator, 'Urwa, said: When 'Aisha (RA) was told of the slander, she said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Will you allow me to go to my parents' home?" He allowed her and sent a slave along with her. An Ansari man said, "Subhanaka! It is not right for us to speak about this. Subhanaka! This is a great lie!"