کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب : اللہ تعالیٰ کا ارشاد سورۃ والذاریات میں ” میں بہت روزی دینے والا ‘ زوردار مضبوط ہوں۔ “
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “Verily Allah is the All-Provider, Owner of Power, the Most Strong.”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7378.
سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ”اذیت ناک اور تکلیف وہ بات سن کر اللہ سے زیادہ صبر کرنے والا کوئی نہیں۔ وہ (مشرکین) اس کی طرف اولاد کی نسبت کرتے ہیں۔ اور وہ اس کے باوجود انہیں عافیت دیتا اور رزق عطا کرتا ہے۔“
تشریح:
1۔صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں آیت اس طرح ہے: ’’میں ہی رزاق، بڑی قوت والا (اور) نہایت طاقتور ہوں‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی طرح پڑھا ہے۔انھوں نے فرمایا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح پڑھایا تھا۔ (فتح الباري: 440/13 ومسند أحمد: 394/1) 2۔یہ آیت اور اس طرح کہ دیگر آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑی عالی صفات سے متصف ہے اور اس کے اچھے اچھے نام ہیں۔ اس آیت کریمہ میں "القوۃ" اس کی صفت ہے اور "الرزاق" اس کا نام ہے۔ ہم پہلے بھی بیان کر آئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ہر نام ایک صفت کو متضمن ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ان آیات سے منکرین صفات باری تعالیٰ کی تردید کرنا چاہتے ہیں۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے حلم، اس کی بردباری اور حوصلے کو بیان کیا گیا ہے حتی کہ وہ کافر جو اللہ تعالیٰ کی طرف اولاد اور شراکت کو منسوب کرتا ہے اسے بھی صحت وعافیت دیتا ہے اور اسے رزق وافر عطا کرتا ہے۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی صفت صبر کو بیان کیا گیا ہے جو اپنے معنی میں مبنی برحقیقت ہے۔ صبر یہ ہے کہ قوت انتقام کے باوجود درگزر سے کام لینا۔ اللہ تعالیٰ کی صفتِ صفبر اور حلم کا اندازہ درج ذیل آیات سے لگایا جا سکتا ہے: ’’اللہ تعالیٰ ہی یقیناً آسمانوں اور زمین کو تھامے ہوئے ہے کہ کہیں سرک نہ جائیں اور اگر وہ سرک جائیں تو اس کے بعد انھین کوئی بھی اپنی جگہ پر برقرار رکھ سکتا۔ بلاشبہ وہ بڑا بردبار بے حد معاف کرنے والا ہے۔‘‘(فاطر 35/41) یعنی وہ ہستی اس قدر قوت اور اختیار رکھنے کے باوجود بردبار ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ساتھ شرک کرنے والوں کو فوراً تباہ نہیں کر دیتا بلکہ اپنے باغیوں، منکرین اور نافرمانوں سے درگزر کیے جاتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’بعض لوگ کہتے ہیں کہ رحمٰن کی اولاد ہے۔ یہ تو اتنی بُری بات تم گھڑ لائے ہو جس سے ابھی آسمان پھٹ پڑیں، زمین شق ہو جائے اورپہاڑ دھڑام سے گر پڑیں اس بات پر کہ انھوں نے رحمٰن کے لیے اولاد کا دعویٰ کیا، حالانکہ رحمٰن کی شان کے لائق نہیں کہ وہ کسی کو اولاد بنائے۔‘‘(مریم 88۔92) یعنی محض یہ اللہ تعالیٰ کی بردباری ہے کہ ایسی بے ہودہ بات سن کر بھی یکدم تباہ نہیں کرتا۔ 3۔اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ عنوان میں دو صفات کا ذکر ہے: ایک مخلوق کو رزق فراہم کرنا، دوسرے زبردست قوت کا مالک ہونا جو اس کی قدرت کاملہ سے عبارت ہے۔ رزق دینے کا ذکر تو حدیث میں موجود ہے اور قوت کا ثبوت اس طرح ہے کہ تکلیف دہ باتیں سن کر صبر کرنا اس کی قوت پر دلالت کرتا ہے کیونکہ بشری طبیعت تو ایسی تکلیف دہ اور اذیت ناک باتیں سن کر انتقام لینے کے لیے بھڑک اٹھتی ہے۔ انسان ایسے حالات میں فوراً بدلہ لینے میں جلدی کرتا ہے تاکہ موقع ضائع نہ ہو جائے لیکن اللہ تعالیٰ اپنی زبردست طاقت کے باوجود انتقام نہیں لیتا اور یہ کسی عجز یا بے بسی کی وجہ سے نہیں بلکہ صبر، بردباری اور حوصلے کی وجہ سے جو اس کی قوت وطاقت کی علامت ہے۔ (فتح الباري: 441/13) 4۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خوبصورت ناموں اور بلند پایہ صفات کو مبنی برحقیقت تسلیم کیا جائے جیسا کہ مذکورہ الفاظ سے ان کا مفہوم فورا ذہن میں آتا ہے۔ اس کے متعلق کسی قسم کی تاویل نہ کی جائے اور نہ انھیں سمجھنے کے لیے منطقی اصطلاح یا کسی فلسفی کی موشگانی ہی کی ضرورت ہے۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان: 102/1)
کتاب التوحید میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اسلوب یہ ہے کہ وہ ایسی احادیث کا انتخاب کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی صفات پر مشتمل ہیں۔اس سے متعلقہ عنوان قائم کرکے اس میں کوئی آیت پیش کرتے ہیں۔اس انداز سے ان کا اشارہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ جوان صفات کا انکار کرتا ہے وہ قرآن واحادیث کی مخالفت کرتا ہے۔(فتح الباری 13/440)عنوان میں ذکر کردہ آیت ماقبل آیات سے متعلق ہے،چنانچہ قبل ازیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:"میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں،میں ان سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ ہی چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔بے شک اللہ تو خود ہی رزاق ہے،بڑی قوت والا(اور)نہایت طاقتور ہے۔"(الذاریات 51/56۔58)اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے ایک اہم نکتہ معلوم ہوتا ہے کہ معبود حقیقی رزق دیتا ہے لیتا نہیں،جبکہ دوسرے یعنی باطل معبود اپنے عبادت گزاروں سے رزق اور پیسے لیتے ہیں۔اگرعبادت گزار اور مرید حضرات اپنے نذرانے اور نیازیں وغیرہ دینا بند کردیں توان باطل معبودوں کو الوہیت ایک دن بھی نہ چل سکے۔اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی عبادت کا حکم اس لیے نہیں دیا کہ وہ اس کا محتاج ہے۔بلکہ وہ اس سے بے نیاز ہے۔کسی کے عبادت کرنے یا نہ کرنے سے اس کا کچھ نہیں بگڑتا اور نہ سنورتا ہے۔بلکہ اس کی عبادت کرنے میں اورخالق کا حق پہچاننے میں بندوں کا اپنا ہی بھلاہے جیسا کہ بہت سی آیات واحادیث سے معلوم ہوتا ہے۔
سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ”اذیت ناک اور تکلیف وہ بات سن کر اللہ سے زیادہ صبر کرنے والا کوئی نہیں۔ وہ (مشرکین) اس کی طرف اولاد کی نسبت کرتے ہیں۔ اور وہ اس کے باوجود انہیں عافیت دیتا اور رزق عطا کرتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں آیت اس طرح ہے: ’’میں ہی رزاق، بڑی قوت والا (اور) نہایت طاقتور ہوں‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی طرح پڑھا ہے۔انھوں نے فرمایا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح پڑھایا تھا۔ (فتح الباري: 440/13 ومسند أحمد: 394/1) 2۔یہ آیت اور اس طرح کہ دیگر آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑی عالی صفات سے متصف ہے اور اس کے اچھے اچھے نام ہیں۔ اس آیت کریمہ میں "القوۃ" اس کی صفت ہے اور "الرزاق" اس کا نام ہے۔ ہم پہلے بھی بیان کر آئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ہر نام ایک صفت کو متضمن ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ان آیات سے منکرین صفات باری تعالیٰ کی تردید کرنا چاہتے ہیں۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے حلم، اس کی بردباری اور حوصلے کو بیان کیا گیا ہے حتی کہ وہ کافر جو اللہ تعالیٰ کی طرف اولاد اور شراکت کو منسوب کرتا ہے اسے بھی صحت وعافیت دیتا ہے اور اسے رزق وافر عطا کرتا ہے۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی صفت صبر کو بیان کیا گیا ہے جو اپنے معنی میں مبنی برحقیقت ہے۔ صبر یہ ہے کہ قوت انتقام کے باوجود درگزر سے کام لینا۔ اللہ تعالیٰ کی صفتِ صفبر اور حلم کا اندازہ درج ذیل آیات سے لگایا جا سکتا ہے: ’’اللہ تعالیٰ ہی یقیناً آسمانوں اور زمین کو تھامے ہوئے ہے کہ کہیں سرک نہ جائیں اور اگر وہ سرک جائیں تو اس کے بعد انھین کوئی بھی اپنی جگہ پر برقرار رکھ سکتا۔ بلاشبہ وہ بڑا بردبار بے حد معاف کرنے والا ہے۔‘‘(فاطر 35/41) یعنی وہ ہستی اس قدر قوت اور اختیار رکھنے کے باوجود بردبار ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ساتھ شرک کرنے والوں کو فوراً تباہ نہیں کر دیتا بلکہ اپنے باغیوں، منکرین اور نافرمانوں سے درگزر کیے جاتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’بعض لوگ کہتے ہیں کہ رحمٰن کی اولاد ہے۔ یہ تو اتنی بُری بات تم گھڑ لائے ہو جس سے ابھی آسمان پھٹ پڑیں، زمین شق ہو جائے اورپہاڑ دھڑام سے گر پڑیں اس بات پر کہ انھوں نے رحمٰن کے لیے اولاد کا دعویٰ کیا، حالانکہ رحمٰن کی شان کے لائق نہیں کہ وہ کسی کو اولاد بنائے۔‘‘(مریم 88۔92) یعنی محض یہ اللہ تعالیٰ کی بردباری ہے کہ ایسی بے ہودہ بات سن کر بھی یکدم تباہ نہیں کرتا۔ 3۔اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ عنوان میں دو صفات کا ذکر ہے: ایک مخلوق کو رزق فراہم کرنا، دوسرے زبردست قوت کا مالک ہونا جو اس کی قدرت کاملہ سے عبارت ہے۔ رزق دینے کا ذکر تو حدیث میں موجود ہے اور قوت کا ثبوت اس طرح ہے کہ تکلیف دہ باتیں سن کر صبر کرنا اس کی قوت پر دلالت کرتا ہے کیونکہ بشری طبیعت تو ایسی تکلیف دہ اور اذیت ناک باتیں سن کر انتقام لینے کے لیے بھڑک اٹھتی ہے۔ انسان ایسے حالات میں فوراً بدلہ لینے میں جلدی کرتا ہے تاکہ موقع ضائع نہ ہو جائے لیکن اللہ تعالیٰ اپنی زبردست طاقت کے باوجود انتقام نہیں لیتا اور یہ کسی عجز یا بے بسی کی وجہ سے نہیں بلکہ صبر، بردباری اور حوصلے کی وجہ سے جو اس کی قوت وطاقت کی علامت ہے۔ (فتح الباري: 441/13) 4۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خوبصورت ناموں اور بلند پایہ صفات کو مبنی برحقیقت تسلیم کیا جائے جیسا کہ مذکورہ الفاظ سے ان کا مفہوم فورا ذہن میں آتا ہے۔ اس کے متعلق کسی قسم کی تاویل نہ کی جائے اور نہ انھیں سمجھنے کے لیے منطقی اصطلاح یا کسی فلسفی کی موشگانی ہی کی ضرورت ہے۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان: 102/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد ان نے بیان کیا‘ ان سے ابو حمزہ نے‘ ان سے اعمش نے‘ ان سے سعید بن جبیر نے‘ ان سے ابو عبد الرحمن سلمی نے اور ان سے ابو موسیٰ اشعری ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا‘ تکلیف دہ بات سن کر اللہ سے زیادہ صبر کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ کم بخت مشرک کہتے ہیں کہ اللہ اولاد رکھتا ہے اور پھر بھی وہ انہیں معاف کرتا ہے اور انہیں روزی دیتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa Al-Ashari (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "None is more patient than Allah against the harmful and annoying words He hears (from the people): They ascribe children to Him, yet He bestows upon them health and provision .