باب: (چار رکعت نماز میں) قعدہ اولیٰ سے اٹھنے کے بعد رفع یدین کرنا۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: To raise one's hands after finishing the second Rak'a (on standing for the third Rak'a))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
739.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ جب وہ نماز شروع کرتے تواللہ أکبر کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے۔ جب رکوع کرتے تب بھی اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے۔ اور جب سمع الله لمن حمده کہتے تو بھی اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور جب دو رکعت ادا کر کے کھڑے ہوتے تو بھی اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے۔ مذکورہ بیان کو حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے نبی ﷺ کی طرف منسوب کیا ہے۔ اس روایت کو حماد بن سلمہ، حضرت ایوب سے وہ حضرت نافع سے، وہ ابن عمر سے اور ابن عمر نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح ابن طہمان نے اس روایت کو مختصر طور پر ایوب اور موسیٰ بن عقبہ سے بیان کیا ہے۔
تشریح:
(1) دوسری رکعت سے فراغت کے بعد تیسری رکعت کے لیے اٹھتے وقت رفع الیدین کرنا سنت ہے جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث میں بیان ہواہے۔ عام طور پر حضرت ابن عمر ؓ سے رفع الیدین کے متعلق ان کے دو شاگرد بیان کرتے ہیں: ایک ان کے بیٹے حضرت سالم اور دوسرے ان کے تلمیذِ خاص حضرت نافع۔ حضرت سالم کی روایت میں دو سجدوں کے درمیان رفع الیدین کرنے کی نفی اور حضرت نافع کی روایت میں دو رکعت سے فراغت کے بعد اٹھتے وقت رفع الیدین کا اثبات ہے۔ ان دونوں روایات میں کوئی تضاد نہیں کہ تطبیق دی جائے بلکہ نافع کی رویت میں ایک اضافہ، یعنی دورکعت سے فراغت کے بعد اٹھتے وقت رفع الیدین کرنا جس کی نفی حضرت سالم کی روایت میں نہیں بلکہ حضرت سالم بھی بعض اوقات اس کا ذکر کرتے ہیں جیسا کہ امام بخاری ؒ نے جزء رفع الیدین میں اسے بیان کیا ہے۔ (جزءرفع الیدین، حدیث:78) نیز ابن حبان نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے۔ (صحیح ابن حبان(الإحسان) ذکرمایستحب للمصلي رفع الیدین……3/178،177، حدیث:1874) حضرت ابن عمر ؓ سے ان کے شاگرد حضرت نافع کے علاوہ حضرت محارب بن دثار بھی اس مقام پر رفع الیدین کو بیان کرتے ہیں۔ (جزءرفع الیدین، حدیث:26) حضرت علی ؓ کی روایت میں بھی اس رفع الیدین کا ذکر ہے۔ (صحیح ابن خزیمة، باب رفع الیدین عندارادة……1/295، 294، حدیث:584) اس کے علاوہ حضرت ابو حمید ساعدی ؓ بھی بیان کرتے ہیں۔ (جزءرفع الیدین حدیث:3) امام بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر، حضرت علی اور حضرت ابو حمیدی ساعدی رضی اللہ عنہم نے دو رکعت کے بعد اٹھتے وقت جو رفع الیدین بیان کیا ہے وہ صحیح اور ثابت ہے، کیونکہ ان حضرات نے صرف ایک نماز کی کیفیت کو بیان نہیں کیا جس میں انھوں نے دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے اختلاف کیا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک راوی نے نماز کے متعلق ایک اضافی بات سے ہمیں آگاہ کیا ہے جس پر دوسرے حضرات مطلع نہیں ہوسکے۔ اس طرح کا اضافہ اہل علم کے ہاں مقبول ہوتا ہے۔ (جزءرفع الیدین، ص:178) (2) امام ابن خزیمہ ؒ فرماتے ہیں کہ اس موقع پر رفع الیدین کرنا سنت ہے اگرچہ امام شافعی کے ہاں اس کا ذکر نہیں ملتا، تاہم اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ اور امام شافعی نے ہمیں آگاہ کیا ہے کہ سنت پر عمل کرو اور اس کےمقابلے میں میری بات کو چھوڑ دو۔ اسی طرح ابن بطال اور علامہ خطابی ؒ کہتے ہیں کہ دو رکعت سے فراغت کے بعد اٹھتے وقت رفع الیدین کرنا ایک ایسا اضافہ ہے جس کا قبول کرنا ضروری ہے۔ (فتح الباري:288/2) (3) ائمۂ اربعہ کے متعلق خدمت اسلام کا اعتراف کرنے کے باوجود ہمیں یہ کہنا ہے کہ حق صرف ان چار اماموں میں منحصر نہیں، کیونکہ مذکورہ سنت (دو رکعتوں سے کھڑے ہوتے وقت رفع الیدین) کے متعلق ان چار ائمہ میں سے کوئی بھی اس کا قائل یا فاعل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ امام بخاری ؒ پر اپنی رحمتیں برسائے کہ انھوں نے اس کے متعلق عنوان قائم کرکے ہمیں اس حقیقت سے آگاہ فرمایا۔ والله أعلم۔ اگرچہ امام بخاری ؒ کے اسلوب کے مطابق ہم قیل وقال میں الجھنا نہیں چاہتے لیکن ایک جاہلانہ بات کا جواب دینا ہم ضروری خیال کرتے ہیں جس کا تعلق اہل علم سے نہیں بلکہ عامۃ الناس سے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ابتدائے اسلام میں بعض لوگ نماز پڑھتے وقت اپنی بغلوں میں بت رکھ لیا کرتے تھے، اس لیے رفع الیدین کا حکم دیا گیا جسے بعد میں منسوخ کردیا گیا، حالانکہ نماز کے دوران بغلوں میں بت چھپانے کا دعویٰ خود ساختہ اور بلا دلیل ہے جس کی تائید کسی صحیح حدیث سے نہیں ہوتی بلکہ کسی ضعیف اور من گھڑت روایت سے بھی اس کا ثبوت نہیں ملتا، تاہم اس کے متعلق ہمارے ملاحظات حسب ذیل ہیں:٭ بت پرستی مکہ مکرمہ میں تھی لیکن نماز باجماعت نہیں تھی، مدینہ منورہ میں جماعت فرض ہوئی لیکن مدینہ منورہ میں بت پرستی نہیں تھی، مدینہ میں جو لوگ بغلوں میں بت لے کر آئے تھے وہ کون تھے؟٭اگر بتوں کو گرانا مقصود تھا تو تکبیر تحریمہ کے وقت رفع الیدین اس مقصد کے لیے کافی تھا،پھر رکوع اور سجدے کی حالت میں بھی بت گر سکتے تھے، اس کے لیے الگ رفع الیدین جاری کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ پھر اگر بت گرانا مقصود تھا تو پہلی رکعت ہی میں ان کا صفایا ہوجاتا تھا، ہر رکعت میں یہ عمل کیوں دہرایا جاتا رہا؟٭اگر منافقین یہ کام کرتے تھے تو ان کی عقل کا ماتم کرنا چاہیے، کیونکہ وہ انھیں اپنی جیبوں میں لانے کے بجائے بغلوں میں دبا کر لاتے تھے۔٭اس قسم کی جاہلانہ بات کو رواج دینے والوں کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ غیب جانتے تھے۔ اگر آپ واقعی عالم الغیب تھے تو رفع الیدین کے بغیر ہی ان کی حرکت کا نوٹس لیا جاسکتا تھا۔٭رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ کے حاکم اور فرمانرواتھے، کیا وہ اس قدر کمزور تھےکہ ایسے لوگوں کے خلاف علانیہ کارروائی کرنے کے بجائے انھیں نماز میں رفع الیدین پر لگانا پڑا؟٭ ہمارا اس کہانی کو رواج دینے والوں سے سوال ہے کہ اگر رفع الیدین کرتے وقت منافقین کی بغلوں سے بت گرتے تھے تو انھیں کیا سزا دی گئی؟دراصل یہ افسانہ خود تراشیدہ ہے۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں دو تعلیقات کا بھی ذکر کیا ہے۔ اگرچہ ان میں دورکعت سے فراغت کے بعد اٹھتے وقت رفع الیدین کا ذکر نہیں، تاہم امام بخاری ؒ کا مقصد ان لوگوں کی تردید کرنا ہے جو کہتے ہیں کہ حضرت نافع حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے اس روایت کو موقوف نقل کرتے ہیں جبکہ حضرت سالم اسے مرفوع بیان کرتے ہیں۔ حماد بن سلمہ کی تعلیق کو امام بخاری ؒ نے خود جزء رفع الیدین میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (جزءرفع الیدین، حدیث:54،53) جبکہ ابراہیم بن طہمان کی تعلیق کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے موصولا ذکر کیا ہے۔ (فتح الباري:289/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
731
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
739
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
739
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
739
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ جب وہ نماز شروع کرتے تواللہ أکبر کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے۔ جب رکوع کرتے تب بھی اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے۔ اور جب سمع الله لمن حمده کہتے تو بھی اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور جب دو رکعت ادا کر کے کھڑے ہوتے تو بھی اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے۔ مذکورہ بیان کو حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے نبی ﷺ کی طرف منسوب کیا ہے۔ اس روایت کو حماد بن سلمہ، حضرت ایوب سے وہ حضرت نافع سے، وہ ابن عمر سے اور ابن عمر نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح ابن طہمان نے اس روایت کو مختصر طور پر ایوب اور موسیٰ بن عقبہ سے بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) دوسری رکعت سے فراغت کے بعد تیسری رکعت کے لیے اٹھتے وقت رفع الیدین کرنا سنت ہے جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث میں بیان ہواہے۔ عام طور پر حضرت ابن عمر ؓ سے رفع الیدین کے متعلق ان کے دو شاگرد بیان کرتے ہیں: ایک ان کے بیٹے حضرت سالم اور دوسرے ان کے تلمیذِ خاص حضرت نافع۔ حضرت سالم کی روایت میں دو سجدوں کے درمیان رفع الیدین کرنے کی نفی اور حضرت نافع کی روایت میں دو رکعت سے فراغت کے بعد اٹھتے وقت رفع الیدین کا اثبات ہے۔ ان دونوں روایات میں کوئی تضاد نہیں کہ تطبیق دی جائے بلکہ نافع کی رویت میں ایک اضافہ، یعنی دورکعت سے فراغت کے بعد اٹھتے وقت رفع الیدین کرنا جس کی نفی حضرت سالم کی روایت میں نہیں بلکہ حضرت سالم بھی بعض اوقات اس کا ذکر کرتے ہیں جیسا کہ امام بخاری ؒ نے جزء رفع الیدین میں اسے بیان کیا ہے۔ (جزءرفع الیدین، حدیث:78) نیز ابن حبان نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے۔ (صحیح ابن حبان(الإحسان) ذکرمایستحب للمصلي رفع الیدین……3/178،177، حدیث:1874) حضرت ابن عمر ؓ سے ان کے شاگرد حضرت نافع کے علاوہ حضرت محارب بن دثار بھی اس مقام پر رفع الیدین کو بیان کرتے ہیں۔ (جزءرفع الیدین، حدیث:26) حضرت علی ؓ کی روایت میں بھی اس رفع الیدین کا ذکر ہے۔ (صحیح ابن خزیمة، باب رفع الیدین عندارادة……1/295، 294، حدیث:584) اس کے علاوہ حضرت ابو حمید ساعدی ؓ بھی بیان کرتے ہیں۔ (جزءرفع الیدین حدیث:3) امام بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر، حضرت علی اور حضرت ابو حمیدی ساعدی رضی اللہ عنہم نے دو رکعت کے بعد اٹھتے وقت جو رفع الیدین بیان کیا ہے وہ صحیح اور ثابت ہے، کیونکہ ان حضرات نے صرف ایک نماز کی کیفیت کو بیان نہیں کیا جس میں انھوں نے دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے اختلاف کیا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک راوی نے نماز کے متعلق ایک اضافی بات سے ہمیں آگاہ کیا ہے جس پر دوسرے حضرات مطلع نہیں ہوسکے۔ اس طرح کا اضافہ اہل علم کے ہاں مقبول ہوتا ہے۔ (جزءرفع الیدین، ص:178) (2) امام ابن خزیمہ ؒ فرماتے ہیں کہ اس موقع پر رفع الیدین کرنا سنت ہے اگرچہ امام شافعی کے ہاں اس کا ذکر نہیں ملتا، تاہم اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ اور امام شافعی نے ہمیں آگاہ کیا ہے کہ سنت پر عمل کرو اور اس کےمقابلے میں میری بات کو چھوڑ دو۔ اسی طرح ابن بطال اور علامہ خطابی ؒ کہتے ہیں کہ دو رکعت سے فراغت کے بعد اٹھتے وقت رفع الیدین کرنا ایک ایسا اضافہ ہے جس کا قبول کرنا ضروری ہے۔ (فتح الباري:288/2) (3) ائمۂ اربعہ کے متعلق خدمت اسلام کا اعتراف کرنے کے باوجود ہمیں یہ کہنا ہے کہ حق صرف ان چار اماموں میں منحصر نہیں، کیونکہ مذکورہ سنت (دو رکعتوں سے کھڑے ہوتے وقت رفع الیدین) کے متعلق ان چار ائمہ میں سے کوئی بھی اس کا قائل یا فاعل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ امام بخاری ؒ پر اپنی رحمتیں برسائے کہ انھوں نے اس کے متعلق عنوان قائم کرکے ہمیں اس حقیقت سے آگاہ فرمایا۔ والله أعلم۔ اگرچہ امام بخاری ؒ کے اسلوب کے مطابق ہم قیل وقال میں الجھنا نہیں چاہتے لیکن ایک جاہلانہ بات کا جواب دینا ہم ضروری خیال کرتے ہیں جس کا تعلق اہل علم سے نہیں بلکہ عامۃ الناس سے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ابتدائے اسلام میں بعض لوگ نماز پڑھتے وقت اپنی بغلوں میں بت رکھ لیا کرتے تھے، اس لیے رفع الیدین کا حکم دیا گیا جسے بعد میں منسوخ کردیا گیا، حالانکہ نماز کے دوران بغلوں میں بت چھپانے کا دعویٰ خود ساختہ اور بلا دلیل ہے جس کی تائید کسی صحیح حدیث سے نہیں ہوتی بلکہ کسی ضعیف اور من گھڑت روایت سے بھی اس کا ثبوت نہیں ملتا، تاہم اس کے متعلق ہمارے ملاحظات حسب ذیل ہیں:٭ بت پرستی مکہ مکرمہ میں تھی لیکن نماز باجماعت نہیں تھی، مدینہ منورہ میں جماعت فرض ہوئی لیکن مدینہ منورہ میں بت پرستی نہیں تھی، مدینہ میں جو لوگ بغلوں میں بت لے کر آئے تھے وہ کون تھے؟٭اگر بتوں کو گرانا مقصود تھا تو تکبیر تحریمہ کے وقت رفع الیدین اس مقصد کے لیے کافی تھا،پھر رکوع اور سجدے کی حالت میں بھی بت گر سکتے تھے، اس کے لیے الگ رفع الیدین جاری کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ پھر اگر بت گرانا مقصود تھا تو پہلی رکعت ہی میں ان کا صفایا ہوجاتا تھا، ہر رکعت میں یہ عمل کیوں دہرایا جاتا رہا؟٭اگر منافقین یہ کام کرتے تھے تو ان کی عقل کا ماتم کرنا چاہیے، کیونکہ وہ انھیں اپنی جیبوں میں لانے کے بجائے بغلوں میں دبا کر لاتے تھے۔٭اس قسم کی جاہلانہ بات کو رواج دینے والوں کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ غیب جانتے تھے۔ اگر آپ واقعی عالم الغیب تھے تو رفع الیدین کے بغیر ہی ان کی حرکت کا نوٹس لیا جاسکتا تھا۔٭رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ کے حاکم اور فرمانرواتھے، کیا وہ اس قدر کمزور تھےکہ ایسے لوگوں کے خلاف علانیہ کارروائی کرنے کے بجائے انھیں نماز میں رفع الیدین پر لگانا پڑا؟٭ ہمارا اس کہانی کو رواج دینے والوں سے سوال ہے کہ اگر رفع الیدین کرتے وقت منافقین کی بغلوں سے بت گرتے تھے تو انھیں کیا سزا دی گئی؟دراصل یہ افسانہ خود تراشیدہ ہے۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں دو تعلیقات کا بھی ذکر کیا ہے۔ اگرچہ ان میں دورکعت سے فراغت کے بعد اٹھتے وقت رفع الیدین کا ذکر نہیں، تاہم امام بخاری ؒ کا مقصد ان لوگوں کی تردید کرنا ہے جو کہتے ہیں کہ حضرت نافع حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے اس روایت کو موقوف نقل کرتے ہیں جبکہ حضرت سالم اسے مرفوع بیان کرتے ہیں۔ حماد بن سلمہ کی تعلیق کو امام بخاری ؒ نے خود جزء رفع الیدین میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (جزءرفع الیدین، حدیث:54،53) جبکہ ابراہیم بن طہمان کی تعلیق کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے موصولا ذکر کیا ہے۔ (فتح الباري:289/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالاعلیٰ بن عبدالاعلی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبید اللہ عمری نے نافع سے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر ؓ جب نماز میں داخل ہوتے تو پہلے تکبیر تحریمہ کہتے اور ساتھ ہی رفع یدین کرتے۔ اسی طرح جب وہ رکوع کرتے تب اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تب بھی دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے اور جب قعدہ اولیٰ سے اٹھتے تب بھی رفع یدین کرتے۔ آپ نے اس فعل کو نبی کریم ﷺ تک پہنچایا۔ کہ آنحضرت ﷺ اسی طرح نماز پڑھا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
تکبیر تحریمہ کے وقت اور رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اور تیسری رکعت کے لیے اٹھنے کے وقت دونوں ہاتھوں کو کندھوں یا کانوں تک اٹھانا رفع الیدین کہلاتا ہے، تکبیر تحریمہ کے وقت رفع الیدین پر ساری امت کا اجماع ہے۔ مگر بعد کے مقامات پر ہاتھ اٹھانے میں اختلاف ہے۔ ائمہ کرام و علماءاسلام کی اکثریت حتی کہ اہل بیت سب باالاتفاق ان مقامات پر رفع الیدین کے قائل ہیں، مگر حنفیہ کے ہاں مقامات مذکورہ میں رفع الیدین نہیں ہے کچھ علمائے احناف اسے منسوخ قرار دیتے ہیں، کچھ ترک رفع کو اولیٰ جانتے ہیں کچھ دل سے قائل ہیں مگر ظاہر میں عمل نہیں ہے۔ فریقین نے اس بارے میں کافی طبع آزمائی کی ہے۔ ہر دو جانب سے خاص طور پر آج کے دور پرفتن میں بہت سے کاغذ سیاہ کئے گئے ہیں۔ بڑے بڑے مناظرے ہوئے ہیں۔ مگر بات ابھی تک جہاں تھی وہیں پر موجود ہے۔ ایک ایسے جزئی مسئلہ پر اس قدر تشدد بہت ہی افسوسناک ہے۔ کتنے عوام ہیں جو کہتے ہیں کہ شروع اسلام میں لوگ بغلوں میں بت رکھ لیا کرتے تھے، اس لیے رفع یدین کا حکم ہوا تاکہ ان کے بغلوں کے بت گرجایا کریں۔ أستغفرا اللہ! یہ ایسا جھوٹ ہے جو شایدا سلام کی تاریخ میں اس کے نام پر سب سے بڑا جھوٹ کہا جاسکتا ہے۔ کچھ لوگ اس سنت نبوی کو مکھی اڑانے سے تشبیہ دے کر توہین سنت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ کاش! علماءاحناف غور کرتے اور امت کے سوادا عظم کو دیکھ کر جواس کے سنت ہونے کے قائل ہیں کم از کم خاموشی اختیار کر لیتے تو یہ فساد یہاں تک نہ بڑھتا۔ حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے بڑی تفصیلات کے بعد فیصلہ دیا ہے۔ ''و الذي یرفع أحب إلی ممن لا یرفع''یعنی رفع یدین کرنے والا مجھ کو نہ کرنے والے سے زیادہ پیا را ہے۔ اس لیے کہ احادیث رفع بکثرت ہیں اور صحیح ہیں جن کی بنا پر انکار کی گنجائش نہیں ہے۔ محض بدگمانیوں کے دور کرنے کے لیے کچھ تفصیلات ذیل میں دی جاتی ہیں۔ امید ہے کہ ناظرین کرام تعصب سے ہٹ کر ان کا مطالعہ کریں گے اور طاقت سے بھی زیادہ سنت رسول کا احترام مد نظر رکھتے ہوئے مسلمانوں میں باہمی اتفاق کے لیے کوشاں ہوں گے کہ وقت کا یہی فوری تقاضا ہے۔ حضرت امام شافعی ؒ فرماتے ہیں :۔ ''معناہ تظیم للہ و اتباع لسنة النبي صلی اللہ علیه وسلم''کہ شروع نماز میں اور رکوع میں جاتے اور سر اٹھانے پر رفع یدین کرنے سے ایک تو اللہ کی تعظیم اور دوسرے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع مراد ہے۔(نووي، ص:168 وغیرہ) اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ رفع الیدین من زینة الصلوةکہ یہ رفع یدین نماز کی زینت ہے۔(عیني، جلد:3، ص: 7 وغیرہ) اور حضرت نعمان بن ابی عیاش ؒ فرماتے ہیں۔ لکل شیئ زینة و زینة الصلوٰة أن ترفع یدیك إذا کبرت و إذا رکعت و إذا رفعت راسك من الرکوع''کہ ہر چیز کے لیے ایک زینت ہوتی ہے اور نماز کی زینت شروع نماز میں اور رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کرنا ہے۔(جزءبخاري، ص:21) اور امام ابن سیرین ؒ فرماتے ہیں: هو من تمام الصلوٰة۔کہ نماز میں رفع یدین کرنا نماز کی تکمیل کا باعث ہے۔ (جزءبخاري، ص:17) اور عبدالملک فرماتے ہیں: سألت سعید بن جبیر عن رفع الیدین في الصلوٰة فقال هو شیئ تزین به صلوتك( بیهقي، جلد:2 ص: 75) کہ میں نے سعید بن جبیر سے نماز میں رفع یدین کرنے کی نسبت پوچھا، تو انہوں نے کہا یہ وہ چیز ہے کہ تیری نماز کو مزین کردیتی ہے۔ اورحضرت عقبہ بن عامر ؓ فرماتے ہیں۔ من رفع یدیه في الصلوٰة له بکل إشارة عشر حسنات۔کہ نماز میں ایک دفعہ رفع یدین کرنے سے دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے۔(فتاوی إمام ابن تیمیة، ص: 376) گویا دو رکعت میں پچاس اور چار رکعت میں سو نیکیوں کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ مرویات بخاری کے علاوہ مندرجہ ذیل روایات صحیحہ سے بھی رفع الیدین کا سنت ہونا ثابت ہے۔ عن أبي بکر الصدیق قال صلیت خلف رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فکان برفع یدیه إذا افتتح الصلوٰة و إذا رکع و إذا رفع رأسه من الرکوع۔حضرت ابوبکر صدیق ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول خدا ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ ہمیشہ شروع نماز میں اور رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔(بیهقي، جلد: 2 ص: 73) امام بیہقق، امام سبکی ؒ ، امام ابن حجر ؒ فرماتے ہیں۔ رجاله ثقاتکہ اس حدیث کے سب راوی ثقہ ہیں۔(بیهقي، جلد:2 ص : 73، تلخیص، ص: 82، سبکي، ص:6)و قال الحاکم إنه محفوظحاکمؒ نے کہا یہ حدیث محفوظ ہے۔(تلخیص الحبیر، ص: 82)عن عمر بن الخطاب أنه قال رأیت رسول اللہ ﷺ يرفع یدیه إذا کبر و إذا رفع رأسه من الرکوع۔(رواہ الدار قطني جزءسبکي: ص6) و عنه عن النبي صلی اللہ علیه وسلم کان یرفع یدیه عند الرکوع و إذا رفع رأسهحضرت عمر فاروق ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے بچشم خود رسول اللہ ﷺ کو دیکھا۔ آپ ہمیشہ رکوع جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔(جزء بخاري، ص: 13) امام بیہقی ؒ اور حاکم ؒ فرماتے ہیں۔ فقد روی هذہ السنة عن أبی بکر و عمر و عثمان و علی رضي اللہ عنهمکہ رفع یدین کی حدیث جس طرح حضرت ابوبکر و عمر فاروق ؓ نے بیان کی ہے۔ اسی طرح حضرت عثمان ؓ سے بھی مروی ہے۔(تعلیق المغني، ص: 111) نیز حضرت علی کرم اللہ وجهه سے بھی یہی مروی ہے۔ علامہ سبکی ؒ فرماتے ہیں۔ الذین نقل عنهم روایة عن النبي صلی اللہ علیه وسلم أبوبکر و عمر و عثمان و علي وغیرهم رضي اللہ عنهم کہ جن صحابہ نے رسول خدا ﷺ سے رفع یدین کی روایت نقل کی ہے حضرت ابوبکر، عمر، عثمان اور علی وغیرہ رضی اللہ عنہم بھی انہیں میں سے ہیں جو کہتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ شروع نماز اور رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کرتے تھے۔ (جزءسبکي، ص: 9) و عن علي بن أبي طالب أن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم کان یرفع یدیه إذا کبر للصلوٰة حذو منکبیه و إذا أراد أن یرکع و إذا رفع رأسه من الرکوع و إذا قام من الرکعتین فعل مثل ذلك(جزء بخاري، ص: 6)حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ بے شک رسول خدا ﷺ ہمیشہ تکبیر تحریمہ کے وقت کندھوں تک ہاتھ اٹھایا کرتے تھے اور جب رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے اور جب دو رکعتوں سے کھڑے ہوتے تو تکبیر تحریمہ کی طرح ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔(أبو داود، جلد: 1ص: 198، مسند أحمد، جلد: 3 ص : 165، ابن ماجة، ص: 62 وغیرہ)عن ابن عمر ؓ أن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم کان یرفع یدیه حذو منکبیه إذا افتتح الصلوة و إذا کبر للرکوع و إذا رفع رأسه من الرکوع رفعهما کذلك۔حضرت عبداللہ بن عمر فاروق ؓ فرماتے ہیں کہ تحقیق کہ رسول خدا ﷺ جب نماز شروع کرتے تو ہمیشہ اپنے دونوں ہاتھوں کو مونڈھوں تک اٹھایا کرتے تھے۔ پھر جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی اسی طرح اپنے ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔(مسلم، ص: 168، أبوداود جلد: 1 ص: 192، ترمذي، ص: 36، وغیرہ، ان کے علاوہ اکیس کتابوں میں یہ حدیث موجود ہے۔) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ عاشق سنت نے کان یرفع یدیه فرما کر اور موجب روایت بیہقی آخر میں حتی لقي اللہ لاکر یہ ثابت کردیا کہ رسول خدا ﷺ ابتدائے نبوت سے لے کر اپنی عمر شریف کی آخری نماز تک رفع یدین کرتے رہے۔ حدیث ابن عمر ؓ کان یرفع یدیه الخ کے تحت شیخ الحدیث حضرت مولانا عبید اللہ صاحب مبارکپوری رحمۃ اللہ فرماتے ہیں: وهذا دليل صريح على أن رفع اليدين في هذه المواضع سنة، وهو الحق والصواب، ونقل البخاري في صحيحه عقب ابن عمر هذا عن شيخه على بن المديني أنه قال: حق على المسلمين أن يرفعوا أيديهم عند الركوع والرفع منه؛ لحديث ابن عمر هذا. وهذا في رواية ابن العساكر وقد ذكره البخاري في جزء رفع اليدين، وزاد: "وكان أعلم أهل زمانه"-انتهى. قلت: وإليه ذهب عامة أهل العلم من أصحاب النبي - صلى الله عليه وسلم - والتابعين وغيرهم. قال محمد بن نصر المروزي: أجمع علماء الأمصار على مشروعية ذلك إلا أهل الكوفة. وقال البخاري في جزء رفع اليدين: قال الحسن وحميد بن هلال: كان أصحاب رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يرفعون أيديهم في الصلاة. وروى ابن عبد البر بسنده عن الحسن البصري، قال: كان أصحاب رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يرفعون أيديهم في الصلاة إذا ركعوا وإذا رفعوا كأنها المراوح. وروى البخاري عن حميد بن هلال، قال: كان أصحاب رسول الله - صلى الله عليه وسلم - كأنما أيديهم المراوح، يرفعونها إذا ركعوا وإذا رفعوا رؤوسهم. قال البخاري: ولم يستثن الحسن أحداً منهم من أصحاب النبي - صلى الله عليه وسلم - دون أحد، ولم يثبت عند أهل العلم عن أحد من أصحاب النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه لم يرفع يديه. ثم ذكر البخاري عن عدة من علماء أهل مكة، وأهل الحجاز وأهل العراق والشام والبصرة واليمن وعدة من أهل الخرسان، وعامة أصحاب ابن المبارك ومحدثي أهل بخارى، وغيرهم ممن لا يحصى أنهم كانوا يرفعون أيدهم عند الركوع والرفع منه، لا اختلاف بينهم في ذلك الخ(مرعاة ج: 1 ص 529)خلاصہ اس عبارت کا یہ کہ یہ حدیث اس امر پر صریح دلیل ہے کہ ان مقامات پر رفع الیدین سنت ہے۔ اور یہی حق اور صواب ہے اورامام بخاری ؒ نے اپنے استاد علی بن المدینی ؒ سے نقل کیا ہے کہ مسلمانوں پر ضروری ہے کہ وہ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو ( کاندھوں تک یا کانوں کی لو تک ) اٹھائیں۔ اصحاب رسول اللہ ﷺ سے عام اہل علم کا یہی مسلک ہے اورمحمد بن نصر مروزی کہتے ہیں کہ سوائے اہل کوفہ کے تمام علمائے امصار نے اس کی مشروعیت پر اجماع کیا ہے۔ جملہ اصحاب رسول اللہ ﷺ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کیا کرتے تھے۔ امام حسن بصری ؒ نے اصحاب نبوی میں اس بارے میں کسی کا استثناءنہیں کیا۔ پھر بہت سے اہل مکہ واہل حجاز و اہل عراق و اہل شام اور بصرہ اور یمن اور بہت سے اہل خراسان اور جمیع شاگردان عبداللہ بن مبارک اور جملہ محدثین بخارا وغیرہ جن کی تعداد شمار میں بھی نہیں آسکتی، ان سب کا یہی عمل نقل کیا ہے کہ وہ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کیا کرتے تھے۔ مندرجہ ذیل احادیث میں مزید وضاحت موجود ہے۔ عن أنس أن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم کان یرفع یدیه إذا دخل في الصلوٰة و إذا رکع و إذا رفع رأسه من الرکوع۔(رواہ ابن ماجة) ۔ حضرت انس ؓ (جو دس سال دن رات آپ ﷺ کی خدمت میں رہے) فرماتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ جب بھی نماز میں داخل ہوتے اور رکوع کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع یدین کرتے۔و سندہ صحیح۔سبکی نے کہا سند اس کی صحیح ہے۔(ابن ماجة، ص: 62، بیهقي، جلد: 2 ص74، دار قطني، ص: 108، جزءبخاري، ص:9، تلخیص، ص: 82، جزءسبکي، ص: 4) حضرت انس ؓ نے کان یرفع فرما کر واضح کر دیا کہ حضور ﷺ نے دس سال میں ایسی کوئی نماز نہیں پڑھی، جس میں رفع یدین نہ کیا۔ (تخریج زیلعي، جلد: 1ص: 24، مجمع الزوائد، ص: 182، التعلیق المغني، ص: 110)عن ابن عباس عن النبي صلی اللہ علیه وسلم کان یرفع یدیه عند الرکوع و إذا رفع رأسه(جزء بخاري، ص: 13)حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ ہمیشہ ہی رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔(ابن ماجة، ص: 62) ابن عباس ؓ نے کان یرفع فرمایا جو دوام اور ہمیشگی پر دلالت کرتا ہے۔ عن أبي الزبیر أن جابر بن عبداللہ کان إذا افتتح الصلوٰة رفع یدیه و إذا رکع و إذا رفع رأسه من الرکوع فعل مثل ذلك و یقول رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فعل ذلك۔(رواہ ابن ماجة، ص: 62)و عنه عن النبي صلی اللہ علیه وسلم کان یرفع یدیه عند الرکوع و إذا رفع رأسه۔(جزء بخاري، ص:12) اس حدیث میں کان یرفع موجود ہے جو ہمیشگی پر دلالت کرتا ہے۔ عن أبي موسی قال هل أریکم صلوٰة رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فکبر و رفع یدیه ثم قال سمع اللہ لمن حمدہ و رفع یدیه ثم قال هذا فاصنعوا(رواہ الدارمي، جزءرفع الیدین، سبکي، ص: 5)و عنه عن النبي صلی اللہ علیه وسلم کان یرفع یدیه عند الرکوع وإذا رفع رأسه۔حضرت ابوموسی ؓ نے مجمع عام میں کہا۔ آؤ میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی طرح نماز پڑھ کر دکھاؤں۔ پھر اللہ أکبر کہہ کر نماز شروع کی۔ جب رکوع کے لیے تکبیر کہے تو دونوں ہاتھ اٹھائے، پھر جب انہوں نے سمع اللہ لمن حمدہ کہا تو دونوں ہاتھ اٹھائے اور فرمایا۔ لوگو! تم بھی اسی طرح نماز پڑھا کرو۔ کیوں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیشہ رکوع میں جانے سے پہلے اور سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔(دارمي، دار قطني، ص: 109، تلخیص الحبیر ص : 81، جزء بخاري، ص: 13، بیهقي، ص: 74) اس حدیث میں بھی کان یرفع موجود ہے جو دوام کے لیے ہے۔ مولانا انور شاہ صاحب ؒ فرماتے ہیں۔ هي صحیحةیہ حدیث صحیح ہے۔(العرف الشذي، ص: 125)عن أبي هریرة أنه قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم إذا کبر للصلوٰة جعل یدیه حذو منکبیه و إذا رکع فعل مثل ذلك و إذا رفع للسجود فعل مثل ذلك و إذا قام من الرکعتین فعل مثل ذلك۔(رواہ أبوداود)و عنه عن النبي صلی اللہ علیه وسلم کان یرفع یدیه عند الرکوع و إذا رفع رأسه۔حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب بھی نماز کے لیے اللہ أکبر کہتے ہیں تو اپنے ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے اور اسی طرح جب رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو ہمیشہ کندھوں تک ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔ اس میں بھی کان یرفع صیغہ استمراری موجود ہے۔ (أبوداود، جلد:1 ص: 197، بیهقي، جلد:2 ص: 74، و رجاله رجال صحیح، تلخیص، ص: 82، و تخریج زیلعي، جلد:1 ص: 315)عن عبید بن عمیرعن أبیه عن النبي صلی اللہ علیه وسلم کان یرفع یدیه عندالرکوع وإذا رفع رأسه۔(جزء بخاري، ص: 3)حضرت عبید بن عمیر اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ ہمیشہ رکوع میں جاتے اور اٹھتے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔ اس حدیث میں بھی کان یرفع صیغہ استمراری موجود ہے جو دوام پر دلالت کرتاہے۔ عن البراء بن عازب قال رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم إذا افتتح الصلوة رفع یدیه و إذا أرار أن یرکع و إذا رفع رأسه من الرکوع۔(رواہ الحاکم و البیهقي)براء بن عازب ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے بچشم خود رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ حضور ﷺ شروع نماز اور رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔(حاکم، بیهقي، جلد: 2 ص: 77)عن قتادة أن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم کان یرفع یدیه إذا رکع و إذا رفع رواہ عبدالرزاق في جامعه۔ (سبکي، ص: 8) قال الترمذي و في الباب عن قتادة۔حضرت قتادہ ؓ فرماتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ ﷺ ہمیشہ ہی رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔(ترمذي: ص36)عن أبي حمید قال في عشرة من أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم أنا أعلمکم بصلوٰة رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قالوا فاذکر قال کان النبي صلی اللہ علیه وسلم إذا قام إلی الصلوة رفع یدیه و إذا رکع و إذا رفع رأسه من الرکوع رفع یدیه۔حضرت ابوحمید نے دس صحابہ کی موجودگی میں فرمایا کہ میں رسول خدا ﷺ کی نماز سے اچھی طرح واقف ہوں، انہوں نے کہا کہ اچھا بتاؤ، ابوحمید نے کہا۔ جب رسول خدا ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو رفع یدین کیا کرتے تھے۔ اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی اپنے ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔ یہ بات سن کر تمام صحابہ نے کہا صدقت هکذا کان یصلي بے شک تو سچا ہے، رسول اللہ ﷺ اسی طرح نماز میں رفع یدین کیا کرتے تھے۔(جزء سبکي، ص: 4) اس حدیث میں کان یصلي قابل غور ہے جو دوام اور ہمیشگی پر دلالت کرتا ہے۔ (جزء بخاري، ص: 8، أبوداود، ص : 194)عن عبداللہ بن الزبیر أنه صلی بهم یشیر بکفیه حین یقوم و حین یرکع و حین یسجد و حین ینهض فقال ابن عباس من أحب أن ینظر إلی صلوة رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فلیقتد بابن الزبیر۔حضرت عبداللہ بن زبیر نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور کھڑے ہونے کے وقت اور رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے اور دو رکعتوں سے کھڑے ہونے کے وقت دونوں ہاتھ اٹھائے۔ پھر حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا، لوگو! جو شخص رسول اللہ ﷺ کی نماز پسند کرتاہو اس کو چاہئے کہ عبداللہ بن زبیر کی نماز پڑھے کیوں کہ یہ بالکل رسول اللہ ﷺ کی طرح نماز پڑھتے ہیں۔(أبوداود، ص: 198)عن الحسن أن النبي صلی اللہ علیه وسلم کان إذا أراد أن یکبر رفع یدیه و إذا رفع رأسه من الرکوع رفع یدیه(رواہ أبونعیم، جزء سبکي، ص: 8)حضرت حسن ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ رکوع کرنے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔(رواہ عبدالرزاق، تلخیص الحبیر، ص: 82) صحابہ کرام بھی رفع یدین کیا کرتے تھے، جیسا کہ تفصیلات ذیل سے ظاہر ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ رفع یدین کیا کرتے تھے: عن عبداللہ بن الزبیر قال صلیت خلف أبي بکر فکان یرفع یدیه إذا افتتح الصلوة و إذا رکع و إذا رفع رأسه من الرکوع و قال صلیت خلف رسول اللہ ﷺ فذکر مثله۔(رواہ البیهقي و رجاله ثقات، جلد: 2 ص: 73)حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے صدیق اکبر ؓ کے ساتھ نماز ادا کی، آپ ہمیشہ شروع نماز اور رکوع میں جانے اور رکوع سے سراٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے اب ہی نہیں بلکہ میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ بھی آپ کو رفع الیدین کرتے دیکھ کر اسی طرح ہی نماز پڑھا کرتا تھا۔(تلخیص، ص: 82، سبکي، ص: 6) اس حدیث میں بھی صیغہ استمرار (کان یرفع) موجود ہے۔ حضرت عمر فاروق ؓ بھی رفع یدین کیا کرتے تھے۔ وعن عمر نحوہ رواہ الدار قطني في غرائب مالك و البیهقي و قال الحاکم إنه محفوظ(تلخیص الحبیر لابن حجر، ص: 82) حضرت صدیق اکبر ؓ کی طرح حضرت عمر فاروق ؓ بھی رفع یدین کیا کرتے تھے۔ عبدالمالک بن قاسم فرماتے ہیں بینما یصلون في مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم إذا خرج فیهم عمر فقال اقبلوا علی بوجوهکم أصلي بکم صلوة رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم التي یصلي ویأمر بها فقام و رفع یدیه حتی حاذی بھما منکبیه ثم کبر ثم رفع و رکع و کذلك حین رفعکہ لوگ مسجد نبوی میں نماز پڑھ رہے تھے۔ حضرت عمرؓ آئے اور فرمایا، میری طرف توجہ کرو میں تم کو رسول اللہ ﷺ کی طرح نماز پڑھاتا ہوں، جس طرح حضور ﷺ پڑھا کرتے تھے اور جس طرح پڑھنے کا حکم دیا کرتے تھے، پھرحضرت عمر ؓ قبلہ رو کھڑے ہوگئے اورتکبیر تحریمہ اور رکوع میں جاتے اور سر اٹھاتے ہوئے اپنے ہاتھ کندھوں تک اٹھائے۔فقال القوم هکذا رسول اللہ ﷺ یصلي بناپھر سب صحابہ نے کہا بے شک حضور ﷺ ایسا ہی کرتے۔(أخرجه البیهقي في الخلافیات، تخرییج زیلعي و قال الشیخ تقي الدین رجال إسنادہ معرفون) (تحقیق الراسخ، ص: 38) حضرت عمر فاروق، حضرت علی ؓ و دیگر پندرہ صحابہ رضی اللہ عنہم امام بخاری فرماتے ہیں: ( 1 ) عمر بن خطاب ( 2 ) علي بن أبي طالب ( 3 ) عبداللہ بن عباس ( 4 ) أبوقتادة ( 5 ) أبوأسید ( 6 ) محمد بن مسلمة ( 7 ) سهل بن سعد ( 8 ) عبداللہ بن عمر ( 9 ) أنس بن مالك ( 10 ) أبوهریرة ( 11 ) عبداللہ بن عمرو ( 12 ) عبداللہ بن زبیر ( 13 ) وائل بن حجر ( 14 ) أبوموسی ( 15 ) مالك بن حویرث ( 16 ) أبوحمید ساعدي ( 17 ) أم درداءأنهم کانوا یرفعون عند الرکوع(جزء بخاري، ص: 6)کہ یہ سب کے سب رکوع جانے اور سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔ طاؤس و عطاءبن رباح کی شہادت: عطاءبن رباح فرماتے ہیں، میں نے عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن زبیر، ابوسعید اور جابر رضی اللہ عنہم کو دیکھا یرفعون أیدیهم إذا افتتحوا الصلوٰة و إذا رکعواکہ یہ شروع نماز اور عند الرکوع رفع یدین کرتے تھے۔(جزء بخاری، ص: 11) حضرت طاؤس کہتے ہیں رأیت عبداللہ و عبداللہ و عبداللہ یرفعون أیدیهمکہ میں نے عبداللہ بن عمر ؓ اور عبداللہ بن عباس ؓ اور عبداللہ بن زبیر ؓ کودیکھا، یہ تینوں نماز میں رفع یدین کیا کرتے تھے۔(جزء بخاري، ص: 13) حضرت انس بن مالک ؓ : عن عاصم قال رأیت أنس بن مالك إذا افتتح الصلوة کبر و رفع یدیه و يرفع کلما رکع و رفع رأسه من الرکوع۔عاصم کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس ؓ کو دیکھا جب تکبیر تحریمہ کہتے اور رکوع کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع یدین کیا کرتے تھے۔(جزء بخاري، ص: 12) حضرت ابوہریرہ ؓ : أنه کان إذا کبر رفع یدیه و إذا رفع رأسه من الرکوع،عبدالرحمن کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ ؓ جب تکبیر تحریمہ کہتے اور جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع یدین کیا کرتے تھے۔(جزء بخاري، ص: 11) حضرت ام درداء ؓ : سلیمان بن عمیر فرماتے ہیں: رأیت أم درداء ترفع یدیها في الصلوة حذو منکبیها حین تفتتح الصلوة و حین ترکع فإذا قالت سمع اللہ لم حمدہ رفعت یدها۔کہ میں نے ام درداء ؓ کو دیکھا وہ شروع نماز میں اپنے کندھوں تک ہاتھ اٹھایا کرتی تھی اور جب رکوع کرتی اور رکوع سے سر اٹھاتی اور سمع اللہ لمن حمدہ کہتی تب بھی اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھایا کرتی تھی۔(جزءرفع الیدین، إمام بخاري، ص: 12) ناظرین کرام کو اندازہ ہو چکا ہوگا کہ حضرت امام بخاری ؒ نے رفع یدین کے بارے میں آنحضرت ﷺ کا جو فعل نقل کیا ہے از روئے دلائل وہ کس قدر صحیح ہے۔ جو حضرات رفع یدین کا انکار کرتے اور اسے منسوخ قرار دیتے ہیں وہ بھی غور کریں گے تو اپنے خیال کو ضرور واپس لیں گے۔ چونکہ منکرین رفع یدین کے پاس بھی کچھ نہ کچھ دلائل ہیں۔ اس لیے ایک ہلکی سی نظر ان پر بھی ڈالنی ضروری ہے تاکہ ناظرین کرام کے سامنے تصویر کے ہر دو رخ آجائیں اور وہ خود امر حق کے لیے اپنے خداداد عقل و بصیرت کی بنا پر فیصلہ کرسکیں۔ منکرین رفع یدین کے دلائل اور ان کے جوابات: ( 1 ) جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور فرمایا: مالي أراکم رافعي أیدیکم کأنها أذناب خیل شمس اسکنوا في الصلوة(صحیح مسلم، باب الأمر بالسکون في الصلوة والنهي عن الإشارة بالید ورفعهما عند السلام)یہ کیا بات ہے کہ میں تم کو سرکش گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں، نماز میں حرکت نہ کیا کرو۔ منکرین رفع یدین کی یہ پہلی دلیل ہے جو اس لیے صحیح نہیں کہ ( 1 ) اول تو منکرین کو امام نووی ؒ نے باب باندھ کر ہی جواب دے دیا کہ یہ حدیث تشہد کے متعلق ہے جب کہ کچھ لوگ سلام پھیرتے وقت ہاتھ اٹھا کر اشارہ کیا کرتے تھے، ان کو دیکھ کر آنحضرت ﷺ نے یہ فرمایا۔ بھلا اس کو رکوع میں جاتے اور سر اٹھاتے وقت رفع یدین سے کیا تعلق ہے؟ مزید وضاحت کے لیے یہ حدیث موجود ہے۔ ( ب ) جابر بن سمرہ ؓ کہتے ہیں کہ ہم نے حضور ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، جب ہم نے السلام علیکم کہا و أشار بیدہ إلی الجانبین اور ہاتھ سے دونوں طرف اشارہ کیا تو حضور ﷺ نے فرمایا ماشأنکم تشیرون بأیدکم کأنها أذناب خیل شمستمہارا کیا حال ہے کہ تم شریف گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھ ہلاتے ہو۔ تم کو چاہئے کہ اپنے ہاتھ رانوں پر رکھو۔ ویسلم علی أخیه من علی یمینه و شماله۔اوراپنے بھائی پر دائیں بائیں سلام کہو۔إذا سلم أحدکم فلیلتفت إلی صاحبه و لا یؤمي۔(یرمی) بیدہ جب تشہد میں تم سلام کہنے لگو تو صرف منہ پھیر کر سلام کہا کرو، ہاتھ سے اشارہ مت کرو۔ (مسلم شریف) ( ج ) تمام محدثین کا متفقہ بیان ہے کہ یہ دونوں حدیثیں دراصل ایک ہی ہیں۔ اختلاف الفاظ فقط تعداد روایات کی بنا پر ہے کوئی عقل مند اس ساری حدیث کو پڑھ کر اس کو رفع یدین عند الرکوع کے منع پر دلیل نہیں لاسکتا۔ جو لوگ اہل علم ہو کر ایسی دلیل پیش کرتے ہیں ان کے حق میں حضرت امام بخاری ؒ فرماتے ہیں: من احتج بحدیث جابر بن سمرة علی منع الرفع عند الرکوع فلیس له حظ من العلم۔ کہ جو شخص جابر بن سمرہ ؓ کی حدیث سے رفع یدین عند الرکوع منع سمجھتا ہے وہ جاہل ہے اور علم حدیث سے ناواقف ہے۔ کیوں کہاسکنوا في الصلوة فإنما کان في التشهد لا في القیام حضور ﷺ نے اسکنوا في الصلوٰة تشہد میں اشارہ کرتے دیکھ کر فرمایا تھا نہ کہ قیام کی حالت میں (جزء رفع یدین، بخاري، ص: 16، تلخیص، ص: 83، تحفة ، ص:223) اس تفصیل کے بعد ذرا سی بھی عقل رکھنے والا مسلمان سمجھ سکتا ہے کہ اس حدیث کو رفع یدین کے منع پر پیش کرنا عقل اور انصاف اور دیانت کے کس قدر خلاف ہے۔ ( 2 ) منکرین کی دوسری دلیل یہ کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے نماز پڑھائی فلم یرفع إلا مرة۔اور ایک ہی بار ہاتھ اٹھائے۔(ابوداود، جلد1 ص: 199، ترمذی، ص: 36) اس اثر کو بھی بہت زیادہ پیش کیا جاتا ہے۔ مگر فن حدیث کے بہت بڑے امام حضرت ابوداؤد فرماتے ہیں و لیس هو بصحیح علی هذا اللفظ۔یہ حدیث ان لفظوں کے ساتھ صحیح نہیں ہے۔ اور ترمذی میں ہے: یقول عبداللہ بن المبارک و لم یثبت حدیث ابن مسعود۔عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ حدیث عبداللہ بن مسعود کی صحت ہی ثابت نہیں۔ (ترمذي، ص:36، تلخیص ، ص: 83) اور حضرت امام بخاری، امام احمد، امام یحییٰ بن آدم اور ابوحاتم نے اس کو ضعیف کہا ہے۔ ( مسند احمد، جلد: 3ص: 16 ) اور حضرت امام نووی ؒ نے کہا کہ اس کے ضغف پر تمام محدثین کا اتفاق ہے۔ لہٰذا یہ قابل حجت نہیں۔ لہٰذا اسے دلیل میں پیش کرنا صحیح نہیں ہے۔ ( 3 ) تیسری دلیل براءبن عازب کی حدیث کہ حضور ﷺ نے پہلی بار رفع یدین کیا۔ ثم لا یعود پھر نہیں کیا۔ اس حدیث کے بارے میں بھی حضرت امام ابوداؤد فرماتے ہیں: هذا الحدیث لیس بصحیح۔ کہ یہ حدیث صحیح نہیں۔(أبوداود جلد: 1 ص: 200)و قد رواہ ابن المدیني و أحمد و الدار قطني و ضعفه البخاري اس حدیث کو بخاری ؒ نے ضعیف اور علی بن مدینی، امام احمد اور دارقطنی نے مردو د کہا ہے لہٰذا قابل حجت نہیں۔ (تنویر، ص: 16) ( 4 ) چوتھی دلیل عبداللہ بن عمر ؓ کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ انہوں نے پہلی بار ہاتھ اٹھائے (طحاوي) اس کے متعلق سرتاج علمائے احناف حضرت مولانا عبدالحئی صاحب لکھنؤی فرماتے ہیں کہ یہ اثر مردود ہے۔ کیونکہ ا س کی سند میں ابن عیاش ہے جو متکلم فیه ہے۔ نیز یہی حضرت مزید فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر ؓ خود بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیشہ عند الرکوع رفع یدین کیا کرتے تھے۔ فما زالت تلک صلوٰۃ حتی لقی اللہ تعالیٰ۔یعنی ابتدائے نبوت سے اپنی عمر کی آخری نماز تک آپ رفع یدین کرتے رہے۔ وہ اس کے خلاف کس طرح کرسکتے تھے اور ان کا رفع یدین کرنا صحیح سند سے ثابت ہے۔ (تعلیق الممجد، ص: 193) انصاف پسند علماءکا یہی شیوہ ہونا چاہئے کہ تعصب سے بلند و بالا ہو کر امر حق کا اعتراف کریں اوراس بارے میں کسی بھی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں۔ ( 5) پانچویں دلیل۔ کہتے ہیں کہ ابوبکر صدیق ؓ اور عمر فاروق ؓ پہلی بار ہی کرتے تھے۔ (دار قطني) دار قطنی نے خود اسے ضعیف اور مردود کہا ہے اورامام ابن حجر ؒ نے فرمایا کہ اس حدیث کو ابن جوزی ؒ نے موضوعات میں لکھا ہے۔ لہٰذا قابل حجت نہیں ۔ (تلخیص الحبیر، ص: 83) ان کے علاوہ انس، ابوہریرہ ابن زبیر رضی اللہ عنہم کے جو آثار پیش کئے جاتے ہیں سب کے سب موضوع لغو اورباطل ہیں لا أصل لهم ان کا اصل و ثبوت نہیں ( تلخیص الممجد، ص: 83) آخر میں حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہ کا فیصلہ بھی سن لیجیے۔ آپ فرماتے ہیں:۔ والذی یرفع أحب إلي ممن لا یرفع۔یعنی رفع یدین کرنے والا مجھ کو نہ کرنے والے سے زیادہ محبوب ہے۔ کیوں کہ اس کے بارے میں دلیل بکثرت اور صحیح ہیں۔ (حجة اللہ البالغة، ج: 2 ص: 8) اس بحث کو ذرا طول اس لیے دیا گیا کہ رفع یدین نہ کرنے والے بھائی کرنے والوں سے جھگڑا نہ کریں اور یہ سمجھیں کہ کرنے والے سنت رسول کے عامل ہیں۔ حالات زمانہ کا تقاضا ہے کہ ایسے فروعی مسائل میں وسعت قلبی سے کام لے کر رواداری اختیار کی جائے اور مسائل متفق علیه میں اتفاق کرکے اسلام کو سر بلند کرنے کی کوشش کی جائے۔ اللہ پاک ہر کلمہ گو مسلمان کو ایسی ہی سمجھ عطا فرمائے۔ آمین!
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Nafi': Whenever Ibn 'Umar (RA) started the prayer with Takbir, he used to raise his hands: whenever he bowed, he used to raise his hands (before bowing) and also used to raise his hands on saying, "Sami a-l-lahu Liman hamida", and he used to do the same on rising from the second Rak'a (for the 3rd Rak'a). Ibn 'Umar (RA) said: "The Prophet (ﷺ) used to do the same."