کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ طہٰ میں) موسیٰ علیہ السلام سے فرمانا کہ ”میری آنکھوں کے سامنے تو پرورش پائے“۔
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “…In order that you may be brought up under My Eye)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد (سورۃ القمر میں’’ نوح کی کشتی ہماری آنکھوں کے سامنے پانی پر تیر رہی تھی۔“
7408.
سیدنا انس ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی نبی بھیجے ہیں ان سب نے اپنی قوم کو کانے کذاب سے ضرور خبردار کیا ہے۔ وہ (دجال) کانا ہے اور تمہارا رب کانا نہیں۔ دجال کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوا ہوگا۔“
تشریح:
دجال اپنے رب ہونے کا دعویٰ کرے گا، اس کے رب ہونے کی نفی کی گئی ہے۔ اس کی علامت یہ ہے کہ وہ ایک آنکھ سے کانا ہوگا۔ یہ ایک ایسی محسوس علامت ہے جس کو عوام الناس بھی محسوس کرسکتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت بیان کی گئی ہے کہ اس کے شایان شان بے عیب آنکھیں ہیں۔ اسے ظاہر پر محمول کرتے ہوئے مبنی برحقیقت تسلیم کیا جائے گا، جس کی اورکوئی تاویل نہیں ہو سکتی اور نہ اسے مخلوق سے تشبیہ ہی دی جا سکتی ہے۔ اس صفت کا انکار کرنا کفر ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے رب العالمین کے لیے صفت عین ثابت کرنے کے لیے دو آیات اور دو احادیث پیش کی ہیں۔ آیات سے مفرد ار جمع کے الفاظ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہیں۔ مفرد لفظ میں صفت عین کو ثابت کیا گیا ہے جبکہ جمع میں ضمیر جمع کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ احادیث میں کذاب دجال کی علامت بیان کی گئی ہے کہ وہ ایک آنکھ سے کانا ہوگا۔ عنوان کو اسی جملے سے ثابت کیا گیا ہے کیونکہ عربی زبان میں "عور" یہ ہے کہ دونوں آنکھوں میں سے ایک کی بینائی ختم ہو جائے، اس بنا پر دونوں احادیث اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی دو آنکھیں ہیں جو مخلوق کی آنکھوں سے مشابہ نہیں ہیں بلکہ جس طرح اللہ رب العزت کے شایان شان ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر اس امر کی مزید وضاحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کی دونوں آنکھیں صحیح سالم، تندرست اور ہر قسم کے نقص وعیب سے پاک ہیں۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان: 285/1) امام ابن خذیمہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رب العالمین کے متعلق وضاحت فرمائی ہے کہ اس کی دو آنکھیں ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بیان قرآن کریم کی صراحت کے عین مطابق ہے، پھر انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے، انھوں نے یہ آیت تلاوت کی: ’’اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے سب کچھ سننے والا سب کچھ دیکھنے والا ہے۔‘‘(النساء 134) پھر فرمایا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کو تلاوت کرتے وقت اپنا انگوٹھا کان پر اور ساتھ والی انگلی اپنی آنکھ پر رکھی تھی۔ (کتاب التوحید لابن خزیمة: 42۔43)
اس عنوان کا مقصد اللہ تعالیٰ کے لیے صفت عین کا ثابت کرنا ہے ،چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی:"اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے سب کچھ سننے والا سب کچھ جاننے والا ہے۔"(النساء:4/58)توانھوں نے اپنا انگوٹھا کان پر اور ساتھ والی انگلی آنکھوں پررکھی،پھر فرمایا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کو تلاوت کرتے ہوئے اپنی انگلیاں اسی طرح رکھی تھیں۔(سنن ابی داود السنۃ حدیث 4728)راوی حدیث عبداللہ بن یزید المقری کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سمیع بصیر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے کان اور آنکھیں ہیں۔(سنن ابی داود السنۃ حدیث 4728)امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو بیان کرنے کے بعد لکھاہے کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کے لے سع اور بصر کا اثبات اور اس کے محل کی وضاحت کرنا ہے۔(الاسماء والصفات للبیہقی ص 179)امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کی تائید میں حضرت عقبہ بن عامر کی حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہوکر فرمایا:"ہمارا رب سمیع بصیر ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آنکھوں کی طرف اشارہ فرمایا۔"(المعجم الکبیر للطبرانی 17/282)حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کی سند حسن ہے۔(فتح الباری 13/456)حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ آیت تلاوت کی:"وہ(کشتی ہماری آنکھوں کے سامنے چل رہی تھی۔"(القمر 14/54)پھر انہوں نے اپنے ہاتھ سے دونوں کی طرف اشارہ کیا۔(شرح کتاب التوحید للغنیمان 1/187)امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمارے رب کی آنکھیں ہیں جن سے ساتوں زمینوں کی تہ کے نیچے اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اسے دیکھتا ہے ،اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔وہ سمندر کے تھپیڑوں اور اس کی موجوں میں سب کچھ اسی طرح دیکھتا ہے جس طرح اس عرش کو دیکھتا ہے جس پر وہ مستوی ہے۔(کتاب التوحید لابن خزیمہ ص 50)بہرحال اللہ تعالیٰ کی آنکھیں ہیں لیکن مخلوق کی آنکھوں جیسی نہیں بلکہ ایسی جو اس کے شایان شان ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد (سورۃ القمر میں’’ نوح کی کشتی ہماری آنکھوں کے سامنے پانی پر تیر رہی تھی۔“
حدیث ترجمہ:
سیدنا انس ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی نبی بھیجے ہیں ان سب نے اپنی قوم کو کانے کذاب سے ضرور خبردار کیا ہے۔ وہ (دجال) کانا ہے اور تمہارا رب کانا نہیں۔ دجال کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوا ہوگا۔“
حدیث حاشیہ:
دجال اپنے رب ہونے کا دعویٰ کرے گا، اس کے رب ہونے کی نفی کی گئی ہے۔ اس کی علامت یہ ہے کہ وہ ایک آنکھ سے کانا ہوگا۔ یہ ایک ایسی محسوس علامت ہے جس کو عوام الناس بھی محسوس کرسکتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت بیان کی گئی ہے کہ اس کے شایان شان بے عیب آنکھیں ہیں۔ اسے ظاہر پر محمول کرتے ہوئے مبنی برحقیقت تسلیم کیا جائے گا، جس کی اورکوئی تاویل نہیں ہو سکتی اور نہ اسے مخلوق سے تشبیہ ہی دی جا سکتی ہے۔ اس صفت کا انکار کرنا کفر ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے رب العالمین کے لیے صفت عین ثابت کرنے کے لیے دو آیات اور دو احادیث پیش کی ہیں۔ آیات سے مفرد ار جمع کے الفاظ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہیں۔ مفرد لفظ میں صفت عین کو ثابت کیا گیا ہے جبکہ جمع میں ضمیر جمع کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ احادیث میں کذاب دجال کی علامت بیان کی گئی ہے کہ وہ ایک آنکھ سے کانا ہوگا۔ عنوان کو اسی جملے سے ثابت کیا گیا ہے کیونکہ عربی زبان میں "عور" یہ ہے کہ دونوں آنکھوں میں سے ایک کی بینائی ختم ہو جائے، اس بنا پر دونوں احادیث اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی دو آنکھیں ہیں جو مخلوق کی آنکھوں سے مشابہ نہیں ہیں بلکہ جس طرح اللہ رب العزت کے شایان شان ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر اس امر کی مزید وضاحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کی دونوں آنکھیں صحیح سالم، تندرست اور ہر قسم کے نقص وعیب سے پاک ہیں۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان: 285/1) امام ابن خذیمہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رب العالمین کے متعلق وضاحت فرمائی ہے کہ اس کی دو آنکھیں ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بیان قرآن کریم کی صراحت کے عین مطابق ہے، پھر انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے، انھوں نے یہ آیت تلاوت کی: ’’اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے سب کچھ سننے والا سب کچھ دیکھنے والا ہے۔‘‘(النساء 134) پھر فرمایا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کو تلاوت کرتے وقت اپنا انگوٹھا کان پر اور ساتھ والی انگلی اپنی آنکھ پر رکھی تھی۔ (کتاب التوحید لابن خزیمة: 42۔43)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم کو قتادہ نے خبر دی، کہا میں نے انس ؓ سے سنا اور ان سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے جتنے نبی بھیجے ان سب نے جھوٹے کانے دجال سے اپنی قوم کو ڈرایا، وہ دجال کانا ہو گا اور تمہارا رب (آنکھوں والا ہے) کانا نہیں ہے، اس دجال کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوا ہو گا (لفظ) کافر۔
حدیث حاشیہ:
یہ مسیح الدجال کا حال ہے جو دجال حقیقی ہوگا باقی مجازی دجال مولویوں، پیروں، اماموں کی شکل میں آکر امت کو گمراہ کرتے رہیں گے جیسا کہ حدیث میں ثلاثُونَ دجالون کذابون کےالفاظ آئے ہیں۔ حدیث میں اللہ کےبے عیب آنکھ کا ذکر آیا۔ یہی باب سے مطابقت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "Allah did not send any prophet but that he warned his nation of the one-eyed liar (Ad-Dajjal). He is one-eyed while your Lord is not one-eyed, The word 'Kafir' (unbeliever) is written between his two eyes."