کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ الانعام میں ) ارشاد اے پیغمبر ! ان سے پوچھ کس شے کی گواہی سب سے بڑی گواہی ہے،،
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “Say ‘What thing is the most great in witness?’ Say: ‘Allah…’”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
تو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو «شىء» سے تعبیر کیا۔ اسی طرح نبی کریم ﷺ نے قرآن کو «شىء» کہا۔ جب کہ قرآن بھی اللہ کی صفات میں سے ایک صفت ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا «كل شىء هالك إلا وجهه» کہ اللہ کی ذات کے سوا ہر شے ختم ہونے والی ہے۔
7417.
سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک آدمی سے فرمایا تھا : ”کیا تیرے پاس قرآن سے کوئی شے ہے؟“ اس نے کہا: ہاں فلاں فلاں سورت یاد ہے اس نے ان سورتوں کے نام بھی لیے۔
تشریح:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے دعوی کے اثبات میں دو آیات اور ایک حدیث پیش کی ہے۔ پہلی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے خود اپنی ذات کریمہ کو شے کہا ہے۔ اس سے مراد اپنے وجود کو ثابت کرنا اور عدم کی نفی کرنا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی ہر صفت کو شے کہا جا سکتا ہے کہ وہ موجود ہے۔ دوسری آیت کریمہ کے مطابق اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا ہر شے ہلاک ہونے والی ہے عربی قواعد کےاعتبار سے مستثنیٰ متصل ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی شے میں داخل ہے پھر حرف استثناء کے ذریعے سے اسے خارج کیا گیا ہے۔ حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کو شے کہا ہے۔ اور قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی صفات ذات میں سے ایک صفت ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو شے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ 2۔شارح صحیح بخاری ابن بطال فرماتے ہیں کہ مذکورہ آیات و آثار سے مراد اس شخص کی تردید ہے جوذات باری تعالیٰ پر شے کا اطلاق جائز خیال نہیں کرتا جیسا کہ عبد اللہ الناشئی کا نظریہ ہے اسی طرح اس شخص کی بھی تردید مقصود ہے جو معدوم کو شے کہنا ہے کیونکہ لفظ شے سے کسی کا موجود ہونا مراد ہے اور لاشے سے موجود کی نفی کی جاتی ہے ہاں اگر مذمت کرنا ہو تو موجود کو لاشے کہا جا سکتا ہے۔ (فتح الباري:496/13) مذکورہ حدیث انتہائی اختصار کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صرف اتنا حصہ ذکر کیا ہے جسے بطور دلیل پیش کرنا تھا۔ اس حدیث سے متعلقہ دیگر مباحث کتاب النکاح سے متعلق ہیں۔
اس عنوان سے غرض یہ ہے کہ لفظ "شے"کا اطلاق ذات باری تعالیٰ پر جائز ہے اور اس میں یہ بھی اشارہ ہےکہ قرآن کریم غیر مخلوق ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جزم ووثوق کے ساتھ اس کا اطلاق کو جائز قراردیا ہے کیونکہ اس سلسلے میں مضبوط دلائل موجود ہیں۔ کچھ اہل کلام لفظ"شے"کو اللہ تعالیٰ کے لیے ناجائز کہتے ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے متکلمین کے موقف کی تردید فرمائی ہے آپ کا قطعاً یہ موقف نہیں ہےکہ لفظ "شے"ذات باری تعالیٰ کا نام ہے بلکہ شے سے اللہ تعالیٰ کی ذات مراد لی جا سکتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات پر بھی شے کا اطلاق ہو سکتا ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ لفظ شے موجود کے مترادف اور ہم معنی ہے اور عرب کا محاورہ ہے کہ فلاں کوئی شے نہیں۔ اس سے مراد مبالغے کی حد تک اس کی مذمت کرنا ہے گویا وہ نہ ہونے کے برابر ہے۔(فتح الباری:13/496)بشر مریسی نے امام عبدالعزیز الکنائی سے سوال کیا کہ قرآن شے ہے یا شے نہیں ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ اس سے مراد قرآن کے وجود کو ثابت کرنا اور اس کے معدوم ہونے کی نفی کرنا ہے تو قرآن شے ہے اور اگر اس سے مراد قرآن کا نام شے ہے تو اس صورت میں شے کا اطلاق قرآن پر صحیح نہیں۔(کتاب الحیدۃ ص:24)
تو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو «شىء» سے تعبیر کیا۔ اسی طرح نبی کریم ﷺ نے قرآن کو «شىء» کہا۔ جب کہ قرآن بھی اللہ کی صفات میں سے ایک صفت ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا «كل شىء هالك إلا وجهه» کہ اللہ کی ذات کے سوا ہر شے ختم ہونے والی ہے۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک آدمی سے فرمایا تھا : ”کیا تیرے پاس قرآن سے کوئی شے ہے؟“ اس نے کہا: ہاں فلاں فلاں سورت یاد ہے اس نے ان سورتوں کے نام بھی لیے۔
حدیث حاشیہ:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے دعوی کے اثبات میں دو آیات اور ایک حدیث پیش کی ہے۔ پہلی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے خود اپنی ذات کریمہ کو شے کہا ہے۔ اس سے مراد اپنے وجود کو ثابت کرنا اور عدم کی نفی کرنا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی ہر صفت کو شے کہا جا سکتا ہے کہ وہ موجود ہے۔ دوسری آیت کریمہ کے مطابق اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا ہر شے ہلاک ہونے والی ہے عربی قواعد کےاعتبار سے مستثنیٰ متصل ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی شے میں داخل ہے پھر حرف استثناء کے ذریعے سے اسے خارج کیا گیا ہے۔ حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کو شے کہا ہے۔ اور قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی صفات ذات میں سے ایک صفت ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو شے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ 2۔شارح صحیح بخاری ابن بطال فرماتے ہیں کہ مذکورہ آیات و آثار سے مراد اس شخص کی تردید ہے جوذات باری تعالیٰ پر شے کا اطلاق جائز خیال نہیں کرتا جیسا کہ عبد اللہ الناشئی کا نظریہ ہے اسی طرح اس شخص کی بھی تردید مقصود ہے جو معدوم کو شے کہنا ہے کیونکہ لفظ شے سے کسی کا موجود ہونا مراد ہے اور لاشے سے موجود کی نفی کی جاتی ہے ہاں اگر مذمت کرنا ہو تو موجود کو لاشے کہا جا سکتا ہے۔ (فتح الباري:496/13) مذکورہ حدیث انتہائی اختصار کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صرف اتنا حصہ ذکر کیا ہے جسے بطور دلیل پیش کرنا تھا۔ اس حدیث سے متعلقہ دیگر مباحث کتاب النکاح سے متعلق ہیں۔
ترجمۃ الباب:
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پاک کو شے سے تعبیر کیا ہے اور نبی ﷺ نے قرآن کریم کو شے کہا ہے جبکہ قرآن کریم اللہ کی صفات میں سے ایک صفت ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”اللہ کی ذات کے سوا ہر شے فنا ہونے والی ہے۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو مالک نے خبر دی، انہیں ابوحازم نے اور ان سے سہل بن سعد ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک صاحب سے پوچھا کیا آپ کو قرآن میں سے کچھ شے یاد ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں فلاں فلاں سورتیں انہوں نے ان کے نام بتائے۔
حدیث حاشیہ:
یہ آپ نےاس آدمی سےفرمایا تھا جس نےایک عورت سےنکاح کی درخواست کی تھی مگر مہر کے لیے اس کے پاس کچھ نہ تھا۔ قرآن کو لفظ شے سے تعبیر کیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl bin Sa'd: The Prophet (ﷺ) said to a man, "Have you got anything of the Qur'an?" The man said, "Yes, such-and-such Sura, and such-and-such Sura," naming the Suras.