کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ المعارج میں ) فرمان فرشتے اور روح القدس اس کی طرف چڑھتے ہیں،
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “The angels and the Ruh ascend to Him…”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کا (سورۃ فاطر میں) فرمان «إليه يصعد الكلم الطيب» اس کی طرف پاکیزہ کلمے چڑھتے ہیں اور ابوحمزہ نے بیان کیا، ان سے ابن عباس ؓ نے کہ ابوذر ؓکو جب نبی کریم ﷺ کے بعثت کی خبر ملی تو انہوں نے اپنے بھائی سے کہا کہ مجھے اس شخص کی خبر لا کر دو جو کہتا ہے کہ اس کے پاس آسمان سے وحی آتی ہے۔ اور مجاہد نے کہا نیک عمل پاکیزہ کلمے کو اٹھا لیتا ہے۔ (اللہ تک پہنچا دیتا ہے) «ذي المعارج» سے مراد فرشتے ہیں جو آسمان کی طرف چڑھتے ہیں۔ تشریح اس باب میں امام بخاری نےاللہ جل جلالہ کےعلو اورفوقیت کےاثبات کےدلائل بیان کیے ہیں۔اہل حدیث کااس پر اتقاق ہےکہ اللہ تعالی جہت فوق میں ہےاور اللہ کو اوپر سمجھنا یہ انسان کی فطرت میں داخل ہے۔جاہل سےجاہل سے شخص جب مصیبت کے وقت فریاد کرتاہے تومنہ اوپر اٹھا کرفریاد کرتاہےمگر جہمیہ اورانکے اتباع نےبرخلاف شریعت وبرخلاف فطرت انسانی فوقیت رحمانی کاانکار کیا ہے۔چنانچہ منقول ہےکہ جہم نماز میں بھی بجائے سبحان ربی الاعلیٰ کےسبحان ربی الاسفل کہاکرتا لعنتہ اللہ علیہ۔
7430.
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے اپنی پاکیزہ کمائی سے ایک کجھور کے برابر صدقہ کیا جبکہ اللہ تعالیٰ تک پاکیزہ خیرات ہی پہنچتی ہے، اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے قبول کرتا ہے، پھر وہ اسے صدقہ کرنے والے کے لیے اس طرح بڑھاتا ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی گھوڑی کے بچے کی پرورش کرتا ہے یہاں تک کہ وہ کھجور پہاڑ کے برابر ہو جاتی ہے۔“ یہ حدیث ورقاء نے عبداللہ بن دینار سے انہوں نے سعید بن یسار سے انہوں نے سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے، انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کی ہے: ”اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہی خیرات چڑھتی ہے جو حلال کمائی سے ہو۔“
تشریح:
1۔یہ حدیث پہلے بھی بیان ہو چکی ہے جس کہ الفاظ یہ ہیں۔ ’’اللہ تعالیٰ صرف پاکیزہ چیز کو قبول کرتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري: الزکاة: حدیث: 1410) اس کا مطلب یہ ہے کہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازتا ہے وہی اوپر چڑھتی ہے۔ اس کی وجہ سے اس میں برکت دی جاتی ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں کئی گناہ بڑھا دیا جاتا ہے۔ 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی جملے سے اپنا مدعا ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اوپر ہے اور صفت علو سے متصف ہے کیونکہ علو صفت کمال ہے لہٰذا یہ ضروری ہے۔ کہ معنوی طور پر یہ صفت اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت ہو۔ اللہ تعالیٰ ہی تمام صفات کمال سے متصف ہے۔ عقل کا بھی یہی تقاضا ہے کیونکہ عقلی اعتبار سے تین ہی صورتیں ممکن ہیں یعنی اللہ تعالیٰ اوپر ہوگا یا نیچے یا برابر۔ نیچے اور برابر ہونا ممتنع ہے کیونکہ نیچے ہونے میں معنوی نقص ہےاور اللہ تعالیٰ تمام نقائص سے پاک ہے اور برابر ہونے سے مخلوق کے ساتھ مماثلت لازم آتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کی مماثلت کی نفی کی ہے۔ اب صرف صفت علو باقی ہے جو ذات باری تعالیٰ کے لیے ثابت ہے۔ 3۔فطرت سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اوپر ہے کیونکہ جو بھی انسان زبان سے۔ ’’اے میرے رب‘‘ کہتا ہے اس کے دل میں اوپر کا تصور موجود ہوتا ہےمحمد طاہر مقدسی بیان کرتے ہیں کہ شیخ ابو جعفر ہمدانی امام الحرمین ابو العالی الجوینی کی مجلس میں حاضر ہوئے۔ جو ان کے استاد بھی ہیں جبکہ امام الحرمین صفت علو کی نفی میں دلائل دے رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت بھی تھا جب عرش و مکان پیدا نہیں ہوئے تھے اب اللہ تعالیٰ وہیں ہے جہاں کون و مکان اور عرش و فرش کی پیدائش سے پہلے تھا اس پر شیخ ابو جعفر نے اعتراض کیا کہ آپ ہمیں بتائیں ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے متعلق ایک داعیہ اور خواہش موجود ہوتی ہے۔ جب بھی کوئی عارف اور زاہد "یااللہ" کہتا ہے تو اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی جانب ایک خواہش وہ دائیں بائیں نہیں جھانکتا بلکہ اس کی توجہ اوپر کی طرف ہوتی ہے ہم کبھی بھی اس داعیے اور خواہش کو ختم نہیں کر سکتے۔ امام الحرمین نے جب ابو جعفر ہمدانی کی یہ بات سنی تو اپنا سر پیٹنے ہوئے چیخنے لگے اور یہ کہتے ہوئے منیر سے نیچے اتر آئے کہ آج مجھے ہمدانی نے حیران کر دیا ہے یعنی ہمدانی کی بات فطرت کے عین مطابق ہے۔ (شرح العقیدة الطحاویة ص:370) بہرحال قرآن کریم احادیث عقل اور فطرت سے یہ بات ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اوپر ہے اور صفت علو سے متصف ہے۔ واللہ المستعان۔
اور اللہ تعالیٰ کا (سورۃ فاطر میں) فرمان «إليه يصعد الكلم الطيب» اس کی طرف پاکیزہ کلمے چڑھتے ہیں اور ابوحمزہ نے بیان کیا، ان سے ابن عباس ؓ نے کہ ابوذر ؓکو جب نبی کریم ﷺ کے بعثت کی خبر ملی تو انہوں نے اپنے بھائی سے کہا کہ مجھے اس شخص کی خبر لا کر دو جو کہتا ہے کہ اس کے پاس آسمان سے وحی آتی ہے۔ اور مجاہد نے کہا نیک عمل پاکیزہ کلمے کو اٹھا لیتا ہے۔ (اللہ تک پہنچا دیتا ہے) «ذي المعارج» سے مراد فرشتے ہیں جو آسمان کی طرف چڑھتے ہیں۔ تشریح اس باب میں امام بخاری نےاللہ جل جلالہ کےعلو اورفوقیت کےاثبات کےدلائل بیان کیے ہیں۔اہل حدیث کااس پر اتقاق ہےکہ اللہ تعالی جہت فوق میں ہےاور اللہ کو اوپر سمجھنا یہ انسان کی فطرت میں داخل ہے۔جاہل سےجاہل سے شخص جب مصیبت کے وقت فریاد کرتاہے تومنہ اوپر اٹھا کرفریاد کرتاہےمگر جہمیہ اورانکے اتباع نےبرخلاف شریعت وبرخلاف فطرت انسانی فوقیت رحمانی کاانکار کیا ہے۔چنانچہ منقول ہےکہ جہم نماز میں بھی بجائے سبحان ربی الاعلیٰ کےسبحان ربی الاسفل کہاکرتا لعنتہ اللہ علیہ۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے اپنی پاکیزہ کمائی سے ایک کجھور کے برابر صدقہ کیا جبکہ اللہ تعالیٰ تک پاکیزہ خیرات ہی پہنچتی ہے، اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے قبول کرتا ہے، پھر وہ اسے صدقہ کرنے والے کے لیے اس طرح بڑھاتا ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی گھوڑی کے بچے کی پرورش کرتا ہے یہاں تک کہ وہ کھجور پہاڑ کے برابر ہو جاتی ہے۔“ یہ حدیث ورقاء نے عبداللہ بن دینار سے انہوں نے سعید بن یسار سے انہوں نے سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے، انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کی ہے: ”اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہی خیرات چڑھتی ہے جو حلال کمائی سے ہو۔“
حدیث حاشیہ:
1۔یہ حدیث پہلے بھی بیان ہو چکی ہے جس کہ الفاظ یہ ہیں۔ ’’اللہ تعالیٰ صرف پاکیزہ چیز کو قبول کرتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري: الزکاة: حدیث: 1410) اس کا مطلب یہ ہے کہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازتا ہے وہی اوپر چڑھتی ہے۔ اس کی وجہ سے اس میں برکت دی جاتی ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں کئی گناہ بڑھا دیا جاتا ہے۔ 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی جملے سے اپنا مدعا ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اوپر ہے اور صفت علو سے متصف ہے کیونکہ علو صفت کمال ہے لہٰذا یہ ضروری ہے۔ کہ معنوی طور پر یہ صفت اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت ہو۔ اللہ تعالیٰ ہی تمام صفات کمال سے متصف ہے۔ عقل کا بھی یہی تقاضا ہے کیونکہ عقلی اعتبار سے تین ہی صورتیں ممکن ہیں یعنی اللہ تعالیٰ اوپر ہوگا یا نیچے یا برابر۔ نیچے اور برابر ہونا ممتنع ہے کیونکہ نیچے ہونے میں معنوی نقص ہےاور اللہ تعالیٰ تمام نقائص سے پاک ہے اور برابر ہونے سے مخلوق کے ساتھ مماثلت لازم آتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کی مماثلت کی نفی کی ہے۔ اب صرف صفت علو باقی ہے جو ذات باری تعالیٰ کے لیے ثابت ہے۔ 3۔فطرت سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اوپر ہے کیونکہ جو بھی انسان زبان سے۔ ’’اے میرے رب‘‘ کہتا ہے اس کے دل میں اوپر کا تصور موجود ہوتا ہےمحمد طاہر مقدسی بیان کرتے ہیں کہ شیخ ابو جعفر ہمدانی امام الحرمین ابو العالی الجوینی کی مجلس میں حاضر ہوئے۔ جو ان کے استاد بھی ہیں جبکہ امام الحرمین صفت علو کی نفی میں دلائل دے رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت بھی تھا جب عرش و مکان پیدا نہیں ہوئے تھے اب اللہ تعالیٰ وہیں ہے جہاں کون و مکان اور عرش و فرش کی پیدائش سے پہلے تھا اس پر شیخ ابو جعفر نے اعتراض کیا کہ آپ ہمیں بتائیں ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے متعلق ایک داعیہ اور خواہش موجود ہوتی ہے۔ جب بھی کوئی عارف اور زاہد "یااللہ" کہتا ہے تو اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی جانب ایک خواہش وہ دائیں بائیں نہیں جھانکتا بلکہ اس کی توجہ اوپر کی طرف ہوتی ہے ہم کبھی بھی اس داعیے اور خواہش کو ختم نہیں کر سکتے۔ امام الحرمین نے جب ابو جعفر ہمدانی کی یہ بات سنی تو اپنا سر پیٹنے ہوئے چیخنے لگے اور یہ کہتے ہوئے منیر سے نیچے اتر آئے کہ آج مجھے ہمدانی نے حیران کر دیا ہے یعنی ہمدانی کی بات فطرت کے عین مطابق ہے۔ (شرح العقیدة الطحاویة ص:370) بہرحال قرآن کریم احادیث عقل اور فطرت سے یہ بات ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اوپر ہے اور صفت علو سے متصف ہے۔ واللہ المستعان۔
ترجمۃ الباب:
ابو جمرہ نے سیدنا ابن عباسؓ سے روایت کرتے ہوئے کہا: سیدنا ابو ذرؓ کو نبی ﷺ کے مبعوث ہونے کی خبر ملی تو انہوں نے اپنے بھائی سے کہا: جاؤ اس آدمی کی خطر لاؤ جو کہتا ہے کہ اس کے پاس آسمان سے خبریں آتی ہیں¤ امام مجاہد نے کہا: نیک اعمال،پاکیزہ کلمات کو اٹھا لیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ”ذی المعارج“ سے مراد فرشتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف چڑھتے ہیں¤
٭فائدہ: اس حدیث میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر ہے ،وہاں سے وحی کی خبریں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی تھیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی تعلیم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عقیدہ اوپر ہونے ہی کا تھا
حدیث ترجمہ:
اور خالد بن مخلد نے بیان کیا، ان سے سلیمان نے بیان کیا ان سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر بھی خیرات کی اور اللہ تک حلال کمائی ہی کی خیرات پہنچتی ہے، تو اللہ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے قبول کر لیتا ہے اور خیرات کرنے والے کے لیے اسے اس طرح بڑھاتا رہتا ہے جیسے کوئی تم میں سے اپنے بچھیرے کی پرورش کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ پہاڑ کے برابر ہو جاتی ہے۔ اور ورقاء نے اس حدیث کو عبداللہ بن دینار سے روایت کیا، انہوں نے سعید بن یسار سے، انہوں نے ابوہریرہ ؓ سے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے، اس میں بھی یہ فقرہ ہے کہ اللہ کی طرف وہی خیرات چڑھتی ہے جو حلال کمائی میں سے ہو۔
حدیث حاشیہ:
ا س کو امام بیہفی نے وصل کیا ہے۔ امام بخاری کی غرض اس سند کےلانے سے یہ ہے کہ ورقاء اورسلیمان دونوں کی روایت میں اتنا اختلاف ہےکہ ورقاء اپنا شیخ الشیخ سعید بن یسار کوبیا ن کرتا ہےاور سلیمان ابوصالح کو، باقی سب باتوں میں اتفاق ہے کہ اللہ کی طرف پاک چیز ہی جاتی ہے۔ اللہ کےلیے دائیں ہاتھ کا اثبات بھی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said, "If somebody gives in charity something equal to a date from his honestly earned money ----for nothing ascends to Allah except good---- then Allah will take it in His Right (Hand) and bring it up for its owner as anyone of you brings up a baby horse, till it becomes like a mountain." Abu Hurairah (RA) said: The Prophet. said, "Nothing ascends to Allah except good."