کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ قیامت میں ) ارشاد اس دن بعض چہرے تروتازہ ہوں گے ، وہ اپنے رب کو دیکھنے والے ہوں گے ، یا دیکھ رہے ہوں گے
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “Some faces that Day shall be Nadirah. Looking at their Lord.”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7445.
سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: ”جس نے جھوٹی قسم اٹھا کر کسی مسلمان کا مال ہتھیا لیا تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملاقات کرے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہو گا۔“ سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا: اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے تصدیق کے طور پر درج ذیل آیت کریمہ تلاوت فرمائی: ’’بے شک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی سی قیمت کے عوض فروخت کردیتے ہیں تو ایسے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں قیامت کے دن اللہ تعالٰی ایسے لوگوں سے کلام نہں کرے گا۔۔۔۔۔“
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صفات کے متعلق چوتھا مسئلہ ثابت کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے۔وہ مسئلہ اہل ایمان کے لیے قیامت کے دن روئیت باری تعالیٰ(اللہ تعالیٰ کا دیدارکرنا) ہے۔سلف صالحین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار صرف اہل ایمان کو نصیب ہوگا جبکہ کفار اس سعادت سے محروم ہوں گے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:"ہرگز نہیں،بلاشبہ وہ(کافر) اس دن اپنے رب(کے دیدار) سے یقیناً اوٹ میں رکھے(روکے) جائیں گے۔"(المطففین 83/15) فاجر قسم کے لوگوں کا اللہ تعالیٰ کے دیدار سے محروم ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ وہاں نیک لوگ اللہ تعالیٰ کے دیدار سے شرف یاب ہوں گے۔بصورت دیگر فریقین میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔حدیث میں ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تم قیامت کے دن اپنے رب کو کھلی آنکھ سے دیکھو گے۔(صحیح البخاری التوحید حدیث 7435)واضح رہے کہ اہل ایمان کو دیدار الٰہی کی یہ سعادت قیامت کے مختلف مراحل اور جنت میں داخلے کے بعد حاصل ہوگی،نیز اہل ایمان کا اپنے رب کریم کو دیکھنا حقیقی ہوگا،البتہ ہم اس کی کیفیت نہیں جانتے۔اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق جیسے اللہ تعالیٰ چاہے گا اس کے مطابق ہوگا۔کچھ لوگ ،یعنی حطلہ اور معتزلہ اس دیدار حقیقی کے منکر ہیں۔وہ اس روئیت سے اللہ تعالیٰ کے ثواب کی روئیت مراد لیتے ہیں یا یہ تاویل کرتے ہیں کہ اس سے مراد روئیت علم ویقین ہے،حالانکہ یہ قول کتاب وسنت کی ظاہر نصوص کی خلاف ہے،نیز علم ویقین تو نیک لوگوں کو دنیا ہی میں حاصل ہے اور کفارکو بھی حاصل ہوجائے گا۔واللہ اعلم۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: ”جس نے جھوٹی قسم اٹھا کر کسی مسلمان کا مال ہتھیا لیا تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملاقات کرے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہو گا۔“ سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا: اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے تصدیق کے طور پر درج ذیل آیت کریمہ تلاوت فرمائی: ’’بے شک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی سی قیمت کے عوض فروخت کردیتے ہیں تو ایسے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں قیامت کے دن اللہ تعالٰی ایسے لوگوں سے کلام نہں کرے گا۔۔۔۔۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالملک بن اعین اور جامع بن ابی راشد نے، ان سے ابووائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے کسی مسلمان کا مال جھوٹی قسم کھا کر مار لیا تو وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر غضبناک ہو گا۔ عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا کہ پھر نبی کریم ﷺ نے تصدیقاً قرآن مجید کی اس آیت کی تلاوت کی بلاشبہ جو لوگ اللہ کے عہد اور اس کی قسموں کو تھوڑی پونجی کے بدلے بیچتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور اللہ ان سے بات نہیں کرے گا۔ آخر آیت تک۔ (سورۂ آل عمران)
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "Whoever takes the property of a Muslim by taking a false oath, will meet Allah Who will be angry with him." Then the Prophet (ﷺ) recited the Verse:-- 'Verily those who purchase a small gain at the cost of Allah's Covenant and their oaths, they shall have no portion in the Hereafter, neither will Allah speak to them, nor look at them.' (3.77)