کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ النحل میں ) کہ ہم تو جب کوئی چیز بنانا چاہتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں ہو جا وہ ہو جاتی ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “Verily! Our Word unto a thing when We intend it.…”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7461.
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ مسلیمہ کذاب کے پاس رکے جبکہ وہ اپنے حامیوں کے ہمراہ تھا آپ نے اس سے فرمایا: ”اگر تو مجھ سے یہ (لکڑی) کا ٹکڑا مانگے تو میں تجھے یہ بھی نہ دوں گا۔ اور تیرے متعلق اللہ کا جو حکم ہے تو اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا اور اگرتو نے (اسلام سے) روگردانی کی تو اللہ تجھے تباہ وبرباد کر دےگا۔“
تشریح:
1۔مسیلمہ کذاب نے یمامہ کے علاقے میں نبوت کا دعوی کیا اور یہ انتہائی شعبدہ باز انسان تھا۔ بہت سے لوگ اس سے متاثر ہو کر اس کے پیروکار ہو گئے۔ وہ بہت سے لوگوں کو ساتھ لے کر مدینہ طیبہ آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ اگر آپ مجھے اپنے بعد خلیفہ نامزد کر دیں تو میں اپنے ساتھیوں سمیت آپ پر ایمان لے آتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں اس وقت کھجور کی چھڑی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’خلافت تو بڑی چیز ہے میں تجھے چھڑی کا یہ ٹکڑا بھی دینے کے لیے تیار نہیں ہوں۔‘‘ (صحیح البخاري، حدیث4373) آخر کار مسیلمہ کذاب اپنے ساتھیوں کو لے کر واپس یمامہ چلا گیا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں اس کے خلاف لشکر کشی کی جس میں مسلمان غالب آئے اور اسے حضرت وحشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قتل کر کے جہنم پہنچا یا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 3620) اس حدیث میں ہے کہ اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تیرے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو فیصلہ کر رکھا ہے تو اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔‘‘ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس جملے سے عنوان ثابت کیا ہے یعنی تیرے وجود سے پہلے اللہ تعالیٰ نے تیری بد بختی اور شقاوت کا جو فیصلہ کیا ہے تو اس سے سر موانحراف نہیں کرے گا۔ اس مقام پر امراللہ سے مراد اس کا کونی اور قدری امر ہے شرعی اور تکلیفی امر مراد نہیں ہے۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان 242/2) دراصل امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس عنوان اور پیش کردہ احادیث سے معتزلہ کی تردید کرنا چاہتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا امر جو اللہ تعالیٰ کے کلام سے عبارت ہے وہ اس کا پیدا کیا ہوا ہے اگر چہ اللہ تعالیٰ نے پیش کردہ آیت کریمہ میں اس امر اور قول سے خود کو موصوف کیا ہے تاہم یہ اسلوب اور انداز سرا سر مجاز ہے حقیقت پر مبنی نہیں جبکہ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام جس سے ذات باری تعالیٰ متصف ہے وہ غیر مخلوق ہے تاہم اس کا تعلق مخلوق سے حادث ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادے پر موقوف ہے۔(عمدة القاري:856/18)
اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی صفت کلام کو ثابت فرمایا ہے۔نیز اشارہ کیا کہ ذات باری تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق ہے کیونکہ کسی چیز کو پیدا کرنے سے پہلے"کن"کہا جاتا ہے اس لیے کن اللہ تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق ہے۔ اگر یہ کلمہ بھی مخلوق ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مخلوق کو مخلوق سے پیدا کیا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ کر لینا ہی اس کا حکم دینا ہے اسے اپنی زبان سے کن لفظ ادا کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"بس اس کا حکم جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے(یہ ہوتا ہے)کہ اسے کہتاہے۔" ہوجا"تو وہ ہو جاتی ہے۔"(یٰس36۔82)اس سے معلوم ہوا کہ اس کا ارادہ ہی حکم کا درجہ رکھتا ہےاور جب وہ ارادہ کرتا ہے تو اس کی تکمیل کے لیے اسباب و ذرائع از خود ہی مہیا ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور وہ کام ہو کے رہتا ہے کوئی بھی چیز اس میں رکاوٹ نہیں بن سکتی اور جتنے عرصے میں اللہ تعالیٰ اسے و جودمیں لانا چاہتا ہے اتنےہی عرصے میں وہ وجود میں آجاتی ہے۔ نیز معلوم ہوا کہ قول اور امر دونوں سے ایک ہی چیز مراد ہے۔
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ مسلیمہ کذاب کے پاس رکے جبکہ وہ اپنے حامیوں کے ہمراہ تھا آپ نے اس سے فرمایا: ”اگر تو مجھ سے یہ (لکڑی) کا ٹکڑا مانگے تو میں تجھے یہ بھی نہ دوں گا۔ اور تیرے متعلق اللہ کا جو حکم ہے تو اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا اور اگرتو نے (اسلام سے) روگردانی کی تو اللہ تجھے تباہ وبرباد کر دےگا۔“
حدیث حاشیہ:
1۔مسیلمہ کذاب نے یمامہ کے علاقے میں نبوت کا دعوی کیا اور یہ انتہائی شعبدہ باز انسان تھا۔ بہت سے لوگ اس سے متاثر ہو کر اس کے پیروکار ہو گئے۔ وہ بہت سے لوگوں کو ساتھ لے کر مدینہ طیبہ آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ اگر آپ مجھے اپنے بعد خلیفہ نامزد کر دیں تو میں اپنے ساتھیوں سمیت آپ پر ایمان لے آتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں اس وقت کھجور کی چھڑی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’خلافت تو بڑی چیز ہے میں تجھے چھڑی کا یہ ٹکڑا بھی دینے کے لیے تیار نہیں ہوں۔‘‘ (صحیح البخاري، حدیث4373) آخر کار مسیلمہ کذاب اپنے ساتھیوں کو لے کر واپس یمامہ چلا گیا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں اس کے خلاف لشکر کشی کی جس میں مسلمان غالب آئے اور اسے حضرت وحشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قتل کر کے جہنم پہنچا یا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 3620) اس حدیث میں ہے کہ اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تیرے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو فیصلہ کر رکھا ہے تو اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔‘‘ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس جملے سے عنوان ثابت کیا ہے یعنی تیرے وجود سے پہلے اللہ تعالیٰ نے تیری بد بختی اور شقاوت کا جو فیصلہ کیا ہے تو اس سے سر موانحراف نہیں کرے گا۔ اس مقام پر امراللہ سے مراد اس کا کونی اور قدری امر ہے شرعی اور تکلیفی امر مراد نہیں ہے۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان 242/2) دراصل امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس عنوان اور پیش کردہ احادیث سے معتزلہ کی تردید کرنا چاہتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا امر جو اللہ تعالیٰ کے کلام سے عبارت ہے وہ اس کا پیدا کیا ہوا ہے اگر چہ اللہ تعالیٰ نے پیش کردہ آیت کریمہ میں اس امر اور قول سے خود کو موصوف کیا ہے تاہم یہ اسلوب اور انداز سرا سر مجاز ہے حقیقت پر مبنی نہیں جبکہ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام جس سے ذات باری تعالیٰ متصف ہے وہ غیر مخلوق ہے تاہم اس کا تعلق مخلوق سے حادث ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادے پر موقوف ہے۔(عمدة القاري:856/18)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن ابی حسین نے، کہا ہم سے نافع بن جبیر نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ مسیلمہ کے پاس رکے، وہ اپنے حامیوں کے ساتھ مدینہ میں آیا تھا اور اس سے فرمایا کہ اگر تو مجھ سے یہ لکڑی کا ٹکڑا بھی مانگے تو میں یہ بھی تجھ کو نہیں دے سکتا اور تمہارے بارے میں اللہ نے جو حکم دے رکھا ہے تو اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا اور اگر تو نے اسلام سے پیٹھ پھیری تو اللہ تجھے ہلاک کر دے گا۔
حدیث حاشیہ:
مسیلمہ کذاب نے یمامہ میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور بہت سےلوگ اس کے پیرو ہوگئے تھے۔ وہ لوگوں کو شعبدہ دکھا دکھا کر گمراہ کرتا تھا۔ وہ مدینہ آیا اور آنحضرت ﷺ سے یہ درخواست کی کہ اگر آپ اپنے بعد مجھ کوخلیفہ کر جائیں تومیں اپنے ساتھیوں کےساتھ آپ پرایمان لے آتا ہوں۔ اس وقت آ پ نے یہ حدیث فرمائی کہ خلافت تو بڑی چیز ہے میں ایک چھڑی کا ٹکڑا بھی تجھ کو نہیں دوں کا۔ آخر مسیلمہ اپنے ساتھیوں کو لے کر چلا گیا اور یمامہ کے ملک میں اس کی جماعت بہت بڑھ گئی۔ حضرت صدیق اکبر نے اپنے عہدخلافت میں اسی پر لشکر کشی کی جس میں آخر مسلمان غالب آئے اوروحشی نے اسے قتل کیا، اس کے سب ساتھی تتر بتر ہوگئے۔ حدیث میں امراللہ کا لفظ آیا ہے یہی باب سے مناسبت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA) : The Prophet (ﷺ) stood before Musailama (the liar) who was sitting with his companions then, and said to him, "If you ask me for this piece (of palm-leaf stalk), even then I would not give it to you. You cannot avoid what Allah has ordained for you, and if you turn away from Islam, Allah will surely ruin you! "