کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ الکہف میں ) ارشاد’’ کہئے کہ اگر سمندر میرے رب کے کلمات کو لکھنے کے لیے روشنائی بن جائیں تو سمندر ختم ہو جائیں گے اس سے پہلے کہ میرے رب کے کلمات ختم ہوں گو اتنا ہی ہم اور بڑھا دیں۔۔۔
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “Say: If the sea were ink for the Words of my Lord, surely the sea would be exhausted…”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور(سورۃ لقمان میں)فرمایا اور اگر زمین کے سارے درخت قلم بن جائیں اور سات سمندر روشنائی کے ہو جائیں تو بھی میرے رب کے کلمات ختم نہیں ہوں گے۔ بلاشبہ تمہارا رب ہی وہ ہے جس نے آسمان کو اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر وہ عرش پر بیٹھا وہ رات کو دن سے ڈھانپتا ہے جو ایک دوسرے کی طلب میں دوڑتے ہیں اور سورج اور چاند اور ستارے اس کے حکم کے تابع ہیں۔ آگاہ ہو جاؤ کہ خلق اور امر اسی کے لیے ہیں اللہ بابرکت ہے جو دونوں جہاں کا پالنے والا ہے۔ان آیتوں کو لا کر امام بخاری نے یہ ثابت کیا کہ امر خلق میں داخل نہیں ہے جب تو فرمایا الا لہ الخلق اور دوسری آیات اور احادیث میں کلمات سے وہی اوامر اور ارشادات مراد ہیں عرش پر اللہ کا استواء ایک حقیقت ہے جس کی کرید میں جانا بدعت اور کیفیت معلوم کرنے کی کوشش کرنا جہالت اور اسے ہو بہو تسلیم کر لینا طریقہ سلف صالحین ہے قرآن مجید کی سات آیات میں اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کا ذکر ہے وہ عرش سے ساری کائنات پر حکومت کر رہا ہے۔
7463.
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس شخص کا ضامن ہے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے۔ وہ شخص اپنے گھر میں سے اس لیے نکلتا ہے کہ خالص اللہ کے راستے میں جہاد کرے اور اس کے کلمہ توحید کی تصدیق کرے۔ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ جنت میں داخل کرے گا یا ثواب و غنیمت کے ستاھ اس کو گھر واپس کرے گا۔“
تشریح:
1۔اس حدیث میں کلمے سے مراد کلمہ طیبہ ہے جس کی تصدیق کرنا ایمان کی اولین بنیاد ہے دل سے تصدیق کرنا زبان سے اقرارکرنا اور عمل سے اس کا ثبوت دینا انتہائی ضروری ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے اللہ تعالیٰ کے لیے صفت کلام ثابت کی ہے اور بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلمات غیر محدود اور غیر مخلوق ہیں۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات کا کوئی احاطہ نہیں کر سکتا ایسے ہی اس کے کلمات اور اس کی صفات کا احاطہ کرنا بھی نا ممکن ہے۔ اس کے کلمات خواہ دینیہ شرعیہ ہوں یا کونیہ قدریہ ہوں دونوں قسمیں ہی اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں اور غیر مخلوق ہیں ۔ 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کائنات کی ہر چیز مخلوق ہے لیکن قرآن کریم مخلوق نہیں۔ اللہ کا کلام اس کی مخلوق سے کہیں بڑھ کر عظیم القدر ہے کیونکہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرے تو کلمہ کن کہنے سے چیز وجود میں آجاتی ہے جس چیز سے کوئی چیز وجود میں آئے وہ یقیناً بہت بڑی اور عظیم الشان ہو گی اور قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اس لیے وہ بھی غیر مخلوق ہے۔(خلق أفعال العباد ص:34) بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ آیات اور پیش کردہ احادیث سے ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلمات غیر محدود اور لا متناہی ہیں۔ اور کلام الٰہی غیر مخلوق ہے کیونکہ ان کلمات سے مخلوق کو معرض دجود میں لایا جاتا ہے۔ اگر یہ بھی مخلوق ہوں تو مخلوق سے مخلوق کو پیدا کرنا لازم آتا ہے۔ واللہ أعلم۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت بھی اللہ تعالیٰ کے لیے صفت کلام ثابت کی ہے نیز بتایا ہے کہ کلام الٰہی غیر مخلوق ہے اس سلسلے میں تین آیات کا حوالہ دیا ہے۔ پہلی وہ آیات کی شان نزول یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا:"تمھیں بہت کم علم دیا گیا ہے۔"تو یہودیوں نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے حالانکہ ہمیں تورات دی گئی ہے اس میں ہر شے کا علم ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائیں کہ اگر تمام سمندر سیاہی بن جائیں اور درخت قلم بن جائیں اور اللہ کے کلمات لکھنے کے لیے تمام لوگ بیٹھ جائیں تو اللہ کے کلمات ختم نہیں ہو ں گے۔ اللہ تعالیٰ کے کلمات کی کوئی انتہا نہیں کیونکہ یہ ذات الٰہی کی صفت ہیں جس طرح اس کی ذات غیر متناہی ہے اسی طرح کی صفات کی انتہا بھی نا ممکن ہے سمندر یا سمندروں کا پانی خواہ کتنا ہی کثیر مقدار میں ہو بہر حال اس کی ایک حد ہے اور ایک محدود چیز سے کیا مقابلہ ہو سکتا ہے۔اس بنا پر سمندروں کی سیاہی تو ختم ہو سکتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے کلمات ختم نہیں ہو سکتے۔ پہلی دو آیات سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ثابت کیا ہے کہ کلام اللہ غیر مخلوق ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفت ہے کیونکہ مخلوق کی کوئی انتہا ہوتی ہے وہاں جا کردہ ختم ہو جاتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کے کلمات کی کوئی انتہا نہیں اور انھوں نے ختم نہیں ہونا۔اسی طرح تیسری آیت میں خلق اور امر کو الگ الگ بیان کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کلام خلق کے علاوہ ہے کیونکہ عربی قاعدے کے مطابق معطوف اور معطوف علیہ ایک دوسرے کے غیرہوتے ہیں اس سے مقصود معتزلہ کی تردید ہے جو کلام اللہ کو مخلوق کہتے ہیں ۔ آئندہ ابواب میں اسی مسئلے کو بیان کیا جائے گا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلے کو اپنے رسالے خلق افعال العباد میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔
اور (سورۃ لقمان میں) فرمایا اور اگر زمین کے سارے درخت قلم بن جائیں اور سات سمندر روشنائی کے ہو جائیں تو بھی میرے رب کے کلمات ختم نہیں ہوں گے۔ بلاشبہ تمہارا رب ہی وہ ہے جس نے آسمان کو اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر وہ عرش پر بیٹھا وہ رات کو دن سے ڈھانپتا ہے جو ایک دوسرے کی طلب میں دوڑتے ہیں اور سورج اور چاند اور ستارے اس کے حکم کے تابع ہیں۔ آگاہ ہو جاؤ کہ خلق اور امر اسی کے لیے ہیں اللہ بابرکت ہے جو دونوں جہاں کا پالنے والا ہے۔ان آیتوں کو لا کر امام بخاری نے یہ ثابت کیا کہ امر خلق میں داخل نہیں ہے جب تو فرمایا الا لہ الخلق اور دوسری آیات اور احادیث میں کلمات سے وہی اوامر اور ارشادات مراد ہیں عرش پر اللہ کا استواء ایک حقیقت ہے جس کی کرید میں جانا بدعت اور کیفیت معلوم کرنے کی کوشش کرنا جہالت اور اسے ہو بہو تسلیم کر لینا طریقہ سلف صالحین ہے قرآن مجید کی سات آیات میں اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کا ذکر ہے وہ عرش سے ساری کائنات پر حکومت کر رہا ہے۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس شخص کا ضامن ہے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے۔ وہ شخص اپنے گھر میں سے اس لیے نکلتا ہے کہ خالص اللہ کے راستے میں جہاد کرے اور اس کے کلمہ توحید کی تصدیق کرے۔ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ جنت میں داخل کرے گا یا ثواب و غنیمت کے ستاھ اس کو گھر واپس کرے گا۔“
حدیث حاشیہ:
1۔اس حدیث میں کلمے سے مراد کلمہ طیبہ ہے جس کی تصدیق کرنا ایمان کی اولین بنیاد ہے دل سے تصدیق کرنا زبان سے اقرارکرنا اور عمل سے اس کا ثبوت دینا انتہائی ضروری ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے اللہ تعالیٰ کے لیے صفت کلام ثابت کی ہے اور بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلمات غیر محدود اور غیر مخلوق ہیں۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات کا کوئی احاطہ نہیں کر سکتا ایسے ہی اس کے کلمات اور اس کی صفات کا احاطہ کرنا بھی نا ممکن ہے۔ اس کے کلمات خواہ دینیہ شرعیہ ہوں یا کونیہ قدریہ ہوں دونوں قسمیں ہی اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں اور غیر مخلوق ہیں ۔ 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کائنات کی ہر چیز مخلوق ہے لیکن قرآن کریم مخلوق نہیں۔ اللہ کا کلام اس کی مخلوق سے کہیں بڑھ کر عظیم القدر ہے کیونکہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرے تو کلمہ کن کہنے سے چیز وجود میں آجاتی ہے جس چیز سے کوئی چیز وجود میں آئے وہ یقیناً بہت بڑی اور عظیم الشان ہو گی اور قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اس لیے وہ بھی غیر مخلوق ہے۔(خلق أفعال العباد ص:34) بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ آیات اور پیش کردہ احادیث سے ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلمات غیر محدود اور لا متناہی ہیں۔ اور کلام الٰہی غیر مخلوق ہے کیونکہ ان کلمات سے مخلوق کو معرض دجود میں لایا جاتا ہے۔ اگر یہ بھی مخلوق ہوں تو مخلوق سے مخلوق کو پیدا کرنا لازم آتا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
نیز ”زمین پر جتنے درخت ہیں اگر وہ سب قلمیں بن جائیں اور سمندر سیاہی بن جائے ،پھر اس کے بعد سات سمندر بھی ہوں تو بھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں گی۔“ نیز ”یقیناً تمہارا رب وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر اپنے عرش پر مستوی ہوا، وہ رات سے دن کو ڈھانپتا ہے۔“ کا بیان
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابوالزناد نے، انہیں اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا اور اپنے گھر سے صرف اس غرض سے نکلا کہ خالص اللہ کے راستے میں جہاد کرے اور اس کے کلمہ توحید کی تصدیق کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی ضمانت لے لیتا ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے گا یا پھر ثواب اور غنیمت کے ساتھ اس کے گھر واپس کرے گا۔
حدیث حاشیہ:
کلمہ سے کلمہ طیبہ مراد ہے جس کی تصدیق کرنا ایمان کی اولین بنیاد ہے۔ جس کی دل سےتصدیق کرنا ’زبان سے اس کا اقرار کرنا اورعمل سےاس کا ثبوت دینا ضروری ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said, "Allah guarantees (the person who carries out Jihad in His Cause and nothing compelled him to go out but Jihad in His Cause and the belief in His Word) that He will either admit him into Paradise (Martyrdom) or return him with reward or booty he has earned to his residence from where he went out."