کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: مشیت اور ارادہ خداوندی کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: (Allah’s) Wish and Will)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ نے(سورۃ انفطرت میں)فرمایا”تم کچھ نہیں چاہ سکتے جب تک اللہ نہ چاہے“اور(سورۃ آل عمران میں)فرمایا کہ”وہ اللہ جسے چاہتا ہے ملک دیتا ہے“اور(سورۃ الکہف میں)فرمایا”اور تم کسی چیز کے متعلق یہ نہ کہو کہ میں کل یہ کام کرنے والا ہوں مگر یہ کہ اللہ چاہے“اور(سورۃ قصص میں)فرمایا کہ”آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے، البتہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے“سعید بن مسیب نے اپنے والد سے کہا کہ جناب ابوطالب کے بارے میں یہ آیت مذکورہ نازل ہوئی۔ اور(سورۃ البقرہ میں)فرمایا کہ”اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے اور تمہارے ساتھ تنگی نہیں چاہتا۔‘‘ تشریح:اس باب کو لانے سے امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ مشیت اور ارادہ دونوں ثابت کریں کیونکہ دونوں ایک ہی ہیں جب کہ آیت قرآنی لما فعال لما یرید اور فعل اللہ مایشاء سے ثابت ہوتا ہے مذکورہ آیات سے مشیت الٰہی اور ارادہ دونوں کو ایک ہی ثابت کیا گیا ہے۔
7467.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ منبر پر کھڑے فرما رہے تھے: تمہارا زمانہ امتوں کے مقابلے میں ایسا ہے جیسا کہ نماز عصر سے غروب آفتاب تک کا وقت ہے۔ اہل تورات کو تورات دی گئی اور انہوں نے اس پر عمل کیا یہاں تک کہ آدھا دن گزر گیا، پھر وہ عاجز آگئے۔ انہیں ایک ایک قیراط اجرت دی گئی۔ پھر انجیل والوں کو انجییل دی گئی۔ انہوں نے اس پر عصر کی نماز تک عمل کیا۔ پھر وہ اس پر عمل سے عاجز آگئے تو انہیں بھی ایک ایک قیراط دے دیا گیا۔ اس کے بعد تمہیں قرآن دیا گیا اور تم نے اس پر غروب آفتاب تک عمل کیا تو تمہیں دو دو قیراط دیے گئے۔ اہل تورات نے کہا: اے ہمارے رب! ان لوگوں نے کام تھوڑا کیا لیکن اجرت زیادہ پائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نےفرمایا: میں نے تمہاری اجرت زیادہ پائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”میں نے تمہاری اجرت میں کوئی کمی کی ہے؟“ انہوں نے کہا نہیں: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”یہ تو میرا فضل ہے میں جس پر چاہتا ہوں کرتا ہوں۔“
تشریح:
1۔قیراط ایک مقررہ حصے کا نام ہے جو نصف دانق اور موجودہ اعشاری نظام کے مطابق 1.255 ملی گرام کے برابر ہوتا ہے۔ بعض اوقات قیراط سے کثیر مقدار بھی مراد لی جاتی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ جس نے جنازے میں شرکت کی اسے ایک قیراط اور جو دفن کرنے تک ساتھ رہا اسے دو قیراط ملیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ دو قیراط کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیراط بڑے بڑے دو پہاڑوں کے برابر ہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1325) اس حدیث کے آخر میں ہے کہ میں جس پر چاہتا ہوں اپنا فضل کرتا ہوں۔ 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے اس حصے سے عنوان ثابت کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت نافذ ہو کر رہتی ہے۔ یہ کسی عرف یا قاعدے کی محتاج نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور جو نہیں چا ہتا وہ نہیں ہوتا لیکن معتزلہ اور ان کے ہم مسلک اللہ تعالیٰ پر اپنے عقلی فیصلے ٹھونسنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو ایسا کرنا چاہیے اللہ تعالیٰ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے یعنی اللہ تعالیٰ کو چاہیے کہ وہ گناہ گار کو سزا دے اور فرمانبردار کو جزا دے۔ حالانکہ یہ تمام باتیں اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہیں۔ وہ چاہے تو ایک نیک اور پارسا عورت کو بلا وجہ گھر میں بلی باندھنے کی وجہ سے جہنم میں بھیج دے اور اگر چاہے تو ایک بدکار عورت کو محض کتے کو پانی پلانے کی وجہ سے معاف کر دے اور جنت کا پروانہ عطا کر دے۔ بہر حال اللہ تعالیٰ کی مشیت تمام عالم رنگ و بو میں کار فرما ہے۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے اسے کوئی روکنے یا عاجز کرنے والا نہیں ہے۔
اور اللہ نے (سورۃ انفطرت میں) فرمایا ”تم کچھ نہیں چاہ سکتے جب تک اللہ نہ چاہے“ اور (سورۃ آل عمران میں) فرمایا کہ ”وہ اللہ جسے چاہتا ہے ملک دیتا ہے“ اور (سورۃ الکہف میں) فرمایا”اور تم کسی چیز کے متعلق یہ نہ کہو کہ میں کل یہ کام کرنے والا ہوں مگر یہ کہ اللہ چاہے“ اور (سورۃ قصص میں) فرمایا کہ ”آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے، البتہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے“ سعید بن مسیب نے اپنے والد سے کہا کہ جناب ابوطالب کے بارے میں یہ آیت مذکورہ نازل ہوئی۔ اور (سورۃ البقرہ میں) فرمایا کہ ”اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے اور تمہارے ساتھ تنگی نہیں چاہتا۔‘‘ تشریح:اس باب کو لانے سے امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ مشیت اور ارادہ دونوں ثابت کریں کیونکہ دونوں ایک ہی ہیں جب کہ آیت قرآنی لما فعال لما یرید اور فعل اللہ مایشاء سے ثابت ہوتا ہے مذکورہ آیات سے مشیت الٰہی اور ارادہ دونوں کو ایک ہی ثابت کیا گیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ منبر پر کھڑے فرما رہے تھے: تمہارا زمانہ امتوں کے مقابلے میں ایسا ہے جیسا کہ نماز عصر سے غروب آفتاب تک کا وقت ہے۔ اہل تورات کو تورات دی گئی اور انہوں نے اس پر عمل کیا یہاں تک کہ آدھا دن گزر گیا، پھر وہ عاجز آگئے۔ انہیں ایک ایک قیراط اجرت دی گئی۔ پھر انجیل والوں کو انجییل دی گئی۔ انہوں نے اس پر عصر کی نماز تک عمل کیا۔ پھر وہ اس پر عمل سے عاجز آگئے تو انہیں بھی ایک ایک قیراط دے دیا گیا۔ اس کے بعد تمہیں قرآن دیا گیا اور تم نے اس پر غروب آفتاب تک عمل کیا تو تمہیں دو دو قیراط دیے گئے۔ اہل تورات نے کہا: اے ہمارے رب! ان لوگوں نے کام تھوڑا کیا لیکن اجرت زیادہ پائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نےفرمایا: میں نے تمہاری اجرت زیادہ پائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”میں نے تمہاری اجرت میں کوئی کمی کی ہے؟“ انہوں نے کہا نہیں: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”یہ تو میرا فضل ہے میں جس پر چاہتا ہوں کرتا ہوں۔“
حدیث حاشیہ:
1۔قیراط ایک مقررہ حصے کا نام ہے جو نصف دانق اور موجودہ اعشاری نظام کے مطابق 1.255 ملی گرام کے برابر ہوتا ہے۔ بعض اوقات قیراط سے کثیر مقدار بھی مراد لی جاتی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ جس نے جنازے میں شرکت کی اسے ایک قیراط اور جو دفن کرنے تک ساتھ رہا اسے دو قیراط ملیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ دو قیراط کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیراط بڑے بڑے دو پہاڑوں کے برابر ہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1325) اس حدیث کے آخر میں ہے کہ میں جس پر چاہتا ہوں اپنا فضل کرتا ہوں۔ 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے اس حصے سے عنوان ثابت کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت نافذ ہو کر رہتی ہے۔ یہ کسی عرف یا قاعدے کی محتاج نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور جو نہیں چا ہتا وہ نہیں ہوتا لیکن معتزلہ اور ان کے ہم مسلک اللہ تعالیٰ پر اپنے عقلی فیصلے ٹھونسنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو ایسا کرنا چاہیے اللہ تعالیٰ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے یعنی اللہ تعالیٰ کو چاہیے کہ وہ گناہ گار کو سزا دے اور فرمانبردار کو جزا دے۔ حالانکہ یہ تمام باتیں اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہیں۔ وہ چاہے تو ایک نیک اور پارسا عورت کو بلا وجہ گھر میں بلی باندھنے کی وجہ سے جہنم میں بھیج دے اور اگر چاہے تو ایک بدکار عورت کو محض کتے کو پانی پلانے کی وجہ سے معاف کر دے اور جنت کا پروانہ عطا کر دے۔ بہر حال اللہ تعالیٰ کی مشیت تمام عالم رنگ و بو میں کار فرما ہے۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے اسے کوئی روکنے یا عاجز کرنے والا نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”تو جسے چاہے بادشاہی دیتا ہے۔“ ”اور تم وہی کچھ چاہ سکتے ہو جو اللہ چاہے۔“ ”کسی چیز کے متعلق کبھی یہ نہ کہنا کہ میں کل یہ ضرور کروں گا مگر یہ کہ اللہ چاہے۔“ ”(اے نبی!) بے شک آپ ہدایت نہیں دے سکتے جسے آپ چاہیں بلکہ اللہ ہی ہدایت دیتا ہے جس کو چاہے۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے حکم بن نافع نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، کہا مجھ کو سالم بن عبداللہ نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ منبر پر کھڑے فرما رہے تھے کہ تمہارا زمانہ گزشتہ امتوں کے مقابلہ میں ایسا ہے جیسے عصر سے سورج ڈوبنے تک کا وقت ہوتا ہے۔ توریت والوں کو توریت دی گئی اور انہوں نے اس پر عمل کیا، یہاں تک کہ دن آدھا ہو گیا۔ پھر وہ عاجز ہو گئے تو انہیں اس کے بدلے میں ایک قیراط دیا گیا۔ پھر اہل انجیل کو انجیل دی گئی تو انہوں نے اس پر عصر کی نماز کے وقت تک عمل کیا اور پھر وہ عمل سے عاجز آ گئے تو انہیں بھی ایک ایک قیراط دیا گیا۔ پھر تمہیں قرآن دیا گیا اور تم نے اس پر سورج ڈوبنے تک عمل کیا اور تمہیں اس کے بدلے میں دو دو قیراط دئیے گئے۔ اہل توریت نے اس پر کہا کہ اے ہمارے رب! یہ لوگ مسلمان سب سے کم کام کرنے والے اور سب سے زیادہ اجر پانے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر فرمایا کہ کیا میں نے تمہیں اجر دینے میں کوئی ناانصافی کی ہے؟ وہ بولے کہ نہیں! تو اللہ تعالیٰ فرمایا کہ یہ تو میرا فضل ہے، میں جس پر چاہتا ہوں کرتا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
اس رویت میں اتنا ہے کہ توراۃ والوں نے یہ کہا اور ان کا وقت مسلمانوں کے وقت سے زیادہ ہونے میں کچھ شبہ نہیں جس روایت میں ہے کہ یہود اورنصاریٰ دونوں نے یہ کہا اس سے حنفیہ نے دلیل لی ہے کہ عصر کی نماز کا وقت دو مثل سایہ سے شروع ہوتا ہے مگر یہ استدلال صحیح نہیں ہے اور اس روایت کے الفاظ پر تو اس استدلال کا کوئی محل ہی نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar (RA) : I heard Allah's Apostle (ﷺ) while he was standing on the pulpit, saying, "The remaining period of your stay (on the earth) in comparison to the nations before you, is like the period between the 'Asr prayer and sunset. The people of the Torah were given the Torah and they acted upon it till midday, and then they were worn out and were given for their labor, one Qirat each. Then the people of the Gospel were given the Gospel and they acted upon it till the time of the 'Asr prayer, and then they were worn out and were given (for their labor), one Qirat each. Then you people were given the Qur'an and you acted upon it till sunset and so you were given two Qirats each (double the reward of the previous nations)." Then the people of the Torah said, 'O our Lord! These people have done a little labor (much less than we) but have taken a greater reward.' Allah said, 'Have I withheld anything from your reward?' They said, 'No.' Then Allah said, 'That is My Favor which I bestow on whom I wish.' "