کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: مشیت اور ارادہ خداوندی کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: (Allah’s) Wish and Will)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ نے(سورۃ انفطرت میں)فرمایا”تم کچھ نہیں چاہ سکتے جب تک اللہ نہ چاہے“اور(سورۃ آل عمران میں)فرمایا کہ”وہ اللہ جسے چاہتا ہے ملک دیتا ہے“اور(سورۃ الکہف میں)فرمایا”اور تم کسی چیز کے متعلق یہ نہ کہو کہ میں کل یہ کام کرنے والا ہوں مگر یہ کہ اللہ چاہے“اور(سورۃ قصص میں)فرمایا کہ”آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے، البتہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے“سعید بن مسیب نے اپنے والد سے کہا کہ جناب ابوطالب کے بارے میں یہ آیت مذکورہ نازل ہوئی۔ اور(سورۃ البقرہ میں)فرمایا کہ”اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے اور تمہارے ساتھ تنگی نہیں چاہتا۔‘‘ تشریح:اس باب کو لانے سے امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ مشیت اور ارادہ دونوں ثابت کریں کیونکہ دونوں ایک ہی ہیں جب کہ آیت قرآنی لما فعال لما یرید اور فعل اللہ مایشاء سے ثابت ہوتا ہے مذکورہ آیات سے مشیت الٰہی اور ارادہ دونوں کو ایک ہی ثابت کیا گیا ہے۔
7478.
سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے وہ اور حر بن قیس بن حصن فزاری ؓ سیدنا موسیٰ ؑ کے ساتھی کے متعلق اختلاف کر رہے تھے کہ کیا وہ سیدنا خضر ؑ ہی تھے؟ اتنے میں سیدنا ابی بن کعب ؓ کا ادھر سے گزر ہوا تو تو سیدنا ابن عباس ؓ نے انہیں بلایا اور کہا: میں اور میرا یہ ساتھی شک میں مبتلا ہیں کہ موسیٰ ؑ کے وہ ”صاحب“ کون تھے جن سے ملاقت کے لیے سیدنا موسیٰ ؑ نے راستہ پوچھا تھا؟ کیا آپ نے رسول اللہﷺ سے اس سلسلے میں کوئی حدیث سنی ہے؟ انہوں نےکہا: ہاں، میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے، آپ نے فرمایا: موسیٰ ؑ بنی اسرائیل کے ایک مجمع میں تھے کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے پوچھا: کیا آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جو آپ سے زیادہ علم رکھتا ہو؟ سیدنا موسیٰ ؑ نے جواب دیا نہیں۔ پھر ان پر وحی نازل ہوئی ۔ کیوں نہیں بلکہ ہمارا بندہ خضر ہے۔ سیدنا موسیٰ ؑ نے ان کی ملاقات کا راستہ پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ایک مچھلی کو گم پاؤ تو وآپس لوٹ آنا، وہیں ان سے ملاقات ہوگی۔ اس کے بعد سیدنا ؑ سمندر کے کنارے مچھلی کا نشان تلاش کرتے رہے، موسیٰ ؑ کے خادم نے کہا: آاپ کو معلوم جہاں ہم نے چٹان کے سائے میں آرام کیا تھا، میں مچھلی وہاں بھول گیا ہوں اور اسے یاد کرنے سے مجھے شیطان نے غافل کر دیا تھا۔ سیدنا موسیٰ ؑ نے فرمایا: ”یہی وہ جگہ ہے ہم جس کی تلاش میں ہیں۔ وہ فوراً اپنے پاؤں کے نشانات پر واپس ہو گئے اور انہوں نے وہاں سیدنا خضر ؑ کو پالیا۔ ان دونوں کا وہ قصہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے۔“
تشریح:
1۔ایک دفعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو وعظ کر رہے تھے وہ تقریر اس قدر پر تاثیر تھی کہ حاضرین پررقت طاری ہوگئی اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ ایک شخص نے متاثر ہو کر سوال کر دیا کہ آپ سے زیادہ کوئی علم رکھنے والا ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چاہیے تھا کہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیتے لیکن انھوں نے کہا: یہاں کوئی مجھ سے زیادہ علم والا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کو یہ انداز پسند نہ آیا اور انھیں بتایا کہ حضرت خضر علیہ السلام میرے ایسے بندے ہیں جو تجھ سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔ اس بنا پر موسیٰ علیہ السلام نے سمندری سفر کرنے کی زحمت کی۔ قرآن کریم میں اس واقعے کی تفصیل ہے کہ پہلے کشتی میں سوراخ کیا، پھر ایک معصوم بچے کو مارڈالا، آخر میں اجرت کے بغیر ایک گرتی ہوئی دیوار کو سہارا دیا۔ 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقام پر انتہائی اختصار سے یہ حدیث بیان کی ہے اور اس میں محل استشہاد بھی نہیں بیان ہوا۔ آپ نے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں درج ذیل آیت کریمہ مذکور ہے: ’’موسیٰ علیہ السلام نے کہا:آپ مجھے ان شاء اللہ صابر پائیں گے اور کسی معاملے میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔‘‘(الکهف 69) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب التفسیر میں اس واقعے کو تفصیل سے نقل کیا ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4725) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ رفاقت کے دوران صبر کرنے کو اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف رکھا اور اپنے پروگرام کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے پورا عزم کیا لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خواہش کے تابع نہ تھی کہ اسے پورا کرنے دیا جاتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت تمام معاملات پر غالب ہوتی ہے کیونکہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، اسے کوئی عاجز کرنے والا نہیں اس لیے موسیٰ علیہ السلام بھر پور کوشش کے باوجود اپنے پروگرام کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس پر ان الفاظ میں اظہار افسوس فرمایا: ’’کاش کہ موسیٰ علیہ السلام صبر سے کام لیتے تاکہ ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ کی قدرت کے عجائبات کا مظاہرہ ہوتا۔‘‘ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4727)
اور اللہ نے (سورۃ انفطرت میں) فرمایا ”تم کچھ نہیں چاہ سکتے جب تک اللہ نہ چاہے“ اور (سورۃ آل عمران میں) فرمایا کہ ”وہ اللہ جسے چاہتا ہے ملک دیتا ہے“ اور (سورۃ الکہف میں) فرمایا”اور تم کسی چیز کے متعلق یہ نہ کہو کہ میں کل یہ کام کرنے والا ہوں مگر یہ کہ اللہ چاہے“ اور (سورۃ قصص میں) فرمایا کہ ”آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے، البتہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے“ سعید بن مسیب نے اپنے والد سے کہا کہ جناب ابوطالب کے بارے میں یہ آیت مذکورہ نازل ہوئی۔ اور (سورۃ البقرہ میں) فرمایا کہ ”اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے اور تمہارے ساتھ تنگی نہیں چاہتا۔‘‘ تشریح:اس باب کو لانے سے امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ مشیت اور ارادہ دونوں ثابت کریں کیونکہ دونوں ایک ہی ہیں جب کہ آیت قرآنی لما فعال لما یرید اور فعل اللہ مایشاء سے ثابت ہوتا ہے مذکورہ آیات سے مشیت الٰہی اور ارادہ دونوں کو ایک ہی ثابت کیا گیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے وہ اور حر بن قیس بن حصن فزاری ؓ سیدنا موسیٰ ؑ کے ساتھی کے متعلق اختلاف کر رہے تھے کہ کیا وہ سیدنا خضر ؑ ہی تھے؟ اتنے میں سیدنا ابی بن کعب ؓ کا ادھر سے گزر ہوا تو تو سیدنا ابن عباس ؓ نے انہیں بلایا اور کہا: میں اور میرا یہ ساتھی شک میں مبتلا ہیں کہ موسیٰ ؑ کے وہ ”صاحب“ کون تھے جن سے ملاقت کے لیے سیدنا موسیٰ ؑ نے راستہ پوچھا تھا؟ کیا آپ نے رسول اللہﷺ سے اس سلسلے میں کوئی حدیث سنی ہے؟ انہوں نےکہا: ہاں، میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے، آپ نے فرمایا: موسیٰ ؑ بنی اسرائیل کے ایک مجمع میں تھے کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے پوچھا: کیا آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جو آپ سے زیادہ علم رکھتا ہو؟ سیدنا موسیٰ ؑ نے جواب دیا نہیں۔ پھر ان پر وحی نازل ہوئی ۔ کیوں نہیں بلکہ ہمارا بندہ خضر ہے۔ سیدنا موسیٰ ؑ نے ان کی ملاقات کا راستہ پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ایک مچھلی کو گم پاؤ تو وآپس لوٹ آنا، وہیں ان سے ملاقات ہوگی۔ اس کے بعد سیدنا ؑ سمندر کے کنارے مچھلی کا نشان تلاش کرتے رہے، موسیٰ ؑ کے خادم نے کہا: آاپ کو معلوم جہاں ہم نے چٹان کے سائے میں آرام کیا تھا، میں مچھلی وہاں بھول گیا ہوں اور اسے یاد کرنے سے مجھے شیطان نے غافل کر دیا تھا۔ سیدنا موسیٰ ؑ نے فرمایا: ”یہی وہ جگہ ہے ہم جس کی تلاش میں ہیں۔ وہ فوراً اپنے پاؤں کے نشانات پر واپس ہو گئے اور انہوں نے وہاں سیدنا خضر ؑ کو پالیا۔ ان دونوں کا وہ قصہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ایک دفعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو وعظ کر رہے تھے وہ تقریر اس قدر پر تاثیر تھی کہ حاضرین پررقت طاری ہوگئی اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ ایک شخص نے متاثر ہو کر سوال کر دیا کہ آپ سے زیادہ کوئی علم رکھنے والا ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چاہیے تھا کہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیتے لیکن انھوں نے کہا: یہاں کوئی مجھ سے زیادہ علم والا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کو یہ انداز پسند نہ آیا اور انھیں بتایا کہ حضرت خضر علیہ السلام میرے ایسے بندے ہیں جو تجھ سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔ اس بنا پر موسیٰ علیہ السلام نے سمندری سفر کرنے کی زحمت کی۔ قرآن کریم میں اس واقعے کی تفصیل ہے کہ پہلے کشتی میں سوراخ کیا، پھر ایک معصوم بچے کو مارڈالا، آخر میں اجرت کے بغیر ایک گرتی ہوئی دیوار کو سہارا دیا۔ 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقام پر انتہائی اختصار سے یہ حدیث بیان کی ہے اور اس میں محل استشہاد بھی نہیں بیان ہوا۔ آپ نے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں درج ذیل آیت کریمہ مذکور ہے: ’’موسیٰ علیہ السلام نے کہا:آپ مجھے ان شاء اللہ صابر پائیں گے اور کسی معاملے میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔‘‘(الکهف 69) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب التفسیر میں اس واقعے کو تفصیل سے نقل کیا ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4725) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ رفاقت کے دوران صبر کرنے کو اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف رکھا اور اپنے پروگرام کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے پورا عزم کیا لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خواہش کے تابع نہ تھی کہ اسے پورا کرنے دیا جاتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت تمام معاملات پر غالب ہوتی ہے کیونکہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، اسے کوئی عاجز کرنے والا نہیں اس لیے موسیٰ علیہ السلام بھر پور کوشش کے باوجود اپنے پروگرام کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس پر ان الفاظ میں اظہار افسوس فرمایا: ’’کاش کہ موسیٰ علیہ السلام صبر سے کام لیتے تاکہ ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ کی قدرت کے عجائبات کا مظاہرہ ہوتا۔‘‘ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4727)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”تو جسے چاہے بادشاہی دیتا ہے۔“ ”اور تم وہی کچھ چاہ سکتے ہو جو اللہ چاہے۔“ ”کسی چیز کے متعلق کبھی یہ نہ کہنا کہ میں کل یہ ضرور کروں گا مگر یہ کہ اللہ چاہے۔“ ”(اے نبی!) بے شک آپ ہدایت نہیں دے سکتے جسے آپ چاہیں بلکہ اللہ ہی ہدایت دیتا ہے جس کو چاہے۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوحفص عمرو نے بیان کیا، ان سے اوزاعی نے بیان کیا ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عقبہ بن مسعود نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا کہ وہ اور حر بن قیس بن حصین الفزاری، موسیٰ ؑ کے ساتھی کے بارے میں اختلاف کر رہے تھے کہ کیا وہ خضر ؑ ہی تھے۔ اتنے میں ابی بن کعب ؓ کا ادھر سے گزر ہوا اور ابن عباس ؓ نے انہیں بلایا اور ان سے کہا کہ میں اور میرا یہ ساتھی اس بارے میں شک میں ہیں کہ موسیٰ ؑ کے وہ صاحب کون تھے جن سے ملاقات کے لیے موسیٰ ؑ نے راستہ پوچھا تھا۔ کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے اس سلسلہ میں کوئی حدیث سنی ہے انہوں نے کہا کہ ہاں۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ موسیٰ ؑ بنی اسرائیل کے ایک مجمع میں تھے کہ ایک شخص نے آ کر پوچھا کیا آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جو آپ سے زیادہ علم رکھتا ہو؟ موسیٰ ؑ نے کہا کہ نہیں۔ چنانچہ آپ پر وحی نازل ہوئی کہ کیوں نہیں ہمارا بندہ خضر ہے۔ موسیٰ ؑ نے ان سے ملاقات کا راستہ معلوم کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے مچھلی کو نشان قرار دیا اور آپ سے کہا گیا کہ جب تم مچھلی کو گم پاؤ تو لوٹ جانا کہ وہیں ان سے ملاقات ہو گی۔ چنانچہ موسیٰ ؑ مچھلی کا نشان دریا میں ڈھونڈنے لگے اور آپ کے ساتھی نے آپ کو بتایا کہ آپ کو معلوم ہے۔ جب ہم نے چٹان پر ڈیرہ ڈالا تھا تو وہیں میں مچھلی بھول گیا اور مجھے شیطان نے اسے بھلا دیا۔ موسیٰ ؑ نے کہا کہ یہ جگہ وہی ہے جس کی تلاش میں ہم سرگرداں ہیں پس وہ دونوں اپنے قدموں کے نشانوں پر واپس لوٹے اور انہوں نے خضر ؑ کو پا لیا ان ہی دونوں کا یہ قصہ ہے جو اللہ نے بیان فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA) : That he differed with Al-Hurr bin Qais bin Hisn Al-Fazari about the companion of Moses (ؑ), (i.e., whether he was Khadir or not). Ubai bin Ka'b (RA) Al-Ansari passed by them and Ibn 'Abbas (RA) called him saying, 'My friend (Hur) and I have differed about Moses (ؑ)' Companion whom Moses (ؑ) asked the way to meet. Did you hear Allah's Apostle (ﷺ) mentioning anything about him?" Ubai said, "Yes, I heard Allah's Apostle (ﷺ) saying, "While Moses (ؑ) was sitting in the company of some Israelites a man came to him and asked, 'Do you know Someone who is more learned than you ( Moses (ؑ))?' Moses (ؑ) said, 'No.' So Allah sent the Divine inspiration to Moses (ؑ):-- 'Yes, Our Slave Khadir is more learned than you' Moses (ؑ) asked Allah how to meet him ( Khadir) So Allah made the fish as a sign for him and it was said to him, 'When you lose the fish, go back (to the place where you lose it) and you will meet him.' So Moses (ؑ) went on looking for the sign of the fish in the sea. The boy servant of Moses (ؑ) (who was accompanying him) said to him, 'Do you remember (what happened) when we betook ourselves to the rock? I did indeed forget to tell you (about) the fish. None but Satan made me forget to tell you about it' (18.63) Moses (ؑ) said: 'That is what we have been seeking." Sa they went back retracing their footsteps. (18.64). So they both found Kadir (there) and then happened what Allah mentioned about them (in the Qur'an)!' (See 18.60-82)