کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد اور اس کے ہاں کسی کی شفاعت بغیر اللہ کی اجازت کے فائدہ نہیں دے سکتی ، ( وہاں فرشتوں کا بھی یہ حال ہے ) کہ جب اللہ پاک کوئی حکم اتارتا ہے تو فرشتے اسے سن کر اللہ کے خوف سے گھبرا جاتے ہیں یہاں تک کہ جب ان کی گھبراہٹ دور ہوتی ہے تو وہ آپس میں پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب کا کیا ارشاد ہوا ہے وہ فرشتے کہتے ہیں کہ جو کچھ اس نے فرمایا وہ حق ہے اور وہ بلند ہے بڑا ہے یہاں فرشتے اللہ کے امر کے لیے لفظ «ماذا خلق ربكم» نہیں استعمال کرتے ہیں (پس اللہ کے کلام کو مخلوق کہنا غلط ہے جیسا کہ معتزلہ کہتے ہیں)
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “Intercession with Him profits not, except for him whom He permits….’)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ جل ذکرہ نے فرمایا کہ کون ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر اس کی شفاعت کسی کے کام آ سکے مگر جس کو وہ حکم دے مسروق بن اجدع تابعی نے ابن مسعود ؓ سے نقل کیا کہ جب اللہ تعالیٰ کے لئے کلام کرتا ہے تو آسمان والے بھی کچھ سنتے ہیں پھر جب ان کے دلوں سے خوف دور ہو جاتا ہے اور آواز چپ ہو جاتی ہے تو وہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ کلام حق ہے اور آواز دیتے ہیں ایک دوسرے کو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ جواب دیتے ہیں کہ بجا ارشاد فرمایا۔اور جابر ؓ سے روایت کی جاتی ہے، ان سے عبداللہ بن انیس ؓ نے بیان کیا کہ` میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا”اللہ اپنے بندوں کو جمع کرے گا اور ایسی آواز کے ذریعہ ان کو پکارے گا جسے دور والے اسی طرح سنیں گے جس طرح نزدیک والے سنیں گے، میں بادشاہ ہوں ہر ایک کے اعمال کا بدلہ دینے والا ہوں۔“تشریح:یہ باب لا کر حضرت امام بخاری نے متکلمین کا رد کیا معتزلہ کا بھی جو کہتے ہیں کہ اللہ کا کلام معاذاللہ ہے اور مخلوقات کی طرح ہےمتکلمین کہتے ہیں کہ اللہ کے کلام میں نہ حروف ہیں نہ آواز بلکہ اللہ کا کلام عبارت ہے ایک کلام نفسی سے جو ایک صفت ازلی ہے اس کی ذاتسے قائم ہے اور سکوت کے منافی ہے اس کلام سےاگر عربی میں تعبیر کرو تو وہ قرآن ہے اگر سریانی میں کرو تو وہ انجیل ہے اگر عبرانی میں کرو تو وہتورات ہے میں وحیدالزماں کہتا ہوںکہ یہ ایک لغو خیال ہے جو متکلمین نے ایک قاعدہ فاسدہ کی بنا پر باندھا ہے انہوں نے یہ تصور کیا کہ اگر اللہ کے کلام میں حروف اور اصوات ہوں اور وہ ہر وقت جب اللہ چاہے اس سے صادر ہوتا رہے تو اللہحوادث کا محل ہو جائے گا اور جو حوادث کا محل ہو وہ حادث ہوتا ہے حالانکہ یہ قاعدہ خود ایک ڈھکوسلہ ہے اور مبنی علی الفاسد فاسد ہے ایک ذات قدیمفاعل سے نئی نئی باتیں صادر ہونا اس کے حدوث کو مستلزم نہیں ہیں بلکہ اس کے کمال پر دال ہیں اور ہماری شریعت اور نیز اگلی شریعتیں سب اس بات سے بھری ہوئی ہیں کہ اللہ جب چاہے کلام کرتا ہے اور فرشتے اس کا کلام سنتے ہیں اس کے حکم کے موافق عمل کرتے ہیں حضرت موسیٰ ؐ نے اس کا کلام سنا جس میں آواز تھی اللہ ہر روز ہر آن نئے نئے احکام صادر فرماتا ہے نئی نئی مخلوقات پیداکرتا ہے کیااس سے اس کی قدیم اور ازلی ہونے میں کوئی فرق آیا ہر گز نہیں خود فلاسفہ جنہوں نے اس قاعدہ فاسدہ کی بنا ڈالی ہے وہ کہتے ہیں عقل فعال قدیم ہے حالانکہ ہزار ہا حوادث اور اشیاء اس سے صادر ہوتے ہیں غرض مسئلہ کلام میں ہزاروں آدمی گمراہ ہوگئے ہیں اور انہوں نے جاوۂ مستقیم سے منہ موڑ کر وہی تاویلات اختیار کی ہیں اور اپنی دانست میں یہ لوگ بڑے محقق اور دانشمند بنتے ہیںحالانکہ محض بے وقوف اور محض بے عقل ہیں اللہ ہر شے پر قادر اور تمام کمالات سے موصوف ہے اور اس نے اپنی ایک ادنیٰ مخلوق انسان کو کلام کی طاقت دی ہے وہ کلامنہ کرسکے اپنی آواز کسی کو سنا سکے اور اس کی مخلوق فراغت سے جب چاہیں باتیں کیا کریں یہ کیا نادانی کا خیال ہے۔متکلمین کہتے ہیں کہ اللہ کے کلام میں نہ حروف ہیں نہ آواز بلکہ اللہ کا کلام عبارت ہے ایک کلام نفسی سے جو ایک صفت ازلی ہے اس کی ذات سے قائم ہے اور سکوت کے منافی ہے اس کلام سے اگر عربی میں تعبیر کرو تو وہ قرآن ہے اگر سریانی میں کرو تو وہ انجیل ہے اگر عبرانی میں کرو تو وہ تورات ہے میں وحیدالزماں کہتا ہوں کہ یہ ایک لغو خیال ہے جو متکلمین نے ایک قاعدہ فاسدہ کی بنا پر باندھا ہے انہوں نے یہ تصور کیا کہ اگر اللہ کے کلام میں حروف اور اصوات ہوں اور وہ ہر وقت جب اللہ چاہے اس سے صادر ہوتا رہے تو اللہ حوادث کا محل ہو جائے گا اور جو حوادث کا محل ہو وہ حادث ہوتا ہے حالانکہ یہ قاعدہ خود ایک ڈھکوسلہ ہے اور مبنی علی الفاسد فاسد ہے ایک ذات قدیم فاعل سے نئی نئی باتیں صادر ہونا اس کے حدوث کو مستلزم نہیں ہیں بلکہ اس کے کمال پر دال ہیں اور ہماری شریعت اور نیز اگلی شریعتیں سب اس بات سے بھری ہوئی ہیں کہ اللہ جب چاہے کلام کرتا ہے اور فرشتے اس کا کلام سنتے ہیں اس کے حکم کے موافق عمل کرتے ہیں حضرت موسیٰ ؐ نے اس کا کلام سنا جس میں آواز تھی اللہ ہر روز ہر آن نئے نئے احکام صادر فرماتا ہے نئی نئی مخلوقات پیدا کرتا ہے کیا اس سے اس کی قدیم اور ازلی ہونے میں کوئی فرق آیا ہر گز نہیں خود فلاسفہ جنہوں نے اس قاعدہ فاسدہ کی بنا ڈالی ہے وہ کہتے ہیں عقل فعال قدیم ہے حالانکہ ہزار ہا حوادث اور اشیاء اس سے صادر ہوتے ہیں غرض مسئلہ کلام میں ہزاروں آدمی گمراہ ہوگئے ہیں اور انہوں نے جاوۂ مستقیم سے منہ موڑ کر وہی تاویلات اختیار کی ہیں اور اپنی دانست میں یہ لوگ بڑے محقق اور دانشمند بنتے ہیں حالانکہ محض بے وقوف اور محض بے عقل ہیں اللہ ہر شے پر قادر اور تمام کمالات سے موصوف ہے اور اس نے اپنی ایک ادنیٰ مخلوق انسان کو کلام کی طاقت دی ہے وہ کلام نہ کرسکے اپنی آواز کسی کو سنا سکے اور اس کی مخلوق فراغت سے جب چاہیں باتیں کیا کریں یہ کیا نادانی کا خیال ہے۔
7481.
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے اس کے فیصلے کے آگے اظہار عاجزی کرنے کے لیے اپنے پر مارتے ہیں، گویا ان کے پروں کی ایسی آواز ہوتی ہے جیسے صاف پتھر پر زنجیر ماری گئی ہو۔۔۔۔۔۔ شیخ بخاری علی بن مدینی نے کہا: سفیان کے علاوہ دوسرے رایوں نے ”ٖصفوان“ کو ”فا“ کو ساکن پڑھا ہے۔) ۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ یہ حکم فرشتوں کو پہنچاتا ہے، ان کے دلوں سے جب خوف دور کیا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں: ”تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ تو وہ کہتے ہیں: حق فرمایا ہےاور وہ (اللہ) بہت بلند بہت بڑا ہے۔“ علی بن مدینی نے کہا: ہم سے سفیان نے ان سے عمرو نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہی حدیث بیان کی۔ اور کبھی سفیان نے یوں بیان کیا کہ عمرو نےکہا: میں نے عکرمہ سے سنا، (انہوں نےکہا:) ہم سے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا۔ علی بن مدینی نےکہا: میں نے سفیان بن عیینہ نے اس امر کی تصدیق کی۔ میں نے سفیان بن عیینہ سے کہا: ایک شخص عمرو بن دینار کے واسطے سے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوع روایت ذکر کرتا ہے کہ انہوں نے فزع پڑھا ہے۔ سفیان بن عیینہ نے کہا: عمرو بن دینار نے ایسا ہی پڑھا تھا۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے اس طرح سنا ہے یا نہیں سفیان بن عیینہ نےکہا: ہماری قراءت بھی اسی طرح ہے۔
تشریح:
1۔اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے فیصلے سے مراد کسی چیز کے متعلق فرشتوں کو حکم دینا ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت نواس بن سعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی گزشتہ احادیث میں وضاحت ہے۔ اور فرشتوں کا اظہار عاجزی کے پیش نظر اپنے پَروں کا مارنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے اورحکم کو سنتے ہیں، نیز حروف وآواز پر مشتمل کلام ہی کو سنا جا سکتا ہے۔ 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بھی اس امر کو ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام بھی حروف وآواز پر مشتمل ہے اور وہ سنا جا سکتا ہے لیکن وہ مخلوق کے کلام سے مشابہت نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ بھی حقیقی کلام کا اظہار کرتا ہے جسے فرشتے سنتے ہیں اور اظہار عاجزی کے لیے اپنے پَر مارتے ہیں جن سے ایسی آواز نکلتی ہے جیسا کہ سخت چٹان پر لوہے کی زنجیر کھینچنے سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے اختتام پر کچھ اسناد ذکر کی ہیں۔ ان سے انھوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت عکرمہ سے تدلیس کے شبہ کو دور کیا جائے اور یہ بتایا جائے کہ مذکورہ حدیث متصل سند سے مروی ہے اور اس میں تدلیس کا کوئی شائبہ نہیں ہے۔ واللہ أعلم۔
اور اللہ جل ذکرہ نے فرمایا کہ کون ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر اس کی شفاعت کسی کے کام آ سکے مگر جس کو وہ حکم دے مسروق بن اجدع تابعی نے ابن مسعود ؓ سے نقل کیا کہ جب اللہ تعالیٰ کے لئے کلام کرتا ہے تو آسمان والے بھی کچھ سنتے ہیں پھر جب ان کے دلوں سے خوف دور ہو جاتا ہے اور آواز چپ ہو جاتی ہے تو وہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ کلام حق ہے اور آواز دیتے ہیں ایک دوسرے کو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ جواب دیتے ہیں کہ بجا ارشاد فرمایا۔اور جابر ؓ سے روایت کی جاتی ہے، ان سے عبداللہ بن انیس ؓ نے بیان کیا کہ` میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا”اللہ اپنے بندوں کو جمع کرے گا اور ایسی آواز کے ذریعہ ان کو پکارے گا جسے دور والے اسی طرح سنیں گے جس طرح نزدیک والے سنیں گے، میں بادشاہ ہوں ہر ایک کے اعمال کا بدلہ دینے والا ہوں۔“تشریح:یہ باب لا کر حضرت امام بخاری نے متکلمین کا رد کیا معتزلہ کا بھی جو کہتے ہیں کہ اللہ کا کلام معاذاللہ ہے اور مخلوقات کی طرح ہے متکلمین کہتے ہیں کہ اللہ کے کلام میں نہ حروف ہیں نہ آواز بلکہ اللہ کا کلام عبارت ہے ایک کلام نفسی سے جو ایک صفت ازلی ہے اس کی ذات سے قائم ہے اور سکوت کے منافی ہے اس کلام سے اگر عربی میں تعبیر کرو تو وہ قرآن ہے اگر سریانی میں کرو تو وہ انجیل ہے اگر عبرانی میں کرو تو وہ تورات ہے میں وحیدالزماں کہتا ہوں کہ یہ ایک لغو خیال ہے جو متکلمین نے ایک قاعدہ فاسدہ کی بنا پر باندھا ہے انہوں نے یہ تصور کیا کہ اگر اللہ کے کلام میں حروف اور اصوات ہوں اور وہ ہر وقت جب اللہ چاہے اس سے صادر ہوتا رہے تو اللہ حوادث کا محل ہو جائے گا اور جو حوادث کا محل ہو وہ حادث ہوتا ہے حالانکہ یہ قاعدہ خود ایک ڈھکوسلہ ہے اور مبنی علی الفاسد فاسد ہے ایک ذات قدیم فاعل سے نئی نئی باتیں صادر ہونا اس کے حدوث کو مستلزم نہیں ہیں بلکہ اس کے کمال پر دال ہیں اور ہماری شریعت اور نیز اگلی شریعتیں سب اس بات سے بھری ہوئی ہیں کہ اللہ جب چاہے کلام کرتا ہے اور فرشتے اس کا کلام سنتے ہیں اس کے حکم کے موافق عمل کرتے ہیں حضرت موسیٰ ؐ نے اس کا کلام سنا جس میں آواز تھی اللہ ہر روز ہر آن نئے نئے احکام صادر فرماتا ہے نئی نئی مخلوقات پیدا کرتا ہے کیا اس سے اس کی قدیم اور ازلی ہونے میں کوئی فرق آیا ہر گز نہیں خود فلاسفہ جنہوں نے اس قاعدہ فاسدہ کی بنا ڈالی ہے وہ کہتے ہیں عقل فعال قدیم ہے حالانکہ ہزار ہا حوادث اور اشیاء اس سے صادر ہوتے ہیں غرض مسئلہ کلام میں ہزاروں آدمی گمراہ ہوگئے ہیں اور انہوں نے جاوۂ مستقیم سے منہ موڑ کر وہی تاویلات اختیار کی ہیں اور اپنی دانست میں یہ لوگ بڑے محقق اور دانشمند بنتے ہیں حالانکہ محض بے وقوف اور محض بے عقل ہیں اللہ ہر شے پر قادر اور تمام کمالات سے موصوف ہے اور اس نے اپنی ایک ادنیٰ مخلوق انسان کو کلام کی طاقت دی ہے وہ کلام نہ کرسکے اپنی آواز کسی کو سنا سکے اور اس کی مخلوق فراغت سے جب چاہیں باتیں کیا کریں یہ کیا نادانی کا خیال ہے۔متکلمین کہتے ہیں کہ اللہ کے کلام میں نہ حروف ہیں نہ آواز بلکہ اللہ کا کلام عبارت ہے ایک کلام نفسی سے جو ایک صفت ازلی ہے اس کی ذات سے قائم ہے اور سکوت کے منافی ہے اس کلام سے اگر عربی میں تعبیر کرو تو وہ قرآن ہے اگر سریانی میں کرو تو وہ انجیل ہے اگر عبرانی میں کرو تو وہ تورات ہے میں وحیدالزماں کہتا ہوں کہ یہ ایک لغو خیال ہے جو متکلمین نے ایک قاعدہ فاسدہ کی بنا پر باندھا ہے انہوں نے یہ تصور کیا کہ اگر اللہ کے کلام میں حروف اور اصوات ہوں اور وہ ہر وقت جب اللہ چاہے اس سے صادر ہوتا رہے تو اللہ حوادث کا محل ہو جائے گا اور جو حوادث کا محل ہو وہ حادث ہوتا ہے حالانکہ یہ قاعدہ خود ایک ڈھکوسلہ ہے اور مبنی علی الفاسد فاسد ہے ایک ذات قدیم فاعل سے نئی نئی باتیں صادر ہونا اس کے حدوث کو مستلزم نہیں ہیں بلکہ اس کے کمال پر دال ہیں اور ہماری شریعت اور نیز اگلی شریعتیں سب اس بات سے بھری ہوئی ہیں کہ اللہ جب چاہے کلام کرتا ہے اور فرشتے اس کا کلام سنتے ہیں اس کے حکم کے موافق عمل کرتے ہیں حضرت موسیٰ ؐ نے اس کا کلام سنا جس میں آواز تھی اللہ ہر روز ہر آن نئے نئے احکام صادر فرماتا ہے نئی نئی مخلوقات پیدا کرتا ہے کیا اس سے اس کی قدیم اور ازلی ہونے میں کوئی فرق آیا ہر گز نہیں خود فلاسفہ جنہوں نے اس قاعدہ فاسدہ کی بنا ڈالی ہے وہ کہتے ہیں عقل فعال قدیم ہے حالانکہ ہزار ہا حوادث اور اشیاء اس سے صادر ہوتے ہیں غرض مسئلہ کلام میں ہزاروں آدمی گمراہ ہوگئے ہیں اور انہوں نے جاوۂ مستقیم سے منہ موڑ کر وہی تاویلات اختیار کی ہیں اور اپنی دانست میں یہ لوگ بڑے محقق اور دانشمند بنتے ہیں حالانکہ محض بے وقوف اور محض بے عقل ہیں اللہ ہر شے پر قادر اور تمام کمالات سے موصوف ہے اور اس نے اپنی ایک ادنیٰ مخلوق انسان کو کلام کی طاقت دی ہے وہ کلام نہ کرسکے اپنی آواز کسی کو سنا سکے اور اس کی مخلوق فراغت سے جب چاہیں باتیں کیا کریں یہ کیا نادانی کا خیال ہے۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے اس کے فیصلے کے آگے اظہار عاجزی کرنے کے لیے اپنے پر مارتے ہیں، گویا ان کے پروں کی ایسی آواز ہوتی ہے جیسے صاف پتھر پر زنجیر ماری گئی ہو۔۔۔۔۔۔ شیخ بخاری علی بن مدینی نے کہا: سفیان کے علاوہ دوسرے رایوں نے ”ٖصفوان“ کو ”فا“ کو ساکن پڑھا ہے۔) ۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ یہ حکم فرشتوں کو پہنچاتا ہے، ان کے دلوں سے جب خوف دور کیا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں: ”تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ تو وہ کہتے ہیں: حق فرمایا ہےاور وہ (اللہ) بہت بلند بہت بڑا ہے۔“ علی بن مدینی نے کہا: ہم سے سفیان نے ان سے عمرو نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہی حدیث بیان کی۔ اور کبھی سفیان نے یوں بیان کیا کہ عمرو نےکہا: میں نے عکرمہ سے سنا، (انہوں نےکہا:) ہم سے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا۔ علی بن مدینی نےکہا: میں نے سفیان بن عیینہ نے اس امر کی تصدیق کی۔ میں نے سفیان بن عیینہ سے کہا: ایک شخص عمرو بن دینار کے واسطے سے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوع روایت ذکر کرتا ہے کہ انہوں نے فزع پڑھا ہے۔ سفیان بن عیینہ نے کہا: عمرو بن دینار نے ایسا ہی پڑھا تھا۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے اس طرح سنا ہے یا نہیں سفیان بن عیینہ نےکہا: ہماری قراءت بھی اسی طرح ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے فیصلے سے مراد کسی چیز کے متعلق فرشتوں کو حکم دینا ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت نواس بن سعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی گزشتہ احادیث میں وضاحت ہے۔ اور فرشتوں کا اظہار عاجزی کے پیش نظر اپنے پَروں کا مارنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے اورحکم کو سنتے ہیں، نیز حروف وآواز پر مشتمل کلام ہی کو سنا جا سکتا ہے۔ 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بھی اس امر کو ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام بھی حروف وآواز پر مشتمل ہے اور وہ سنا جا سکتا ہے لیکن وہ مخلوق کے کلام سے مشابہت نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ بھی حقیقی کلام کا اظہار کرتا ہے جسے فرشتے سنتے ہیں اور اظہار عاجزی کے لیے اپنے پَر مارتے ہیں جن سے ایسی آواز نکلتی ہے جیسا کہ سخت چٹان پر لوہے کی زنجیر کھینچنے سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے اختتام پر کچھ اسناد ذکر کی ہیں۔ ان سے انھوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت عکرمہ سے تدلیس کے شبہ کو دور کیا جائے اور یہ بتایا جائے کہ مذکورہ حدیث متصل سند سے مروی ہے اور اس میں تدلیس کا کوئی شائبہ نہیں ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باریٰ تعالیٰ ہے: ”کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سفارش کرسکے“ سیدنا مسروق نے سیدنا عبداللہ بن مسعود سے بیان کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے زریعے سے کلام کرتا ہے تو آسمان والے کچھ سنتے ہیں۔ پھر جب ان کے دلوں سے خوف دور کیا جاتا ہے اور آواز بھی ٹھہر جاتی ہے تو وہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ کلام برحق تھا۔ پھر وہ آپس میں ایک دوسرے کو آواز دیتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے؟ تو وہ جواب دیتے ہیں : حق فرمایا ہے۔ سیدنا جابر بن عبداللہؓ سے بیان کیا جاتا ہے وہ عبداللہ بن انیس ؓ سے نقل کرتے ہیں، انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے سنا، آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جمع کرے گا، پھر انہیں ایسی آواز سے پکارے گا جسے دور والے ایسے سنیں گے جیسے قریب والے سنتے ہیں۔ اللہ فرمائے گا: میں بادشاہ ہوں، ہر ایک کے اعمال کا بدلہ دینے والا ہوں۔“ ¤
٭فائدہ: امام بخاری کی اس عنوان سے غرض اللہ تعالیٰ کے لیے صفت کلام کی وضاحت کرنا ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے امام بخاری رحمہ اللہ کی طرف سے یہ پہلا عنوان ہے جس کے تحت انہوں نے مسئلہ کلام سے متعلق گفتگو کی ہے اور مسئلےکی لمبی چوڑی تفصیلات ہیں
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابو ہریرہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے اس کے فرمان کے آگے عاجزی کا اظہار کرنے کے لیے اپنے بازو مارتے ہیں (اور ان سے ایسی آواز نکلتی ہے) جیسے پتھر پر زنجیر ماری گئی ہو۔ علی بن عبداللہ مدینی نے کہا سفیان کے سوا دوسرے راویوں نے اس حدیث میں بجائے «صفوان» کے بہ فتحہ فا «صفوان» روایت کیا ہے اور ابوسفیان نے «صفوان» پر سکون فاء روایت کیا ہے دونوں کے معنی ایک ہی ہیں یعنی چکنا صاف پتھر۔ اور ابن عامر نے «فزع» بہ صیغہ معروف پڑھا ہے۔ بعضوں نے «فزع» رائے مہملہ سے پڑھا ہے یعنی جب ان کے دلوں کو فراغت حاصل ہو جاتی ہے۔ مطلب وہی ہے کہ ڈر جاتا رہا ہے پھر وہ حکم فرشتوں میں آتا ہے اور جب ان کے دلوں سے خوف دور ہو جاتا ہے تو وہ پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب کے کیا کہا؟ جواب دیتے ہیں کہ حق، اللہ وہ بلند و عظیم ہے۔ اور علی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے عمرو نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے یہی حدیث بیان کی اور سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ان سے عمرو نے بیان کیا، انہوں نے عکرمہ سے سنا اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا، علی بن عبداللہ مدینی نے کہا کہ میں نے سفیان بن عیینہ سے پوچھا کہ انہوں نے کہا کہ میں نے عکرمہ سے سنا، انہوں نے کہا میں نے ابوہریرہ ؓ سے سنا تو سفیان بن عیینہ نے اس کی تصدیق کی۔ علی نے کہا میں نے سفیان بن عیینہ سے پوچھا کہ ایک شخص نے عمر سے روایت کی، انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے ابوہریرہ ؓ سے بحوالہ رسول اللہ ﷺ کے کہ آپ نے «فزع» پڑھا۔ سفیان بن عیینہ نے کہا کہ عمرو بن دینار ؓ نے بھی اسی طرح پڑھا تھا، مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے اسی طرح ان سے سنا تھا یا نہیں، سفیان نے کہا کہ یہی ہماری قراءت ہے۔
حدیث حاشیہ:
ان سندوں کوبیان کر کے حضرت امام بخاری نےیہ ثابت کیا کہ اوپر کی روایت جوعن کےساتھ ہے وہ متصل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "When Allah ordains something on the Heaven the angels beat with their wings in obedience to His Statement which sounds like that of a chain dragged over a rock. His Statement: "Until when the fear is banished from their hearts, the Angels say, 'What was it that your Lord said?' 'They reply, '(He has said) the Truth. And He is the Most High, The Great. " (34.23)