کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ اللہ کا کلام کرنااور اللہ کا فرشتوں کو پکارنا
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: The Talk of the Lord with Jibril and Allah’s Call for the angels)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور معمر بن مثنیٰ نے کہا آیتسورۃ النمل)کا مفہوم ہے جو فرمایا کہ”اے پیغمبر! تجھ کو قرآن اللہ کی طرف سے ملتا ہے جو حکمت والا خبردار ہے۔“اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن تجھ پر ڈالا جاتا ہے اور تو اس کو لیتا ہے جیسے(سورۃ البقرہ میں)فرمایاکہ”آدم نے اپنے پروردگار سے چند کلمہ حاصل کئے رب کا استقبال کر کے۔“تشریح:اصل میں تلقی کے معنی آگے جاکر ملنے یعنی استقبال کرنے کے ہیں چونکہ آنحضرت ﷺ وحی کے انتطار میں رہتے جس وقت وحی اترتی تو گویا آپ وحی کا استقبال کرتے اس قول سے امام بخاری نے یہ نکالا کہ اللہ کے کلام میں حروف اور الفاظ ہیں۔
7486.
سیدنا ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”تمہارے پاس رات اور دن کے فرشتے یکے بعد دیگرے آتے ہیں اور عصر وفجر کی نمازوں میں وہ اکھٹے ہوتے ہیں۔ پھر وہ فرشتے جو تم میں رات گزارتے ہیں جب اوپر جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ بندوں کے احوال سے خوب واقف ہے تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں: ہم نے انہیں اس حال میں چھوڑا کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس گئے تھے تو بھی نماز پڑھ رہے تھے۔“
تشریح:
1۔اس حدیث کے مطابق فرشتے لوگوں کے شب وروز کے عمل کو لے کر اوپر جاتے ہیں۔ اسی طرح ان کا تانتا لگا رہتا ہے۔ اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے علاوہ دوسرے فرشتوں سے بھی کلام کرتا ہے اور اس کا کلام قرآن مجید کے علاوہ بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کلام حروف واصوات پر مشتمل مبنی برحقیقت ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کے فرشتوں سے سوال کرنے کا ذکر ہے اورسوال ایسا کلام ہوتا ہے جو دوسروں کو سنائی دے اور وہ کلام حروف وآواز پر مشتمل ہو۔ واللہ أعلم۔ 2۔اس حدیث میں رات گزارنے والے فرشتوں کا خاص طور پر اس لیے ذکر ہوا کہ جو لوگ رات کے وقت نیک کام کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نےرات کو آرام کے لیے بنایا ہے تو وہ دن کے اوقات میں بطریق اولیٰ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مصروف رہتے ہوں گے۔
لغوی اعتبار سے تلقی کے معنی آگے بڑھ کر ملاقات کرنا ہیں جسے ہم استقبال سے تعبیرکرتے ہیں۔چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے انتظار میں رہتے کہ کس وقت وحی اترتی ہے،گویا جب وحی اترتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کرتے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ثابت کرناچاہتے ہیں کہ اللہ کا کلام حروف وآواز پر مشتمل ہےاور اللہ تعالیٰ کا کلام کرنامبنی برحقیقت ہے ،چنانچہ اللہ تعالیٰ جب چاہتاہے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے ہم کلام ہوتا ہے اور دیگر فرشتوں کو بھی ندا دیتا ہے اور اس کی ندا کلام ہی ہے ۔واللہ اعلم۔
اور معمر بن مثنیٰ نے کہا آیت سورۃ النمل) کا مفہوم ہے جو فرمایا کہ ”اے پیغمبر! تجھ کو قرآن اللہ کی طرف سے ملتا ہے جو حکمت والا خبردار ہے۔“ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن تجھ پر ڈالا جاتا ہے اور تو اس کو لیتا ہے جیسے (سورۃ البقرہ میں) فرمایا کہ ”آدم نے اپنے پروردگار سے چند کلمہ حاصل کئے رب کا استقبال کر کے۔“تشریح:اصل میں تلقی کے معنی آگے جاکر ملنے یعنی استقبال کرنے کے ہیں چونکہ آنحضرت ﷺ وحی کے انتطار میں رہتے جس وقت وحی اترتی تو گویا آپ وحی کا استقبال کرتے اس قول سے امام بخاری نے یہ نکالا کہ اللہ کے کلام میں حروف اور الفاظ ہیں۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”تمہارے پاس رات اور دن کے فرشتے یکے بعد دیگرے آتے ہیں اور عصر وفجر کی نمازوں میں وہ اکھٹے ہوتے ہیں۔ پھر وہ فرشتے جو تم میں رات گزارتے ہیں جب اوپر جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ بندوں کے احوال سے خوب واقف ہے تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں: ہم نے انہیں اس حال میں چھوڑا کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس گئے تھے تو بھی نماز پڑھ رہے تھے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔اس حدیث کے مطابق فرشتے لوگوں کے شب وروز کے عمل کو لے کر اوپر جاتے ہیں۔ اسی طرح ان کا تانتا لگا رہتا ہے۔ اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے علاوہ دوسرے فرشتوں سے بھی کلام کرتا ہے اور اس کا کلام قرآن مجید کے علاوہ بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کلام حروف واصوات پر مشتمل مبنی برحقیقت ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کے فرشتوں سے سوال کرنے کا ذکر ہے اورسوال ایسا کلام ہوتا ہے جو دوسروں کو سنائی دے اور وہ کلام حروف وآواز پر مشتمل ہو۔ واللہ أعلم۔ 2۔اس حدیث میں رات گزارنے والے فرشتوں کا خاص طور پر اس لیے ذکر ہوا کہ جو لوگ رات کے وقت نیک کام کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نےرات کو آرام کے لیے بنایا ہے تو وہ دن کے اوقات میں بطریق اولیٰ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مصروف رہتے ہوں گے۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ : ”اور بلاشبہ آپ کو یہ قرآن کمال حکمت والے کی طرف سے سکھلایا( عطا کیا) جاتا ہے“ کی تفسیر کرتے ہوئے سیدنا معمر رحمہ اللہ نے فرمایا: تم پر یہ قرآن القا کیا جاتا ہے اور تم اسے فرشتوں سے لیتے ہو جیسا کہ سیدنا آدم علیہ السلام کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھے
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے مالک نے، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہارے پاس رات اور دن کے فرشتے یکے بعد دیگرے آتے ہیں اور عصر اور فجر کی نمازوں میں دو وقت کے فرشتے اکٹھے ہوتے ہیں۔ پھر جب وہ فرشتے اوپر جاتے ہیں جنہوں نے رات تمہارے ساتھ گزاری ہے تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ بندوں کے احوال کا سب سے زیادہ جاننے والا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑ ا؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم نے انہیں اس حال میں چھوڑا کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم ان کے پاس گئے جب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سےاما م بخاری نے یہ نکالا کہ اللہ تعالی فرشتوں سے کلام کرتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said, "There are angels coming to you in succession at night, and others during the day, and they all gather at the time of 'Asr and Fajr prayers. Then the angels who have stayed with you overnight ascend (to the heaven) and He (Allah) asks them though He perfectly knows their affairs. 'In what state have you left my slaves?' They say, 'When we left them, they were praying and when we came to them they were praying.' "