کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ اللہ کا کلام کرنااور اللہ کا فرشتوں کو پکارنا
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: The Talk of the Lord with Jibril and Allah’s Call for the angels)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور معمر بن مثنیٰ نے کہا آیتسورۃ النمل)کا مفہوم ہے جو فرمایا کہ”اے پیغمبر! تجھ کو قرآن اللہ کی طرف سے ملتا ہے جو حکمت والا خبردار ہے۔“اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن تجھ پر ڈالا جاتا ہے اور تو اس کو لیتا ہے جیسے(سورۃ البقرہ میں)فرمایاکہ”آدم نے اپنے پروردگار سے چند کلمہ حاصل کئے رب کا استقبال کر کے۔“تشریح:اصل میں تلقی کے معنی آگے جاکر ملنے یعنی استقبال کرنے کے ہیں چونکہ آنحضرت ﷺ وحی کے انتطار میں رہتے جس وقت وحی اترتی تو گویا آپ وحی کا استقبال کرتے اس قول سے امام بخاری نے یہ نکالا کہ اللہ کے کلام میں حروف اور الفاظ ہیں۔
7487.
سیدنا ابو ذر ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”میرے پاس سیدنا جبرئیل ؑ آئے اور مجھے خوشخبری دی کہ جو شخص اس حالت میں فوت ہو جائے کہ وہ کسی کو اللہ کے ساتھ شریک نہیں ٹھہراتا تھا تو وہ جنت میں جائے گا۔“ میں نے عرض کیا :اگرچہ وہ چوری زنا کا مرتکب ہو؟ آپ نے فرمایا: ”گو وہ چوری زنا کا مرتکب ہو۔“
تشریح:
فرشتوں کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ہم تیرے رب کے حکم کے بغیر نازل نہیں ہوتے۔‘‘ (مریم 64) اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام اس وقت اترتے تھے جب انھیں اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا، اس بنا پر حدیث میں مذکورہ بشارت بامرالٰہی تھی۔ گویا اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے فرمایا کہ جاؤ اور میرے پیغمبر کو بشارت دے دو۔ اس سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے ہم کلام ہو کر یہ پیغام دیا اور پیغام ہمیشہ کلام سے دیا جاتا ہے اور اس میں ندا بھی داخل ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ موحد اگرچہ گناہ گار ہو آخر کار جنت کا حق دار ہوگا، خواہ اللہ تعالیٰ اسے گناہوں کی سزا دے یا معاف کر دے۔
لغوی اعتبار سے تلقی کے معنی آگے بڑھ کر ملاقات کرنا ہیں جسے ہم استقبال سے تعبیرکرتے ہیں۔چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے انتظار میں رہتے کہ کس وقت وحی اترتی ہے،گویا جب وحی اترتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کرتے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ثابت کرناچاہتے ہیں کہ اللہ کا کلام حروف وآواز پر مشتمل ہےاور اللہ تعالیٰ کا کلام کرنامبنی برحقیقت ہے ،چنانچہ اللہ تعالیٰ جب چاہتاہے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے ہم کلام ہوتا ہے اور دیگر فرشتوں کو بھی ندا دیتا ہے اور اس کی ندا کلام ہی ہے ۔واللہ اعلم۔
اور معمر بن مثنیٰ نے کہا آیت سورۃ النمل) کا مفہوم ہے جو فرمایا کہ ”اے پیغمبر! تجھ کو قرآن اللہ کی طرف سے ملتا ہے جو حکمت والا خبردار ہے۔“ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن تجھ پر ڈالا جاتا ہے اور تو اس کو لیتا ہے جیسے (سورۃ البقرہ میں) فرمایا کہ ”آدم نے اپنے پروردگار سے چند کلمہ حاصل کئے رب کا استقبال کر کے۔“تشریح:اصل میں تلقی کے معنی آگے جاکر ملنے یعنی استقبال کرنے کے ہیں چونکہ آنحضرت ﷺ وحی کے انتطار میں رہتے جس وقت وحی اترتی تو گویا آپ وحی کا استقبال کرتے اس قول سے امام بخاری نے یہ نکالا کہ اللہ کے کلام میں حروف اور الفاظ ہیں۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابو ذر ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”میرے پاس سیدنا جبرئیل ؑ آئے اور مجھے خوشخبری دی کہ جو شخص اس حالت میں فوت ہو جائے کہ وہ کسی کو اللہ کے ساتھ شریک نہیں ٹھہراتا تھا تو وہ جنت میں جائے گا۔“ میں نے عرض کیا :اگرچہ وہ چوری زنا کا مرتکب ہو؟ آپ نے فرمایا: ”گو وہ چوری زنا کا مرتکب ہو۔“
حدیث حاشیہ:
فرشتوں کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ہم تیرے رب کے حکم کے بغیر نازل نہیں ہوتے۔‘‘ (مریم 64) اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام اس وقت اترتے تھے جب انھیں اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا، اس بنا پر حدیث میں مذکورہ بشارت بامرالٰہی تھی۔ گویا اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے فرمایا کہ جاؤ اور میرے پیغمبر کو بشارت دے دو۔ اس سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے ہم کلام ہو کر یہ پیغام دیا اور پیغام ہمیشہ کلام سے دیا جاتا ہے اور اس میں ندا بھی داخل ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ موحد اگرچہ گناہ گار ہو آخر کار جنت کا حق دار ہوگا، خواہ اللہ تعالیٰ اسے گناہوں کی سزا دے یا معاف کر دے۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ : ”اور بلاشبہ آپ کو یہ قرآن کمال حکمت والے کی طرف سے سکھلایا( عطا کیا) جاتا ہے“ کی تفسیر کرتے ہوئے سیدنا معمر رحمہ اللہ نے فرمایا: تم پر یہ قرآن القا کیا جاتا ہے اور تم اسے فرشتوں سے لیتے ہو جیسا کہ سیدنا آدم علیہ السلام کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھے
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے واصل نے بیان کیا، ان سے معرور نے بیان کیا کہ میں نے ابوذر ؓ سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میرے پاس جبرائیل ؑ آئے اور مجھے بشارت دی کہ جو شخص اس حال میں مرے گا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا ہو گا تو وہ جنت میں جائے گا۔ میں نے پوچھا گو اس نے چوری اور زنا بھی کیا ہو؟ فرمایا کہ گو اس نے چوری اور زنا کیا ہو۔
حدیث حاشیہ:
دوسری آیت میں ہے کہ (وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ)(مریم:64) ایک توحضرت جبریل ؑ اس وقت اترتے تھے جب اللہ کا حکم ہوتا اس لیے یہ بشارت جو انہوں نے آنحضرت ﷺ کو دی بامرالہی تھی گویا اللہ نے حضرت جبریل سے فرمایا کہ جا کر حضرت محمدﷺ کو بشارت دے دو پس باب کی مطابقت حاصل ہوگئی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Dharr (RA) : The Prophet (ﷺ) said, Gabriel (ؑ) came to me and gave me the glad tidings that anyone who died without worshipping anything besides Allah, would enter Paradise. I asked ( Gabriel (ؑ)), 'Even if he committed theft, and even if he committed illegal sexual intercourse?' He said, '(Yes), even if he committed theft, and even if he Committed illegal sexual intercourse."