کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ الفتح ) ارشاد یہ گنوار چاہتے ہیں کہ اللہ کا کلام بدل دیں
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “…They want to change Allah’s Words….”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
یعنی اللہ نے جو وعدے حدیبیہ کے مسلمانوں سے کئے تھے کہ ان کو بلا شرکت غیرے فتح ملے گی۔ اور(سورۃ الطارق میں)فرمایا کہ”قرآن مجید فیصلہ کرنے والا کلام ہے وہ کچھ ہنسی دلی لگی نہیں ہے۔“ تشریح:اس باب کو لانے سے امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ اللہ کا کلام کچھ قرآن سے خاص نیہں ہے بلکہ اللہ جب چاہتا ہے حسب ضرورت اور حسب موقع کلام کرتا ہے چنانچہ صلح حدیبیہ میں جب مسلمان بہت رنجیدہ تھے اپنے رسول کے ذریعہ سے اللہ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ ان کو بلا شرکت غیرے ایک فتح حاصل ہوگی یہ بھی اللہ کا ایک کلام تھا اور جو آنحضرتﷺ نے اللہ کے کلام نقل کئے ہیں وہ سب اسی کے کلام ہیں۔
7497.
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے (سیدنا جبرئیل ؑ نےکہا: اللہ کے رسول!) یہ خدیجہ ؓ آپ کے پاس برتن لے کر آ رہی ہیں جس میں کھانا یا پینے کا پانی ہے۔ انہیں ان کے رب کی طرف سے سلام کہہ دیں اور انہیں جنت میں ایسے گھر کی بشارت دیں جو موتیوں سے بنا ہوا ہے۔ اس میں کسی قسم کا شور وغل اور تھکاوٹ نہیں ہوگی۔
تشریح:
1۔اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کا ایک کلام بحق سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان ہوا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے مخاطب ہو کرحضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو سلام اور بشارت ارسال کی۔ اس میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت ہے کہ خود اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ کو سلام بھیجتا ہے۔ 2۔اس حدیث میں بھی اللہ تعالیٰ کا ایک کلام بیان ہواہے جو اس کی مشیت سے متعلق ہے اللہ تعالیٰ جسے چاہے اپنے کلام سے شرف یاب کرتا ہے اور یہ کلام غیر قرآن اور غیر مخلوق ہے۔وھو المقصود۔
ابن بطال نے لکھا ہے:"اس عنوان کا مقصد یہ ثابت کرناہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام اس کی صفت اور اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور وہ ہمیشہ سے متکلم ہے"لیکن حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی اس عنوان سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام صرف قرآن کریم کے ساتھ خاص نہیں کیونکہ وہ ایک ہی قسم پر مشتمل نہیں بلکہ اس کی متعدد قسمیں ہیں جیساکہ آئندہ احادیث سے معلوم ہوگا۔اگرچہ اللہ تعالیٰ کاکلام غیر مخلوق اور اس کی صفت کے ساتھ قائم ہے ،تاہم وہ اپنے کلام سے جسے چاہتا ہے نوازتا ہے۔بندوں کی حاجات وضروریات کے پیش نظر ان کے لیے شرعی احکام بھیجتا ہے ،یہ احکام اللہ تعالیٰ کاکلام ہی ہیں۔(فتح الباری 13/570)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس عنوان کے تحت چند ایک احادیث قدسیہ پیش کرتے ہیں جو درحقیقت اللہ تعالیٰ کا کلام ہیں۔واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو قول اور ندا سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے اور اس سلسلے میں چند احادیث بھی آئندہ پیش ہوں گی۔واللہ اعلم۔
یعنی اللہ نے جو وعدے حدیبیہ کے مسلمانوں سے کئے تھے کہ ان کو بلا شرکت غیرے فتح ملے گی۔ اور (سورۃ الطارق میں) فرمایا کہ ”قرآن مجید فیصلہ کرنے والا کلام ہے وہ کچھ ہنسی دلی لگی نہیں ہے۔“ تشریح:اس باب کو لانے سے امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ اللہ کا کلام کچھ قرآن سے خاص نیہں ہے بلکہ اللہ جب چاہتا ہے حسب ضرورت اور حسب موقع کلام کرتا ہے چنانچہ صلح حدیبیہ میں جب مسلمان بہت رنجیدہ تھے اپنے رسول کے ذریعہ سے اللہ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ ان کو بلا شرکت غیرے ایک فتح حاصل ہوگی یہ بھی اللہ کا ایک کلام تھا اور جو آنحضرتﷺ نے اللہ کے کلام نقل کئے ہیں وہ سب اسی کے کلام ہیں۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے (سیدنا جبرئیل ؑ نےکہا: اللہ کے رسول!) یہ خدیجہ ؓ آپ کے پاس برتن لے کر آ رہی ہیں جس میں کھانا یا پینے کا پانی ہے۔ انہیں ان کے رب کی طرف سے سلام کہہ دیں اور انہیں جنت میں ایسے گھر کی بشارت دیں جو موتیوں سے بنا ہوا ہے۔ اس میں کسی قسم کا شور وغل اور تھکاوٹ نہیں ہوگی۔
حدیث حاشیہ:
1۔اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کا ایک کلام بحق سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان ہوا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے مخاطب ہو کرحضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو سلام اور بشارت ارسال کی۔ اس میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت ہے کہ خود اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ کو سلام بھیجتا ہے۔ 2۔اس حدیث میں بھی اللہ تعالیٰ کا ایک کلام بیان ہواہے جو اس کی مشیت سے متعلق ہے اللہ تعالیٰ جسے چاہے اپنے کلام سے شرف یاب کرتا ہے اور یہ کلام غیر قرآن اور غیر مخلوق ہے۔وھو المقصود۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”بے شک یہ قرآن فیصلہ کن بات ہے“ فصل کے معنی ”برحق“ کے ہیں۔ ”یہ کوئی ہنسی مذاق کی بات نہیں“ ھزل کے معنی ہیں: کھیل تماشا
حدیث ترجمہ:
ہم سے زہیر بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن فضیل نے بیان کیا، ان سے عمارہ بن قعقاع نے، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ (جبرائیل ؑ نے کہا: یا رسول اللہ!) یہ خدیجہ ؓ جو آپ کے پاس برتن میں کھانا یا پانی لے کر آتی ہیں انہیں ان کے رب کی طرف سے سلام کہیے اور انہیں خولدار موتی کے ایک محل کی جنت میں خوشخبری سنائیے جس میں نہ شور ہو گا اور نہ کوئی تکلیف ہو گی۔
حدیث حاشیہ:
یہاں بھی اللہ کا ایک کلام بحق حضرت خدیجہ ؓ نقل ہوا یہی باب سے مطابقت ہے۔ حضرت حدیجہؓ کی فضیلت ثابت ہوئی۔ خدیجہ بنت خویلد ؓ قریش کی بہت مالدار شریف ترین خاتون جنہوں نے آنحضرت ﷺ سےخود رغبت سےنکاح کیا۔ آپ عرصہ سے بیوہ تھیں بعد میں آنحضرت ﷺ کےساتھ اس وفاشعاری سے زندگی گزاری کہ جس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ 65سال کی عمر میں ہجرت نبوی سےتین سال پہلے رمضان شریف میں انتقال فرمایا اورمکہ کےمشہور قبرستان جیحون میں آپ کو دفن کیا گیا۔ آپ کی جدائی کا آنحضرت ﷺ کو سخت ترین صدمہ ہوا۔ إنا للہ و إناإلیه راجعون۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : The Prophet (ﷺ) said that Gabriel (ؑ) said, "Here is Khadija (RA) coming to you with a dish of food or a tumbler containing something to drink. Convey to her a greeting from her Lord (Allah) and give her the glad tidings that she will have a palace in Paradise built of Qasab wherein there will be neither any noise nor any fatigue (trouble)." (See Hadith No. 168, Vol. 5)