کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ الفتح ) ارشاد یہ گنوار چاہتے ہیں کہ اللہ کا کلام بدل دیں
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “…They want to change Allah’s Words….”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
یعنی اللہ نے جو وعدے حدیبیہ کے مسلمانوں سے کئے تھے کہ ان کو بلا شرکت غیرے فتح ملے گی۔ اور(سورۃ الطارق میں)فرمایا کہ”قرآن مجید فیصلہ کرنے والا کلام ہے وہ کچھ ہنسی دلی لگی نہیں ہے۔“ تشریح:اس باب کو لانے سے امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ اللہ کا کلام کچھ قرآن سے خاص نیہں ہے بلکہ اللہ جب چاہتا ہے حسب ضرورت اور حسب موقع کلام کرتا ہے چنانچہ صلح حدیبیہ میں جب مسلمان بہت رنجیدہ تھے اپنے رسول کے ذریعہ سے اللہ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ ان کو بلا شرکت غیرے ایک فتح حاصل ہوگی یہ بھی اللہ کا ایک کلام تھا اور جو آنحضرتﷺ نے اللہ کے کلام نقل کئے ہیں وہ سب اسی کے کلام ہیں۔
7500.
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ عائشہ سے روایت ہے، انہوں نے منافقین کی طرف سے لگائے گئے بہتان کے متعلق فرمایا: ”اللہ کی قسم! مجھے یہ گمان نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے حق میں وحی نازل فرمائے گا جس کی قیامت تک تلاوت کی جائے گی۔ میرے نزدیک میرا درجہ اس سے بہت کم تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے متعلق کوئی ایسا کلام کرے جس کی تلاوت کی جائے البتہ مجھے یہ امید ضرور تھی کہ رسول اللہﷺ بحالت نیند کوئی خواب دیکھ لیں گے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ میری براءت کردے گا لیکن اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل دس آیات نازل فرمائیں: بے شک جن لوگوں نے بہتان گھڑا۔۔۔۔۔“
تشریح:
غزہ بنومصطلق سے واپسی پر منافقین نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر تہمت لگائی جس کی تفصیل کتاب التفسیر میں بیان ہوئی ہے۔ان آیات میں اللہ تعالیٰ نےحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس بہتان سے بری قراردیا۔اس حدیث میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے کلام کے ذریعے سے اپنے احکام بھیجتا ہے، لیکن اس کا کلام صرف قرآن مجید کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ وہ جب چاہتا ہے اس کلام کے ذریعے سے اپنے بندوں کی اصلاح کرتا ہے۔ اس کا کلام غیرمخلوق ہےاور اس کی نازل کی ہوئی کتابوں میں محصور نہیں ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کاکلام کرنا ثابت کیا ہے جس کا معتزلہ اور جہمیہ انکار کرتے ہیں۔ واللہ المستعان۔
ابن بطال نے لکھا ہے:"اس عنوان کا مقصد یہ ثابت کرناہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام اس کی صفت اور اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور وہ ہمیشہ سے متکلم ہے"لیکن حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی اس عنوان سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام صرف قرآن کریم کے ساتھ خاص نہیں کیونکہ وہ ایک ہی قسم پر مشتمل نہیں بلکہ اس کی متعدد قسمیں ہیں جیساکہ آئندہ احادیث سے معلوم ہوگا۔اگرچہ اللہ تعالیٰ کاکلام غیر مخلوق اور اس کی صفت کے ساتھ قائم ہے ،تاہم وہ اپنے کلام سے جسے چاہتا ہے نوازتا ہے۔بندوں کی حاجات وضروریات کے پیش نظر ان کے لیے شرعی احکام بھیجتا ہے ،یہ احکام اللہ تعالیٰ کاکلام ہی ہیں۔(فتح الباری 13/570)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس عنوان کے تحت چند ایک احادیث قدسیہ پیش کرتے ہیں جو درحقیقت اللہ تعالیٰ کا کلام ہیں۔واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو قول اور ندا سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے اور اس سلسلے میں چند احادیث بھی آئندہ پیش ہوں گی۔واللہ اعلم۔
یعنی اللہ نے جو وعدے حدیبیہ کے مسلمانوں سے کئے تھے کہ ان کو بلا شرکت غیرے فتح ملے گی۔ اور (سورۃ الطارق میں) فرمایا کہ ”قرآن مجید فیصلہ کرنے والا کلام ہے وہ کچھ ہنسی دلی لگی نہیں ہے۔“ تشریح:اس باب کو لانے سے امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ اللہ کا کلام کچھ قرآن سے خاص نیہں ہے بلکہ اللہ جب چاہتا ہے حسب ضرورت اور حسب موقع کلام کرتا ہے چنانچہ صلح حدیبیہ میں جب مسلمان بہت رنجیدہ تھے اپنے رسول کے ذریعہ سے اللہ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ ان کو بلا شرکت غیرے ایک فتح حاصل ہوگی یہ بھی اللہ کا ایک کلام تھا اور جو آنحضرتﷺ نے اللہ کے کلام نقل کئے ہیں وہ سب اسی کے کلام ہیں۔
حدیث ترجمہ:
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ عائشہ سے روایت ہے، انہوں نے منافقین کی طرف سے لگائے گئے بہتان کے متعلق فرمایا: ”اللہ کی قسم! مجھے یہ گمان نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے حق میں وحی نازل فرمائے گا جس کی قیامت تک تلاوت کی جائے گی۔ میرے نزدیک میرا درجہ اس سے بہت کم تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے متعلق کوئی ایسا کلام کرے جس کی تلاوت کی جائے البتہ مجھے یہ امید ضرور تھی کہ رسول اللہﷺ بحالت نیند کوئی خواب دیکھ لیں گے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ میری براءت کردے گا لیکن اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل دس آیات نازل فرمائیں: بے شک جن لوگوں نے بہتان گھڑا۔۔۔۔۔“
حدیث حاشیہ:
غزہ بنومصطلق سے واپسی پر منافقین نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر تہمت لگائی جس کی تفصیل کتاب التفسیر میں بیان ہوئی ہے۔ان آیات میں اللہ تعالیٰ نےحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس بہتان سے بری قراردیا۔اس حدیث میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے کلام کے ذریعے سے اپنے احکام بھیجتا ہے، لیکن اس کا کلام صرف قرآن مجید کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ وہ جب چاہتا ہے اس کلام کے ذریعے سے اپنے بندوں کی اصلاح کرتا ہے۔ اس کا کلام غیرمخلوق ہےاور اس کی نازل کی ہوئی کتابوں میں محصور نہیں ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کاکلام کرنا ثابت کیا ہے جس کا معتزلہ اور جہمیہ انکار کرتے ہیں۔ واللہ المستعان۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”بے شک یہ قرآن فیصلہ کن بات ہے“ فصل کے معنی ”برحق“ کے ہیں۔ ”یہ کوئی ہنسی مذاق کی بات نہیں“ ھزل کے معنی ہیں: کھیل تماشا
حدیث ترجمہ:
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبداللہ بن عمر نمیری نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یونس بن یزید ایلی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے زہری سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ ؓ سے سنا، نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ ؓ کے بارے میں جب تہمت لگانے والوں نے ان پر تہمت لگائی تھی اور اللہ نے اس سے انہیں بَری قرار دیا تھا۔ ان سب نے بیان کیا اور ہر ایک نے مجھ سے عائشہ ؓ کی بیان کی ہوئی بات کا ایک حصہ بیان کیا۔ ام المؤمنین نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے یہ خیال نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ میری پاکی بیان کرنے کے لیے وحی نازل کرے گا جس کی تلاوت ہو گی۔ میرے دل میں میرا درجہ اس سے بہت کم تھا کہ اللہ میرے بارے میں (قرآن مجید میں) وحی نازل کرے گا جس کی تلاوت ہو گی، البتہ مجھے امید تھی کہ رسول اللہ ﷺ کوئی خواب دیکھیں گے جس کے ذریعہ اللہ میری براءت کر دے گا، لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ آیات (إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ) نازل کی ہیں، دس آیات۔
حدیث حاشیہ:
دس آیتیں جوسورۂ نور میں ہیں۔ مقصد اللہ کاکلام ثابت کرنا ہے جو بخوبی ظاہر ہے۔ آیات مذکورہ حضرت عائشہ ؓ کی برأت سے متعلق نازل ہوئیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ حضرت ابوبکر کی صاحبزادی اور رسول کریم ﷺ کی بہت ہی محبوبہ بیوی ہیں جن کےمناقب بہت ہیں۔ سنہ 85ھ بماہ رمضان 18 کی شب میں وفات ہوئی۔ رات میں دفن کیا گیا۔ ان دنوں حضرت ابوہریرہ عامل مدینہ تھے۔ انہوں نے نماز جنازہ پڑھائی۔ رضي اللہ عنا و أرضاھا
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Urwa bin Az-Zubair (RA) : Sa'id bin Al-Musaiyab, 'Alqama bin Waqqas and 'Ubaidullah bin 'Abdullah regarding the narrating of the forged statement against 'Aisha (RA), the wife of the Prophet, when the slanderers said what they said and Allah revealed her innocence. 'Aisha (RA) said, "But by Allah, I did not think that Allah, (to confirm my innocence), would reveal Divine Inspiration which would be recited, for I consider myself too unimportant to be talked about by Allah through Divine Inspiration revealed for recitation, but I hoped that Allah's Apostle (ﷺ) might have a dream in which Allah would reveal my innocence. So Allah revealed:-- 'Verily! Those who spread the slander are a gang among you...' (The ten Verses in Surat-an-Nur) (24.11-20)