صحیح بخاری
98. کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
35. باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ الفتح ) ارشاد یہ گنوار چاہتے ہیں کہ اللہ کا کلام بدل دیں
صحيح البخاري
98. كتاب التوحيد والرد علی الجهمية وغيرهم
35. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {يُرِيدُونَ أَنْ يُبَدِّلُوا كَلاَمَ اللَّهِ} [الفتح: 15]
Sahi-Bukhari
98. Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
35. Chapter: “…They want to change Allah’s Words….”
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ الفتح ) ارشاد یہ گنوار چاہتے ہیں کہ اللہ کا کلام بدل دیں
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “…They want to change Allah’s Words….”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
یعنی اللہ نے جو وعدے حدیبیہ کے مسلمانوں سے کئے تھے کہ ان کو بلا شرکت غیرے فتح ملے گی۔ اور(سورۃ الطارق میں)فرمایا کہ”قرآن مجید فیصلہ کرنے والا کلام ہے وہ کچھ ہنسی دلی لگی نہیں ہے۔“ تشریح:اس باب کو لانے سے امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ اللہ کا کلام کچھ قرآن سے خاص نیہں ہے بلکہ اللہ جب چاہتا ہے حسب ضرورت اور حسب موقع کلام کرتا ہے چنانچہ صلح حدیبیہ میں جب مسلمان بہت رنجیدہ تھے اپنے رسول کے ذریعہ سے اللہ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ ان کو بلا شرکت غیرے ایک فتح حاصل ہوگی یہ بھی اللہ کا ایک کلام تھا اور جو آنحضرتﷺ نے اللہ کے کلام نقل کئے ہیں وہ سب اسی کے کلام ہیں۔
7502.
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا جب وہ اس فارغ ہوا تو رحم کھڑا ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے رحم! ٹھہر جا۔ اس نے عرض کیا: اے اللہ! یہ قطع رحمی سے تیری پناہ مانگنے کامقام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ جو تجھے ملائے گا میں اس ملاؤں گا اور جو تجھے توڑے گا میں اسے توڑوں گا؟ رحم نے عرض کیا: اے میرے رب! کیوں نہیں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”بس یہ تیرے لیے ہے۔“ پھر سییدنا ابو ہریرہ ؓ نے آیت تلاوت کی: ”پھر یقنیناً تم سے توقع ہے کہ اگر تم حاکم بن جاؤ تو تم زمین میں فساد کرو اور اپنے رشتے ناتے توڑ ڈالو۔“
تشریح:
1۔ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےتائید کے طور پر یہ آیت کریمہ خود تلاوت فرمائی تاکہ صلہ رحمی کی اہمیت اُجاگر ہو۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4831) 2۔اس حدیث کے مطابق اللہ سبحانہ وتعالیٰ خود رحم سے ہم کلام ہو اور اس سے خطاب کیا، اس کلام کو ظاہر پر محمول کرتے ہوئے مبنی برحقیقت تسلیم کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کے خطابات اس کی نازل کی ہوئی کتابوں میں محصور نہیں ہیں۔ اس کے خطابات ایسی صفات ہیں جو اس کی مشیت سے متعلق ہیں۔ مخلوق کے ساتھ کسی بھی انداز سے ان کی مشابہت نہیں ہے۔ آیت کریمہ سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اکثر لوگ دنیاوی اقتدار اور مال ودولت ملنے پر اپنے رشتے داروں سے فساد اور قطع رحمی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ العیاذ باللہ۔
ابن بطال نے لکھا ہے:"اس عنوان کا مقصد یہ ثابت کرناہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام اس کی صفت اور اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور وہ ہمیشہ سے متکلم ہے"لیکن حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی اس عنوان سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام صرف قرآن کریم کے ساتھ خاص نہیں کیونکہ وہ ایک ہی قسم پر مشتمل نہیں بلکہ اس کی متعدد قسمیں ہیں جیساکہ آئندہ احادیث سے معلوم ہوگا۔اگرچہ اللہ تعالیٰ کاکلام غیر مخلوق اور اس کی صفت کے ساتھ قائم ہے ،تاہم وہ اپنے کلام سے جسے چاہتا ہے نوازتا ہے۔بندوں کی حاجات وضروریات کے پیش نظر ان کے لیے شرعی احکام بھیجتا ہے ،یہ احکام اللہ تعالیٰ کاکلام ہی ہیں۔(فتح الباری 13/570)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس عنوان کے تحت چند ایک احادیث قدسیہ پیش کرتے ہیں جو درحقیقت اللہ تعالیٰ کا کلام ہیں۔واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو قول اور ندا سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے اور اس سلسلے میں چند احادیث بھی آئندہ پیش ہوں گی۔واللہ اعلم۔
یعنی اللہ نے جو وعدے حدیبیہ کے مسلمانوں سے کئے تھے کہ ان کو بلا شرکت غیرے فتح ملے گی۔ اور (سورۃ الطارق میں) فرمایا کہ ”قرآن مجید فیصلہ کرنے والا کلام ہے وہ کچھ ہنسی دلی لگی نہیں ہے۔“ تشریح:اس باب کو لانے سے امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ اللہ کا کلام کچھ قرآن سے خاص نیہں ہے بلکہ اللہ جب چاہتا ہے حسب ضرورت اور حسب موقع کلام کرتا ہے چنانچہ صلح حدیبیہ میں جب مسلمان بہت رنجیدہ تھے اپنے رسول کے ذریعہ سے اللہ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ ان کو بلا شرکت غیرے ایک فتح حاصل ہوگی یہ بھی اللہ کا ایک کلام تھا اور جو آنحضرتﷺ نے اللہ کے کلام نقل کئے ہیں وہ سب اسی کے کلام ہیں۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا جب وہ اس فارغ ہوا تو رحم کھڑا ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے رحم! ٹھہر جا۔ اس نے عرض کیا: اے اللہ! یہ قطع رحمی سے تیری پناہ مانگنے کامقام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ جو تجھے ملائے گا میں اس ملاؤں گا اور جو تجھے توڑے گا میں اسے توڑوں گا؟ رحم نے عرض کیا: اے میرے رب! کیوں نہیں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”بس یہ تیرے لیے ہے۔“ پھر سییدنا ابو ہریرہ ؓ نے آیت تلاوت کی: ”پھر یقنیناً تم سے توقع ہے کہ اگر تم حاکم بن جاؤ تو تم زمین میں فساد کرو اور اپنے رشتے ناتے توڑ ڈالو۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےتائید کے طور پر یہ آیت کریمہ خود تلاوت فرمائی تاکہ صلہ رحمی کی اہمیت اُجاگر ہو۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4831) 2۔اس حدیث کے مطابق اللہ سبحانہ وتعالیٰ خود رحم سے ہم کلام ہو اور اس سے خطاب کیا، اس کلام کو ظاہر پر محمول کرتے ہوئے مبنی برحقیقت تسلیم کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کے خطابات اس کی نازل کی ہوئی کتابوں میں محصور نہیں ہیں۔ اس کے خطابات ایسی صفات ہیں جو اس کی مشیت سے متعلق ہیں۔ مخلوق کے ساتھ کسی بھی انداز سے ان کی مشابہت نہیں ہے۔ آیت کریمہ سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اکثر لوگ دنیاوی اقتدار اور مال ودولت ملنے پر اپنے رشتے داروں سے فساد اور قطع رحمی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ العیاذ باللہ۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”بے شک یہ قرآن فیصلہ کن بات ہے“ فصل کے معنی ”برحق“ کے ہیں۔ ”یہ کوئی ہنسی مذاق کی بات نہیں“ ھزل کے معنی ہیں: کھیل تماشا
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے معاویہ بن ابی مزرد نے بیان کیا اور ان سے سعید بن یسار نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ٹھہر جا۔ اس نے کہا کہ یہ قطع رحم (ناطہٰ توڑنا) سے تیری پناہ مانگنے کا مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا تم اس پر راضی نہیں کہ میں ناطہ کو جوڑنے والے سے اپنے رحم کا ناطہ جوڑوں اور ناطہ کو کاٹنے والوں سے جدا ہو جاؤں۔ اس نے کہا کہ ضرور، میرے رب! اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر یہی تیرا مقام ہے۔ پھر ابوہریرہ ؓ نے (سورۃ محمد کی) یہ آیت پڑھی (فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ)ممکن ہے کہ اگر تم حاکم بن جاؤ تو زمین میں فساد کرو اور قطع رحم کرو۔،،
حدیث حاشیہ:
اللہ تعالیٰ کا ایک واضح کلام نقل ہوا یہ باب سے مطابقت ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ اللہ نے ناطہ سے فصیح بلیغ زبان میں یہ گفتگو کی۔ ترجمہ باب سے اس سے نکلا کہ اللہ تعالی نے ناطہ سے کلام فرمایا۔ آیت میں یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ اکثر لوگ دنیاوی اقتدار ودولت ملنے پر فساد وقطع رحمی ضرور کرتےہیں۔ إلا ماشاء اللہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said, "Allah created the creation, and when He finished from His creation the Rahm (womb) got up, and Allah said (to it). "Stop! What do you want? It said; "At this place I seek refuge with You from all those who sever me (i.e. sever the ties of Kinship.)" Allah said: "Would you be pleased that I will keep good relation with the one who will keep good relation with you, and I will sever the relation with the one who will sever the relation with you. It said: 'Yes, 'O my Lord.' Allah said (to it), 'That is for you.'' And then Abu Hurairah (RA) recited the Verse:-- "Would you then if you were given the authority, do mischief in the land, and sever your ties of kinship." (47.22)